Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدنا صدیق اکبرؓ قرآن کی روشنی میں

  امام اہلسنت علامہ عبد الشکور لکھنوی رحمۃ اللہ

سیدنا صدیق اکبرؓ قرآن کی روشنی میں

از امامِ اہلِ سنت مولانا عبدالشکور صاحب لكهنویؒ

حق تعالیٰ کے اس انعام کا شکر کس زبان و قلم سے ادا کیا جائے کہ اس نے اپنے کلام پاک کی تفسیر کی توفیق اسے ناکارہ کو عطا فرمائی اور قرآن مجید کی خدمت میں مشغول کیا۔

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ٰامَنُواْ مَن يَرۡتَدَّ مِنكُمۡ عَن دِينِهِ فَسَوۡفَ يَأۡتِى اللّٰهُ بِقَوۡمٍ۬ يُحِبُّہُمۡ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الۡمُؤۡمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الۡكَـٰفِرِينَ يُجَـٰهِدُونَ فِى سَبِيلِ اللّٰهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوۡمَةَ لَآٮِٕمٍ۬‌ۚ ذَٲلِكَ فَضۡلُ ٱللَّهِ يُؤۡتِيهِ مَن يَشَآءُ‌ۚ وَللّٰهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ  

 (پارہ6 سورة مائده رکوع 11 آیت 54)۔

اے ایمان والو اگر مرتد ہو جائے گا کوئی تم میں اپنے دین سے تو بہت جلد آمادہ کر رہے گا اللہ ایک ایسی قوم کو جو اللہ کی محبوب اور اللہ کی محب ہوگی تواضع کرنے والی ہوگی ایمان والوں کہ مقابلہ میں سختی کرنے والی ہوگی کافروں جہاد کرے گی اور راہ خدا میں اور نہ ڈرے گی ملامت سے کسی ملامت کرنے والے کی یہ اللہ کی بخشش ہے دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ وسعت والا اور دانا ہے۔

اس آیت قتال مرتدین پر ایک نظر ڈالو کہ کس طرح خداوند عالم غیب نے ایک آئندہ آنے والے ہولناک واقعہ کی پیشینگوئی فرمائی اور اپنے جلال و جبروت کا کس طرح اظہار کیا کہ اے مسلمانو جو لوگ تم میں سے مرتد ہو جائیں گے خدا نے ان کے قلع قمع کرنے کیلئے عالم غیب میں یہ تدبیر مقرر کی ہے کہ خاصانِ خدا کی ایک جماعت ان کے قتال پر من جانب اللہ برانگیختہ کی جائے گی اور وہ ان کی سرکوبی کر دے گی۔

کیفیت اس واقعہ کی یوں ہوئی کہ آنحضرتﷺ کے اخیر زمانہ میں عرب میں تین قبیلے مرتد ہوگئے اور ہر قبیلہ میں ایک ایک شخص مدعی نبوت اٹھ کھڑا ہوا اور ان لوگوں نے بڑا فساد برپا کیا۔

آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد تو یہ فتنہ بہت بڑھ گیا سوا حرمین شریفین اور شہر جواثی کے جو بحرین کے مضافات میں ہے اکثر مقامات کے لوگ مرتد ہوگئے اور بعض لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ بعد آنحضرتﷺ کے کسی کو زکوٰۃ لینے کا اختیار نہیں ہے ایک طرف تو مسلمانوں پر یہ قیامت کبریٰ کہ رسول رب العٰلمین اللہﷺ جن کا منہ دیکھ کر جیتے تھے ان کا سایہ سر سے اٹھ گیا دوسری طرف یہ آفت کہ فتنہ ارتداد روز بروز ترقی کر رہا ہے تیسری طرف رسولِ خداﷺ کی یہ وصیت کہ سیدنا اسامہؓ کا لشکر بجانب شام مسلمانوں کا انتقام لینے کے لیے روانہ کر دیا جائے سیدنا صدیقؓ ہی تھے کہ جن کی قوت قلبیہ نے اُس وقت رنگ دکھلایا اور کوہِ استقامت بن کر تمام پریشانیوں کو انہوں نے جھیلا اور چند ہی روز میں مطلع اسلام پر جو غبار آگیا تھا اس کو صاف کر دیا۔ 

 سیدنا صدیقؓ نے جس وقت ان مرتدین سے قتال کا ارادہ فرمایا بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اس امر میں ان سے اختلاف کیا بعض لوگ تو یہ کہتے تھے کہ ان سے قتال کرنا ہی نہ چاہیے اور اور بعض کا یہ قول تھا کہ اس وقت مصلحت نہیں ہے یہ وقت اسلام کیلئے نہایت نازک ہے اس وقت تالیف قلوب سے کام لینا چاہئیے اس طور پر ایسے میں میں ملامت کا ذکر ہے وہ ملامت پیش آگئی اور اپنوں کی ملامت بہت زیادہ ناقابل برداشت ہوتی ہے سیدنا صدیقؓ نے اس ملامت کی کچھ پرواہ نہ کی اور اپنا کام پورا کر دیا "لَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَائِم" کی تصدیق ہوگئی۔

اس ملامت کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے بھی ان سے اختلاف کیا اور نرمی کی صلاح دی میں پر سیدنا صدیقؓ نے دو جلال بھرے الفاظ فرمائے کہ آج انکو سن کر بدن کانپ جاتا ہے فرمایا "اجبار فی الجاهلية وخوار في الاسلام" اے سیدنا عمرؓ تم جاہلیت میں تو بڑے تند مزاج تھے اسلام میں ایسے نرم بن گئے اور فرمایا "تم الدین وانقطع الوحى أينقص واناحی" دین کامل ہوچکا وحی الہٰی بند ہوگئی کیا دین پر زوال آئے اور میں زندہ ہوں یعنی میری زندگی میں دین پر یہ آفت آئے یہ کیسے ہوسکتا ہے یہ قصہ مشکوٰۃ میں منقول ہے۔

راقم سطور کہتا ہے کہ میں جب سیدنا صدیقؓ کے اس کلام کو دیکھتا ہوں تو مجھے ایک عجیب بات اس میں نظر آتی ہے غور سے دیکھو یہ لفظ کہ میری زندگی میں دین ناقص ہو جائے کیسا کلمہ ہے اس کلمہ کے کہنے کا کس کو حق ہوسکتا ہے کوئی شخص مرجائے اور اس کا صرف ایک اکلوتا بیٹا ہو وہ بیشک کہہ سکتا ہے کہ میری زندگی میں میرے باپ کا مال لٹ جائے لیکن اگر کسی شخص کے متعدد اولاد ہوں تو ان میں سے کوئی ایک اس کلمہ کو نہیں کہہ سکتا کہ میری زندگی میں میرے باپ کا مال لٹے اگر کہے گا تو یوں کہے گا کہ ہم لوگوں کی زندگی میں یہ کلمہ سیدنا صدیقؓ کا بتلا رہا ہے کہ رسول خداﷺ کے حقیقی وارث آپ کے اکلوتے روحانی فرزند وہی ایک تھے اس لیے ان کی زبان سے یہ لفظ نکلا کہ میری زندگی میں دین پر آفت آئے؟ اکلوتا بیٹا موجود اس کی نظر کے سامنے اس کے باپ کی بڑی محنت و جانفشانی سے جو باغ تیار ہوا تھا وہ کاٹ ڈالا جائے یقینا سیدنا صدیقؓ کا ادعا اسلام پر ایسا ہی تھا اور انہوں نے رسول خداﷺ کے سامنے اور آپ کے بعد کام بھی ایسے ہی کیے لوگوں نے انہی کو خلیفہ رسول اللہﷺ کہا ان کے بعد پھر کوئی خلیفہ اس نام سے نہیں پکارا گیا بلکہ خلفائے مابعد امیر المؤمنین کہے گئے امیر المؤمنین کا لفظ بطور تواضع کے ایک کم درجہ کا لفظ سمجھ کر سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے اپنے لیے تجویز کیا تھا جس کو آج طفرائے امتیاز سمجھ کر سیدنا علیؓ کے نام کے ساتھ استعمال کرتے ہیں سیدنا صدیقؓ کے اس کارنامہ یعنی قتال مرتدین کو انجام کار میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بڑی عزت کی نظر سے دیکھا سیدنا فاروقِ اعظمؓ فرمایا کرتے تھے کہ سیدنا صدیقؓ میری تمام عمر کی عبادت لے لیں اور مجھے صرف اپنی ایک رات اور اپنے ایک دن کی عبادت دے دیں "اما ليلة قليلة الغار واما يومہ الردة" یعنی رات سے مراد شب غار ہے اور دن سے مراد فتنہ ارتداد کا دن ہے۔

