صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بلند مقام
نقیہ کاظمیصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بلند مقام
اسلام محض چند اصول و نظریات اور علوم و افکار کا مجموعہ نہیں بلکہ وہ اپنے جلو میں ایک نظامِ عمل لے کر چلتا ہے، وہ جہاں زندگی کے ہرشعبے میں اصول و قواعد پیش کرتا ہے وہاں ایک ایک جزئیہ کی عملی تشکیل بھی کرتا ہے اس لیے یہ ضروری تھا کہ شریعت محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلوٰۃ وسلام کی علمی و عملی دونوں پہلوئوں سے حفاظت کی جائے اور قیامت تک ایک ایسی جماعت کا سلسلہ قائم رہے جو شریعتِ مطہرہ کے علم و عمل کی حامل اور امین ہو۔ حق تعالیٰ نے دینِ محمدی کی دونوں طرح حفاظت فرمائی، علمی بھی اور عملی بھی۔
حفاظت کے ذرائع میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت سرِ فہرست ہے، ان حضرات نے براہِ راست صاحبِ وحیﷺ سے دین کو سمجھا، دین پر عمل کیا اور اپنے بعد آنے والی نسل تک دین کو من و عن پہنچایا، انہوں نے آپ کے زیرِ تربیت رہ کر اخلاق و اعمال کو ٹھیک ٹھیک منشائے خداوندی کے مطابق درست کیا، سیرت و کردار کی پاکیزگی حاصل کی، تمام باطل نظریات سے کنارہ کش ہوکر عقائد حقہ اختیار کیے رضائے الہیٰ کے لیے اپنا سب کچھ رسول اللہﷺ کے قدموں پر نچھاور کر دیا، ان کے کسی طرزِ عمل میں ذرا خامی نظر آئی تو فوراً حق جل مجدہ نے اس کی اصلاح فرمائی، الغرض حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت اس پوری کائنات میں وہ خوش قسمت جماعت ہے جن کی تعلیم و تربیت اور تصفیہ و تزکیہ کے لیے سرور کائنات محمد رسول اللہﷺ کو معلم و مزکی اور استاد و اتالیق مقرر کیا گیا۔ اس انعامِ خداوندی پر وہ جتنا شکر کریں کم ہے، جتنا فخر کریں بجا ہے۔
لَقَدۡ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِهِمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَ الۡحِكۡمَةَ وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ۞
(سورۃ آلِ عمران: آیت، 164)
ترجمہ: بخدا بہت بڑا احسان فرمایا اللہ نے مؤمنین پر کہ بھیجا ان میں ایک عظیم الشان رسول ان ہی میں سے وہ پڑھتا ہے ان کے سامنے اس کی آیتیں اور پاک کرتا ہے، ان کو اور سکھاتا ہے ان کو کتاب اور گہری دانائی، بلاشبہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں تھے۔
آنحضرتﷺ کی علمی و عملی میراث اور آسمانی امانت چونکہ ان حضرات کے سپرد کی جا رہی تھی اس لیے ضروری تھا یہ حضرات آئندہ نسلوں کے لیے قابلِ اعتماد ہوں چنانچہ قرآن و حدیث میں جابجا ان کے فضائل مناقب بیان کیے گئے چنانچہ:
1: وحی خداوندی نے ان کے تعدیل فرمائی، ان کا تزکیہ کیا، ان کے اخلاق وللہیت کی شہادت دی اور انہیں یہ رتبہ بلند ملا کہ ان کو رسالت محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلوٰۃ وسلام کے عادل گواہوں کی حیثیت سے ساری دنیا کے سامنے پیش کیا۔
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ تَرٰٮهُمۡ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًا سِيۡمَاهُمۡ فِىۡ وُجُوۡهِهِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ذٰلِكَ مَثَلُهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ ۛوَمَثَلُهُمۡ فِى الۡاِنۡجِيۡلِ كَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطْئَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰى عَلٰى سُوۡقِهٖ يُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَـغِيۡظَ بِهِمُ الۡكُفَّارَ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِيۡمًا۞
(سورۃ الفتح: آیت، 26)
ترجمہ: محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں اور جو ایماندار آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں شفیق ہیں، تم ان کو دیکھو گے رکوع، سجدے میں، وہ چاہتے ہیں صرف اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی۔ ان کی علامت ہے ان کے چہروں میں سجدے کا نشان۔
