سیدنا علیؓ نے خلفائے ثلاثہؓ (یعنی سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ اورسیدنا عثمانؓ ) کی بیعت کر کے ان کو خلیفہ برحق تسلیم کیا
علامہ مولانا عبد الرحیم بھٹوسیدنا علیؓ نے خلفائے ثلاثہؓ (یعنی سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ اورسیدنا عثمانؓ ) کی بیعت کر کے ان کو خلیفہ برحق تسلیم کیا
قارئین کرام! جب حق آتا ہے تو باطل ٹھہر نہیں سکتا۔ حق کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ اس کو کتنا بھی دبایا جائے یا چھپایا جائے، وہ ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت باطل ہے، ان حضرات نے زبردستی خلافت پر قبضہ کیا تھا۔
ان کے اس بات میں صداقت بالکل نہیں، بلکہ یہ سفید جھوٹ ہے۔ ہم ثابت کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ،سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا عثمان غنیؓ کے ہاتھ پر جمیع صحابہ مہاجرین و انصارؓ بشمول سیدنا علی المرتضیٰؓ نے بیعت کی اور ان کو خلیفہ برحق تسلیم کیا۔
ناظرین کرام کی خدمت میں چند حوالہ جات حاضر ہیں، جن سے مذکورہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے۔ کاش! کوئی ان میں اہلِ انصاف ہو، جو ان پر غور و فکر کرکے حق تسلیم کر سکے۔
احمد بن علی بن ابی طالب طبرسی شیعی (المتوفی) لکھتا ہے:
ثم تناول يد أبي بكر فبايعه
پھر علی المرتضیٰؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کا دست مبارک پکڑ کر ان کی بیعت کی۔
(احتجاج طبرسی جلد1 صفحہ 110 مطبوعہ نجف عراق دیکھیں عکس صفحہ 362)
شیعہ مکتبہ شاملہ: الإحتجاج (9/ 20)
قال أسامة: له هل بايعته؟ قال: نعم يا أسامة.
سیدنا اسامہؓ نے سیدنا علیؓ سے دریافت کیا کہ آپ نے سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت کی ہے؟ تو سیدنا علیؓ نے فرمایا: ”ہاں اسامہ!“ (میں بیعت کرچکا ہوں)
شیعہ مکتبہ شاملہ: الإحتجاج (10/ 3)
اس کے علاوہ شیعوں کی مندرجہ ذیل کتابوں میں موجود ہے کہ سیدنا علیؓ، سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔
¹- رجال کشی صفحہ6، تذکرہ سلمان فارسی، تالیف شیخ طوسی
²-روضہ کافی جلد8 صفحہ296 مطبوعہ ایران تالیف یعقوب کلینی
• شیعوں کے شیخ ابوجعفر طوسی (المتوفی 460ھ) نے ایک روایت بیان کی ہے کہ حضرت علیؓ نے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
فبايعت أبا بكر كما بايعتموه، فبايعت عمر كما بايعتموه، فوفيت له ببيعته حتى لما قتل جعلني سادس ستة، فدخلت حيث أدخلني، و كرهت أن أفرق جماعة المسلمين و أشق عصاهم، فبايعتم عثمان فبايعته،
میں نے ابوبکرؓ کی بیعت کی، جس طرح تم نے بیعت کی۔ پھر میں نے عمر کی اسی طرح بیعت کی جس طرح تم نے ا ن کی بیعت کی۔ پس میں نے عمر کی بیعت کا حق، پوری طرح ادا کیا، یہاں تک کہ جب وہ شہید ہوئے تو انہوں نے مجلس شوریٰ کے چھ ارکان میں سے مجھے بھی اس کارکن بنایا۔ میں اس مجلس کی رکنیت قبول کی اور مسلمانوں کی جماعت میں فرقہ بندی پسند نہ کی۔ پھر تم نے عثمان کی بیعت کی تو میں نے بھی ان کی بعیت کی۔
(امالی شیخ طوسی جلد2 مطبوعہ قم ایران ملاحظہ فرمائیں عکس صفحہ391)
(شیعہ مکتبہ شاملہ: الأمالي للطوسي (2/ 82)
• شیعوں کا مؤرخ شہیر میرزا محمد تقی سپہر (المتوفی 1297ھ) لکھتا ہے:
ثُمَّ مَدَّ یَدَہٗ فَبَایَعَ
پھر حضرت علیؓ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر حضرت عثمانؓ کی بیعت کی۔
¹-ناسخ التواریخ جلد3 صفحہ87، باب تاریخ الخلفاء، ذکر بیعت علی با عثمانؓ
²- کتاب سلیم بن قیس صفحہ 253 مطبوعہ قم ایران۔
سیدنا علیؓ کا اعلان
سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی بیعت مہاجرین وانصار نے کی ہے اور جس کی یہ حضرات بیعت کرلیں تو وہ حق کا امام ہے
سیدنا علیؓ نے سیدنا معاویہؓ کو خط لکھا جس میں حقیقت کا اظہار اس طرح کیا گیا:
إنه بايعني القوم الذين بايعوا أبا بكر وعمر وعثمان على ما بايعوهم عليه ، فلم يكن للشاهد أن يختار ولا للغائب أن يرد ، وإنما الشورى للمهاجرين والانصار ، فإن اجتمعوا على رجل وسموه إماما كان ذلك لله رضى ، بیشک میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے، جنہوں نے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ کی بیعت کی تھی۔ اور بیعت بھی اِسی بات پر کی ہے، جس پر ان تینوں کی بیعت کی تھی۔ اس لئے کسی بھی حاضر کو قبول کرنے یا رد کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے اور غائب پر بھی واجب ہے کہ وہ بھی انکار نہ کرے۔ شوریٰ کا حق صرف مہاجرین و انصار کو حاصل ہے اگر وہ کسی شخص کے بارے میں اتفاق کریں اور اس کو اپنا امام تسلیم کرلیں تو اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی ہے۔
(نہج البلاغہ جلد،2 صفحہ 7ومن کتاب لہٗ علیہ السلام اِلیٰ معاویہؓ طبع مصر عکس صفحہ 148)
(شیعہ مکتبہ شاملہ: نهج البلاغة (3/ 4)
خلاصۂ کلام
اس باب سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں:
¹-سیدنا علیؓ نے خود اپنی زبان سے اقرار کیا کہ انہوں نے سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ کے دستِ مبارک پر بیعت کی ہے۔
²- سیّدنا علیؓ نے اس بات کا بھی اعلان فرمایا کہ میں نے جو بیعت کی ہے، اس کا حق ادا کردیا ہے۔
³-سیدنا علیؓ اس بات کا بھی اظہار فرما رہے ہیں کہ سیدنا عمرؓ نے مجھے اپنی مقرر کردہ مجلس شوریٰ کا رکن بنایا تو میں نے قبول کرلیا۔
⁴-نہج البلاغہ کے خطبہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا علیؓ خلفائے ثلاثہؓ کو برحق خلیفہ تسلیم کرتے تھے۔
⁵- سیدنا علیؓ نے خلفائے ثلاثہؓ کے نام ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ ترتیب سے ذکر کرکے اس طرف اشارہ کیا کہ ان حضرات کی خلافت بھی اِسی ترتیب سے ہے اور میں اس لحاظ سے چوتھا خلیفہ ہوں۔
⁶- خلیفۂ رابع سیدنا علیؓ نے خلافت کی جو ترتیب بیان کی ہے، اس میں آپ نے شیعوں کے اس دعویٰ کو غلط قرار دیا ہے کہ سیدنا علیؓ خلیفۂ بلا فصل ہیں
⁷- سیدنا علیؓ نے اپنے خطبہ میں واضِح کردیا ہے کہ جس شخص کو مہاجرین و انصارؓ باہمی اتفاق سے اپنا امام منتخب کرلیں تو وہ برحق امام ہوتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی ہے۔ (خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت پر مہاجرین و انصار کا اجماع ہے۔ انہوں نے ان کو اپنا خلیفہ و امام کیا ہے)
⁸-سیدنا علیؓ نے اپنے خطبہ میں واضح طور پر بتایا کہ جس طرح خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت بیعت کے ذریعہ ہوئی ہے، اسی طرح میری خلافت بھی بیعت کے ذریعہ ہوئی ہے۔ اس میں شیعہ کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے، کیونکہ وہ کہتےہیں کہ خلفائے ثلاثہؓ نے خلافت غصب کی تھی اور وہ زبردستی خلیفہ بن گئے تھے۔ سیدنا علیؓ نے خود اس کی تردید فرمائی ہے۔
⁹-سیدنا علیؓ نے اپنی خلافت برحق ہونے کے لئے خلفائے ثلاثہؓ کے طریقہ خلافت سے استدلال کرتے ہیں کہ جس طرح ان کی خلافت برحق تھی۔ اسی طرح میری خلافت بھی برحق ہے۔ اس سے شیعوں کی اس ہرزہ سرائی کی صاف تردید ہوگئی کہ خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت برحق نہ تھی۔
¹⁰-سیدناعلیؓ نے شیعوں کے اس خود ساختہ عقیدہ کی پُرزور تردید کردی کہ خلافت و امامت مَنْصُوْصٌ مِّنَ اللہِ (یعنی اللہ کی طرف سے مقرر کردہ) ہوتی ہے اور فرمایا کہ خلافت و امامت کا مدار حضراتِ صحابہ مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم کے اجماع پر ہے۔ جس کو وہ اپنا خلیفہ بنائیں وہ برحق خلیفہ و امام ہے۔ تو اس طرح شیعوں کا خودساختہ اصول کہ خلافت منصوص من اللہ ہوتی ہے، غلط ثابت ہوگیا۔
تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٔ