Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدنا صدیق اکبرؓ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نظر میں

  حضرت مولانا عبدالستار صاحب تونسوی نائب صدر شعبہ تبلیغ تنظیمِ اہلِ سنت پاکستان

سیدنا صدیقِ اکبرؓ سیدنا علی المرتضیؓ کی نظر میں

حضرت مولانا عبدالستار صاحب تونسوی نائب صدر شعبہ تبلیغ تنظیمِ اہلِ سنت پاکستان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد:

اہلِ ایمان سے یہ حقیقت مخفی نہیں کہ جناب امام الانبیاء علیہ الصلوة والسلام کی بعثت و نبوت کی غایت و حکمت راہ گم کردہ انسانیت کو جہالت و ضلالت کی تاریکیوں سے نکال کر روحانیت اور علم و معرفت کے انوار و تجلیات کا مظہر و نمونہ بنانا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔

لتخرج الناس من الظلمت الی النور۔

تاکہ آپ(نبیﷺ) (دنیا کے) لوگوں کو (ضلالت کی) تاریکیوں سے نکال کر نور ہدایت کی طرف لائیں۔

اور یہ بھی واضح ہے کہ حضور اکرمﷺ کی تعلیم و تربیت اور تصفیہ و تزکیہ حاصل کرنے والوں میں سے اولین شاگرد اور ایمان و اتباع میں سب سے پہلے قدم اٹھانے والے یہی خلیفہ بلافصل سیدنا صدیقِ اکبرؓ اور خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضٰیؓ شیرِ خدا ہیں زمانہ ہجرت کے سخت ترین مصیبت کے وقت میں بھی یہی دو رفیق حضورﷺ کی خدمت کا حق بجا لائے اور متواتر 23 تئیس برس تک حضورﷺ ان دونوں حضرات اور دوسرے سابقین اولین کو اپنے انوارِ نبوت کے فیوض و برکات سے حضوری طور پر مشرف و منور فرماتے رہے۔

یہ دونوں حضرات باہمی تعلقات محبت و اخوت اور ایک دوسرے کے حقوق اور شان مرتبہ کو بخوبی جانتے سمجھتے اور پہچانتے تھے اور سیدنا علی المرتضیٰؓ کو سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی برتری تسلیم کرنے میں کسی قسم کا حجاب نہ تھا۔

سیدنا علی المرتضیٰؓ کا سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنا اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھنا اور باہم مشورے کرنا اور ہر طرح کی عبادات و معاملات میں ان کے ساتھ شریک و شامل رہنا کتبِ معتبرہ سے ثابت اور تاریخ اسلام کا نہایت زریں باب ہے اور اخوتِ صحابہؓ کی اپنی جگہ بہترین مثال ہے اہلِ سنت کی کتابوں میں تو یہ مضمون بکثرت موجود ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ شیعہ حضرات کی نہایت معتبر روایات میں بھی اس قسم کی کافی شہادتیں موجود ہیں۔

شیعہ کی معتبر کتاب احتجاج طبرسی مطبوعہ نجف اشرف کے صفحہ 52 پر سیدنا علی المرتضیٰؓ کے متعلق ہے۔

ثم تناول ید ابی بکرؓ فبایعہ۔

 پھر سیدنا علی المرتضیٰؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا ہاتھ پکڑا اور ان سے بیعت کی۔

اور اسی احتجاج طبرسی کے صفحہ 56 پر موجود ہے۔

قال اسامةؓ له بايعته فقال نعم يا اسامهؓ۔

 سیدنا اسامہؓ نے سیدنا علیؓ سے پوچھا کیا آپ سیدنا صدیق اکبرؓ کے ہاتھ پر بیعت کرچکے ہیں؟ تو سیدنا علیؓ نے جواب دیا کہ ہاں بیعت کرچکا ہوں۔ 

اور روضہ کافی صفحہ 139 صفحہ 115 اور کشف الغمہ صفحہ 68 اور حق الیقین جلد اول صفحہ 138 صفحہ 148 اور شرح نہج البلاغہ درہ نجفیہ صفحہ 88 اور جلاء العیون فارسی صفحہ 88 غزوات حیدری وغیرہ کتب شیعہ میں مختلف طریقوں سے سیدنا علی المرتضیٰؓ کا سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے ہاتھ پر بیعت ہونا ثابت ہے۔

سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا علی المرتضیٰؓ اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پیر و مرشد تو جناب سید الاولین والآخرین جناب محمد مصطفیﷺ تھے سیدنا علیؓ نے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے ہاتھ پر جو بیعت کی تھی یہ بیعت خلافت تھی۔

اور شریف مرتضیٰ علم الہدی شیعہ کے مجتہد اعظم نے اپنی معتبر کتاب الشافی کے صفحہ 398 پر لکھا ہے۔

 ثم مدّ یدَہ فبایعہٌ۔   

پھر سیدنا علیؓ نے اپنا ہاتھ پھیلایا اور سیدنا صدیقِ اکبرؓ سے بیعت کرلی۔

اگر سیدنا علی المرتضیٰؓ کو سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی دیانت و صداقت پر پورا پورا اعتماد نہ ہوتا اور ان سے عقیدت و محبت نہ ہوتی تو سیدنا علیؓ جیسے دیندار و دلاور ان کے ہاتھ پر کبھی بیعت نہ کرتے جن کے بیٹے سیدنا حسینؓ نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے عزیز و اقارب اور ساتھی کٹوا دیئے اور خود بھی جان دے دی مگر فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت گوارا نہ کی۔

"کٹا کر سر شہِ کرب و بلا نے یہ بتایا ہے

در باطل پہ جھک سکتی نہیں مومن کی پیشانی"

بھلا جس کے بیٹے کی ایمانی استقامت و حمیت کا یہ حال ہو اس کے باپ کی نسبت یہ گمان ہوسکتا ہے کہ وہ شیرِ خدا ہو کر بخوف جان یا بطمع مال و دنیا کسی غاصب کے ہاتھ پر بیعت ہو۔ 

بہرحال سیدنا علی المرتضیؓ کا خلیفہ بلافصل سیدنا صدیقِ اکبرؓ ہاتھ پر بیعت کرنا ایک مسلم اور یقینی امر ہے جس کا انکار اہلِ اسلام میں سے کوئ نہیں کرسکتا ہاں اس پر اگر کوئ کج بحث و کم فہم چھ ماہ بعد بیعت کرنے والی روایت سے خدشہ کرے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی خلافت سیدنا علیؓ حق نہ سمجھتے تھے اس لیئے چھ ماہ تک بیعت نہ کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ ناحق ہمیشہ ناحق ہے اگر سیدنا صدیقِِ اکبرؓ کی خلافت سیدنا علی المرتضیٰؓ کے نزدیک ناحق تھی تو پھر چھ ماہ بعد کیسے حق ہوگئی جس کو تسلیم کر کے سیدنا علیؓ نے بیعت کرلی حالانکہ سیدنا علیؓ نے چھ ماہ بعد سیدنا صدیقؓ کے ہاتھ پر جو بیعت کی تھی وہ دوسری اور مکرر بیعت تھی جو بعض لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے اجلاس عام میں ہوئی درحقیقت تو وہ سیدنا صدیقؓ کے ہاتھ پر انعقاد خلافت کے وقت بیعت کرچکے تھے جیسا کہ حاکم اور بیہقی میں منقول ہے اور ابنِ حبان نے بھی اس کی تصحیح کی ہے اور نبراس شرحِ شرح العقائد کے صفحہ 494 پر منقول ہے۔

انه بايعه فى اول الامر حتىٰ اعاد البيعة بعد ستة اشهر۔

 سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت اول امر میں کر لی تھی پھر چھ ماہ کے بعد دوسری بار بھی کی۔

اول امر میں جب سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی بیعت ہوئی تو بعض لوگوں نے سیدنا علیؓ کی خدمت میں کہا کہ آپ اپنے لیے بیعت لیں تو اس وقت سیدنا علیؓ نے ان کے اس خیال کی زبردست تردید کی اور سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی خلافتِ حقہ کی تائید مزید کردی دیکھو شیعہ کی معتبر کتاب نہج البلاغہ صفحہ 25 پر ہے۔

ایھا الناس شقوا امواج الفتن یسقن النجاة وعرجوا عن طریق المنافرة۔  

سیدنا علیؓ نے ان لوگوں کو فرمایا اے لوگو فتنہ فساد کی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے چیردو اور منافرت کے راستے کو چھوڑدو۔

