Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ کی من گھڑت عید مباہلہ کی حقیقت

  محقق کبیر مولانا نافع رحمہ اللہ

 شیعہ کی من گھڑت عید مباہلہ کی حقیقت

قرآن پاک میں ہے:

(فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ)

( سورة  آل عمران61)

یہ آیت مباہلہ کے نام سے مشہور ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ

"پس جو شخص آپ سے جھگڑا کرے یعنی حضرت (عیسی علیہ الصلاۃ والسلام) کے بارے میں آپ (ﷺ) کے پاس علم آجانے کے بعد تو کہہ دیجئے ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ اور ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو بلاؤ ہم اپنی ذاتوں کو بلائیں اور تم اپنی ذاتوں کو بلاؤ پھر ہم گڑگڑا کر دعا مانگیں پس جھوٹ بولنے والوں پر ہم اللہ کی لعنت کریں"

واقعہ کا پس منظر 

یہ واقعہ سن 9 ہجری میں نصاریٰ نجران کے ساتھ اہل اسلام کو پیش آیا تھا انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کئی معاملات میں خصوصاً حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کے متعلق کچھ بحثیں شروع کر دی اور قرآن کی جانب سے اور نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو چیزیں بیان کی گئی تھیں ان پر نصاریٰ کو تسلی نہیں ہوئی تھی تو اس موقع پر مذکورہ بالا آیات نازل ہوئیں اور رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے تم مباہلہ کر لو جس طرح کے آیت میں حکم دیا گیا ہے اس میں مسلمانوں اور نصاریٰ دونوں جماعتوں کو حکم ہے کہ اپنے اپنے لڑکوں عورتوں اور اپنوں کو بلائیں پھر سب اللہ کے سامنے عاجزی کے ساتھ دعا مانگیں کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو اس دعوت مباہلہ پر نصرانی آپس میں مشورہ کرنے کے بعد مباہلہ کے لئے تیار نہ ہوئے اور نصرانیوں کے آمادہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ مباہلہ عمل میں نہ آ سکا اور تیاری کے مراحل میں ہی ختم ہو گیا یعنی عمل مباہلہ نہیں ہوا نصرانیوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا اور واپس چلے گئے اس واقعے کی تفصیلات آیات ہذا کے تحت تفسیر کی کتابوں میں موجود ہیں روایات میں موجود ہے کہ رسولﷺ مباہلہ کے لئے تیار ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات حسنین کریمین، حضرت علی اور حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کو اسی وقت بلا لیا تھا

ایک صاحبزادی ہونے پر شیعہ کا باطل استدلال

واقعہ مباہلہ سے شیعہ حضرات نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک ہی صاحبزادی ہونے پر اس طرح استدلال قائم کرتے ہیں کہ

"نصاریٰ کے ساتھ مباہلہ کرنے کے موقع پر رسولﷺ نے حضرات حسنین کریمین حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ساتھ لیا تھا اور اگر دیگر صاحبزادیاں بھی ہوتی تو انہیں بھی اس موقع پر ساتھ لیا ہوتا اور بالفرض اگر دوسری صاحبزادیاں فوت ہو چکی تھیں تو ان کے شوہروں کو ہی بلا لیا ہوتا"

شیعہ کہتے ہیں صرف ایک فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلانے سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک صاحبزادی تھیں اور حقیقی داماد بھی ایک علی بن ابی طالب ہی تھے

جواب دفع شیعہ وہم

اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے مندرجہ ذیل چیزیں مختصراً پیش خدمت ہیں ان پر غور کر لینے سے شیعہ کے استدلال کی خامی خوب واضح ہو جائے گی اور اس مسئلے کی حقیقت صحیح شکل میں نظر آ سکے گی

١۔ پہلی بات یہ ہے کہ ان شیعوں نے آیت مذکورہ بالا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی ہونے پر استدلال قائم کرنے کی کوشش کی ہے اس آیت میں اولاً تو لفظ "بنات" مذکور ہی نہیں وہاں عورتوں کے لئے "نساءنا" اور بیٹوں کے لیے "ابناءنا" کے الفاظ موجود ہیں لیکن بیٹیوں کے لئے بنات کے الفاظ مذکور ہی نہیں تو آیت قرآنی میں اپنی بیٹی اور دوسروں کی بیٹی بلانے کا حکم ہی ذکر نہیں لہذا ایک بیٹی ہونے پر آیات قرآنی سے استدلال کس طرح صحیح ہوا؟؟

٢۔ دوسری بات یہ ہے کہ روایت میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلانے کا ذکر موجود ہے تو وہ استدلال بروایت تصور ہوگا استدلال بالآیت نہ ہوگا یعنی اس آیت کا "بنات" کے مسئلے سے کچھ تعلق نہیں صرف روایت میں یہ مسئلہ ہے

٣۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس مقام میں متعدد روایات موجود ہیں یہاں انکو ملحوظِ خاطر رکھنا دیانتداری کا تقاضہ ہے بعض روایات کو قابلِ اعتماد سمجھنا اور دوسرے واقعات کو بلاوجہ قابل اعتماد نہ سمجھنا انصاف کے خلاف ہے اس مقام کی ایک روایت تو وہ ہے جس میں مباہلہ کے موقع پر حضرات حسنین کریمین حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بلا کر ساتھ لینے کا ذکر ہے وہ بالکل درست ہے اس روایت سے شیعہ حضرات یہ مطلب اخذ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک حقیقی صاحبزادی تھیں اور حقیقی داماد صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی تھے اگر دیگر صاحبزادیاں ہوتی یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بغیر کوئی اور بھی حقیقی داماد ہوتا تو ان کو بھی اس موقع پر بلا کر ساتھ لیا ہوتا اب یہاں پہ یہ چیز قابل غورہے کہ شیعہ کے نزدیک اس واقع 

مباہلہ سن 9 ہجری میں اور ایک قول کے مطابق سن 10 ہجری میں پیش آیا تھا

چناچہ شیعہ کتاب تلخیص شافی صفحہ 383 طبع قدیم اور صفحہ 7 جلد 3 طبع جدید فصل فی امیرالمومنین علیہ السلام افضل صحابة میں اس طرح درج کیا ہے اس واقعہ سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تینوں صاحبزادیوں اس عالم سے انتقال فرما چکی تھی اور یہ چیز فریقین کے  درمیان مسلمات میں سے ہے کہ کوئی مختلف فیہ چیز نہیں،

حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سن 2 ہجری جنگ بدر کے موقع پر فوت ہوئی

حضرت زینب رضی اللہ عنہا سن آٹھ ہجری میں  فوت ہوئی،

حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا شعبان 9 ہجری میں قبل از واقعہ مباہلہ فوت ہو چکی تھی

جیسا کہ صاحبزادیوں کے حالات میں بیان کیا گیا اس بنا پر ان صاحبزادیوں کا واقعہ ہذا میں شامل نہ ہونا ایک ظاہر بات ہے لہذا اس موقع پر صرف ایک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ زندہ تھیں اور انہیں ساتھ لے لیا گیا نیز یہ چیز بھی قابل لحاظ ہے کہ خواتین میں سے صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا روایت میں ذکر کیا جانا اور مردوں میں سے صرف حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر کیا جانا اور اسی طرح حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہ کے ذکر کیے جانے سے اس وقت میں شامل باقی خواتین اور دیگر حضرات کی نفی لازم نہیں آتی دوسرے لفظوں میں روایت مذکورہ میں ان حضرات کا ذکر کیا جانا دیگر حضرات کی نفی کو مستلزم نہیں ہے اور عدم ذکر الشی سے عدم وجود الشی لازم نہیں آتا۔

چنانچہ اس موقع کی دیگر روایات میں سے ایک روایت یہ

  وأخْرَجَ ابْنُ عَساكِرَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أبِيهِ ﴿تَعالَوْا نَدْعُ أبْناءَنا﴾ الآيَةَ قالَ فَجاءَ بِأبِي بَكْرٍ ووَلَدِهِ وبِعُمَرَ ووَلَدِهِ وبِعُثْمانَ ووَلَدِهِ وبِعَلِيٍّ ووَلَدِهِ.
تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله الشافعي ( متوفای571)، دار النشر: دار الفكر - بيروت - 1995، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ج39، ص177

مطلب یہ کہ ہم امام جعفر صادق رحمہ اللہ اپنے والد گرامی امام محمد باقر رحمہ اللہ سے ذکر کرتے ہیں

"نبیﷺ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کی اولاد سمیت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ان کی اولاد سمیت اور عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ان کی اولاد سمیت اور علی المرتضیٰ رضی اللہ ان کی اولاد سمیت موقع مباہلہ پر بلا کر ساتھ لائے"

نوٹ: یہ مستند روایت نہیں ہے۔

 نیز علماء کرام نے یہ ایک اور روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے کہ

عن عمر رضی اللہ عنہ قال رسولﷺ لولا عنتھم یا رسول اللہ بیدمن کنت تاخذ قال صلی علیہ آخذبیدعلی فاطمة والحسن والحسین وعائشة وحفصِة

تفسیر در منثور ج6 ص40

سیرة الحلبیہ ج3 ص240

تفسیر روح المعانی ج3 ص190

تفسیر شوکانی ج 1ص348

اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی محمدﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ رسول ﷺ نے نجران والوں کے ساتھ مباہلہ کرتے اور بد دعا فرماتے تو آپ کن کن لوگوں کا ہاتھ پکڑ کر مباہلہ کی بد دعا فرماتے تو جناب رسولﷺ نے فرمایا کہ

"میں علی فاطمہ حسن حسین عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا ہاتھ پکڑ کر مباہلہ کرتا"

مندرجات بالا کی روشنی میں یہ واضح ہوا کہ

١۔ حضرت علی کے علاوہ حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین تینوں حضرات کو بھی اس موقع پر مع ان کی اولاد کے بلا لیا گیا تھا اور مباہلہ کی تیاری میں یہ تمام حضرات مدعو تھے اگر مباہلہ کا عملی اقدام ہوتا تو حضرت علی اور ان کی اولاد کے ساتھ ساتھ یہ تینوں حضرات بھی مع اولاد کے شامل ہوتے

٢۔ ۔اسی طرح خواتین میں سے حضرت فاطمہ کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو بھی اس موقع پر شامل کیا جانا منظور خاطر تھا اور اگر مباہلہ کا عملی اقدام ہوتا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو بھی ساتھ لیا جاتا معلوم ہوا کہ واقعہ مباہلہ میں شیعہ حضرات نے جو ایک عدد روایات کو سامنے رکھ کر تخصصات قائم کیے وہ بالکل بے جا ہیں اور اس سے رسولﷺ کی صرف ایک صاحبزادی ہونے یا صرف ایک داماد ہونے کا جو اس دن میں ذکر کیا ہے وہ کسی پہلو سے درست نہیں ہے اس کو غلو عقیدت کا ہی نتیجہ کہا جا سکتا ہے، اور کی تحریف ہے بس

خلافت علی بلا فصل پر شیعہ کا استدلال

اس دور کے شیعہ حضرات نے واقعہ مباہلہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک حقیقی صاحبزادی ہونے پر استدلال کیا ہے اور ہم نے اس استدلال کی خفت اور کمزوری گزشتہ سطور میں واضح طور پر بیان کر دی ہے اور شیعہ کے سابقہ علماء اس واقعہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلافصل پر استدلال کرتے رہے ہیں حالانکہ وہ بھی اپنی جگہ بے جا اور غیر موضوع استدلال ہے اور کچھ وقعت نہیں رکھتا وجہ یہ ہے کہ

١۔ ۔آیت مباہلہ میں تو مسئلہ خلافت کا ذکر تک موجود نہیں اور روایات مباہلہ میں بھی مسئلہ خلافت کے متعلق کلام نہیں پایا گیا وہاں اس کا فقدان ہے نیز یہ بات بھی ہے کہ آیت مباہلہ یا آیت مباہلہ سے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت بلا فصل پر استدلال کیا ہے اور نہ ہی کبھی اس کا دعویٰ کیا ہے، 

البتہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ رسول ﷺ نے مباہلہ کی تیاری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے صاحبزادوں اور حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کو مدعو کرنے کی عزت بخشی اور یہ اعزاز اپنی جگہ فضیلت کی چیز ہے جس کے ہم قائل ہیں اور ساتھ ہی ساتھ دیگر روایات کی رو سے جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اصحاب ثلاثہ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ امہات المومنین رضی اللہ عنہما بھی شرف دعوت سے مشرف ہوئے تھے لہذا ان تمام حضرات کا احترام اور شرف بھی لائک لحاظ اور قابل قدر ہے

٢۔ ۔اگر آیت مباہلہ کے لفظ انفسنا سے بقول شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات مراد لی جائے اور نفس رسولﷺ کا قرار دیا جائے اور رسول اللہ کی جمیل صفات نبوت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے مساوات تسلیم کی جائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نبوت رسالت ختم نبوت اور بعثت الی کافة الخلق وغیرہ صفات سے متصف تسلیم کرنا پڑے گا اور یہ بالکل باطل اور خلاف واقعہ ہے

بصورت دیگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رسول اللہﷺ کی بعض صفات میں مساوات تسلیم کی جائے کوئی مفید ہی نہیں اور نہ ہی اس سے اصل مقصد کا اثبات ہو سکتا ہے

اسی طرح اگر بالفرض آیت مباہلہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت و امامت کی دلیل قرار دیا جائے تو یہ لازم آئے گا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی رسول ﷺ کے خلیفہ اور یہ بھی صحیح نہیں اور واقعات کے خلاف ہے پس آیت مذکورہ میں لفظ "انفسنا" سے اہل قرابت ہم نسب ہم ملت اور اپنی جماعت کے افراد مراد ہیں

جیسا کہ قرآن مجید کی دیگر آیات مبارکہ مثلا ۔۔۔

وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ  ثُمَّ أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِّنكُم مِّن دِيَارِهِمْ

وغیرہ آیات میں ان الفاظ کا مفہوم مراد اہل قرابت اہل دین اور اپنی جماعت کے لوگ ہیں لہذا آیت مباہلہ کا مطلب خلافت سے کوئی تعلق نہیں چہ جائے کہ اسے خلافت بلا فصل کی دلیل قرار دیا جائے اور اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلافصل کا استدلال آیت مباہلہ سے کسی پہلو سے درست نہ ہوا اور علمی اصطلاح میں یہ دلیل اپنے دعویٰ کو ثابت نہیں کر سکی لہذا یہاں تقریب تام نہیں پس آپ نے تمام حقیقت جان لی شیعہ کیسے اس واقعہ عجیب اَفسانے تراشتے ہیں۔