سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی شان سیدنا علىؓ کی زبان سے
سید نظیر احمد بخاریسیدنا ابوبکر صدیقؓ کی شان سیدنا علىؓ کی زبان سے
مسلمانوں کی تاریخ میں خلافتِ راشدہ کا دور ایک ایسا سنہری دور ہے جسے غیر مسلم تاریخ دان بھی تاریخِ اسلام کا بہترین زمانہ تسلیم کرتے ہیں، اسی دور سے مختلف علوم کے چشمے پھوٹتے ہیں اورمسلمانوں کی کثیر تعداد اپنی علمی، فکری، عملی، اور قانونی، تشنگی دور کرنے کے لیے اسی دور کی طرف ہی دیکھتی ہے، اس دور کے خلفاء اسلام کا ایک ایسا سرمایہ ہیں جس سے ہر وہ شخص استفادہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو بہرہ یاب سمجھتا ہے، جسں نے بھی اس تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور جذباتی وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلام کے ان ابطالِ جلیلہ کی خدمات پر ایک ایسی نگاہ ڈالی ہے جس میں تعصّب کی کرنوں نے بینائی فراہم نہیں کی، اُسے اس حقیقتِ حال کے اعتراف سے چارہ نہیں۔ اگر اس دور کے مسلمان بھی تعصّب اور جذبات کے عناصر سے پاک ہو کر اپنی تاریخی، تحقیقی، اور امتثالی نظر ڈالتے تو کم از کم مسلمانوں میں فرقوں کی تعداد تو ضرور کچھ کم ہوجاتی اور اصحابِ رسولﷺ کو معیارِ صداقت سمجھنے میں جن بعض خام ذہنوں کو کچھ تذبذب ہے ان کا اضطراب ضرور ختم ہوجاتا۔ اہلِ اسلام اس وقت جس افراط و تفریط میں مبتلا ہیں اس کے لیے مؤثر علاج یہی ہے کہ آج کل کے مسلمان قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی اقتداء اور پیروی کو اپنا مطمح نظر بنائیں کیونکہ یہ برگزیدہ ہستیاں اپنے اندر ایسی خصوصیات رکھتی تھیں جن کو اپنا کر ہم اپنی بہت سی مشکلات پر قابو پاسکتے ہیں۔ اکابر صحابہؓ کی ان صفات و خصوصیات کو ان کے معاصرین بعض اصاغر صحابہؓ نے بھی تسلیم کیا ہے، اور یہ چیز صحابہؓ کو معیارِ حق نہ ماننے والے غیر پختہ ذہن کے لیے ایک لمحہ فکریہ مہیا کرتی ہے۔
چنانچہ اس عنوان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہاں پر سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے متعلق شیرِ خدا سیّدنا علیؓ کے خیالات پیش کیے جاتے ہیں جو ہمارے رستے کی تاریکیوں کو روشن کرتے ہیں غور کیجئے کہ اگر سیدنا علیؓ جیسے بابُ العلم اپنے سے اکابر صحابہؓ کی نہ صرف پیروی کرتے ہیں بلکہ اس پر فخر کرتے ہیں صرف فخر نہیں اس کی دعوت بھی دیتے ہیں، تو آج کل کے کورِ باطن بزعم خود مجتہد اکابر صحابہؓ کو معیارِ حق نہ مان کر کس طرح انصاف اور دیانت کا حق ادا کرسکتے ہیں؟
کیا سیّدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے بعد میں آنے والے حکمرانوں کے لیے سیرت شیخینؓ کی پابندی لازمی نہیں کی؟ کیا یہ انہیں معیارِ حق ماننا نہیں ہے؟
بعض حضرات کا خیال ہے کہ چونکہ خلافتِ اولیٰ کا انتخاب سیّدنا علیؓ کے حق میں نہ ہوا، اس لیے وہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے ناراض رہے، اور چونکہ شیر خدا سے سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے خواہ مخواہ ناراضگی مول لی، اس لیے ان کی خلافت حق بجانب نہ تھی اور وہ (نعوذ باللہ) غاصب تھے، لیکن اگر ان بزرگوں کے باہمی معاملات پر غور کیا جائے تو بعد کے حالات اس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں کہ ان اکابر میں اگر کبھی کوئی غلط فہمی بھی چل نکلی تو یہ شکر رنجی بھی جلدی دور ہو جاتی رہی اور جملہ صحابہؓ آپس میں پھر شیر و شکر ہو جاتے رہے۔
سیدنا علیؓ کے مندرجہ ذیل اقوال سے مندرجہ بالا حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے کہ سیدنا صدیقؓ سیدنا علیؓ کی نگاہ میں اسی حیثیت کے حامل تھے جس کی ایک بلند پایہ صحابی رسولﷺ سے توقع کی جاسکتی ہے۔
چنانچہ:
1) سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ: اس امت میں آنحضرتﷺ کے بعد سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ سب سے بہتر ہیں۔
(امام احمدؒ نے اسے اپنی مسند میں روایت کیا ہے)
امام سیوطیؒ کا قول ہے کہ امام ذہبیؒ نے اس قول کو متواتر لکھا ہے اور حضرت شاہ ولی اللّٰه محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ اتنے بزرگوں نے اس قول کو سیدنا علیؓ سے روایت کیا ہے۔
