Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کا آپس میں کسی قسم کا مذہبی اختلاف نہیں تھا، ایمان میں دونوں برابر تھے۔

  علامہ مولانا عبد الرحیم بھٹو

سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کا آپس میں کسی قسم کا مذہبی اختلاف نہیں تھا، ایمان میں دونوں برابر تھے۔

سیدنا عثمانؓ کے دورِ خلافت میں یہودیوں اور خارجیوں کی سازشوں کی وجہ سے اسلامی مملکت میں بہت فتنہ و فساد ہوا۔ سبائی جماعت نے سازش کے تحت مدینہ منورہ میں جمع ہونا شروع کردیا اور دارالخلافہ کا گھیراؤ کرکے امیرالمؤمنین سیدنا عثمانؓ کو شہید کرنے کی کوشش کی۔ جب سیدنا علیؓ نے دیکھا کہ سیدنا عثمانؓ کو سخت خطرہ ہے تو ان کی حفاظت کے لئے اپنے دونوں صاحبزادوں سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کو ان کے دروازے پر پہرے کے لئے کھڑا کردیا۔ اسی طرح دیگر صحابہ کرامؓ نے بھی اپنے اپنے فرزندوں کو اس اہم کام پر مامور فرمایا لیکن بلوائیوں نے پیچھے سے دیوار پھاند کر امیرالمؤمنین سیدنا عثمانؓ کو شہید کردیا۔ جب سیدنا علیؓ کو ان کی شہادت کا علم ہوا تو بہت غمگین ہوئے۔

وَقَالَ لِاِبْنَیْہِ کَیْفَ قُتِلَ اَمِیْرُ المؤمِنِیْنَ وَانتما علی الباب؟ وَلَطَم الحسن وضرب صدر الحسین۔ 

اور اپنے دونوں فرزندوں سے فرمایا کہ امیرالمؤمنین کو کیسے شہید کیا گیا؟ حالانکہ تم دونوں دروازوں پر موجود تھے (یہ کہہ کر) سیدنا حسنؓ کو تھپڑ اور سیدنا حسینؓ کے سینے پر ہاتھ مارا۔

مروج الذہب للمسعودی جلد3صفحہ340 ذکر ذی النورین عثمانؓ عکس صفحہ 336

 قارئین کرام! سیدنا عثمانؓ کی شہادت میں عبداللہ بن سباء یہودی کا بڑا ہاتھ تھا اِسی یہودی کی سازش کی وجہ سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان جنگیں ہوئیں۔ اس میں بہت سے مسلمان شہید ہوگئے۔ جنگِ جمل اور جنگِ صفین اسی سازش کا نتیجہ تھیں۔

جنگِ صفین کے بعد مسلمانوں میں زبردست انتشار پیدا ہوگیا اور اسلامی مملکت میں فساد پھوٹ پڑا۔ سیدنا علیؓ نے اس انتشار کو دور کرنے کے لئے بڑے بڑے مرکزی شہروں کے گورنروں اور سیدنا معاویہؓ کی طرف خطوط لکھے، جن میں اختلاف دور کرنے کی دعوت دی۔

 ہم قارئین کرام کی خدمت میں ایک خط کا مضمون پیش کرتے ہیں، جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے درمیان مذہبی اختلاف نہ تھا۔ ملاحظہ فرمائیں مندرجہ ذیل عبارت:

كان بدء أمرنا أنا التقينا والقوم من أهل الشام . والظاهر أن ربنا واحد ونبينا واحد ، ودعوتنا في الاسلام واحدة . لا ستزيدهم في الايمان بالله والتصديق برسوله صلى الله عليه وآله ولا يستزيدوننا . الامرواحد إلا ما اختلفنا فيه من دم عثمان ونحن منه براء

 ہمارا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب ہمارے اہلِ شام کے درمیان مقابلہ ہوا (بات یہ تھی) ظاہر ہے کہ ہمارا رب ایک، نبی ایک، اسلام میں ہماری دعوت ایک، ہم ایمان باللہ اور تصدیق بالرسولﷺمیں ان سے زیادہ نہیں۔ اور نہ ہی وہ ہم سے زیادہ ہیں۔ بات ایک ہی ہے ہمارا اختلاف سیدنا عثمانؓ کے خون میں تھا۔ حالانکہ ہم اس سے بری ہیں۔

(نہج البلاغہ جلد2صفحہ 118 مطبوعہ مصر، ملاحظہ فرمائیں عکس صفحہ 149)

شیعہ مکتبہ شاملہ: نهج البلاغة (3/ 86)

•اس کی شرح میں مصر کے مفتی علامہ شیخ محمد عبدہ لکھتے ہیں:

اننا متحدون فی العقیدۃ و لا اختلاف بیننا الا فی دم عثمان ولا نستزیدھم ای لا نطلب منھم زیادۃ فی الایمان لانھم کانوامؤمنین

 (سیدنا علیؓ فرماتے ہیں) بیشک ہم عقیدہ میں ایک ہیں۔ ہمارے درمیان دم عثمانؓ کے علاوہ کسی قسم کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ایمان میں ان سے زیادہ ہیں۔ کیونکہ وہ بھی مؤمنین ہیں

(شرح نہج البلاغہ جلد2 صفحہ 119 مطبوعہ مصر دیکھیں عکس صفحہ 150)

• شیعوں کی معتبر کتاب قرب الاسناد میں ہے: سیدنا جعفر صادقؒ اپنے والد سیدنا محمد باقرؒ سے روایت کرتے ہیں سیدنا علیؓ اپنے مقابلین (جنگ جمل و صفین والوں) کے حق میں شرک و نفاق کی نسبت نہیں کرتے تھے بلکہ فرماتے تھے کہ : ہُمْ اِخْوَانُنَا (یعنی یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں)

