Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدنا ابوبکر صدیقؓ ، سیدنا علیؓ کے عقیدہ میں

  علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہ

سیدنا ابوبکر صدیقؓ ، سیدنا علیؓ کے عقیدہ میں

حدیث1: سیدنا علیؓ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

 وَكَانَ أَفْضَلَهُمْ فِي الْإِسْلَامِ كَمَا زَعَمْتَ وَانْصَحَهُمُ لِلّٰهِ وَلِرَسُولِهِ الخَلِيفَةُ الصِّدِّيقُ وَخَلِيفَةُ الْخَلِيفَةِ الْفَارُوقُ، وَلَعَمُرِي إِنَّ مَكَانَهُمَا فِي الْإِسْلَامِ لَعَظِيم وَإِنَّ الْمُصَابَ بِهِمَا لِجُرْحٌ فِي الْإِسْلَامِ شَدِيْدٌ يَرْحَمُهُمَا اللّٰهُ وَجَزَاهُمَا بِأَحْسَنِ مَا عَمِلا۔

(دیکھو شرح نہج البلاغہ از ابنِ میثم بحرانی صفحہ 486 سطر 6 مطبوعہ تہران)

ترجمہ: اے معاویہؓ جیسا کہ تو نے کہا واقعی اسلام کے اندر آنحضورﷺ کا خلیفہ صدیقؓ اور اس کا خلیفہ فاروقؓ سب سے افضل تھے اور سب سے زیادہ خدا اور رسولﷺ کے خیرخواہ تھے اور اپنی زندگی کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ ان دونوں کا درجہ اسلام میں بہت بڑا درجہ ہے، اور بلا تحقیق ان دونوں پر مصاںٔب آئیں تو اسلام میں زخم کاری آتا ہے۔ خدا ان دونوں پر رحمت کرے اور انہیں انکے نیک کاموں کا بدلہ دے۔ 

 نوٹ: اس مکتوب شریف میں سیدنا علیؓ نے جن باتوں کا اقرار فرمایا ہے زمانہ حال کے مدعیان تو لائے سیدنا علیؓ ان کے ماننے سے قاصر ہیں۔ پانچ باتیں اس مکتوب شریف کا طرۂ امتیاز ہیں-

1)سیدنا ابوبکر صدیقؓ آنحضورﷺ کے خلیفہ برحق کے تھے اور سیدنا عمر فاروقؓ ان کے خلیفہ برحق تھے۔

2)سیدنا ابوبکر صدیقؓ تمام مسلمانوں سے افضل تھے اور ان کے بعد سیدنا عمرؓ سب سے افضل تھے۔ 

3)سیدنا ابوبکر صدیقؓ خدا اور رسولﷺ کے سب سے زیادہ خیر خواہ تھے اور اسی طرح سیدنا عمر فاروقؓ بھی تھے۔

4)دین اسلام کے اندر سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا درجہ بہت بلند تھا اور ان کے بعد سیدنا عمر فاروقؓ اس مقام پر تھے۔

5)دین اسلام اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ میں کامل اتحاد تھا۔ یہاں تک کہ ایک کا نقصان دوسرے کا نقصان تھا۔

آپ نے مندرجہ بالا پانچ باتوں کا اقرار کرنے کے بعد دعائے رحمت کا آپ کو ہدیہ بھیجا۔ پس انصاف اور دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم جو کہ سیدنا علیؓ کے نام لیوا اور عقیدت مند ہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے حق میں مندرجہ مکتوب کی پانچ حقیقتوں کا کھلے دل سے اقرار کریں اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ پر شب و روز شکریہ کے طور پر ہدیہ رحمت بھیجا کریں۔ مگر کیا کیا جائے اور کیا لکھا جائے اور ابنائے زمانہ کی شکایت کس کے سامنے رکھی جائے کہ جس ہستی کے ذکر کے ساتھ سیدنا علیؓ ہدیۂ رحمت بھیجتے تھے آج کل کے عاشق صادق اس ہستی پر رحمت کی ضد استعمال کرتے ہیں اور اس کام کو بہشت میں داخل ہونے کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔ 

ببیں تفاوت ره از کجاست تا بکجا

سوال: بعض لوگ اس موقع پر لفظ كَمَا زَعَمْتَ کی آڑ میں یہ کہتے ہیں کہ سیدنا علیؓ کے عقائد اس طرح پر نہ تھے۔ آپ نے تو امیرِ معاویہؓ کے زعم کو بیان فرمایا ہے۔