سیدنا علیؓ نے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی خلافت کی مخالفت کو فتنہ قرار دیا اور اس فتنہ سے بچنے کا نام نجات رکھا۔ 

 سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے میں کیوں تامل و تردد فرماتے اور ان کی خلافت کی تائید و تصدیق کیوں نہ فرماتے جبکہ اپنی افضل ترین عبادت نماز بھی ان کے پیچھے ادا کرتے تھے جیسا کہ شیعہ کی معتبر کتاب "مرأة العقول شرح الاصول والفروع" کے صفحہ 388 پر سیدنا علیؓ کے متعلق مرقوم ہے۔

حضر المسجد وصلی خلف ابی بکرؓ۔

سیدنا علیؓ مسجد میں حاضر ہوئے اور سیدنا ابوبکرؓ کے پیچھے نماز پڑھی۔

اور احتجاج طبرسی صفحہ 60 سطر دوسری پر ہے۔

ثم قام وتھیأ للصلوة وحضر المسجد وصلی خلف ابی بکرؓ۔

پھر سیدنا علیؓ اٹھے اور نماز کی تیاری کر کے مسجد میں حاضر ہوئے اور سیدنا ابوبکرؓ کے پیچھے نماز پڑھی۔

بعینہ اسی مضمون کی روایت ضمیمہ مقبول ترجمہ صفحہ 415 میں ہے،اور"غزوات حیدری صفحہ 627 میں بھی منقول ہے۔

مخفی نہ رہے کہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو خود جناب امام الانبیاء محمد مصطفیٰﷺ نے اپنی خلافت و نیابت یعنی امامت نماز کا شرف بخشا تھا جیساکہ شیعہ حضرات کی معتبر کتاب "شرح نہج البلاغہ درہ نجفیہ" کے صفحہ 225 پر مرقوم ہے

کان منہ خفة مرضه یصلی بالناس بنفسه فلما اشتد به المرض امر ابابکرؓ ان یصلی بالناس وان ابابکرؓ صلی بالناس بعد ذلک یومین۔

جناب رسول اللہﷺ اس وقت تک خود لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے جب تک مرض خفیف رہا پھر جب مرض سخت ہوگیا تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کو نماز پڑھاتے رہیں اس کے بعد سیدنا ابوبکرؓ دو دن تک جناب رسول اللہﷺ کی زندگی میں تمام لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے پھر حضورﷺ کی وفات ہوگئی۔

اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی جو شان سیدنا علی المرتضیٰؓ نے بیان کی ہے وہ بھی قابلِ غور ہے شیعہ حضرات کی معتبر کتاب شرح نہج البلاغہ ابنِ میثم بحرانی جزو 31 صفحہ 486 پر سیدنا علی المرتضیٰؓ کا ایک نوازش نامہ منقول ہے جس میں سیدنا علی المرتضیٰؓ لکھتے ہیں۔

کان افضلہم فی الاسلام کما زعمت وانصحھم للہ ولرسوله الخلیفة الصدیقؓ وخلیفة الخلیفة الفاروقؓ ولعمری ان مکانھما فی الاسلام لعظیم وان المصاب بھما لجرح فی السلام شدید یرحمھما اللہ و جزاھما باحسن ما عملا۔

 خلیفہ رسول سیدنا صدیقِ اکبرؓ اسلام میں سب سے افضل اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لیے سب سے زیادہ مخلص و خیر خواہ تھے اور اس خلیفہ کے خلیفہ سیدنا فاروقؓ بھی اسی طرح تھے جیسے کہ تو نے سمجھا میری عمر (زندگی) اس بات کی گواہ ہے کہ ان دونوں حضرات کا مرتبہ اسلام میں بڑا عظیم الشان ہے اور بیشک ان کی موت سے اسلام کوسخت صدمہ اور زخم پہنچا اللہ تعالیٰ ان دونوں پر رحم کرتا رہے اوران کے احسن و بہترین اعمال کی ان کو جزا دے۔

 سبحان اللہ! سیدنا علی المرتضیؓ نے کس طرح سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو الخلیفة الصدیق یعنی خلیفہ رسولﷺ اور صدیقیت کے ممتاز لقب سے یاد کیا ہے اور سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی افضیلت اور اسلام کے مخلص و خیر خواہ ہونے کا اظہار و اقرار فرمایا ہے اور اپنی زندگی کی شہادت دے کر فرمایا کہ ان کا مرتبہ اسلام میں نہایت ارفع و اعلیٰ ہےاور ان کے حق میں کیسی عالیشان دعا فرما کر اپنی قلبی محبت اور دلی شفقت کا اظہار فرمایا۔

