خیر البشر بعد الانبیاء بالتحقیق سیدنا ابوبکر صدیقؓ احادیث کی روشنی میں
عبدالرحمٰن فاروقیؒخیر البشر بعد الانبیاء بالتحقیق سیدنا ابوبکر صدیقؓ احادیث کی روشنی میں
(حضرت مولانا عبدالرحمٰنؒ)
الحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ ٱلَّذِينَ ٱصْطَفَىٰٓ امّا بعد
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا مقام قرآنِ کریم کی روشنی میں یہ مضمون پہلے آچکا ہے اب مقام سیدنا صدیقِ اکبرؓ احادیث کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں صحیح بخاری صحیح مسلم جامع ترمذی سنن ابنِ ماجہ مستدرک حاکم اور مشکوٰۃ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سب سے پہلا باب فضائل آپ کا ہی ہے اور احادیث اس باب میں تواتر کے درجے کو پہنچ چکی ہے۔
معلوم رہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا نام عبداللہ ہے "صدیق" اور "عتیق" لقب ہیں صدیق اس لیے کہ انہوں نے واقعہ معراج کی تصدیق کی اور عتیق اس لیے کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی ایسے انسان کو دیکھنا چاہتا ہے جو نار جہنم سے آزاد اور بے فکر ہوچکا ہے وہ سیدنا ابوبکرؓ کو دیکھ لیں ایمان لانے کے بعد دعوت اسلام میں آنحضرتﷺ ان سے عظیم الشان مدد ملی اور اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جن کے کارنامے تاریخ اسلام میں نمایاں ہیں انہی کے اثر سے مسلمان ہوئے انہوں نے دین پاک کی حمایت کی اللہ کی رضا جوئی اور نبیﷺ کی امداد میں بہت سا مال صرف کر دیا جو غلام مسلمان ہو جاتے اور ان کے سنگدل آقا ان پر سختیاں کرتے آپؓ ان میں سے اکثر کو ان کے مالکوں سے خرید کر ازاد کر دیتے تھے۔
سیدنا محمد بن حنیفہؒ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سیدنا علیؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہﷺ کے بعد سب سے افضل شخص کون ہے؟ فرمایا سیدنا ابوبکرؓ میں نے کہا ان کے بعد فرمایا سیدنا عمرؓ۔
ایک روایت میں ہے کہ حضورﷺ کے بعد تمام امت سے افضل سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہیں۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے لکھا ہے کہ حدیث سے سیدنا ابوبکرؓ کی فضیلت کی چار وجوہات معلوم ہوتی ہے۔
1- امت میں مرتبہ علُیا پانا صدیقیت اسی سے مراد ہے۔
2-ابتدائے اسلام میں حضرت سرور عالمﷺ کی اعانت کرنا۔
3- نبوت کے کاموں کو اتمام تک پہنچانا اور کامیابی پانا۔
4- آخرت میں عُلو مرتبہ پانا۔
یہ بھی لکھا ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کی عملی قوت اور عقلی قوت حضرات انبیاء علیہم السلام کی عملی و عقلی قوت سے مشابہ تھی۔
علامہ اقبال مرحوم نے ایک رباعی سیدنا صدیق اکبرؓ کی شان میں لکھی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح آپؓ کی محبت سے اسلام کا کھیت پروان چڑھتا رہا۔
"آں امن الناس برمولائے ما
آں کلید اول سینائے ما
ہمت او کشت ملت را چوابر
ثانی اسلام و غار و بدر و قبر"
آنحضرتﷺ کے ارشادات
(1)۔ ابوبکرؓ خیر النّاس الا ان یکون نبی۔ (معجم طبرانی شریف)۔
سیدنا ابوبکرؓ سوائے نبیوں کے سب انسانوں سے افضل ہیں باستثناء عیسیٰ بن مریمؑ۔
