بارہ خلفاء حدیث(حدیث اثنا عشر خلیفۃ) روافض کے ایک شبہ کا ازالہ
حافظ عبیداللہروافض کے ایک شبہ کا ازالہ
(اقتباس از كتاب : حضرت مهدى اور بارہواں امام)
حدیث اثناء عشر خلیفۃ
اہل سنت کی معتبر کتبِ حدیث میں کوئی ایسی صحیح روایت موجود نہیں جس سے (شیعہ کے عقیدہ کے مطابق) بارہ ائمہ کا ثبوت ملتا ہو ، لیکن شیعہ علماء ایک حدیث کو لیکر بڑا طوفان کھڑا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے شیعہ کے بارہ اماموں کا ثبوت ملتا ہے، یہ حدیث وہ ہے جس میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں بارہ خلفاء یا بارہ امیر ہوں گے (روایت کی تخریج آگے آرہی ہے) ، شیعہ کہتے ہیں کہ مذکورہ روایت میں حضورﷺ نے جو بارہ خلفاء یا امراء کا ذکر کیا ہے اس سے شیعہ کے بارہ امام مراد ہیں ، اور یہ حدیث صادق ہی صرف ہمارے اماموں پر آتی ہے ، کیونکہ اہل سنت کے خلفاء راشدین کی تعداد بارہ سے کم ہے ، بنوامیہ اور بنوعباس کے خلفاء کی تعداد بارہ سے زیادہ ہے ، اور کیونکہ حدیث میں بارہ کا عدد مذکور ہے لہذا ضروری ہے بارہواں امام موجود ہو ، نیز انکا دعویٰ ہے کہ حدیث مذکور کا مفہوم یہ ہے کہ میرے بعد قیامت تک [صرف اور صرف] بارہ خلیفہ ہوں گے ، اور چونکہ گیارہویں امام 260ہجری میں انتقال کرگئے ،تو حضورﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق ضروری ہے کہ بارہواں امام موجود ہو تاکہ عدد پورا ہوجائے ۔
جواب
یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ کتب ِ اہل سنت میں مروی ہے ، جسکی تفصیل یوں ہے :
امام بخاریؒ نے اپنی صحیح کے کتاب الاحکام میں حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے یہ الفاظ روایت کئے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا
{یکو ن اثنا عشر أمیراً ۔ فقال کلمۃ لم أسمعہا ۔ فقال أبي : انہ قال : کلہم من قریش}
امام مسلم ؒ نے اپنی صحیح کے کتاب الامارۃ میں جابر بن سمرہ ؓ سے مختلف اسناد کے ساتھ ، مختلف الفاظ روایت کیے ہیں : ایک روایت اسطرح ہے۔
{ان ہذا الأمر لا ینقضي حتی یمضي فیہم اثنا عشر خلیفۃ … الی ان قال… کلہم من قریش}
دوسری روایت اس طرح ہے
{لایزال أمر الناس ماضیاً ما ولیہم اثنا عشر رجلاً … الی ان قال … کلہم من قریش}
تیسری روایت اسطرح ہے۔
{لایزال الاسلام عزیزاً الی اثني عشر خلیفۃ… الی ان قال… کلہم من قریش}
چوتھی روایت کے الفاظ ہیں۔
{لایزال ہذا الأمر عزیزاً الی اثني عشر خلیفۃ…الی ان قال… کلہم من قریش}
پانچویں روایت اسطرح ہے۔
{لایزال ہذا الدین عزیزاً منیعاً الی اثنا عشر خلیفۃ … الی ان قال… کلہم من قریش} ۔
امام ترمذیؒ نے اپنی سنن میں اسی روایت کو ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
{یکون من بعدي اثنا عشر أمیراً … الی ان قال … کلہم من قریش}
وقال ہذا حدیث حسن صحیح ۔
سنن ابی داودؒ میں یہ روایت اسطرح ہے۔
{لایزال ہذا الدین قائماً حتی یکون علیکم اثنا عشر خلیفۃ کلہم تجتمع علیہ الأمۃ …الی ان قال… کلہم من قریش}
اور ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں۔
{لایزال ہذا الدین عزیزاً الی اثنا عشر خلیفۃ … الی ان قال … کلہم من قریش} ۔
اوپر مذکور تمام روایات حضرت جابربن سمرہؓ سے مروی ہیں ، تاہم مسند احمدؒ میں یہ روایت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے بھی مروی ہے ۔