سیدنا ابوہریرہؓ فرماتے ہیں "قام فی الردة مقام الانبياء" یعنی فتنہ ارتداد میں سیدنا صدیقؓ نے وہ کام کیا جو پیغمبروں کے کرنے کا تھا۔

سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں "كرهناه في الابتداء وحمدناه على الانتهاء" یعنی ہم لوگوں نے ابتداء میں تو قتال مرتدین کو ناپسند کیا تھا مگر انجام دیکھ کر پھر ہم سب سیدنا صدیقؓ کے شکر گزار ہوئے۔

"مَنْ یَّرْتَدَّ" ارتداد کی دوقسمیں ہیں ایک حقیقی یعنی واقعی طور پر کوئی شخص مسلمان ہونے کے بعد دین اسلام سے پھر جائے یہ ناممکن اور محال ہےچنانچہ دوسری آیتوں میں اس کو بیان فرمایا ہے دوسرا ارتداد صوری کہ ظاہر میں لوگوں کے دیکھنے میں ایک شخص مسلمان ہوا اس کے بعد دین اسلام سے پھر گیا جہاں کہیں اِرتداد کا لفظ بولا جاتا ہے یہی اِرتداد صوری مراد ہوتا ہے۔

"فَسَوۡفَ يَأۡتِى اللّٰهُ"خدا کے لانے کا یہاں بھی وہی مطلب ہے جو آیت استخلاف میں خدا کے خلیفہ بنانے کا بیان ہوچکا یعنی یہ مطلب نہیں کہ خدا اس قوم کو عدم سے وجود میں یا ایک ملک سے دوسرے ملک میں لائے گا یا کوئی آواز غیب سے آئے گی کہ یہ لوگ خدا کے لائے ہوئے ہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ خدا ان کو اس کام پر آمادہ کرے گا ان کے دل میں ارادہ اس کام کا مضبوطی کے ساتھ قائم کر دے گا۔

"يُحِبُّہُمۡ وَيُحِبُّونَهُ" پہلے خدا نے یہ فرمایا کہ ہم ان سے محبت کرتے ہیں پھرفرمایا کہ وہ ہم سے محبت کرتے ہیں اس میں تنزیہ ہے کہ جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے پہلے خدا کو اس سے محبت ہوتی ہے اگر خدا کو اس سے محبت نہ ہو تو خدا اس کو اتنی بڑی نعمت نہ دے خدا جس کو چاہتا ہے اُس کو یہ نعمت دیتا ہے۔

"أَذِلَّةٍ عَلَى الۡمُؤۡمِنِينَ"

 یہ ویسا ہی ہے جیسے سورہ فتح میں فرمایا "اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ" مسلمانوں سے نرمی و محبت کرنے کو یہاں "أَذِلَّةٍ" کے لفظ سے تعبیر فرمایا وہاں "رُحَمَآءُ" کے لفظ سے کفار پر سختی کرتے کو یہاں "أَعِزَّةٍ" کے لفظ سے بیائی فرما دیا وہاں "اَشِدَّآءُ" کے لفظ سے ذلك فضل اللہ جس قوم کا اوپر بیان ہوا اس کے اوصاف کی غیر معمول عظمت اس کلمہ میں بیان فرمائی گئی کہ یہ خدا کی بخشش ہے خدا جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور خدا کے یہاں کچھ کمی نہیں ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ کون شخص کس انعام کا مستحق ہے ولیکم معنی دوست۔

 "رَاکِعُوْنَ" رکوع کے معنے لغت میں جھکنا عاجزی کرنا نماز کے ایک رکن خاص کو بھی رکوع کہتے ہیں یہاں وہی لغوی معنی مراد ہیں۔