مخفی نہ رہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو صدیقیت کے لقب سے کیوں یاد نہ کرتے جبکہ خود حضور سرور کائناتﷺ ان کو صدیقیت کا عالیشان لقب دے گئے تھے جیسا کہ شیعہ کی معتبر کتاب تفسیر قمی صفحہ157 پر سیدنا جعفر صادقؒ سے حضورﷺ کا ارشاد منقول ہے کہ غار ثور کے اندر حضورﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ کو فرمایا انت الصدیقؓ تو صدیق ہے اور اسی لئے تو باقی آئمہ بھی سیدنا ابوبکرؓ کو صدیقیت کے ممتاز لقب سے یاد فرمایا کرتے تھے جیسا کہ شیعہ کی کتاب کشف الغمہ صفحہ 220 پر ہے کہ سیدنا محمد باقرؒ سے مسئلہ پوچھا گیا کہ تلواروں کا حلیہ (زیور) بنانا جائز ہے تو انہوں نے فرمایا۔

لا باس بہ قد حلی ابو بکر ن الصدیقؓ سیفہ بالفضہ۔

 کوئی حرج نہیں کیونکہ سیدنا ابوبکرؓ نے اپنی تلوار کا چاندی سے حلیہ بنایا تھا۔

سبحان اللہ! سیدنا محمد باقرؒ نے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے عمل کو سند و حجت بنا کر ان کو صدیقیت کے لقب سے یاد فرمایا۔

 نیز شیعہ کی معتبر کتاب احقاق الحق صفحہ7 پر ہے سیدنا جعفر صادقؒ نے بھی سیدنا ابوبکرؓ کو صدیقیت کے لقب سے یاد فرمایا۔

ولدنی الصدیق مرتین۔

میں سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی اولاد میں دو طرح داخل ہوں۔ 

نیز اسی صفحہ پر ہے۔

ابوبکر ن الصدیقؓ جدلی۔

سیدنا ابوبکر صدیقؓ میرے نانا ہیں۔

غور کیجئے کہ حضرات ائمہ کرام ان کو صدیق فرماتے رہتے تھے اور ان سے اپنی قلبی محبت و شفقت کا اظہار بھی کرتے تھے اور اسی لئے سیدنا علی المرتضیؓ اور سیدنا حسنینؓ نےاپنے عزیز بیٹوں کے نام بھی سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ رکھے دیکھو شیعہ کی کتاب تاریخ الائمہ صفحہ 43 فرزندانِ سیدنا علی المرتضیؓ حسن حسین محسن عباس محمد ابوبکر عمر عثمان وغیرہ اٹھارہ فرزند مذکور ہیں۔ 

جلاء العیون فارسی صفحہ 193 پر لکھتے ہیں فرزند حضرت امیر المؤمنین اور ابوبکرؓ میگفتند۔

سیدنا علی المرتضیٰؓ کے فرزند جن کو سیدنا ابوبکرؓ کہتے تھے۔

 تاریخ الائمہ صفحہ 63 فرزندان سیدنا حسنؓ قاسم عبداللہ حسن مثنیٰ زید عبدالرحمٰن ابوبکر عمر اسماعیل وغیرھم۔

 نیز جلاء العیون صفحہ193پر ہے۔ابوبکر فرزند امام حسنؓ بمعرکہ قتال سیدنا حسنؓ کا فرزند ابوبکرؒ کربلا کی لڑائی میں شریک ہوا۔

 تاریخ الائمہ صفحہ 83 فرزندانِ سیدنا حسینؓ عابد، علی اکبر، علی اصغر، زید ابراہیم محمد حمزہ ابوبکر جعفر عمر وغیرھم۔

 تو سیدنا علی المرتضیٰؓ اور سیدنا حسنینؓ کو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ سے ایسی عقیدت و محبت تھی کہ اپنے بچوں کے نام ان کے ناموں پر رکھ کر ان کی یاد تازہ کی۔

اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو بھی ان ائمہ ہدی کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے اور آپس میں سیدنا صدیقؓ و سیدنا علیؓ کی طرح اخوت و محبت عطا کرے۔ آمین