ان تمام روایات کو سامنے رکھ کر اس حدیث کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا {اسوقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جبتک میری امت میں بارہ ایسے خلیفہ یا بارہ امیرنہ گذرجائیں ، جنکے دور حکومت میں دین اسلام طاقتور اور مضبوط ہوگا ، اور ان بارہ کے بارہ خلفاء پر امت مسلمہ متفق ہوگی، اور یہ سب خلفاء یا امراء قریش میں سے ہوں گے}
جیسا کہ میں نے ذکر کیا مختلف روایات میں مختلف الفاظ ہیں لیکن سب روایات کو ملاکر وہی مفہوم نکلتا ہے جو بیان ہوا ۔ اب مندرجہ ذیل نکات پر غور کریں :
٭حضورﷺ نے
[خلیفۃ]
یا
[امیر]
کا لفظ فرمایا ہے ، کسی ایک روایت میں بھی
بارہ [اماموں]
کا لفظ نہیں فرمایا ۔
فرمایا کہ ان خلفاء یا امراء کے دورِ حکومت میں دین اسلام مضبوط اور غالب رہے گا۔
٭ماولیہم اور اثناء عشر امیراً
کے الفاظ صراحۃً اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ بارہ کے بارہ مسلمانوں کے حکمران ہوں گے ، یعنی حکومت کریں گے ، (صرف روحانی خلافت مراد نہیں ، جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں) ۔
٭سب سے اہم الفاظ جو فرمائے وہ یہ ہیں۔
{کلہم تجتمع علیہ الأمۃ}
یعنی ان سب خلفاء یا امراء پر امت اسلامیہ کا اتفاق ہوگا ۔
٭حضور ﷺ نے فرمایا
[کلہم من قریش]
یہ سب قریش کے قبیلہ سے ہوں گے ، یہ نہیں فرمایا کہ
[بنی ہاشم]
یا
میرے [اہل بیت ]
میں سے ہوں گے ۔ ۔
حضورﷺ کے سلسلہء نسب میں گیارہویں نمبر پر فہر بن مالک کا نام آتا ہے ، ان فہر بن مالک کی اولاد کو قریش کہا جاتا ہے ، فہر بن مالک کے بعد قریش مختلف قبائل میں تقسیم ہوگئے جنمیں سے مشہور قبیلے یہ ہیں
٭جمح
٭سہم بن ہصص بن کعب
٭عدی بن کعب
٭مخزوم بن یقظہ بن مرۃ
٭تیم بن مرۃ
٭زہرہ بن کلاب
٭عبدالدار بن قصي
٭اسد بن عبدالعزیٰ بن قصي
٭عبدمناف بن قصي ، اسکے بعد عبدمناف بن قصي سے چار شاخیں نکلیں :
٭عبد شمس
٭نوفل
٭المطلب
٭ہاشم ، یہ ہاشم حضورﷺ کے پڑدادا ہیں اور انکی اولاد کو ہاشمی کہا جاتا ہے جس سے حضور ﷺ اور حضرت علی ؓ ہیں۔
لہذا خلفاء اربعہ ؓ ، بنو امیہ اور بنو عباس ، یہ سب قریشی ہی ہیں ، ان میں سے جس شخص میں بھی حدیث میں مذکور شرائط پوری ہوجائیں وہ اسکا مصداق بن سکتا ہے۔
٭اس روایت میں ایک بھی ایسا اشارہ نہیں جس سے یہ ثابت ہوکہ یہ بارہ خلفاء یکے بعد دیگرے ایک دوسرے سے متصل ہوں گے ، اور نہ ہی ایسا کوئی لفظ جس سے معلوم ہو کہ تیسرے خلیفہ کے بعد ہر خلیفہ کا بیٹا ہی اگلا خلیفہ ہوگا ۔
اس بحث میں جائے بغیر کہ علماء اہل سنت کے نزدیک ان بارہ خلفاء سے کون کون مراد ہیں؟ ، میں صرف یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ کم ازکم شیعہ کے ائمہ پر یہ حدیث ایک فیصد بھی صادق نہیں آتی ، کیوں ؟ ملاحظہ ہو :
(1) …پہلی بات تو یہ کہ اس روایت میں [بارہ اماموں ] کا لفظ نہیں ، اور شیعہ اپنے ائمہ کو خلفاء نہیں بلکہ ائمہ کہتے ہیں ۔
(2)…جیسا کہ گذرا ولیہم او ر اثنا عشر امیراً کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بارہ لوگ مسلمانوں پر حکمرانی بھی کریں گے ، جبکہ شیعہ کے بارہ ائمہ میں سے صرف دو (حضرت علی ؓ اور حسن ؓ بن علیؓ) کو یہ موقع ملا ، بلکہ حضرت حسنؓ تو خود اس سے دستبردار بھی ہوگئے ، باقی دس امام کبھی بھی امیر یا حاکم نہ بن سکے ۔
(3)…حضور ﷺ نے فرمایا
[لایزال ہذا الدین قائماً]
اور
[لایزال الدین عزیزاً منیعاً]