(2)۔ ارحم امتی با امتی ابوبکرؓ۔ (ترمذی شریف موطا امام محمد)۔
میری امت میں میری امت پر سب سے زیادہ مہربان سیدنا ابوبکرؓ ہیں۔
(3)۔ قال رسول اللہﷺ انا اوّل من تنشق الارض عنہ ثم ابوبکرؓ ثم عمرؓ۔ (ترمذی شریف مستدرک حاکم)۔
حضورﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے میرے اوپر سے زمین کشادہ ہوگی پھر سیدنا ابوبکرؓ کے پھر سیدنا عمرؓ کے اوپر سے۔
(4)۔ قال رسول اللہﷺ انت صاحبی علی الحوض وانت صاحبی فی الغار۔ (ترمذی)۔
حضورﷺ نے ارشاد فرمایا اے سیدنا ابوبکرؓ تم حوض کوثر پر میرے رفیق ہو اور تم غار میں بھی میرے رفیق تھے۔
(5)۔ حضورﷺ مرضِ وفات میں جب خود مسجد میں تشریف نہ لا سکے تو ارشاد فرمایا۔
مرو ابابکرؓ فلیصل بالنّاس۔ (بخاری مسلم ترمذی ابنِ ماجہ)۔
سیدنا ابوبکرؓ کو میری طرف سے حکم دو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔
(6)۔ ما اوحى الى شئ على الا صبيته في صدر ابى بكرؓ۔
(الریاض النضرة)۔
جو وحی مجھ پر نازل فرمائی گئی ہے میں نے اس کو سیدنا ابوبکرؓ کے سینے میں نچوڑ دیا ہے۔
(7)۔ ما فضلكم ابوبكرؓ بفضل صوم ولا صلوة ولكن بشئ وقر بصدره۔ (ایضا)۔
ارشاد فرمایا کہ سیدنا ابوبکرؓ کو تم پر نماز یا روزہ کی وجہ سے فضیلت نہیں ہے بلکہ یہ فضیلت ایک باوقار چیز کی وجہ سے ہے جو ان کے سینے میں ڈالی گئی ہے۔ (قوت ایمانی اور حب نبویﷺ)
(8)۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے جس شخص کے سامنے بھی اسلام پیش کیا اس میں جھجھک ضرور دیکھی سوائے سیدنا ابوبکرؓ کے جنہوں نے بلا تردد اس کو تسلیم کر لیا۔
(9)۔ حج میں آپﷺ نے انہی کو امیر الحاج بنایا اور جب آپﷺ مرض الموت میں گرفتار ہوئے تو اپنی بجائے ان کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔
سیدنا ابوبکرؓ کی صداقت
بخاری شریف میں سیدنا ابوالدرءؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا "ان الله بعثنى اليكم فقلتم كذبت وقال ابوبكرؓ صدقت و واسانى بنفسه وماله فهل انتم تاركون لى صاحبى"۔
یقین جانو کہ اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ نے مجھے تمھاری طرف مبعوث فرمایا تو تم لوگوں نے مجھے کہا کہ جھوٹ کہتے ہو صرف سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کہا کہ آپ سچ فرماتے ہیں (پھر یہی نہیں) اُنہوں نے اپنی جان اور مال سے میری غمخواری کی تو کیا تم میرے ساتھی کو مجھ پر چھوڑ دینا چاہتے ہو۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ آنحضرتﷺ کے وزیر ہیں
ترمذی شریف میں سیدنا ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا ہر نبی کے دو وزیر اہلِ آسمان سے اور دو وزیر اہلِ زمین سے ہوتے ہیں میرے وزیر اہلِ آسمان سے جبرئیلؑ اور میکائیلؑ ہیں اور اہلِ زمین سے سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ ہیں (اگر آسمان والے بے وفا نہیں تو زمین والے بے وفا کیسے ہوسکتے تھے)۔
حوالہ جات از مشکوٰۃ شریف در مناقبِ صدیقؓ
(1)۔ سیدنا ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں حضور پاکﷺ نے ارشاد فرمایا سب سے زیادہ احسان مجھ پر سیدنا ابوبکرؓ کی خدمت اور مال کا ہے اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی کو جانی دوست بناتا تو سیدنا ابوبکرؓ کو بناتا۔