گویا یہاں محمد رسول اللہﷺ رسول ہیں ایک دعویٰ ہے اور اس کے ثبوت میں حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت و کردار کو پیش کیا گیا ہے کہ جسے آنحضرتﷺ کی صداقت میں شک وشبہ ہو، اسے آپﷺ کے ساتھیوں کی پاکیزہ زندگی کا ایک نظر مطالعہ کرنے کے بعد خود اپنے ضمیر سے یہ فیصلہ لینا چاہیے کہ جس کے رفقاء اتنے بلند سیرت اور پاکباز ہوں وہ خود صدق وراستی کے کتنے اونچے مقام پر فائز ہوں گے کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کر دیا۔
2: حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان کو معیارِ حق قرار دیتے ہوئے نہ صرف لوگوں کو اس کا نمونہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی بلکہ ان حضرات کے بارے میںلب کشائی کرنے والوں پر نفاق و سفاہت کی دائمی مہر ثبت کردی گئی۔
وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اٰمِنُوۡا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوۡاۤ اَنُؤۡمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ اَلَاۤ اِنَّهُمۡ هُمُ السُّفَهَآءُ وَلٰـكِنۡ لَّا يَعۡلَمُوۡنَ۞
(سورۃ البقرة: آیت، 13)
ترجمہ: اور جب ان منافقوں سے کہا جائے تم بھی ایسا ہی ایمان لاؤ جیسا دوسرے لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایمان لائے ہیں تو جواب میں کہتے ہیں کیا ہم ان بے وقوفوں جیسا ایمان لائیں؟ سن رکھو! یہ خود ہی بے قوف ہیں مگر نہیں جانتے۔
3: حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بار بار رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ اللہ ان سے راضی ہوا وہ اللہ سے راضی ہوئے کی بشارت دی گئی اور امت کے سامنے اسے اتنی شدت و کثرت سے دہرایا گیا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ لقب امت کا تکیہ کلام بن گیا کسی نبی کا اسم گرامی آپﷺ کے بغیر نہیں لے سکتے اور کسی صحابی رسولﷺ کا نام نامی رضی اللہ عنہ کے بغیر مسلمان کی زبان پر جاری نہیں ہوسکتا۔
ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف ظاہر کو دیکھ کر راضی نہیں ہوا، نہ صرف ان کے موجودہ کارناموں کو دیکھ کر ان سے رضامندی کا اظہار کردیا بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ظاہر وباطن اور حال و مستقبل کو دیکھ کر ان سے راضی ہوا ہے، یہ گویا اس بات کی ضمانت ہے کہ آخر دم تک ان سے رضائے الہیٰ کے خلاف کچھ صادر نہیں ہوگا۔
اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جس سے خدا راضی ہو جائے خدا کے بندوں کو بھی اس سے راضی ہو جانا چاہیئے، کسی اور کے بارے میں تو ظن و تخمین ہی سے کہا جا سکتا ہے کہ خدا اس سے راضی ہے یا نہیں مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں تو نصِ قطعی موجود ہے اس کے باوجود اگر کوئی ان سے راضی نہیں ہوتا بلکہ ان کو بہر صورت غلط کار ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو گویا اسے اللہ تعالیٰ سے اختلاف ہے۔
اور پھر صرف اتنی بات کو کافی نہیں سمجھا گیا کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا بلکہ اسی کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ سے راضی ہوئے یہ ان حضرات کی عزت افزائی کی انتہا ہے۔
4: حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مسلک کو معیاری راستہ قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کو براہِ راست رسول اللہﷺ کی مخالفت کے ہم معنیٰ قرار دیا گیا اور ان کی مخالفت کرنے والوں کو وعید سنائی گئی۔
وَمَنۡ يُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَـهُ الۡهُدٰى وَ يَـتَّبِعۡ غَيۡرَ سَبِيۡلِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصۡلِهٖ جَهَـنَّمَ وَسَآءَتۡ مَصِيۡرًا۞
(سورۃ النساء: آیت، 115)
ترجمہ: اور جو شخص مخالفت کرے رسول اللہﷺ کی، جب کہ اس کے سامنے ہدایت کھل چکی اور چلے مؤمنوں کی راہ چھوڑ کر، ہم اسے پھیر دیں گے جس طرف پھرتا ہے اور اسے داخل کریں گے جہنم میں اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے لوٹنے کی۔
آیت میں، المومنین کا اولین مصداق اصحاب النبیﷺ کی مقدس جماعت ہے رضی اللہ عنہم، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اتباعِ نبوی کی صحیح شکل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت کو اسلام کے اعلیٰ معیار پر تسلیم کیا جائے۔
5: اور سب سے آخری بات یہ کہ انہیں آنحضرتﷺ کے سایہ عاطفت میں آخرت کی ہر عزت سے سرفراز کرنے اور ہر ذلت ورسوائی سے محفوظ رکھنے کا اعلان فرمایا گیا۔
يَوۡمَ لَا يُخۡزِى اللّٰهُ النَّبِىَّ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ ۚنُوۡرُهُمۡ يَسۡعٰى بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَبِاَيۡمَانِهِمۡ الخ۔
(سورۃ التحریم: آیت، 8)
ترجمہ: جس دن رسوا نہیں کرے گا، اللہ تعالیٰ نبی کو اور جو مؤمن ہوئے آپ کے ساتھ، ان کا نور دوڑتا ہوگا ان کے آگے اور ان کے داہنے۔
اس قسم کی بیسیوں نہیں سیکڑوں آیات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل و مناقب مختلف عنوانات سے بیان فرمائے گئے ہیں اوراس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اگر دین کے سلسلہ سند کی یہ پہلی کڑی اور حضرت خاتم الانبیاءﷺ کے صحبت یافتہ حضرات کی جماعت معاذ اللہ، ناقابلِ اعتماد ثابت ہو، ان کے اخلاق و اعمال میں خرابی نکال لی جائے اور ان کے بارے میں یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ دین کی علمی و عملی تدبیر نہیں کر سکے تو دین اسلام کا سارا ڈھانچہ ہل جاتا ہے اور خاکم بدہن۔ رسالتِ محمدیہ مجروح ہو جاتی ہے۔ دنیا کا ایک معروف قاعدہ ہے کہ اگر کسی خبر کو، رد کرنا ہو تو اس کے راویوں کو جرح و قدح کا نشانہ بناؤ، ان کی سیرت و کردار کو ملوث کرو اور ان کی ثقاہت و عدالت کو مشکوک ثابت کرو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین چونکہ دین محمدی کے سب سے پہلے راوی ہیں اس لیے چالاک فتنہ پردازوں نے جب دین اسلام کے خلاف سازش کی اور دین سے لوگوں کو بدظن کرنا چاہا تو اس کا سب سے پہلا ہدف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے چنانچہ تمام فرقِ باطلہ اپنے نظریاتی اختلاف کے باوجود جماعتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہدفِ تنقید بنانے میں متفق نظر آتے ہیں، ان کی سیرت و کردار کو داغدار بنانے اور ان کی شخصیت کو نہایت گھنائونے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی، ان کے اخلاق و اعمال پر تنقیدیں کی گئیں، ان پر مال و جاہ کی حرص میں احکامِ خداوندی سے پہلو تہی کرنے کے الزامات دھرے گئے۔ ان پر خیانت، غصب اور کنبہ پروری اقربا نوازی کی تہمتیں لگائی گئیں اور غلو و انتہا پسندی کی حد ہے کہ جن پاکیزہ ہستیوں کے ایمان کو حق تعالیٰ نے معیار قرار دے کر ان جیسا ایمان لانے کی لوگوں کو دعوت تھی۔ اٰمِنُوۡا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ الخ۔ (سورۃ البقرہ: آیت، 13) انہی کے ایمان و کفر کا مسئلہ زیرِ بحث لایا گیا اور تکفیر و تفسیق تک نوبت پہنچا دی گئی جن جانبازوں نے دینِ اسلام کو اپنے خون سے سیراب کیا تھا۔ انہی کے بارے میں چیخ چیخ کر کہا جانے لگا کہ وہ اسلام کے اعلیٰ معیار پر قائم نہیں رہے تھے حالانکہ ان مردانِ خدا کے صدق و امانت کی خدا تعالیٰ نے گواہی دی تھی۔
رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيۡهِۚ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ قَضٰى نَحۡبَهٗ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّنۡتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِيۡلًا۞
(سورۃ الاحزاب: آیت، 23)
ترجمہ: یہ وہ مرد ہیں جنہوں نے سچ کر دکھایا جو عہد انہوں نے اللہ سے باندھا، بعض نے تو جانِ عزیز تک اسی راستہ میں دے دی اور بعض بے چینی سے اس کے منتظر ہیں اور ان کے عزم و استقلال میں ذرا تبدیلی نہیں ہوئی۔
انہی کے حق میں بتایا جانے لگا کہ وہ صدق و امانت سے موصوف تھے، اخلاص و ایمان کی دولت انہیں نصیب تھی، جن مخلصوں نے اپنے بیوی بچوں کو، اپنے گھر بار کو، اپنے عزیز و اقارب کو، اپنے دوست احباب کو، اپنی ہر لذت و آسائش کو، اپنے جذبات و خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے، اس کے رسولﷺ پر قربان کر دیا تھا، انہی کو یہ طعنہ دیا گیا کہ وہ محض حرص و ہوا کے غلام تھے اور اپنے مفاد کے مقابلے میں خدا و رسول کے احکام کی انہیں کوئی پروا نہیں تھی۔ لقد جئتم شیئًا اِدّاً۔
