Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ سید المرسلین رحمۃ للعالمین رسول اللہﷺ کے ساتھ روضۂ اطہر میں آرام فرما ہیں، جو کہ جنت کا ٹکڑا ہے

  علامہ مولانا عبد الرحیم بھٹو

سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ سیّد المرسلین رَحْمۃ للعالمین رسول اللہﷺ کے ساتھ روضۂ اطہر میں آرام فرما ہیں، جو کہ جنّت کا ٹکڑا ہے

اس بات میں بلکل کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے لوگوں کو ایمان اور اسلام کی دعوت دی تو اپنے اور بیگانے سب نے آپ کو جھٹلایا اور آپ ﷺ کے دشمن ہوگئے۔ چند ایسی بزرگ ہستیاں تھیں، جنہوں نے اس دعوت کو بغیر تردد کے قبول کرلیا اور ایمان لے آئے۔ عورتوں میں سے سب سے پہلی مؤمنہ سیدہ خدیجہؓ ہیں۔ پھر مردوں میں سب سے اول ایمان لانے والے سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہیں۔ اور بچوں میں سب سے پہلے سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اسلام قبول کیا۔

•شیعوں کی معتبر تفسیر مجمع البیان جلد5 صفحہ 314مطبوعہ قم ایران میں ہے:

اِنَّ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ بَعْدَ خَدَیْجَۃَ اَبُوْبَکْرٍ 

سیدہ خدیجہؓ کے بعد سب سے اول ابوبکر صدیقؓ نے اسلام قبول کیا۔

 اسی طرح مندرجہ ذیل ترتیب سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ رسول اللہ ﷺ کے بعد ثانِی (دوسرے نمبر پر) ہیں۔

¹-اسلام قبول کرنے میں ثانی

²-ہجرت میں ثانی

³-غار میں ثانی

⁴-مصلیّٰ پر ثانی

⁵- مسند پر ثانی

⁶-روضۂ اطہرﷺ میں ثانی

اِسی طرح آیت قرآنی ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَا فِی الْغَارِ کے مصداق سیدناابوبکرؓ ہی ہیں تو اس طرح خلیفہ اول سیدناابوبکرؓ پر ثَانِیَ اثْنَیْنِ ہر لحاظ سے صادق آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی زبان اطہر پر سیدنا ابوبکرؓ کا اسمِ گرامی ثانی ہے۔ سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اکثر رسول اللہﷺکو یہ فرماتے سنا ہے:

کُنْتُ اَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ وذَهَبْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَدَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ

 (بخاری مناقب عمرؓ ) 

میں اور سیدنا ابوبکرؓ وسیدناعمرؓ تھے۔ میں اور ابوبکرؓ و عمرؓ گئے۔ میں اور ابوبکرؓ و عمرؓ داخل ہوئے۔ میں اور ابوبکرؓ و عمرؓ نکلے۔

• روایت میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکرصدیقؓ و عمر فاروقؓ اور رسول اللہﷺاکٹھے مسجد نبویﷺ میں تشریف لائے۔ رسول اللہﷺ دونوں کے درمیان تھے۔ایک طرف سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور دوسری طرف سیدنا فاروقِ اعظمؓ تھے۔ آنحضرتﷺ دونوں کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے تھے۔ (اِسی حالت میں) رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓ کو مخاطب کرکے فرمایا:

هَكَذَا نُبْعَثُ يَوْمَ القِيَامَةِ

(ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ شریف باب مناقب ابی بکرؓ و عمرؓ)

 ہم اس طرح قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے۔ 

(یعنی ایک طرف سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور دوسرے طرف سیدنا فاروقِ اعظمؓ ہوں گے)

• دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

میرے دو وزیر آسمان پر جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام ہیں۔

وَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ فَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ

(ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ شریف باب مناقب ابی بکرؓ و عمرؓ)

 ہم اس طرح قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے۔ (یعنی ایک طرف ابوبکر صدیقؓ اور دوسرے طرف فاروق اعظمؓ ہوں گے)

 قارئین کرام! حضورﷺ کے یہ دونوں وزیر زندگی میں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے اور آج بھی رضۂ اطہر میں، رسول اللہﷺ کے ساتھ ہیں اور قیامت کے دن بھی روضۂ اطہر سے آپ ﷺ کے ساتھ اٹھیں گے۔ ان کو کوئی جدا نہیں کرسکتا۔