یہ آیت نہایت صفائی اور کامل وضاحت کے ساتھ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے خلیفہ برحق ہونے پر اور نیز ان کے اور ان کے ساتھیوں کے اعلیٰ ترین کمالات پر دلالت کرتی ہے اس آیت میں جس قوم یعنی جماعت کا بیان ہے وہ مرتدوں پر اس کے مسلط کرنے کا وعدہ ہے اس جماعت کی کچھ صفتیں بیان فرمائی ہیں۔ 

اول: یہ کہ وہ جماعت خدا کی محبوب ہے۔

 دوم: یہ کہ وہ خدا کی محب ہے۔

 سوم: یہ کہ وہ مسلمانوں پر مہربان و متواضع ہے۔

 چہارم: یہ کہ وہ کافروں پر سخت ہے۔

 پنجم: یہ کہ وہ راہ خدا میں جہاد کرتی ہے۔ 

 ششم: یہ کہ وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتی۔

آب غور کرو کہ یہ صفات کمالیہ کس رتبہ کی ہیں آیا شریعتِ الٰہیہ میں اب ان سے ما فوق بھی کوئی رتبہ ہو سکتا ہے؟

جب تک فتنہ ارتداد کا ظہور نہ ہوا تھا اُس وقت تک پتہ نہیں چل سکتا تھا کہ اس آیت میں کسی جماعت کی تعریف بیان ہو رہی ہے مگر فتنہ ارتداد کے ظاہر ہونے کے بعد اور سیدنا صدیقؓ کے دستِ حق پرست سے اس فتنہ کا استیصال مشاہدہ کرنے کے بعد سب کی آنکھیں کھل گئی اور معلوم ہوگیا کہ آیت میں تعریف سیدنا صدیقؓ اور ان کے رفقاء کی ہے سیدنا صدیقؓ اور ان کے طفیل میں ان کے رفقاء خدا کے محبوب و محب ہیں اور جب وہ خدا کے محبوب و محب ہوئے تو ان کی خلافت برحق ہونے میں کسی کو شبہ ہوسکتا ہے سوا اس کے کہ جس کا ایمان قرآن شریف پر نہ ہو اگر کوئی کہے کہ یہ آیت سیدنا علیؓ کے حق میں ہے انہوں نے اپنے زمانہ خلافت میں مرتدوں سے جنگ کی ہے تو جواب اس کا بچند وجوہ ہے۔

 اول: یہ کہ سیدنا علیؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں جن لوگوں سے جنگ کی ان میں کوئی مرتد نہ تھا سب مسلمان تھے چنانچہ اہلِ شام کے متعلق سیدنا علیؓ کا فرمان نہج البلاغہ میں موجود ہے جس میں صاف تصریح اہلِ شام کے نہ صرف مومن بلکہ مومن کامل ہونے کی ہے سیدنا علیؓ نے اس میں لکھا ہے کہ اللہ و رسولﷺ پر ایمان رکھتے ہیں نہ ہم اُن سے زیادہ نہ وہ ہم سے زیادہ ہیں دیکھو نہج البلاغہ مطبوعہ مصر قسم دوم)

 دوم: یہ کہ اگر موافق اصول موضوعہ شیعہ تسلیم کیا جاے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مرتد تھے اور سیدنا علیؓ کی لڑائی مرتدوں سے تھی ونعوذ بالله من ذالک) تو حضرات خلفائے ثلاثہؓ سے کیوں جنگ نہ ہوئی حالانکہ آیت کا مقتضا یہ ہے کہ بوقتِ نزول آیت جس قدر کلمہ گو تھے ان میں سے جب کوئی مرتد ہوگا اُس کا قتال ضرور ہوگا بعض مرتدوں سے قتال ہو یہ آیت کی تکذیب ہے لہٰذا سیدنا علیؓ کے حق میں یہ آیت نہیں ہو سکتی۔

  سوم: یہ کہ آیت بتلا رہی ہے کہ قتالِ مرتدین میں وہ جماعت کامیاب ہوگی فتنہ ارتداد کا قلع قمع ہو جائے گا اور سیدنا علی المرتضیٰؓ و اپنی لڑائیوں میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ یوما فیوما ان کے مخالفین کا زور بڑھتا گیا لہٰذا یہ آیت سیدنا علیؓ نے کی شان میں کیسی طرح نہیں ہو سکتی۔