(قرب الاسناد صفحہ45 مطبوعہ ایران دیکھیں عکس صفحہ199)

*مقام غور*

 اس باب سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں:

1۔ سیدنا علیؓ نے سیدنا عثمانؓ کی حفاظت کے لئے سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کو قصِر خلافت کے دروازہ پر پہرہ کے لئے کھڑا کیا۔ اس سے ان کی محبّت، اخوت اور ہمدردی کا وضح ثبوت ملتا ہے۔

2۔ سیدنا عثمانؓ کی شہادت پر سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اپنے دونوں فرزندوں کو سخت تنبیہ کی کہ دروازے پر تمہارے ہوتے ہوئے سیدنا عثمانؓ کو کیسے شہید کردیا گیا؟

3۔ سیدنا علیؓ نے سیدنا عثمانؓ کو امیرالمؤمنین بھی تسلیم کیا۔

4۔ سیدنا علی المرتضیٰؓ اپنے مقابلین کے حق میں شرک، کفر اور نفاق کی نسبت نہیں کرتے تھے بلکہ فرماتے تھے: ھُمْ اِخْوَانُنَا (یعنی یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں) جنگ صفین کے بعد سیدنا علیؓ نے جو خطبہ دیا، اس کا خلاصہ یہ ہے:

 اہلِ شام (یعنی سیدنا معاویہؓ اور ان کے ساتھی) اور ہم عقیدہ میں ایک ہیں۔ دونوں کی دعوت و تبلیغ بھی ایک ہے۔ ہم ایک دوسرے سے ایمان میں زیادہ نہیں ہیں۔ جو شامی ہمارے مقابلے میں تھے، وہ بھی مؤمنین ہیں۔ کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے۔ صرف سیدنا عثمانؓ کے خون کے بدلہ میں اختلاف تھا۔ حالانکہ ہم اس سے بَری ہیں اور اس میں ہمارا بالکل ہاتھ نہیں تھا۔

 اس خطبہ سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ جنگ مذہبی مخالفت کی بنیاد پر نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کے درمیان کوئی مذہبی اختلاف تھا۔ بلکہ یہودی اور سبائی سازش کی وجہ سے طوفان کی طرح اچانک جنگ ہوگئی۔ جنگ ختم ہونے پر ایک دوسرے کے حق میں دعائے خیر کرتے تھے۔

سیدنا علیؓ نے جب محسوس کیا کہ سبائی لوگ اس جنگ کو مذہبی رنگ دے رہے ہیں اور ہمارے درمیان مذہبی اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو آپ نے یہ خطبہ ارشاد فرما کر اس بات کو ختم کردیا۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ جن لوگوں نے سیدنا علی المرتضیٰؓ سے جنگ کی وہ مؤمن نہیں تھے۔ ان کا یہ عقیدہ اِسی طرح کمزور ہے، جیسے مکڑی کا جالا۔ اس میں بالکل کوئی وزن نہیں ہے۔ ان کے عقیدہ کے مطابق سیدنا علیؓ، رسول اللہﷺ کی طرح گناہوں سے پاک اور معصوم ہیں۔ جس طرح رسول اللہﷺکے ہر فرمان کو ماننا ضروری ہے، اِسی طرح سیدنا علیؓ کے ہر حکم کو ماننا ضروری ہے تو پھر وہ خود سیدنا علیؓ کا حکم و فیصلہ جو ان کی کتابوں میں ہے کیوں نہیں تسلیم کرتے؟ سیدنا علیؓ تو فرماتے ہیں: ہم دونوں ایک ہیں۔ ایک دوسرے سے ایمان میں زیادہ نہیں ہیں۔

 خبردار! صحابہ کرامؓ کے اختلاف پر قطعاً بحث میں نہ پڑنا چاہیئے، بلکہ ان کے ساتھ حُسنِ ظن رکھنا چاہیئے۔ کیونکہ حدیث میں ارشاد ہے:

اِخْتِلَافُ اَصْحَابِیْ رَحْمَۃٌ میرے صحابہؓ کا اختلاف (امت کے لئے) رحمت ہے۔

(مشکوٰۃ شریف)

مولانا الطاف حسین حالی نے سچ فرمایا ہے:

اگر اختلاف ان میں باہم دِگر تھا

تو بلکل مدار اس کا اخلاص پر تھا

جھگڑتے تھے لیکن نہ جھگڑوں میں شر تھا

خلاف آشتی سے خوش آیندہ تر تھا

 (مسدس حالی صفحہ30)

 میں اپنے سنی بھائیوں سے مؤدبانہ گذارش کروں گا کہ جب بھی عبداللہ بن سبا یہودی کا پیروکار، صحابہ کرامؓ کا دشمن، کوئی جاہل شیعہ یہ بحث چھیڑے تو آپ ان کو سیدنا علیؓ کا یہ خطبہ ننگی تلوار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان سے سوال کریں کہ تمہاری بات صحیح ہے یا سیدنا علیؓ کی؟ اگر سیدنا علیؓ کی بات صحیح ہے تو پھر تم لوگوں کو صحابہ کرامؓ کے بارے میں اپنی زبان کو لگام دینی ہوگی اور ان سے یہ بھی کہیں کہ کتاب نہج البلاغہ تمہارے عقیدے کے مطابق قرآن پاک کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تمہارا امام خمینی لکھتا ہے:

ہمیں فخر ہے کہ نہج البلاغہ جو قرآن کے بعد اعلیٰ ترین کتاب ہے۔ ہمارے معصوم امام سے تعلق رکھتی ہے۔

(صحیفہ انقلاب صفحہ5 از خمینی دیکھیں عکس صفحہ 162)