ظاہر ہے کہ اگر امت کا معدہ ان بے ہودہ نظریات کی مردہ مکھی کو قبول کر لیتا اور ایک بار بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین امت کی عدالت میں مجروح قرار پاتے تو دین کی پوری عمارت گرجاتی قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ سے ایمان اٹھ جاتا اور یہ دین جو قیامت تک رہنے کے لیے آیا تھا ایک قدم آگے نہ چل سکتا؛ مگر یہ سارے فتنے جو بعد میں پیدا ہونے والے تھے۔ علم الہیٰ سے اوجھل نہیں تھے اس لیے اس کا اعلان تھا۔
وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوۡرِهٖ وَلَوۡ كَرِهَ الۡكٰفِرُوۡنَ۞
(سورۃ الصف: آیت، 8)
ترجمہ: اور اللہ اپنا نور پورا کر کے رہے گا خواہ کافروں کو یہ ناگوار ہو۔
یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ نے بار بار مختلف پہلوئوں سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تزکیہ فرمایا۔ ان کی توثیق و تعدیل فرمائی اور قیامت تک کے لیے یہ اعلان فرما دیا:
اُولٰٓئِكَ كَتَبَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡاِيۡمَانَ وَاَيَّدَهُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡهُ الخ۔
(سورۃ المجادلۃ: آیت، 22)
ترجمہ: یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے لکھ دیا ان کے دل میں ایمان اور مدد دی ان کو اپنی خاص رحمت سے۔
ادھر نبی کریمﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بے شمار فضائل بیان فرمائے بالخصوص خلفائے راشدین، سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ، سیدنا علیؓ کے فضائل کی تو انتہا کر دی، جس کثرت و شدت اور تواتر و تسلسل کے ساتھ آنحضرتﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل و مناقب ان کے مزایا خصوصیت اور ان کے اندرونی اوصاف و کمالات کو بیان فرمایا اس سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ اپنی امت کے علم میں یہ بات لانا چاہتے تھے کہ انہیں عام افراد امت پر قیاس کرنے کی غلطی نہ کی جائے، ان حضرات کا تعلق چونکہ براہِ راست آنحضرتﷺ کی ذاتِ گرامی سے ہے اس لیے ان کی محبت عین محبت رسول ہے اور ان کے حق میں ادنیٰ لب کشائی ناقابلِ معافی جرم فرمایا:
اللہ اللہ فی اصحابی، اللہ اللہ فی اصحابی لا تَتَّخِذُوْہُمْ غَرَضًا من بعدی فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن اذاہم فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی اللہ ومن اذی اللہ فیوشِک ان یأخذَہ۔
ترجمہ: اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معاملہ میں مکرر کہتا ہوں اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معاملہ میں، ان کو میرے بعد ہدف تنقید نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بنا پر اور جس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض رکھنے کی بنا پر جس نے ان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑ لے۔
امت کو اس بات سے بھی آگاہ فرمایا گیا کہ تم میں سے اعلیٰ سے اعلیٰ فرد کی بڑی سے بڑی نیکی ادنیٰ صحابی کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا مقابلہ نہیں کرسکتی؛ اس لیے ان پر زبانِ تشنیع دراز کرنے کا حق امت کے کسی فرد کو حاصل نہیں، ارشاد ہے:
لاَ تَسُبُّوا أصحابی فلو أنَّ احدََکم اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَہَبًا ما بَلَغَ مُدَّ احَدِہم ولا نَصِیْفَہٗ۔
(بخاری، مسلم)
میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ تمہارا وزن ان کے مقابلہ میں اتنا بھی نہیں جتنا پہاڑ کے مقابلہ میں ایک تنکے کا ہو سکتا ہے چنانچہ تم میں سے ایک شخص اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کر دے تو ان کے ایک سیر جو کو نہیں پہنچ سکتا اور اس کے عشر عشیر کو۔
مقامِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نزاکت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ امت کو اس بات کا پابند کیاگیا کہ ان کی عیب جوئی کرنے والوں کو نہ صرف ملعون و مردود سمجھیں بلکہ یہ برملا اس کا اظہار کریں، فرمایا۔