(2)۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے حضورﷺ نے ارشاد فرمایا اگر میں کسی کو خاص دلی دوست بناتا تو سیدنا ابوبکرؓ کو بناتا مگر سیدنا ابوبکرؓ میرا بھائی اور ساتھی ہے اور خدا تعالیٰ نے تمہارے ساتھی (یعنی میری ذات) کو خاص دوست بنالیا ہے۔
(3)۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں مرض کی حالت میں مجھ سے رسولِ گرامیﷺ نے فرمایا اپنے بھائی کو اور اپنے والد یعنی سیدنا ابوبکرؓ کو بلاؤ تاکہ میں ایک تحریر لکھ دوں کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہیں کوئی خلافت کی آرزو کرنے والا آرزو نہ کرنے لگے اور کہیں کوئی کہنے والا چہ میگوئیاں نہ کرنے لگے (مگر خیر رہنے دو) خدا تعالیٰ اور مسلمان سوائے سیدنا ابوبکرؓ کے کسی کی خلافت کو نہ مانیں گے۔
(4)۔ سیدنا جبیر ابنِ مطعمؓ کہتے ہیں ایک عورت نے خدمتِ گرامیﷺ میں حاضر ہو کر کسی معاملہ کے متعلق کچھ گفتگو کی رسولِ اقدسﷺ نے اسکو حکم دیا کہ پھر دوبارہ میرے پاس آنا اُس نے عرض کیا یا رسول اللّٰہﷺ آگر میں پھر آؤں اور آپ نہ ملیں تو کیا کروں فرمایا اگر میں نہ ملوں تو سیدنا ابوبکرؓ کے پاس چلی جانا (نہ ملنے سے مراد اُس عورت کی حضور ﷺ کی وفات تھی)۔
(5)۔ سیدنا عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں ذات السلاسل والے لشکر کا سپہ سالار مجھے حضورﷺ نے مقرر فرمایا۔میں(رخصت ہونے کے لئے) خدمتِ گرامی میں حاضر ہوا اور عرض کیا سب سے زیادہ محبوب آپ کے نزدیک کون شخص ہے؟ فرمایا سیدہ عائشہ صدیقہؓ میں نے عرض کیا مردوں میں سے فرمایا سیدہ عائشہؓ کا باپ میں نے عرض کیا اُن کے بعد فرمایا سیدنا عمرؓ پھر حضورﷺ نے (استفسار کے جواب میں) چند آدمیوں کو شمار کیا بالآخر میں خود ہی اِس اندیشہ سے چُپ ہوگیا کہ کہیں مجھ کو سب سے آخر میں نہ کردیں۔
(6)۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا تھا کہ سیدنا ابوبکرؓ ہمارے سردار ہیں ہم سب سے افضل اور ہم سب سے ذیادہ رسُول اللّٰہ کو پیارے ہیں۔
(7)۔ سیدنا ابنِ عمرؓ کہتے ہیں حضور اقدسﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ سے فرمایا تھا تم غار میں بھی میرے ساتھی تھے اور حوض پر بھی میرے ساتھی ہوگے۔
(8)۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں حضورﷺ نے ارشاد فرمایا جس قوم میں سیدنا ابوبکرؓ موجود ہوں اُن کی امامت سیدنا ابوبکرؓ کے علاوہ کسی اور کو نہ کرنی چاہئے۔
(9)۔ سیدنا عمرؓ کہتے ہیں ایک بار رسُول پاکﷺ نے ہم کو صدقہ دینے کا حُکم دیا اتفاق سے اُس حُکم کے وقت میرے پاس مال موجود تھا میں نے کہا اگر میں سیدنا ابوبکرؓ سے سبقت لیے جاسکا تو آج سبقت لے جاؤنگا چناچہ میں نِصف مال لےکر خدمتِ عالی میں حاضر ہوا رسُول پاکﷺ نے فرمایا کہ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ؟ میں نے عرض کیا اتنا ہی اور سیدنا ابوبکرؓ اپنا کُل مال لےکر آئے تھے حضورﷺ نے اُن سے فرمایا سیدنا ابوبکرؓ تم نے اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا؟ سیدنا ابوبکرؓ نے عرض کیا خُدا اور خُدا کا رسُول میں نے یہ سُن کر دِل میں کہا کہ اب میں کبھی سیدنا ابوبکرؓ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔
(10)۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں ایک روز سیدنا ابوبکرؓ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے سرکارِ دو عالمﷺ نے فرمایا تم دوزخ سے خُدا کے آزاد کردہ ہو اُسی روز سیدنا ابوبکرؓ کا نام عتیق ہوگیا (عتیق اُسے کہتے ہیں جو رہائی پاچُکا ہو)۔
(11)۔ سیدنا ابنِ عمرؓ فرماتے ہیں رسُول پاکﷺ نے فرمایا سب سے پہلے میں قبر سے اُٹھایا جاؤں گا پھر سیدنا ابوبکرؓ پھر سیدنا عمرؓ پھر میں بقیع کے مدفونوں کی طرف جاؤں گا اور اُنکو اُٹھا کر میرے ساتھ کردیا جائےگا (وہاں سیدنا عثمانؓ مدفون ہیں)۔
(12)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں ایک بار رسُول پاکﷺ نے فرمایا میرے پاس جبرئیلؑ آئے تھے میرا ہاتھ پکڑ کر اُنہوں نے مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھلایا جس سے میری اُمت جنت میں داخل ہوگی یہ سُن کر سیدنا ابوبکرؓ نے عرض کیا یا رسول اللّٰہﷺ میرا دِل چاہتا ہے کہ میں بھی آپﷺ کے ساتھ ہوتا تو میں بھی دیکھ سکتا فرمایا سیدنا ابوبکرؓ تم تو سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگے۔
(13)۔ سیدنا عمرؓ کے سامنے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا ذِکر آیا آپ رونے لگے اور فرمایا میں اِس بات کو دِل سے پسند کرتا ہوں کہ میرے کُل اعمال سیدنا ابوبکرؓ کے ایک شبانہ روز کے اعمال کے برابر ہو جائیں رات سے مُراد میری وہ رات ہے جس میں سیدنا ابوبکرؓ حضورﷺ کے ہمرکابِ غارِ ثور کی طرف چلے تھے جب غار پر پہنچے تو سیدنا ابوبکرؓ نے عرض کیا خدا کی قسم آپ اندر نہ جائیں میں جاتا ہوں اگر اندر کچھ ہوگا تو آپﷺ بچ جائیں گے اور کچھ گزند ہونا ہے مجھے ہو جائے گا یہ کہہ کر اندر داخل ہوئے غار کو صاف کیا ایک طرف چند سوراخ نظر آئے اُن کو اپنا تہبند پھاڑ کر بند کیا پھر بھی دو سوراخ رہ گئے تو دونوں پاؤں سے انکے دہانے بند کر دیئے پھر رسُول پاکﷺ سے کہا کہ اب اندر تشریف لے آئیے حضّورﷺ اندر تشریف لے گئے اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی گود میں سر مبارک رکھ کر سو گئے کہ سیدنا ابوبکرؓ کے پاؤں میں سوراخ کے اندر سے سانپ نے کاٹ لیا مگر حضّورﷺ کی بیداری کے خوف سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے حرکت نہ کی جب آنسو رسول پاکﷺ کے چہرے پر ٹپکے آپﷺ نے بیدار ہو کر فرمایا سیدنا ابوبکرؓ کیا بات ہے؟ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا حضورﷺ پر میرے ماں باپ قربان ہوں مجھے سانپ نے کاٹ لیا ہے حضورﷺ نے اپنا لعابِ دہن لگا دیا سیدنا ابوبکرؓ کی تکلیف جاری رہی مدت کے بعد پھر اسی کا دورہ پڑا اور یہی اُنکی وفات کا سبب ہوا۔
اور دن سے مُراد میری وہ دن ہے کہ جس دن آنحضرتﷺ کی وفات ہوئی تو اہلِ عرب مرتد ہوگئے اور کہنے لگے ہم زکوٰۃ نہیں دینگے سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ اگر اونٹ کا ایک زانو بند بھی یہ لوگ مجھے نہ دیں گے تو میں ان سے جہاد کروں گا میں نے کہا اے رسول اللہﷺ کے خلیفہ لوگوں سے نرمی اور اُلفت سے پیش آئیے فرمایا جاہلیت میں تو تُو بڑا سخت اور غصّہ ور تھا اب کیا اسلام میں بُزدل اور نامرد بنتا ہے؟ بات یہ ہے کہ وحی کا سلسلہ تو منقطع ہو گیا اب دين کامل ہو چکا اب کیا میری زندگی میں دین میں نقصان آ سکتا ہے؟