جواب1: اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ آپ کا یہ مکتوب سیدنا امیر معاویہؓ کے ایک مکتوب کا جواب ہے جو مندرجہ بالا صفحہ سے پہلے صفحہ پر مرقوم ہے۔ لیکن سیدنا علیؓ کے مکتوب شریف میں غور کرنے سے واضح جاتا ہے کہ آپ سیدنا امیر معاویہؓ کے مکتوب کی بعض چیزوں کی تصدیق کر رہے ہیں اور بعض چیزوں کی تردید فرما رہے ہیں۔ دیکھو سیدنا امیر معاویہؓ نے اپنے مکتوب میں حسد کا ذکر کیا ہے مگر سیدنا علیؓ نے جواب میں فرمایا کہ میں نے حسد نہیں کیا۔ نیز امیر معاویہؓ نے بیعت سے تخلف کا ذکر کیا ہے مگر سیدنا علیؓ نے اس کی بھی تردید کی ہے۔ حضراتِ شیخینؓ کی افضلیت قابل تردید نہ تھی اس لیے تصدیق کر دی ہے۔ بلکہ جوابی مکتوب میں جو لفظ كَمَا زَعَمْتَ تحریر فرمایا ہے تو اس سے غرض یہ ہے کہ اے معاویہؓ شیخینؓ کی افضلیت کا جو یقین مجھے حاصل ہے وہ تجھے حاصل نہیں ہے۔ تیرے پاس تو گمان ہی گمان ہے اور تیرا علم محض ظن ہے۔ ان کی افضلیت کا یقین ہمارے پاس ہے۔ اسی واسطے میں ان کے طریق اور روش پر مضبوطی سے قائم ہوں اور تم ان کے طریق پر عمل پیرا نہیں ہو۔ 

جواب2: سیدنا امیر معاویہؓ کے مکتوب میں سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کے لئے صدیق اور فاروق دونوں القاب موجود نہیں ہیں۔ سیدنا علیؓ نے ان القاب کا اضافہ کیا ہے۔ یہ اضافہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سیدنا علیؓ افضلیت کے عقیدہ میں امیر معاویہؓ سے بہت آگے ہیں۔ اور اگر ناظرین سیدنا علیؓ کے جملہ قسمیہ اور اس کے دونوں جوابات قسم کو غور سے دیکھیں گے تو انہیں اس بات کا حق الیقین ہوجائے گا کہ افضلیت کا عقیدہ سیدنا علیؓ کا خاص عقیدہ مکتوب الیہ کی ترجمانی یا الزام کے قبیل سے نہیں کیونکہ سیدنا امیر معاویہؓ کے مکتوب میں جملہ قسمیہ اور اس کے دونوں جوابات سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔

حدیث2: سیدنا علیؓ کے ایک اور مکتوب کا اقتباس ملاحظہ ہو:

ثُمَّ إِنَّ الْمُسْلِمِينَ مِنْ بَعْدِهِ اسْتَخْلَفُوا اَمِيرَيْنِ مِنْهُمْ صَالِحَيْنِ فَعَمِلَا بِالْكِتَٰبِ وَالسُّنَّةِ وَاحْسَنَا السِيْرَةَ وَلَمْ يَعُدُ والسُّنَةَ ثُمَّ تُوفّيَا رَحَمِهُمَا اللهُ۔

(شرح حدیدی،نہج البلاغہ جلد اوّل جزو ششم صفحہ 295)

ترجمہ: پھر آنحضورﷺ کے بعد تمام مسلمانوں نے یکے بعد دیگرے دو بزرگوں کو خلیفہ مقرر کیا جو نہایت نیک کردار تھے۔ پس ان دونوں نے قرآن اور سنت رسولﷺ پر عمل کیا اور طرزِ حکومت کو خوبصورت بنایا اور طریقۂ رسولﷺ سے ذرہ بھر تجاوز نہ کیا۔ اس کے بعد فوت ہوئے۔ خدا تعالیٰ ان دونوں پر اپنی رحمت نازل کرے۔

نوٹ: سیدنا علیؓ نے اپنے اس مکتوب شریف میں بھی پانچ باتوں کا اعتراف کیا ہے۔

1)تمام مسلمانوں نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو خلیفہ منتخب کیا۔ آپ پر اجماع مکمل ہوا تھا۔

2)سیدنا ابوبکر صدیقؓ صالح تھے۔ صلاحیت دو قسم کی ہے۔ ایک خود نیکو کار ہونا دوسرے خلافت کے لائق ہونا۔ یہ صفت دونوں قسموں کو شامل ہے۔

3)قرآن و حدیث پر آپ نے عمل کیا۔ اور عمل جب ہی ہوسکتا ہے کہ علم ہو۔ پس اس فقرہ میں سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے قرآن وحدیث کے عالم اور عامل ہونے کا اقرار فرمایا ہے۔

4)صدیقی طرزِ حکومت نہایت اچھی تھی۔ پس جو لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں وہ سیدنا علیؓ کےخلاف کرتے ہیں۔ سیدنا علیؓ اس حکومت کے حق میں تھے۔

5)صدیق اکبرؓ نے سنتِ رسولﷺ سے ذرہ بھر تجاوز نہ کیا۔ پس جو لوگ کہتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ کی وفات کے بعد سیدنا علیؓ نے سیرت شیخینؓ پر عمل پیرا ہونے سے انکار کر دیا تھا بالکل غلط ہے کیونکہ جب سیدنا علیؓ اقرار کر رہے ہیں کہ حضراتِ شیخینؓ نے سنت رسولﷺ سے ذرہ بھر تجاوز نہ کیا تھا تو پھر

 سیرت شیخینؓ اور سنت رسولﷺ ایک ہی چیز ہوگئی اور ایک کے انکار کو دوسری کا انکار لازم ہوگیا۔ اس صورت میں اگر سیدنا علیؓ سیرت شیخینؓ کا انکار کرتے ہیں تو سنتِ رسولﷺ کا انکار بلا توقف لازم آتا ہے۔ اور یہ وہ چیز ہے جس کا تصور بھی سیدنا علیؓ کے عقیدت مند نہیں کر سکتے۔

حدیث3: سیدنا علیؓ کے خطبے کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے:

 ثمَّ اسْتَخْلَفَ النَّاسُ أَبَا بَكْرِ ثُمَّ اسْتَخْلَفَ أَبُوبَكْرٍ عمر وَ اَح٘سَنَا السّيرَةَ وَعَدَ لاَ فِی الْاُمّةِ۔

(دیکھو ناسخ التواریخ جلد سوم از کتاب دوم صفحہ241)

ترجمہ: پھر تمام لوگوں نے سیدنا ابوبکرؓ کو خلیفہ بنایا اسکے بعد سیدنا ابوبکرؓ نے سیدنا عمرؓ کو خلیفہ بنایا۔ ان دونوں نے طرزِ حکومت کو نہایت اچھا بنایا اور امت میں انصاف اور عدالت کو قائم کیا۔

نوٹ: سیدنا علیؓ نے اس خطبے میں دو باتوں کا اقرار کیا۔ ایک تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے طرزِ حکومت کی اچھائی کا اور دوسرا نکا امت میں عدالت قائم کرنے کا اگر کوئی شخص ان دونوں باتوں میں غور کرے تو مقامِ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی حقیقت سے واقف ہوسکتا ہے۔

حديث4: وَقَالَ عَلىٌ وَالزُّبَيْرُ مَا غَضِبْنَا إِلَّا فِي الْمَشْوَرَةِ وَإِنَّا لَنَرَىٰ أبا بكر حَقَّ النَّاسِ بِهَا إِنَّهُ لَصَاحِبُ الْغَارِ وَثَانِيَ اثْنَيْنِ وَإِنَّا لَنعْرِفُ لَهُ سِنَهُ وَلَقَدْ أَمَرَهُ رَسُولُ اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بالصلوٰة وَهُوَ حَىٌ۔

(دیکھو حدیدی شرح نہج البلاغہ جلد اول جزو ششم 293)

ترجمہ : سیدنا علیؓ اور سیدنا زبیرؓ نے کہا۔ ہماری شکر رنجی محض مشورہ کی وجہ سے ہے اور ہم یقیناً جانتے ہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ سب سے زیادہ خلافت کے حق دار ہیں اس لئے کہ وہ صاحبِ غار اور ثانی اثنین ہیں۔ اور یقیناً وہ عمر میں بھی بڑے ہیں۔ اور خدا کے رسولﷺ نے اپنی زندگی میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا۔

نوٹ: اس حدیث سے اس شکر رنجی کی وجہ واضح ہوگئی۔ جو بعض روایات میں آئی ہے اور جس کو بعض لوگ بڑے طمطراق سے عوام میں بیان کرتے رہتے ہیں اور دعوے کرتے ہیں کہ اس ناراضگی کی وجہ اپنا استحقاق خلافت ہے۔ الحمد للّٰہ کہ خود سیدنا علیؓ نے واضح کر دیا کہ ہماری شکر رنجی اس واسطے نہیں کہ ہم خلافت کے مستحق ہیں اورسیدنا ابوبکرؓ خلافت کے اہل نہیں ہیں بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارے مشورے کے بغیر انتخاب خلیفہ کیوں ہوا ہے؟ انتخاب خلیفہ کے وقت ہم بھی موجود ہوتے اور سب سے پہلے بیعت کرنے والے ہم ہوتے۔ اس چیز کے فوت ہو جانے کا غم تھا۔ جو سیدنا علیؓ اور سیدنا زبیرؓ کے ملال خاطر اور شکر رنجی کا باعث تھا۔ اسی چیز کو واضح کرنے کے لئے ارشاد فرمایا کہ ہم خلافت کا حق دار سیدنا ابوبکرؓ کو جانتے ہیں۔ اور دو عدد گواہ بھی پیش کر دیئے۔

 پہلا گواہ: اس صفت کو بنایا جو آیت غار میں خدا تعالیٰ نے ثانی اثنین کی صورت میں نازل فرمائی تھی۔ 

دوسرا گواہ:اس امامت نماز کو بنایا جو خدا کے رسولﷺ کے حکم سے آپ کی زندگی میں عمل میں آئی تھی۔ 

حدیث5: سیدنا علیؓ خدا تعالیٰ کے دربار میں اپنے عقائد حقہ پیش کر کے دعا مانگ رہے ہیں:

 اللَّهُمَّ إِنِي اُشْهِدُكَ وَكَفَىٰ بِكَ شَهِيدًا فَا شُهَدلِیْ أَنَّكَ رَبِّي وَأَنْ مُحَمَّد صلى اللّٰه عليه وسلم رَسُولُكَ نَبِيَّ وَالْأَوْصِيَاءُ مِنْ بَعْدِهِ اَںِٔمَّتِي۔

(دیکھو صحیفہ علویہ مطبوعہ نجف اشرف صفحہ 37)

 ترجمہ: خدایا میں تجھے گواہ بناتا ہوں اور تیری گواہی کافی ہوتی ہے۔ پس تو اس بات پر گواہ ہو جا کہ تو میرا رب ہے اور اس بات پر بھی گواہ ہو جا کہ محمد جو کہ تیرا رسول ہے وہ میرا پیغمبر ہے اور اس بات پر بھی گواہ ہو جا کہ آپ کے بعد جو جانشین ہوئے ہیں وہ میرے امام ہیں۔

نوٹ: اس حدیث میں جہاں سیدنا علیؓ نے خدا کے رب ہونے اور حضورﷺ کے پیغمبر ہونے کا قرار کیا ہے وہاں آپﷺ کے جانشینوں کو اپنا امام تسلیم کیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ان جانشینوں میں پہلا نمبر سیدنا صدیقِ اکبرؓ، ابوبکر بن ابی قحافہؓ کا ہے۔ پس ان کو بھی امام تسلیم کر لیا گیا۔ میرے خیال میں سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی تعریف کی انتہاء کر دی ہے انہیں وصی نبی اور امام خلق تسلیم کر لیا۔ 

سوال: بعض لوگ اس استدلال کے جواب میں کہتے ہیں کہ اس دعا میں جانشینوں سے مراد وہ گیارہ امام ہیں جو سیدنا علیؓ کی نسل سے ہوئے ہیں۔

جواب1: وہ گیارہ امام چونکہ سیدنا علیؓ کے بعد ہوئے ہیں اس لئے من بعدہٖ کی جگہ مِن بَعْدِی ہونا چاہیے تھا۔ ضمیر غائب محاورہ کے خلاف ہے۔ پس ضمیر غائب کا وجود اس جواب کو بے کار کر رہا ہے۔

 جواب2:اس دعا میں لفظ اَںِٔمَّۃَ کی اضافت یائے متکلم کی طرف اعلان کر رہی ہے کہ وه جانشین گیارہ امام نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ سیدنا علیؓ ان کے امام ہیں اور وہ مقتدی ہیں۔ کوئی عقلمند آدمی یوں نہیں کہہ سکتا کہ سیدنا علیؓ کے گیارہ بیٹے آپ کے امام ہوئے ہیں اور آپ ان کے مقتدی تھے۔

⁶- حدیث: کسی شخص نے سیدنا باقرؒ سے پوچھا: جَعَلَنِي اللّٰهُ فِدَاكَ أَرَمَيْتُ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ هَلْ ظَلَمَا كُم مِّنْ حَقِكُمُ شَيْئًا أَوْ قَالَ ذَهَبًا مِنْ حَقِكُمْ شَيْئًا فَقَالَ لَا وَالَّذِي أَنْزَلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعٰلَمِينَ نَذِيرًا مَا ظُلِمُنَا مِنْ حَقّنَا مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَنَا تَوَلَّاهُمَا قَالَ نَعَمُ وَيُحَكَ تَوَلَّا هُمَا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا أَصَابَكَ فَفِي عُنْقِى، ثُم قال فعل اللّٰه بِالْمُغِيرَةِ وَبُنَانِ فَإِنَّهُمَا كَذَبَا عَلَيْنَا أَهْل الْبَيْتِ۔

(دیکھو حدیدی نہج البلاغہ جلد دوم صفحہ 296)

ترجمہ:خدا مجھے آپ پر قربان کرے۔ ابوبکر و عمر کے بارے بتلائیے کیا انہوں نے آپ لوگوں کے حقوق میں سے کوئی چیز چھین لی ہے؟ سیدنا باقرؒ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ اس کی قسم جس نے اپنے بندے پر قرآن اتارا تاکہ تمام جن و انس کے لئے ڈرانے والا ہو۔ ہمارے حقوق میں سے راںٔی کے دانہ کے برابر بھی کوئی چیز نہیں لی گئی۔ پوچھنے والے نے عرض کیا میں ان دونوں سے دوستی رکھوں؟ سیدنا باقرؒ نے فرمایا ہاں اے میرے پیارے ان دونوں سے دنیا و آخرت میں دوستی رکھ۔ اور اگر اس کی وجہ سے تجھ پر کوئی مصیبت آئے تو وہ میری گردن پر۔ مراد یہ ہے کہ میں دنیا و آخرت میں ذمہ دار ہوں۔ اس کے بعد سیدنا باقرؒ نے فرمایا خدا تعالیٰ مغیرہ اور بنان کو ہلاک کرے کیونکہ ان دونوں نے ہم اہلِ بیتؓ پر جھوٹ باندھے ہیں۔

نوٹ: سیدنا باقرؒ کی اس حدیث میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی پاک دامنی کس وضاحت سے بیان کی گئی ہے۔ سوال کرنے والا وہ شخص ہے جو سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے حسنِ ظن نہیں رکھتا۔ اس کے دل میں ان کی کوئی عزت نہیں ہے ۔ اس سوء ظن کی وجہ وہ خود بیان کرتا ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ نے آپ کے حقوق غصب کر لئے تھے۔ سیدنا باقرؒ نے قرآن اتارنے والے کی قسم کھا کر جواب دیا کہ یہ بات غلط ہے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے ہمارے حقوق میں سے کوئی ادنیٰ حق بھی غصب نہیں کیا۔ خدا کی قسم ہی کافی تھی مگر آپ نے قرآن کے نزول کا ذکر اس لئے فرمایا کہ یہ سچائی میں ضرب المثل ہے اور اس طریق سے آپ سائل کے دل سے بغض صدیقی کو دور کرنا چاہتے تھے۔ خدا کو ہی معلوم ہے کہ اس سائل کے دل سے بلا دور ہوئی یا نہ مگر حقیقت ہے کہ سیدنا باقرؒ نے سائل کے دل کی صفائی میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ بھلا اس سے زیادہ کیا ہوسکتا تھا کہ جو گناہ ہوگا وہ میری گردن پر ہوگا۔ آخر میں سیدنا باقرؒ نے وہ راز کھول دیا جو سائل کے علم میں نہ تھا۔ فرمایا کہ اس قسم کی روایات مغیرہ اور بنان کے ذریعہ سے پھیل رہی ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں ہم پر جھوٹ باندھتے ہیں۔

حدیث7: ایک اعرابی نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے عرض کیا:

اَلَسْتَ امرتَنِي أَنْ لَا أَتَامَرَ عَلَىٰ اثْنَيْنِ قَالَ بَلَىٰ قَالَ فما بالك فقال ابوبكر لم اجدها احدا غیری احق منى قال ثم رفع ابوجعفر الباقرَ يَدَيْهِ وَخَفَضَهُمَا فَقَالَ صَدَقَ صَدَقَ۔

(دیکھو حدیدی شرح نہج البلاغہ جلد اول جزو ششم صفحہ 291)

ترجمہ: کیا تو نے مجھ سے کہا نہیں تھا کہ دو آدمیوں پر بھی حاکم نہ ہوں؟ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا کہ ہاں میں نے اسی طرح کہا۔ پس اعرابی نے کہا کہ پھر تو کیوں حاکم بن بیٹھا؟ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا کہ ہاں حکومت اس لئے قبول کی کہ میرے بغیر کوئی شخص اس کے لائق نہ تھا۔ راوی کہتا ہے کہ جب محمد باقر اس موقعہ پر پہنچے تو اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے اور فرمایا کہ ابوبکر نے سچ کہا ابوبکر نے سچ کہا۔

نوٹ: سیدنا محمد باقر اس روایت کے راوی ہیں۔ جب سیدنا ابوبکرصدیقؓ کے جواب پر پہنچے ہیں تو اس کی تصدیق کے لئے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر دیئے ہیں گویا خدا تعالیٰ کو سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی صداقت پر گواہ بنا رہے ہیں۔ پس سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے جو فرمایا کہ پیغمرﷺ کی خلافت کے لیے کوئی شخص مجھے زیادہ لائق نہ تھا۔ سیدنا محمد باقر نے اس بات کی سچائی پر خدا کو گواہ بنایا اور افضلیت صدیقؓ پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔

حدیث8: سیدنا علیؓ نے ابوسفیان سے خطاب کیا: أمْسِكْ عَلَيْكَ ، فَإِنَّا رَںٔيْنَا أَبَابَكْرِ لَهَا أَهْلاً۔

(ملاحظہ کیجیئے حدیدی شرح نہج البلاغہ جلد اول جزو ششم صفحہ 291)

ترجمہ: اے ابوسفیان اس بات سے باز رہ اس لئے کہ ہم نے ابوبکر کو خلافت کے لائق جانا ہے۔

نوٹ: ابوسفیان صاحب سیدنا علیؓ کو مشورہ دے رہے تھے کہ آپ خلافت کے لئے کھڑے ہو جائیں میں آپ کی ہر ممکن طریق سے امداد کروں گا۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ خاموش ہو جاؤ۔ میں اس مشورہ کو قبول نہیں کرتا کیونکہ ہم نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو خلافت کے لائق جان کر اس کے ہاتھ پر بیعت کی کی ہے۔

حدیث9: سیدنا علیؓ نے فرمایا :

