سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلفائے ثلاثہ سے قریبی تعلقات اور شیعہ سے منطقی سوالات
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبنداگر شیعہ کی نزدیک حضرت ابوبکر صدیق رض کافر ہو گئے تھے اور نبی کریم علیہ اسلام کے دین پر قابض ہو گئے تھے تو حضرت علی رض نے انکے خلاف اعلان جہاد کیوں نہیں کیا؟ بلکے انکے پیچھے نمازیں کیوں پڑھتے رہے؟
شیعہ کے نزدیک حضرت ابو بکر صدیق رض کے بعد حضرت عمر رض نے نبی کریم علیہ السلام کے دین پر قبضہ کر لیا تھا شیعہ کے نزدیک حضرت عمر رض بھی کافر تھے تو حضرت علی رض نے انکے خلاف اعلان جہاد کیوں نہیں کیا بقول شیعہ دین پر تو کافر قبضہ کر رہے تھے (معاذاللہ) لیکن حضرت علی رض نے انکے خلاف جہاد نہیں کیا بلکے حضرت عمر رض کے ہیچھے نمازیں پڑھتے رہے۔
شیعہ کے نزدیک حضرت عمر رض کی وفات کے بعد حضرت عثمان رض نے دین محمد صل اللہ علیہ وسلم پر قبضہ کر لیا تھا شیعہ کے نزدیک حضرت عثمان رض بھی کافر تھے لیکن حضرت علی رض نے انکے خلاف بھی جہاد نہیں کیا بلکے انکے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے لیکن جب شیعہ منافقین نے حضرت عثمان رض کی گھر کا معاصرہ کر لیا تو حضرت علی رض نے شیعہ منافقین کا ساتھ نہیں دیا بلکے حضرت عثمان رض کا ساتھ دیا اور اپنے دونوں بیٹوں امام حسن رض اور امام حسین رض کو حکم دیا کہ حضرت عثمان رض کے گھر پر پہرہ دیں۔شیعہ کے عقیدے کے مطابق حضرت علی رض نے شیعہ منافقین کی بجائے کافروں کا ساتھ دیا۔
حضرت عثمان رض کی وفات کے بعد جب حضرت علی رض خلیفہ بنے تو انھوں نے تب نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک سے حضرت ابو بکر صدیق رض اور حضرت عمر رض کے قبروں کو کیوں نہیں نکالا کیوں کہ شیعہ کے نزدیک حضرت ابو بکر صدیق رض اور حضرت عمر رض دونوں کافر ہیں اور روضہ رسول صل اللہ علیہ وسلم میں اللہ کی نبی کریم علیہ الاسلام کے ساتھ سو رہے ہیں۔
بنو امیہ مکہ کے سردار تھے اسی لئے مشہور غزوات میں انکی سرداری میں ہی بنو ہاشم وغیرہ جنگ کرنے آتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی جدوجہد کی اور ریاست قائم کی اور اللہ تعالی کا حکم پورا ہوتا نظر آیا
"وہی اللہ ہے جس نے رسول بھیجا ھدایت اور حق کے ساتھ تاکہ اس دین کو دوسرے سب دینوں پہ غالب کر دے اگرچہ کافروں کو برا لگے"
اور پہلے دو خلفاء کے دور میں تو بالکل اشکال ختم ہو گیا اور دین مکمل غالب آ گیا. پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلافت ملی تو انکا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے قتل عثمان پہ اختلاف ہوا۔ ابھی شیعہ اشکال کر سکتے ہیں کہ سیاسی اختلاف تھا یا حق و باطل کا. سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیکڑوں نہیں ہزاروں سپاہی میسر آ چکے تھے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تین دن کے بعد واپس چلے گئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خوارج کو غلط مانتے تھے تو ان سے جنگ جاری رکھی، پس طاقت میسر تھی۔ یہاں تک کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو خلافت ملی. پس وہی ہزاروں سپاہی اور لاکھوں مسلمان انکی خلافت مان چکے تھے جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا. لیکن سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے یہ بتانے کیلئے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے سیاسی اختلاف ہے نہ کہ حق و باطل کا خلافت انہیں دے دی۔
1۔
اگر ایسا نہ مانا جائے تو لازم آئے گا یہ ماننا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اگلی چالیس نسلوں کو باطل سے بچانا چاہتے تھے لیکن سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے باطل سے نہیں بچایا. دو چار سال کیلئے تو حکمت ہوتی ہے نسلوں کیلئے ایسی حکمت نہیں ہوتی.
2۔
اور دوسرا اشکال یہ ہو گا کہ بنو امیہ جو صرف مکہ کی حد تک تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے ساتھیوں نے جانیں دے کے جو خلافت قائم کی وہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے مفت میں مکہ کے ان سرداروں کو دے دی جنہوں نے کبھی صرف جزیرہ عرب پہ حکومت کا بھی نہیں سوچا ہو گا. گویا مسلمانوں کی ساری محنت منافقوں کو زمین پہ حکومت دینے کیلئے تھی کیا؟
3۔
اور یہ اشکال ہے کہ اہل تشیع سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف چارج شیٹ پیش کرتے ہیں انکو حکومت ملنے سے پہلے کے کاموں کی. کیا امام کو ابھی مزید بھی تجربہ کرنا تھا؟ وہ تجربہ جس سے کئی نسلیں گویا گمراہوں کے حوالے ہو گئیں اور حوالے بھی خلیفہ نے خود کیں۔ کیا شیعہ آج بھی کسی ملک سے جنگ ختم کرنے کیلئے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی اس سنت پہ عمل کو جائز کہہ سکتے ہیں؟
اگر شیعہ اسے الہام پہ محمول کرتے ہیں تو اس پہ مزید بحث نہیں ہو سکتی. ورنہ ظاہرا یہ سب غیر منطقی ہے۔