 چہارم: یہ کہ سیدنا علیؓ کے ساتھیوں میں آیت کے موجودہ اوصاف باتفاق فریقین نہ تھے نہج البلاغہ میں بہت سے خطبے ہیں جن میں سیدنا علیؓ نے اپنے اصحاب کی بزدلی اور جہاد سے اُن کا پیچھے ہٹنا بیان فرمایا ہے پھر بھلا ایسے لوگوں کے حق میں یہ آیت کیسے ہو سکتی ہے۔

 اگر کوئی کہے کہ امام مہدی کے وقت میں اس آیت کی پیشینگوئی پوری ہوگی تو اسکے بھی کئی جواب ہیں۔

 اول: یہ کہ آیت لفظ منکم بتلا رہی ہے کہ یہ پیشین گوئی صرف زمانہ نزول کے لیے ہے یعنی اس وقت کے لوگوں میں سے کوئی مرتد ہو جائے تو اس کیلئے آیت مذکورہ وعید ہے اور قطع نظر لفظ منکم سے اگر آیت کو عام کر دیا جائے تو مشاہدہ کے خلاف لازم آئے گا آج جو لوگ مرتد ہو رہے ہیں کون سی قوم ان پر مسلط ہوتی ہے۔

 دوم: یہ کہ بفرض محال بلا دلیل ہم آیت کو زمانہ نزول کے ساتھ خاص نہ رکھیں تو بھی زمانہ نزول ضرور مراد ہوگا آیت میں بطور شرط و جزاء کے بیان ہوا ہے لہٰذا اگر ہزار بار فتنہ ارتداد پیدا ہو تو ہر مرتبہ مرتدین پر قوم موصوف کا تسلط ہونا چاہیے اور یہ کم ہے کہ آخر عہد نبوی اور خلافت اولیٰ میں بعض عرب قبائل مرتد ہوئے لہٰذا اُن پر قوم موصوف کا تسلط ضروری ہوا پس امام مہدی کے وقت کے لیے مخصوص کرنا آیت کی تکذیب ہے۔

المختصر حضرات شیعہ اس آیت کی کوئی تاویل نہیں کر سکتے تاویل اگر ہوسکتی تھی تو یہ اس زمانہ میں فتنہ ارتداد کے وقوع سے انکار کرتے مگر متواتر واقعات کا انکار امکان سے باہر ہے ان کے مؤرخین اور مفسرین اس کو تسلیم کر رہے ہیں چنانچہ تفسير "منہج الصادقین" وغیرہ کے دیکھنے سے صاف ظاہر ہے۔

 فائدہ: اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ کو خلیفہ بنانے کا حکم نہیں دیا حکم دینے کے بعد بندوں کو اختیار باقی رہتا ہے کہ اس حکم پر عمل کریں یا نہ کریں بلکہ آیت استخلاف و آیہ تمکین کی طرح اس آیت میں بھی خداوند علیم و خبیر نے ایک پیشین گوئی فرمائی اور اس پیشین گوئی کے ضمن میں خلیفہ برحق کے علامات بیان فرمائے ہیں اور اس تقرر کے عالمِ غیب سے ظہور پذیر ہونے کا وعدہ فرمایا وَمَنْ اصْدَقُ مِنَ اللهِ قِیلا واقعی جو اہتمام حضرت خاتم النبیینﷺ کی بعثت میں تھا اس کا یہی تقاضا تھا کہ آپ کے بعد آپ کی خلافت راشدہ کا انتظام عالم غیب سے ہوتا ہندوں کے ہاتھ میں اس کے انجام دینے کی باگ نہ دی جاتی گو عالمِ غیب کا انتظام بھی انہیں بندوں کے ہاتھ سے ظاہر ہوا مگر اس صورت میں بندے مراد حق کے لیے صرف آلہ بن گئے جو خدا کی رضا تھی وہی ظہور میں آیا اور اس کے خلاف کا ظہور ہونا نا ممکن ہو گیا۔ 

 وَالْحَمْدُ لِلَّهِ أَولا و اخرا