ان بارہ خلفاء کے دور حکومت میں اللہ کا دین غالب اور طاقتور ہوگا ، جبکہ شیعہ کے بقول حضورﷺ کی وفات کے دن سے ہی سقیفہ بنی ساعدہ کے اجتماع کے بعد نفاق اور کفر غالب آگیا ، دین اسلام بیچارا تو چار پانچ آدمیوں میں سمٹ کر رہ گیا(معاذاللہ) ، اِن گنتی کے چند مسلمانوں کے لیڈر اور پہلے امام کو گلے میں رسی ڈال کر مدینہ کی گلیوں میں گھسیٹا گیا ، اسکے گھر کو آگ لگائی گئی ، اسکی زوجہ محترمہ کی وراثت غصب کرلی گئی ، الغرض ہر لحاظ سے منافقین اور مرتدوں کا غلبہ تھا ، دوسرے امام کو زہر دیکر شہید کردیا گیا اور تیسرے امام کو بچے کھچے اسلام کے ساتھ کربلاء میں ختم کردیا گیا ، اسکے بعد باقی نو امام تقیہ کی زندگی بسر کرتے رہے ، حتی کہ بارہویں امام قتل کے خوف کی وجہ سے ایسے غائب ہوئے کہ آج تک شیعہ انکے ظہور کی دعائیں مانگ رہے ہیں لیکن وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب انہیں کوئی خوف نہیں باہر آنے پر راضی نہیں ، الغرض شیعہ کے اماموں میں سے کسی ایک کے دور میں بھی (اصلی )اسلام غالب اور طاقتور بن کر نہ ابھر سکا ، بلکہ خود شیعہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ جب امام غائب کا ظہور ہوگا تب دین اسلام غالب ہوگا ۔
(4)…حضور ﷺ نے ایک روایت میں فرمایا
[کلہم تجتمع علیہ الأمۃ]
یعنی ان بارہ خلفاء پر ساری امت اسلامیہ متفق ہوگی ، شیعہ کے پہلے امام پر بقول انکے چار یا پانچ آدمی متفق تھے ، باقی ساری امت دوسری طرف تھی ، تیسرے امام کے ساتھ جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے ، حتی کہ بارہویں امام کا یہ حال ہے کہ انکی امامت پر اتفاق تو دور کی بات ، امت مسلمہ کی(اگر شیعہ کے نزدیک اہل سنت مسلمان ہیں تو) اکثریت بارہویں امام کے وجود کی ہی سرے سے منکر ہے ۔ لہذا یہ شرط بھی پوری نہیں ہوتی ۔
(5)…حضور ﷺ نے فرمایا
[کلہم من قریش]
یعنی وہ بارہ خلفاء قریش سے ہوں گے ، ( اوراوپر بیان ہوا کہ قریش کون ہیں) ، یہ سب سے بڑی دلیل ہے اس بات کی کہ حضور ﷺ کی مراد قطعاً شیعہ کے بارہ امام نہ تھے ورنہ آپ ﷺ بنی فاطمہ ؓ نہ سہی یہی فرمادیتے کہ وہ سب بنو ہاشم سے ہوں گے ، جیسے مہدی کے بارے میں حضور ﷺ نے صاف فرمایا
[رجل من أہل بیتي]
کہ وہ میرے اہل بیت میں سے ہوگا ، واضح رہے کہ خلفاء راشدین ، بنوامیہ اور بنو عباس سب قریشی ہیں ۔
(6)… حدیث کا یہ مفہوم نہیں کہ حضور ﷺ کے بعد قیامت تک صرف بارہ خلیفہ ہوں گے اور اسکے بعد قیامت آجائیگی ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ قیامت سے قبل مسلمانوں کے ایسے بارہ حاکم ، امیر یا خلیفہ ہوں گے جنکے دور میں دین اسلام قوی ، مضبوط اور غالب رہے گا ۔
(7)…اگر ایک منٹ کیلئے فرض بھی کرلیا جائے کہ مراد یہی ہے کہ اس امت میں قیامت تک صرف بارہ خلیفہ ہوں گے ، اور خلیفہ کا معنی بھی امام تسلیم کرلیا جائے ، تو پھر بھی شیعہ کا مدعا ثابت نہیں ہوتا ، کیونکہ گیارہ اماموں تک تو یہ سلسلہ چلا ، پہلے امام سے لیکر گیارہویں امام تک ہر ایک امام نے لوگوں کے درمیان زندگی بسر کی ، ہزاروں ، لاکھوں لوگوں نے انکو دیکھا ، لیکن بارہویں امام کا وجود ثابت کرنا جوئے شِیر لانے سے بھی زیادہ ناممکن ہے ، پہلے بارہویں امام کا وجود ثابت کریں پھر جب بارہ کا عدد پورا ہوجائے تو دعویٰ کریں کہ اس حدیث سے ہمارے بارہ امام مراد ہیں ۔
اہل سنت کی معتبر کتب میں (میں بار بار معتبرکا لفظ اس لئے استعمال کررہا ہوں کہ شیعہ حضرات بعض غیر معتبر اور مجہول النسبت کتب کے حوالے بھی دیتے ہیں ، مثلاً
[ ینابیع المودۃ ]
یا ابن قتیبہ کی طرف منسوب کتاب
[الامامۃ والسیاسۃ]
کوئی اور ایسی ضعیف روایت بھی نہیں جس سے شیعہ کی مزعومہ امامت یا بارہ اماموں کا ثبوت مل سکے ۔