 سید المرسلین رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ، احمد مجتبیٰﷺ کے روضۂ اطہر کی زمین کا ٹکڑا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ اس جنت کے باغ میں حضورﷺ کے ساتھ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ بھی آرام فرما ہیں۔ اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ جہاں رسول اللّٰہﷺ موجود ہوں تو وہاں عذابِ الٰہی آنے کا امکان ہی نہیں، وہاں تو رحمت ہی برستی رہتی ہے۔

• سیدنا جعفر صادقؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

مابين بيتي ومنبري روضة من رياض الجنة 

میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان والا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

راوی نے امام سے پوچھا:

هي روضة اليوم؟ قال: نعم إنه لو كشف الغطاء لرأيتم. کیا یہ(روضۂ اطہر) آج بھی(جنت کا) باغ ہے؟امام نے فرمایا کہ ”ہاں!“ اگر پردہ کھول دیا جائے تو تم دیکھ لو۔

(فروع کافی جلد4 صفحہ554 کتاب الحج۔ مطبوعہ ایران دیکھیں عکس صفحہ 166)

• شیعوں کی نہایت معتبر اور اصولی کتاب مَنْ لَا یَحْضُرُہُ الْفَقِیْہُ میں امام جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:

ما بين قبري ومنبري روضة من رياض الجنة

 میری قبر اور میرے منبر کے درمیان کی زمین جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

(دیکھیں من لا یحضرہ الفقیہ جلد2 صفحہ 341، زیارت فاطمۃؓ طبع ایران عکس)

 مقام غور

قارئین کرام! آپ کو معلوم ہوگیا کہ جب سیدنا جعفر صادقؒ سے روای نے سوال کیا کہ جس گھر کے متعلق آپ حدیث بیان کر رہے ہیں کیا وہ یہی گھر ہے جس میں آج رسول اللہﷺ کا روضۂ اطہر ہے؟ تو سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا: ہاں! یہی گھر جہاں آج روضۂ اطہر ہے یہ زمین جنت کا ٹکڑا ہے۔ حضورﷺ کے روضۃ اطہر کی جگہ جنت کا باغ ہے۔

الحمدللہ! اس جنت کے باغ میں سیدنا ابو بکرصدیقؓ و عمر فاروقؓ اپنے محبوب مصطفیٰﷺ کے ساتھ موجود ہیں۔ مگر افسوس! صحابہ کرامؓ کے دشمن، ان باتوں کو سوچتے ہی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ و عمرؓ کے دل میں نفاق تھا (معاذاللہ!) اور ان کو روضہ اطہر میں زبردستی دفنایا گیا ہے۔ یہ تو ایک ایسی واہی بات ہے، جس کو کوئی بھی انصاف پسند آدمی ہرگز تسلیم نہیں کرسکتا۔ اگر بالفرض ایسا ہوتا تو دیگر صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیتؓ ہرگز خاموشی اختیار نہ کرتے، بلکہ مزاحمت کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ معلوم ہوا کہ شیخینؓ کو اہلِ بیت اور صحابہ کرامؓ کی باہمی رضامندی سے روضۂ اطہر میں دفنایا گیا۔

 شیعوں کی ایسی بیہودہ باتوں سے سیدنا علیؓ کی شجاعت اور ایمان پر داغ لگتا ہے (نعوذباللہ!) آپ کو معلوم ہے کہ آج کوئی غیر مسلم اپنے مردہ کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے کی جرأت نہیں کرسکتا تو کیا صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیتؓ کا ایمان اور جذبہ اتنا بھی نہیں تھا کہ وہ بقولِ شیعہ منافق کو روضۂ اطہر میں دفن ہونے سے روکیں؟ کیا وہ (معاذاللہ!) اتنے ہی گئے گذرے تھے جو انہوں نے کوئی احتجاج بھی نہیں کیا؟ خدارا کچھ تو عقل کے ناخن لیں۔ ان حضرات پر بزدلی کا الزام نہ لگائیں۔

 روضۂ مبارک تو وہ جگہ ہے جہاں ہر روز ستر ہزار فرشتہ درود و سلام بھیجتے ہیں۔ اور اللہ کی رحمت دن رات بارش کی طرح برستی ہے، ایسی جگہ میں تو مؤمن ہی دفن ہوسکتا ہے نہ کہ منافق یا کافر۔

 صاف اور واضِح طور پر معلوم ہوا کہ حضورﷺ اور سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کے درمیان بہترین تعلقات تھے اور وہ کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے تھے۔