إذَا رَأیتُمُ الذینَ یَسُبُّونَ أصحابی فقولوا لعنۃُ اللہ علی شَرِّکُم۔
(رواہ الترمذی)
ترجمہ: جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا کہتے اور انہیں ہدف تنقید بناتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سے یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ناقدین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے جو بُرا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہو ظاہر ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بُرا بھلا کہنے والا ہی بدتر ہو گا۔
یہاں تمام احادیث کا استیعاب مقصود نہیں بلکہ کہنا یہ ہے کہ ان قرآنی و نبوی شہادتوں کے بعد بھی اگر کوئی شخص حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں عیب نکالنے کی کوشش کرے تو اس بات سے قطع نظر کہ اس کا یہ طرزِ عمل قرآنِ کریم کے نصوصِ قطعیہ اور ارشاداتِ نبوت کے انکار کے مترادف ہے، یہ لازم آئے گا کہ حق تعالیٰ نے نبی کریمﷺ پر جو فرائض بحیثیتِ منصب نبوت کے عائد کیے تھے اور جن میں اعلیٰ ترین منصبِ تزکیہ نفوس کا تھا، گویا حضرت رسالت پناہﷺ اپنے فرض منصبی کی بجا آوری سے قاصر رہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تزکیہ نہ کر سکے اور یہ قرآنِ کریم کی صریح تکذیب ہے۔ حق تعالیٰ تو ان کے تزکیہ کی تعریف فرمائے اور ہم انہیں مجروع کرنے میں مصروف رہیں اور جب نبی کریمﷺ ان کے تزکیہ سے قاصر رہے تو گویا حق تعالیٰ نے آپﷺ کا انتخاب صحیح نہیں فرمایا تھا۔ بات کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے انتخاب میں قصور نکلا تو اللہ تعالیٰ کا علم غلط ہوا۔ (نعوذُ باللّٰہ مِنَ الغَوَایَۃِ والسَّفَاہَۃ) چنانچہ اہلِ ہوا کی بڑی جماعت کا دعویٰ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بدا ہے یعنی اسے بہت سی چیزیں جو پہلے معلوم نہیں تھیں بعد میں معلوم ہوتی ہیں اور اس کا پہلا علم غلط ہو جاتا ہے جن لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ تصور ہو رسول اور نبی اور ان کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ان کے نزدیک کیا درجہ رہے گا؟
الغرض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید کرنے، ان کی غلطیوں کو اچھالنے اور انہیں موردِ الزام بنانے کا قصہ صرف ان ہی تک محدود نہیں رہتا بلکہ خدا اور رسول، کتاب و سنت اور پورا دین اس کی لپیٹ میں آ جاتا ہے اور دین کی ساری عمارت منہدم ہو جاتی ہے بعید نہیں کہ آنحضرتﷺ نے اپنے اس ارشاد میں جو اوپر نقل کیا گیا ہے اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا ہو:
من اذاہم فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی اللہ ومن اذی اللہ فیوشِک ان یَاخذَہ۔
ترجمہ: جس نے ان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑ لے۔
اور یہی وجہ ہے کہ تمام فرق باطلہ کے مقابلہ میں اہلِ حق کا امتیازی نشان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت و محبت رہا ہے۔ تمام اہلِ حق نے اپنے عقائد میں اس بات کو اجماعی طور پر شامل کیا ہے کہ:
ونَکُفُّ عن ذکرِ الصحابہ الا بِخَیرٍ۔
ترجمہ: اور ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر بھلائی کے سوا کسی اور طرح کرنے سے زبان بند رکھیں گے۔
گویا اہلِ حق اور اہلِ باطل کے درمیان امتیاز کا معیار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر بالخیر ہے جو شخص ان حضرات کی غلطیاں چھانٹتا ہو ان کو مورد الزام قرار دیتا ہو اور ان پر سنگین اتہامات کی فرد جرم عائد کرتا ہو وہ اہلِ حق میں شامل نہیں ہے۔ اہلِ حق کی شان تو یہ ہے کہ اگر ان کے قلم و زبان سے کوئی نامناسب لفظ نکل جائے تو تنبیہ کے بعد فوراً حق کی طرف پلٹ آئیں۔ حق تعالیٰ جل ہمیں اور ہمارے تمام مسلمان بھائیوں کو ہر زیغ و ضلال سے محفوظ فرمائے اور اتباع حق کی توفیق بخشے۔
رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ هَدَيۡتَنَا وَهَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ رَحۡمَةً اِنَّكَ اَنۡتَ الۡوَهَّابُ۞ وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وَ علی آلہٖ وأصحابہ وأتباعہٖ اجمعین۔ آمین