 لَو لَا اَنَّا رَںٔیْنَا اَبَابَکْرِ لَھَا اَھْلاً لَمَا تركناهُ۔ 

(ملاحظہ کیجیئے حدیدی شرح نہج البلاغہ جلد اول جزو دوم صفحہ 74)

ترجمہ: اگر ہم سیدنا ابوبکرؓ کو خلافت کے لائق نہ جانتے تو اسے اس مقام پر ہرگز نہ چھوڑتے۔

 نوٹ: سیدنا علیؓ کی بہادری اور شجاعت کا تقاضا یہی ہے جو آپ کے اس ارشاد سے ظاہر ہو رہا ہے۔ اکراہ اور اضطرار اور مجبوری سب کے سب آپ کی شان کے مناسب نہیں ہیں۔ دعا ہے کہ خدا تعالیٰ مدعیان محبت کو معرفت عطا کرے آمین یا رب العالمین۔

حدیث10: حضور اکرمﷺ اپنے صحابہ کرامؓ کے مجمع میں ہمیشہ فرمایا کرتے۔ اثناء عشریہ کے ہاں یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔

مَاسَبَقَكُمُ ابُوبَكْرٍ بِصَوْمٍ وَلَا صَلَوٰةٍ وَلَكِن بِشَيْ وَقَرَ فِي صَدْرِہ۔

(تاریخ کی مشہور و معروف کتاب مجالس المؤمنین مطبوعہ تہران صفحہ 88 سے مطالعہ کریں)

 ترجمہ: تم لوگوں سے ابوبکر صدیق نے جو ترقی کی ہے تو وہ نماز و روزہ کی وجہ سے نہیں کی لیکن وہ تو ایک ایسی چیز کی وجہ سے ہے جس سے اس کا دل بھرا پڑا ہے۔

قاضی نور اللہ شوستری بڑے محقق اور سخت متعصب گزرے ہیں۔ وہ اپنی مندرجہ بالا کتاب میں اقرار کرتے ہیں کہ یہ حدیث ایسی ہے جس کو آنحضورﷺ ہمیشہ بیان فرمایا کرتے تھے۔ اس حدیث کے صحیح اور مستند ہو جانے کے بعد اس کے معنیٰ اور مقصود میں کلام کرنا چاہیئے۔ سو راقم الحروف کے نزدیک اس حدیث میں جس چیز سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے دل کو بھرا ہوا بتلایا گیا ہے وہ معرفتِ الٰہی اور عشقِ رسولﷺ ہے۔ جیسا کہ علامہ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے کہا ہے ہے

پروانے کو ہے شمع تو بلبل کو پھول بس 

 صدیقؓ کے لئے ہے خدا کا رسولﷺ بس 

مطلب یہ ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ نماز و روزہ کی وجہ سے تم لوگوں پر سبقت نہیں لے گئے بلکہ وہ اس عشق اور معرفت کی وجہ سے تم پر سبقت لے گئے ہیں جس سے ان کا دل لبریز ہے۔ اس حدیث میں سبقت سے مراد وہ عزت ہے جو سیدنا صدیق اکبرؓ کو خدا کے رسولﷺ کے یہاں تھی۔ آنحضورﷺ نے تمام صحابہؓ پر واضح کر دیا کہ میرے یہاں سیدنا ابوبکرؓ کی عزت اس معرفتِ الٰہی کی وجہ سے ہے جس سے اس کا دل بھر پور ہے۔ قلب صدیقؓ کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں غیر اللہ کے لئے کچھ گنجائش ہو۔ حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے:

 خانۂ خالی نما تا منزل جاناں شود

 کیں ہوسنا کاں دل و جاں جائے دیگر مے کنند 

بعض علماء نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حب ریاست یعنی سردار بننے کی محبت سے سیدنا ابوبکرؓ کا دل بھرا ہوا تھا ۔ مگر راقم الحروف کہتا ہے کہ جس وقت اور جن حالات میں سیدنا ابوبکرؓ نے مال و جان خدا کی راہ میں قربان کئے ہیں اور آباؤ اجداد کے اموال اور جائداد اور وطن عزیز سے اپنے آپ کو علیحدہ کیا ہے اس وقت تک تو سرداری کا تصور بھی کسی کے ذہن میں نہیں آسکتا تھا۔ سیدنا ابوبکرؓ کا دل اس چیز سے کیسے بھر گیا ہوا تھا؟

نیز حبّ ریاست کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے کوئی آدمی خدا کے پیغمبرﷺ کے یہاں معزز اور مکرم ہو جائے اگر رسول اللہﷺ کو علم ہوجاتا کہ سیدنا ابوبکرؓ میرے ساتھ دنیاوی سرداری کے واسطے لگا ہوا ہے تو اسی وقت علیحدہ کر دیتے کیا اہلِ علم کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ ازواجِ مطہراتؓ نے آنحضورﷺ سے کسی دنیاوی چیز کی طلب کی تھی۔ فوراً آپﷺ نے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ پورا مہینہ ازواجِ مطہراتؓ سے کلام نہ فرمایا۔ سورۃ احزاب میں خدا تعالیٰ نے پورا رکوع نازل فرمایا۔ جس کی ابتداء یوں ہے:

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًاالقرآن 

ترجمہ:اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہو کہ : اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ تحفے دے کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں۔

(سورۃ الاحزاب آیت 28)

دین اسلام کے اندر طلاق اضطراری حالات میں جائز قرار دی گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ آنحضورﷺ کے سامنے ذکر دنیا ہی اضطرار کا باعث ہوگیا اور طلاق دینے پر آمادہ ہوگئے۔ شریعتِ محمدیﷺ میں طلاق کے موقعوں پر جوڑا کپڑوں کا دینا ضروری ہوتا ہے۔ اسی کو خدا تعالیٰ کے پیغمبرﷺ نے خوبصورت روانگی سے تعبیر کیا۔ مقامِ غور ہے کہ جو پیغمبرﷺ ذکر دنیا سے اس قدر نفرت رکھتا ہے وہ کسی محبت ریاست اور سرداری کے امیدوار کو رفیق زندگی بلکہ رفیقِ دارین کیسے بنا سکتا ہے۔

حدیث11: سیدناجعفر صادقؒ سے مروی ہے ۔ آپ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا سلمان فارسیؓ اور سیدنا ابوذر غفاریؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا مَنْ أَزْهَدٌ مِنْ هُؤُلاء(فروع الکافی جلد دوم کتاب المعیشۃ صفحہ 4 پر ایک طویل حدیث ہے)یعنی مذکور بالا تینوں بزرگوں سے زیادہ تارکِ دنیا کون ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ سیدناجعفر صادقؒ نے جو سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے زہد اور تارکِ دنیا ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ تو حدیث 10 کی تشریح میں جو معنی راقم الحروف نے بیان کئے ہیں ان کی حقانیت بھی واضح ہو گئی۔

حدیث12: قَالَ علیؓ لَمَّا قُبِضَ النَّبِيُّﷺ نَظَرْنَا فِي اَمْرِنَا فَوَجَدْنَا النَّبِیَّﷺ قَدْ قَدَمَ اَبَابَکَر فِی الصّلوٰۃ فَرَضَیْنَا لِدُنْیَانَا مَنْ رَضِيَ رَسُولُ اللہﷺ لِدِينِنَا فَقَدَمْنَا أَبَابَكْر۔

(دیکھو طبقات ابنِ سعد مطبوعہ بیروت جلد سوم صفحہ 183)

ترجمہ: سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ کی روح مبارک قبض کرلی گئی تو ہم نے حکومت کے بارے میں سوچا پس آپﷺ نے جو سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو نماز کے لئے آگے کیا تھا وہ یہیں اس باب میں راہ نما دستیاب ہوگیا۔ اور خدا کے رسولﷺ نے جس شخص کو ہمارے دین کا پیشواء بنایا تھا ہم نے اس کو اپنی دنیا کا پیشواء بنالیا اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو امام اور سربراہ بنالیا۔

سیدنا علیؓ کی اس حدیث شریف میں غور کرنے سے معلوم ہے ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک مرضِ وفات نبیﷺ میں امامت سیدنا ابوبکرؓ با ارشاد پیغمبرﷺ تھی اور خلافت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی زبردست دلیل تھی۔ اور یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ سیدنا علیؓ اس دلیل کے دریافت کرنے میں تنہاء نہیں ہیں بلکہ تمام بنو ہاشم اس چیز میں آپ کے ساتھ متفق ہیں۔ یہاں سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ بیعت سیدنا ابوبکرؓ سے تخلف کے قصے صحیح نہیں ہیں۔ نہ خود سیدنا علیؓ نے بیعت 

ابوبکرؓ میں پس و پیش کی اور نہ ہی باقی بنو ہاشم نے لیت و لعل سے کام لیا۔

حدیث13: عَنْ عَلي بن أبي طالب عَلَيْهِ السَّلَامُ إِنَّهُ قِيلَ لَهُ الَا تُوصِى؟ قاَلَ مَا اَوْصیٰ رَسُولُ اللّٰه صَلَّى اللّٰه علیه وسلم فَاُوْصِیْ ولكن إنْ اَرَادَ اللّٰه خَيْرًا فَسَيَجْمَعُهُمْ عَلَىٰ خَيْرِهِمْ كَمَا جَمَعَهُمُ بَعْدَ نَبِيهِم علی خَیْرِھِمْ۔

(دیکھو شافی شریف مرتضٰی علم الہدیٰ مطبوعہ تہران صفحہ 171)

ترجمہ:سیدنا علیؓ سے عرض کیا گیا کیا آپ اپنا خلیفہ نامزد فرماتے؟ آپ نے جواب دیا کہ خدا کے رسولﷺ نے نامزد نہیں کیا تو میں کیسے نامزد کروں۔ لیکن اگر خدا تعالیٰ مسلمانوں کے حق میں بھلائی کا ارادہ کریگا تو ان کو اپنے میں سے بہترین آدمی پر متفق بنادے گا جیسا کہ نبی کریمﷺ کے بعد تمام مسلمانوں میں سے بہترین آدمی پر انہیں اجتماع عطاء کر دیا تھا۔

