Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

خلفائے ثلاثہؓ کے دور خلافت میں شرعی اور ملکی مسائل میں سیدنا علیؓ ان کے خاص مشیر تھے

  علامہ مولانا عبد الرحیم بھٹو

خلفائے ثلاثہؓ کے دورِ خلافت میں شرعی اور مُلکی مسائل میں سیدنا علیؓ ان کے خاص مشیر تھے

 حبشی بن جنادہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابوبکرؓ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا تو ایک شخص آیا اور کہا کہ اے خلیفہ رسولﷺ! مجھے حضورﷺ نے تین لپیں کھجور دینے کا وعدہ کیا تھا(لیکن آپﷺکے وصال کے سبب دے نہیں سکے)سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا کہ سیدنا علیؓ کو بلاؤ! جب سیدنا علیؓ آئے تو سیدنا ابوبکرؓ نے کہا کہ اے ابوالحسن! یہ شخص کہہ رہا ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھے تین لپیں کھجور دینے کا وعدہ کیا تھا تو آپ اس کو تین لپیں کھجور دے دیں۔ سیدنا علیؓ نے اس سائل کو کھجور دے دیں۔سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے ان کھجور کی گنتی کروائی تو ہر لپ میں ساٹھ کھجوریں تھیں یہ دیکھ کر صدیق اکبرؓ نے فرمایا:

أبو بكر صدق رسول الله ص سمعته ليلة الهجرة و نحن خارجون من مكة إلى المدينة يقول يا أبا بكر كفي و كف علي في العدل سواء

 رسول اللہﷺنے سچ فرمایا: ہجرت والی رات جب میں اور رسول اللہﷺ مکہ سے مدینہ کی طرف نکلے تھے تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا تھااے ابوبکرؓ! میری اور علیؓ کی ہتھیلی عدل میں برابر ہے

¹-امالی صفحہ 293 المجلس الخامس والثلاثون، تالیف شیخ مفید دیکھیں عکس صفحہ 344

²- امالی جلد2 صفحہ66 مطبوعہ قم۔ ایران، تالیف شیخ طوسی۔

(شیعہ مکتبہ شاملہ: الأمالي للمفيد (صفحہ 189)

 یاد رہے کہ خلفائے ثلاثہؓ کے دور میں، حُدود جاری کرنے کا کام سیدنا علیؓ کے سپرد ہوا کرتا تھا۔ شیعوں کی معتبر و مستند کتاب الجعفریات میں روایت ہے:

جعفر بن محمد عن أبيه عن آبائه ع أن أبا بكر و عمر و عثمان كانوا يرفعون الحدود إلى علي بن أبي طالب

 سیدنا جعفر صادقؒ اپنے آ باؤ واجداد سے نقل کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ حدود جاری کرنے کے مقدمات کو سیدنا علی بن ابی طالبؓ کے سپرد کر دیتے تھے۔

(الجعفریات مع قرب الاسناد صفحہ 133، مطبوعہ ایران دیکھیں عکس صفحہ 204)

• محمد بن منکدر سےروایت ہے کہ سیدنا خالد بن ولیدؓ نے، سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی طرف ایک خط ارسال کیا کہ یہاں ایک مرد ہے، جو مرد سے ساتھ اس طرح نکاح کرنا چاہتا ہے، جس طرح عورت کے ساتھ نکاح کیا جاتا ہے تو سیدنا ابوبکرؓ نے بعد از مشورہ جواب تحریر فرمایا:

وَاَنَّ اَبَابَکْرٍ جَمَععَ لِذالکَ نَاسًا مِّنْ اِصْحَابِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَانَ فِیْھِمْ عَلِیُّ بْنُ اَبی طالبٍ فَقَالَ: اِنَّ ھٰذا ذَنْبٌ لَمْ تَعْمَلْ بِہ اُمَّۃٌ مِّنَ الْاُمَمِ اِلَّا اُمَّۃً وَّاحِدَۃً، یَعْنِیْ قَوْمَ لُوْطٍ فَصَنَعَ اللہُ بِھَا مَا قَدْ عَلِمْتُمْ اُرٰی اَنْ تُحَرِّقُوْھُ بِالِنَّارِ، فَکَتَبَ اَبَوْ بَکْرٍ بِذَالِکَ اِلَی ابْنِ الْوَلِیْدِ تحقیق ابوبکرؓ نے اس مسئلہ کے بارے میں اصحابِ رسول اللہﷺ کو جمع کیا۔ ان میں سیدنا علی بن ابی طالبؓ بھی تھے۔ سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جو حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے علاوہ کسی بھی قوم نے نہیں کیا، پس اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو جو سزا دی، اس سے تم واقف ہو۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ فاعل کو آگ میں جلا دیا جائے۔ پس سیّدنا ابوبکرؓ نے یہ فیصلہ سیدنا خالد بن ولیدؓ کی طرف لکھا (کہ ایسے شخص کو آگ میں جلا دیا جائے)