مسلمان ہونے سے پہلے آپ رئیس قریش تھے اور دولتمند تاجر ریاست اور دولت کے ساتھ حسنِ اخلاق ہمدردی وُسعت معلومات دانشمندی اور معاملہ فہمی میں صاحبِ اِمتیاز تھے انہی صفات کے اثر سے قوم میں محبوب و معتمد تھے آپ زمانہ جاہلیت میں بھی ایک سلیم الطبع غمخوار دانشمند اور زندہ دِل انسان تھے جس انسان میں یہ صفات ہوں وہ بہترین ہمدم و رفیق بن سکتا ہے۔
شرفِ اسلام کے بعد سیدنا ابوبکرؓ کی زندگی اطاعت و استقامت کا مُرقع ہے غزوہ تبوک کے موقع پر جو کچھ گھر میں تھا وہ سب لا کر حاضر کر دیا۔
مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد آنحضرتﷺ کی رحلت تک پروانہ وار شمع رسالت پر قربان و نثار تھے تمام غزوات میں شمشیر بکف ہمرکاب رہے بدر میں جو شانِ شجاعت دکھائی اُس نے سیدنا علیؓ کی زبان مبارک سے آپؓ کو "اشجع النّاس" کا خطاب دلوایا۔
سیدنا ابوبکرؓ کے درجاتِ عالیہ
مسند اِمام احمد بن حنبلؒ ترمذی شریف اور مسند ابنِ حبان میں سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا "ان اهل الدرجات العلىٰ ليرٰهم هو اسفل منهم كما ترون الكوكب الدرى فى افق السماء وان ابابكرؓ و عمرؓ ومنهم وانعما"۔
(مشكوٰة صفحہ 559)۔
یقین جانو کہ درجاتِ عالیہ میں جو لوگ ہونگے اُن کے نیچے کے درجہ والے اسی طرح دیکھیں گے جیسا کہ تم ایک روشن ستارہ کو آسمان کے کنارے دیکھتے ہو اور یقیناً سیدنا ابوبکرؓ و سیدناعمرؓ اُنہیں میں سے ہیں اور سب سے بہتر ہیں۔
سیدنا صدیقِ اکبرؓ اور سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے اجتماعی صفات
(1)۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں رسُول پاکﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اہلِ جنت علیّين والوں کو اس طرح دیکھیں گے جِس طرح تم لوگ چمکدار ستاروں کو آسمان کے کناروں پر دیکھتے ہو اور سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ یقیناً علیّين والوں میں سے ہونگے بلکہ تمام علیّين والوں میں سے مرتبہ میں بڑھ کر ہونگے۔
(2)۔ سیدنا ابنِ عمرؓ کہتے ہیں ایک روز رسُول پاکﷺ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کے ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لیے کاشانۂ نبوّت سے برآمد ہوئے اور مسجد میں تشریف لائے اُس وقت ایک صاحب حُضورﷺ کے دائیں طرف اور دوسرے بائیں طرف سرکار عالیﷺ نے فرمایا اسی طرح قیامت کے دن ہم قبروں سے اٹھائے جائیں گے۔
(3)۔ سیدنا عبداللہ ابنِ اخطبؓ کہتے ہیں حضور ﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کو دیکھ کر فرمایا یہ میرے گوش و چشم ہیں۔
(4)۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں ایک بار چاندنی رات تھی اور حضورﷺ کا سر مُبارک میری گود میں تھا میں نے عرض کیا یارسول اللہﷺ کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں؟ فرمایا ہاں سیدنا عمرؓ کی میں نے عرض کیا سیدنا ابوبکرؓ کی نیکیوں کی کیا کیفیت ہے؟ فرمایا سیدنا عمرؓ کی تمام نیکیاں سیدنا ابوبکرؓ کی ایک (رات کی) نیکی کے برابر ہے۔