نوٹ: یہ حدیث بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ان کے افضل ہونے پر دلالت کر رہی ہے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدنا علیؓ نے بھی اپنے فرزند ارجمند سیدنا حسنؓ کو نامزد نہیں کیا تھا اگرچہ لوگوں میں اس کے خلاف مشہور ہے۔

حدیث14: وروىٰ أبو حجيفة و مُحمّد بِنْ عَلِیّ وَعَبْدُ خَيْرٍ وَسُوَيدُ بِنْ غَفْلَۃَ وَاَبُوْ حُكيمَةَ وَغَيْرُهُمْ وَقَدْ قِيلَ إِنَّهُمُ ارْبَعَةَ رَجُلًا إِنَّ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَامُ قَالَ فِي خُطْبَتِهِ خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِیّهَا أَبُو بَكْرٍ وَعُمَر۔

(شافی سید مرتضیٰ علم الہدیٰ مطبوعہ تہران کے صفحہ 171 پر مرقوم ہے )

ترجمہ: ابو حجیفہ اور محمد بن علی اور عبد خیر اور سوید بن غفلہ اور ابو حکیمہ اور ان کے علاؤہ اور بھی بہت سے راوی روایت کرتے ہیں، کہا گیا ہے کہ وہ چودہ عدد راوی ہیں۔ کہ سیدنا علیؓ نے جمعہ کے خطبے میں ارشاد فرمایا اس امت میں نبی کریمﷺ کے بعد سب سے افضل ابوبکر صدیقؓ پھر عمر فاروقؓ ہیں۔

نوٹ: یہ حدیث اسی طرح صفحہ 428 پر بھی دیکھی جاسکتی ہے۔

حدیث15: خدا کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا :

أول دِينِكُمْ نُبُوَّةً وَرَحْمَةٌ وَمُلْكٌ وَرَحْمَةٌ ثُمَّ مُلْكٌ وَجَبَرُوْتٌ۔

 ترجمہ: تمہارے دین کا پہلا زمانہ نبوت اور خدا کی رحمت کا زمانہ ہے اس کے بعد بادشاہت اور خدا کی رحمت کا زمانہ ہوگا پھر اس کے بعد بادشاہت اور زبردستی کا زمانہ ہوگا۔

نوٹ:اس حدیث میں آنحضورﷺ نے اپنے مقدس زمانے کے بعد آنے والے زمانوں کے بارے پیشین گوئی فرمائی جو حرف بحرف پوری اتری۔ فرمایا میرا زمانہ تو نبوت اور رحمت کا زمانہ ہے۔ جب میں دنیا سے رخصت ہوجاؤں گا تو مسلمانوں کو بادشاہت کے ساتھ خدا کی رحمت شامل حال ہوگی۔ جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں اس زمانہ کی حد بندی کر کے فرمایا:الْخِلَافَةُ بَعْدِی ثَلٰثُوْنَ سَنَةً میری خلافت میرے بعد تیس برس تک ہوگی

حديث الخلافة في امتى ثلٰثون سنة کو امام احمد اور ترمذی(جامع ترمذی )نے سیدنا سفینہؓ سے روایت کیا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا:ثم ملك بعد ذٰلك(اس کے بعد بادشاہت ہو جائےگی) اس میں راوی سعید بن جمہان پر محدثین کو کلام ہے، مگر حدیث حسن کے درجہ سے نہیں گرتی اور ابنِ حبان نے تو اسے صحیح قرار دیا ہے۔

(فتح الباری جلد 3 صفحہ 183اسے امام نسائی نے بھی روایت کیا ہے،عون المعبود جلد 4 صفحہ 343)

سیدنا امیر معاویہؓ کی خلافت ان تیس سال کے بعد شروع ہوئی، لیکن ان کی حکومت ان تیس سال کے اندر سے شروع ہوئی اور ظاہر ہے کہ ان کا اندازِ حکومت ایک سا رہا ہے۔ خلیفہ بننے کے بعد عملاً اس میں کوئی تبدیلی نہیں فرمائی۔ حضورﷺ نے ثم ملك بعد ذلك میں ثم کی تراخی سے جس بادشاہت کی خبر دی ہے۔ وہ تیسرے درجہ پر ہے جو تیس سال کے بعد کسی وقت شروع ہوئی۔ اسکی ابتداء تیس سال کے اندر سے نہیں۔ یہ عبوری دورِ خلافت عادلہ کا دور تھا اور یہ بھی رحمت ہے۔ زبر دستی کی حکومت اسکے بعد قائم ہوئی ہے۔

(بنوالزرقاء(بنو مروان)کی حکومت ملوکیت میں داخل ہے۔خلافت اسے صرف لغوی معنیٰ میں کہا جاتا ہے)