(الامام علی بن ابی طالب صفحہ 62مطبوعہ ایران۔ مؤسسۃ البلاغ عکس صفحہ 405)

فکر أبوبكر بغزو الروم، فستشار جماعة من أصحابۃ، فقدّموا وأخّروا، فاستشار عليّا علیہ السلام فی الامر فقال: إن فعلتَ ظفرت فقال ابوبکرم بشّرت بخير. 

سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے جب غزوہ روم کا ارادہ کیا تو صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت سے اس بارے میں مشورہ طلب کیا تو وہ ایک مشورہ پر متفق نہ ہوسکے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے سیدنا علیؓ سے مشورہ کیا۔سیدنا علیؓ نے فرمایا: جنگ کریں گے تو آپ کامیاب ہوں گے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا کہ آپ نے اچھی خوشخبری سنائی ہے۔

(الامام علی بن ابی طالب صفحہ61 مطبوعہ ایران)

• سیدنا جعفر صادقؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علیؓ نے سیدنا عمرؓ سے کہا کہ اگر آپ نے تین باتوں پر عمل کیا تو آپ کو کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ اگر ان کو چھوڑ دیا (یعنی ان پر عمل نہیں کیا) تو ان کے بغیر کوئی دوسری چیز نفع نہیں دے گی۔

قال:وما هن يا ابا الحسن ؟ قال اقامة الحدود على القريب والبعيد والحكم بكتاب الله في الرضا والسخط والقسم بين الناس بالعدل بين الاحمر والاسود ، فقال له عمر : لعمري لقد اوجزت وابلغت 

سیدنا عمرؓ نے فرمایا اے ابو الحسن! وہ چیزیں کونسی ہیں؟ آپ نے فرمایا اپنے اور بیگانے پر اللہ کی حدود قائم کرنا اور کتاب اللہ کا فیصلہ خوشی اور ناخوشی کی حالت میں ماننا اور ہر کالے گورے کے درمیان انصاف کے ساتھ تقسیم کرنا۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا کہ بخدا آپ نے بہت مختصر اور مکمل مشورہ دیا ہے۔

¹-مناقب اٰل ابی طالب جلد2صفحہ 147، مطبوعہ ایران دیکھیں عکس صفحہ 321

²-تہذیب الاحکام جلد6 صفحہ 227 باب اٰدابُ الحکام طبع ایران۔

(شیعہ مکتبہ شاملہ: مناقب آل ابي طالب (1/ 473)۔

• ابوبصیر حضرت جعفر صادقؒ سے روایت کرتا ہے کہ میں نے حضرت جعفر صادقؒ سے دریافت کیا کہ رسول اللہﷺشرابی کو کس طرح حد لگاتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ حضورﷺشرابی کو جوتے وغیرہ مارتے تھے۔ لیکن جب لوگ باز نہ آئے تو سزا میں اضافہ کردیا گیا اور اسی(80) کوڑے مقرر فرمائے۔ جب سیدنا عمرؓ کے دورِ خلافت میں یہ مسئلہ پیش ہوا تو انہوں نے سیدنا علیؓ سے مشورہ طلب کیا۔

أشار بذلك علي عليه السلام على عمر فرضي بها. 

