نا بالغی میں باپ کا ایسے شخص سے نکاح کرانا جو شیعہ ہے
نا بالغی میں باپ کا ایسے شخص سے نکاح کرانا جو شیعہ ہے
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین دریں مسئلہ کہ: ایک لڑکی مسماۃ عطاء الہٰی جس کی عمر تقریباً صرف ایک ماہ تھی اس کا نکاح اس کے والد نے مسمی محمد بخش کے ساتھ کر دیا اب وہ لڑکی مسماۃ عطاء الہٰی جوان اور بالغ ہو چکی ہے اور لڑکی کا والد فوت ہو گیا ہے۔ لڑکی کا بڑا بھائی موجود ہے اب لڑکی مذکورہ اور اس کا بڑا بھائی محمد بخش کے نکاح کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ مسمی محمد بخش نے اب شیعہ مذہب اختیار کر لیا ہے کیا عقیدہ رکھتا ہے شیعہ طریقہ پر نماز پڑھتا ہے سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے متعلق تبرا بکتا ہے اور حضرات خلفائے راشدینؓ اور خصوصاً سیدنا صدیقِ اکبرؓ پر اعلانیہ تبرا کرتا ہے اور لعنت تک کے الفاظ استعمال کرتا ہے جس کے دو گواہ مسمی در محمد ولد غلام محمد منشی محمد امین ولد محمد ابراہیم موجود ہیں جس سے اس بات کا ثبوت لیا جا چکا ہے اور دیگر آدمی بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔
تو کیا اب اس صورتحال میں شرع محمدیﷺ و عقیدہ حنفیہ کی رو سے محمد بخش کا نکاح بحال ہے یا ٹوٹ چکا ہے؟ اور اب وہ لڑکی مذکورہ مسماۃ عطاء الہٰی دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے یا نہیں؟ نیز لڑکی مذکورہ نے عدالت عالیہ دیوانی میں بھی تنسیخِ نکاح کا دعویٰ دائر کیا اور عدالت دیوانی نے بھی لڑکی کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے کہ لڑکی مسماۃ عطاء الہٰی جہاں چاہے دوسری نکاح کر سکتی ہے۔
جواب: چونکہ آج کل شیعہ عموماً وہ لوگ ہیں جو قطعیات اسلام کا انکار کرتے ہیں مثلاً سیدنا علیؓ کی اُلوہیت کا قائل ہیں یا جبرائیلؑ کو وہی پہنچانے میں غلطی کرنے کا قائل ہے یا تحریف قرآن کا قائل ہے یا صحبتِ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کا انکاری ہے یا سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر تہمت لگاتا ہے اور اس عقیدہ کے لوگ باجماع امت کافر ہیں۔ اور کافر سے مسلمان عورت کا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا اور اس شیعہ کے مذکورہ فی السوال احوال سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ اس کے بھی عقیدے کفریہ ہوں تو اس کا نکاح اس عورت سے ختم ہوا اور جب حاکم نے بھی اس کے نکاح کو فسخ کیا تو اس شیعہ (محمد بخش) کا نکاح نہیں رہا اور مسماۃ عطاء الہٰی شرعاً نکاحِ ثانی کی مجاز ہو گی۔
(فتاویٰ مفتی محمودؒ:جلد:4:صفحہ:599)