سیدنا علیؓ نے بھی،سیدنا عمرؓ کو یہی سزا دینے کا مشورہ دیا۔ سیدنا فاروقِ اعظمؓ اس پر خوش ہوئے۔

¹-فروع کافی جلد7صفحہ 214کتاب الحدود مطبوعہ ایران، عکس صفحہ173

(شیعہ مکتبہ شاملہ: الكافي الكليني (7/ 302)) ۔تهذيب الاحكام (246/ 2)

• زرارہ راوی کہتا ہے کہ میں نے امام محمد باقرؒ سے سنا کہ کہ عبیداللہ بن عمرؓ پر شراب کی حد قائم کی گئی۔ یہ حکم حضرت عمرؓ نے جاری کیا۔ لیکن کوئی سزا دینے کے لئے آگے نہ بڑھا۔ تو حضرت علیؓ نے اونٹ کی مُہار کو دوہرا کرکے یہ حد قائم کی اور اس کو چالیس مرتبہ مارا۔

(فروع کافی جلد7صفحہ 214 کتاب الحدود مطبوعہ ایران عکس صفحہ 173)

(شیعہ مکتبہ شاملہ: الكافي الكليني (7/ 302))

•حضرت جعفر صادقؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں، دو مردوں نے آپس میں بدفعلی کی۔ ان میں سے ایک تو بھاگ گیا اور دوسرا پکڑا گیا، جسے حضرت عمرؓ کے سامنے پیش کیا گیا۔ حضرت عمرؓ نے اس کی سزا کے متعلق صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا۔ ہر ایک نے مختلف رائے دی۔ جب حضرت علیؓ سے مشورہ طلب کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:

ایسے شخص کی گردن اڑائی جائے۔ چنانچہ اسی پر عمل کیا گیا۔ جب اس کی لاش اٹھانے لگے تو حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ٹھہرو! ابھی اس کی سزا کچھ باقی ہے۔ دریافت کیا گیا کہ وہ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ لکڑیاں جمع کی جائیں۔ جب لکڑیاں جمع ہوگئیں تو آپ نے اس کی لاش لکڑیوں میں رکھوا کر اس کو جلوا دیا۔

¹- فروع کافی جلد7 صفحہ 199 کتاب الحدود۔ مطبوعہ ایران

²-الاستبصار جلد4 صفحہ 219 کتاب الحدود مطبوعہ ایران

ومن كلام له عليه السلام وقد شاوره عمر بن الخطاب في الخروج إلى غزو الروم إنك متى تسر إلى هذا العدو بنفسك فتلقهم بشخصك فتنكب لا تكن للمسلمين كانفة دون أقصى بلادهم ليس بعدك مرجع يرجعون إليه ٍفابعث إليهم رجلا محربا ، واحفز معه أهل البلاء والنصيحة فإن أظهر الله فذاك ما تحب ، وإن تكن الاخرى كنت ردءا للناس ومثابة للمسلمين .

 جب فاروقِ اعظم نے غزوہ روم میں خود جانے کے لئے مشورہ کیا تو سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ: اگر آپ ان کی طرف گئے۔ان کے ساتھ جنگ ہوئی اور آپ کو چکھ ہوگیا (زخمی یا شہید ہوگئے) تو پھر مسلمانوں کے لئے ملک کے آخری شہروں تک کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے جس کی طرف مسلمان رجوع کریں۔ اس لئے آپ دشمن کی طرف کسی (دوسرے) تجربہ کار شخص کو بھیج دیں اور اس کے ساتھ ایسا لشکر روانہ کریں، جو جنگ کی سختیاں برداشت کرسکے اور اپنے امیر کی نصیحت قبول کرے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے فتح دی تو آپ کی یہی آرزو پوری ہوگی۔ لیکن اگر کامیابی نہ ہوئی تو آپ مسلمانوں کی قوت اور مرجع کے اعتبار سے موجود ہوں گے۔

نہج البلاغہ جلد1 صفحہ 272، طبع مصر عکس صفحہ 144

• حضرت جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ حضرت عثمانؓ کے پاس قبیلہ قیس کا ایک شخص جو کہ غلام تھا، اپنے مالک کے ساتھ آیا اور کہا کہ اے امیر المؤمنین! اس نے میری آنکھ پر چوٹ ماری، جس کی وجہ سے اس کا پانی نکل گیا اور میری نظر ختم ہوگئی۔ حضرت عثمانؓ نے اس سے کہا کہ میں تجھ دیت دلواتا ہوں۔ لیکن اس نے انکار کیا اور کہا کہ میں قصاص لوُں گا۔ حضرت عثمانؓ نے ان کو حضرت علیؓ کی خدمت میں بھیج دیا۔ حضرت علیؓ نے جب ان کی بات سنی تو فرمایا: آپ دیت لے لیں۔ اس نے انکار کیا تو پھر فرمایا کہ آپ دگنی دیت لے سکتے ہیں؟ لیکن وہ نہ مانا اور کہا کہ مجھے صرف قصاص چاہئے حضرت علیؓ نے ایک شیشہ اور سوتی کپڑا طلب فرمایا اور کپڑے کو پانی میں بھگو کر اس (مالک) کی آنکھ کے ارد گرد لپیٹا اور اسے دھوپ میں کھڑا کرکے، اس کو حکم دیا کہ سورج کی طرف دیکھے اور پھر شیشہ اس کے سامنے کیا۔ جس روشنی اور تپش سے اس کی آنکھ کا پانی جل گیا اور نظر ختم ہوگئی۔

(فروع کافی جلد7 صفحہ 319 کتاب الدیات مطبوعہ ایران)

• ایران کی فتح کے بعد دوسرے خلیفہ (حضرت عمرؓ) کے زمانے میں دس بزرگ صحابیوں پر ایک کمیشن تشکیل دیا گیا۔ جس میں حضرت علیؓ بھی شامل تھے۔ اس کمیشن کے بعض ارکان کی رائے یہ تھی کہ زمینوں کو سپاہیوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے۔ لیکن حضرت علیؓ کی رائے یہ تھی کہ سپاہیوں کے درمیان زمین کی تقسیم کو روکا جائے اور ان کو مسلمانوں کے معاشرہ کے لئے ذریعہ آمدنی کے طور پر رکھا جائے، چنانچہ حضرت علیؓ کی رائے کو قبول کیا گیا۔

(آئین سعادت جلد دوم صفحہ 42،43 ، مطبوعہ ایران دیکھیں عکس صفحہ 428)

• خلیفہ دوم کے زمانے میں سن15 ہجری میں پے درپے فتوحات کے نتیجے میں ساسانی بادشاہوں کے خزانے مسلمانوں کے قبضے میں آگئے۔ خلیفہ وقت مسلمانوں کے ساتھ مشورہ کے لئے بیٹھ گئے۔ تو حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا: ہر سال وہ تمام مال و متاع جو تمہارے سامنے جمع ہوں انہیں تقسیم کر دو اور اُس میں سے کچھ نہ بچاؤ۔

(آئین سعادت حصہ دوم صفحہ46 مطبوعہ ایران عکس صفحہ430)

 مقامِ غور

قارئین کرام! شیعہ فرقہ کی بنیاد ہی صحابہ کرامؓ کی دشمنی اور نفرت پر مبنی ہے۔ یہ لوگ رات دن کوششیں کرتے رہتے ہیں کہ عوام الناس کو صحابہ کرامؓ کے خلاف ایسی بے بنیاد باتیں بتائیں کہ وہ صحابہؓ سے بیزار اور متنفر ہوجائیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ جب لوگ صحابہ کرامؓ سے بیزار ہو جائیں گے، تو پھر ہماری کامیابی ہے اور ہمارے شیعہ مذہب کو جلد ہی قبول کرلیا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے یہ لوگ جھوٹے قصے، غلط اور بے بنیاد باتیں اور موضوع روایات لوگوں کو سناتے رہتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ کی شان میں بیہودہ بکواس کرتے ہیں اور اس طرح عوام الناس کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کی غلط باتوں کو ایسے لوگ قبول کرتے ہیں جو بالکل عقل سے کورے اور علم سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔

 شیعوں کا عام طور پر کہنا ہے کہ صحابہؓ، اہل بیتؓ کے ساتھ بغض اور حسد رکھتے تھے، اس لے ان کا ایک دوسرے کا ساتھ سلام و کلام ہی نہیں تھا۔ خاص طور پر سیدنا ابوبکرؓ، عمرؓ و عثمانؓ اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ تو سیدنا علیؓ اور ان کے اولاد کے سخت دشمن تھے۔ یہ سب باتیں بالکل بے بنیاد اور جھوٹی ہیں۔ کوئی بھی ذی شعور آدمی ایسی باتیں ہرگز قبول نہیں کرسکتا۔ آپ اس باب کی روایات کو انصاف کی نظر سے پڑھیں اور پھر ان میں غور و فکر کریں تو آپ کو یہ حقیقت معلوم ہو جائے گی کہ سیدنا علیؓ اور خلفائے ثلاثہؓ کے درمیان کیسے اچھے تعلقات تھے۔

¹- سیدنا علیؓ المرتضیٰ شرعی اور ملکی مسائل کے حل کرنے میں خلفائے ثلاثہؓ کے چوبیس سال تک مشیر خاص رہے۔

²-خلفائے ثلاثہؓ سیدنا علیؓ کے فیصلے کو عزت کی نظر سے دیکھتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے۔

³-سیدناابوبکر صدیقؓ نے غزوۂ روم کے بابت سیدنا علیؓ سے مشورہ لیا اور مشورہ پر اتفاق کرنے کے بعد نہایت خوش ہوکر فرمایا:

بَشَّرْتَ بِخَیْرٍ اے علیؓ! آپ نے اچھی بشارت دی۔

⁴-سیدنا عمر فاروقؓ نے جب غزوۂ روم میں خود جانے کے لئے، سیدنا علیؓ سے مشورہ لیا تو انہوں نے سیدنا عمرؓ کو روکا۔ اور فرمایا کہ آپ خود نہ جائیں، کیونکہ آپ مسلمانوں کے مرجع اور قوت ہیں۔ آپ کے جانے بعد خدانخواستہ اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو مسلمانوں کی قوت منتشر ہو جائے گی اور ان کے لئے کوئی مرجع نہ ہوگا، جہاں وہ پناہ لے سکیں اور جہاں سے وہ مزید کمک حاصل کرسکیں۔ اس لئے آپ کے جانے سے قومی، ملکی اور جانی نقصان ہوگا۔کسی دوسرے تجربہ کار کو بھیج دیں۔ آپ مدینہ طیبہ میں رہ کر ان کی کمان کریں۔سیدناعمرؓ نے اسی مشورہ پر عمل کیا۔ سیدنا علیؓ نے جب سیدنا فاروقِ اعظمؓ کو تین باتوں کی نصیحت کی تو انہوں نے ان تینوں باتوں کو بخوشی قبول کیا اور ان پر عمل کیا۔

⁶-سیدناعمرؓ فاتحِ ایران و روم ہیں۔ اس لئے شیعوں کو چاہیئے کہ ان کے ساتھ بغض اور دشمنی کے بجائے محبت، عزت و احترام کا معاملہ کریں اور ان کو ہمیشہ دعائے خیر سے یاد کرتے رہیں۔ کیونکہ جس ملک (ایران) میں یہ رہتے ہیں، وہ امیر المؤمنین سیدنا 

عمر فاروقؓ کا مفتوحہ ملک ہے۔

⁷-نہج البلاغہ کے خطبہ میں سیدنا علیؓ نے سیدناعمرؓ کو رِدْ أٌلِلنَّاسِ (یعنی لوگوں کے وہی وصف ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی دعا میں، اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے لئے اللہ پاک سے طلب کر رہے ہیں۔ فَاَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْاً يُّصَدِّقُنِيْۤ(سورۃ القصص) یعنی ہارون علیہ السلام کو میرا مددگار بناکر بھیج جو میری تصدیق کرے اور کعبۃ اللہ کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے کہ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ (یعنی لوگوں کے لئے مرجع) عجیب بات تو یہ ہے کہ یہ دونوں الفاظ رِدْاً اور مَثَابَةً قرآن کریم میں صرف ایک ایک مرتبہ آئے ہیں۔ کسی دوسرے کے لئے قرآن میں ان کا استعمال نہیں آیا۔ سیدنا علیؓ نے یہ دونوں الفاظ سیدنا عمر فاروقؓ کے لئے ہی استعمال کیے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ، سیّدنا عمر فاروقؓ کو بہت اعلیٰ مرتبہ پر فائز سمجھتے تھے اور ان کی دل و جان سے عزت کرتے تھے۔ ان سے والہانہ محبت و عقیدت رکھتے تھے ان کی شان میں بہترین کلمات کے ساتھ تعریف بھی کرتے تھے اور اچھے سے اچھا مشورہ دے کر سیدنا فاروق اعظمؓ کو خوش بھی کرتے تھے۔ اِسی طرح سیدنا ابوبکرؓ و عثمانؓ کے ساتھ بھی سیدنا علیؓ تہہ دل سے خوش رہتے تھے۔ اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ خلفائے ثلاثہؓ اور سیدنا علی المرتضیٰؓ کے درمیان ایسی کوئی چیز حائل نہیں جو ایک دوسرے سے جدا کرے۔ بلکہ یہ حضرات ایک دوسرے پر جان نچھاور کرتے تھے اور قرآنی آیت رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ کے حقیقی مصداق تھے۔