2) سیدنا علیؓ سے مروی ہے کہ: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ہم کسی نیکی کی طرف نہیں جھپٹے مگر یہ کہ سیدنا ابوبکرؓ اس میں ہم سے سبقت لے گئے۔
(طبرانی)
3)سیدنا عمرؓ سے بھی یہی قول مروی ہے:
قال على رضى اللّٰه عنه خير الناس بعد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ابوبكر وعمر لا يجتمع حتى وبغض ابي بكر وعمر في قلب مومن: (البزار)
یعنی سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ کے بعد سیدناابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ سب آدمیوں سے بہتر ہیں، میری محبت اور سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کا بغض کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتا۔
4) ایک بار سیدنا علیؓ نے اپنے ہم نشینوں سے دریافت کیا کہ بتاؤ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ سب نے کہا آپ فرمایا:میں تو جس سے لڑا میں نے اس سے حق کا بدلہ لے لیا، سب سے زیادہ شجاع آدمی کا نام لو، عرض کی ہم کو معلوم نہیں فرمایا: سیدنا ابوبکرؓ، غزوہ بدر کے معرکہ میں ہم نے رسول اللّٰہﷺ کے واسطے ایک سایہ دار نشست گاہ بنادی تھی، اس کے بعد پوچھا گیا کہ کون شخص یہاں پاسبانی پر رہے گا۔ جو کفار کو آپﷺ کے پاس نہ آنے دے ، یہ سن کر واللہ کوئی شخص آپﷺ کے قریب نہ آیا مگر سیدنا ابوبکرؓ، وہ تلوار کھینچ کر رسول اللہﷺ کے قریب کھڑے ہوگئے، جب کوئی مشرک رسول اللہﷺ کے قریب آتا، سیدنا ابوبکرؓ شمشیر بکف اس پر حملہ کرتے، لہٰذا وہ سب سے زیادہ شجاع ہیں۔
(دارقطنی فی الافراد،اصابہ)
5) ابو یحییٰ سے روایت ہے کہ میں شمار نہیں کرسکتا کہ میں نے کتنی مرتبہ سیدنا علیؓ کو منبر پر کہتے ہوئے سنا کہ اللہ نے اپنے نبیﷺ کی زبانی سیدنا ابوبکرؓ کا نام صدیق رکھا ہے۔
اس کی من وجہ تائید تفسیر قمی، میں بھی واقعہ غار کے ضمن میں موجود ہے۔
(تفسیر قمی صفحہ 157)
6)جب سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی وفات کی خبر سنی تو اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، پڑھ کر یہ فرماتے ہوئے ان کے مکان پر تشریف لائے کہ الیوم انقطعت خلافة النبوة (آج خلافتِ نبوت کا خاتمہ ہوگیا)، پھر جہاں پر سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کا جسدِ مطہر رکھا تھا وہاں دروازے پر کھڑے ہو کر معرفت و بلاغت کی اس قوت کے ساتھ جو سیدنا علیؓ کا حصہ تھی خطبہ ارشاد فرمایا جو سیدنا صدیقؓ کی باطنی و ظاہری خصوصیات اور ان کے فضائل پر ایک بہترین تبصرہ ہے، اور اس خطبہ سے وہ محبت و عزت ظاہر ہوتی ہے، جو سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے لیے سیدنا علیؓ کے دل میں موجود تھی۔
خُطبه: اے ابوبکرؓ تم پر خدا کی رحمت ہو تم رسول ﷺکے محبوب مونس، رفیق، معتمد، راز دار اور مشیر تھے، تم مسلمانوں میں سب سے پہلے ایمان لائے، تمہارا ایمان سب سے زیادہ خالص اور تمہارا یقین سب سے زیادہ استوار تھا، تم سب سے زیادہ الله سے ڈرنے والے اور دین کے معاملہ میں سب سے زیادہ تکلیف اٹھانے والے تھے، رسول اللّٰہﷺ کی خدمت میں سب سے زیادہ حاضر باش، اسلام پر سب سے زیادہ شفیق، اصحابِ رسول اللہﷺ کے لیے سب سے زیادہ بابرکت، رفاقت میں سب سے بہتر، سب سے زیادہ صاحبِ مناقب، فضائل کی دوڑ میں سب سے آگے درجہ میں سب سے بلند سب سے قریب وسیلہ اور رسولﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ، سیرت میں، ہیئت میں، مہربانی میں اور فضل میں، قدر و منزلت میں سب سے بلند اور آپﷺ کے نزدیک سب سے بڑھ کر معتمد، الله تعالیٰ تم کو اسلام اور رسولﷺ کی جانب سے جزائے خیر دے، تم رسولﷺ کے نزدیک منزلہ سمع و بصر تھے، تم نے رسول اللہﷺ کو اُس وقت سچا مانا جب سب نے آپ کو جھوٹا کہا، اس لیے اللہ نے اپنی وحی میں تمہارا نام صدیق رکھا،چنانچہ فرمایا:
وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٖ
یعنی اور وہ جو سچ کو لایا اور جسں نے اس کی تصدیق کی۔
(تفسیر مجمع البیان:الَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٖ ابوبکرٍ: جلد نمبر 8 صفحہ498)
سچ لانے والے محمدﷺ اور تصدیق کرنے والے ابوبکرؓ، تم نے آپﷺ کے ساتھ اُس وقت غمخواری کی جب اوروں نے تنگدلی کی اور تم مصائب کے وقت حضور ﷺ کے ساتھ اس وقت بھی کھڑے رہے جب لوگ آپﷺ سے بچھڑ گئے تم نے سختیوں میں بھی حضورﷺ کے ساتھ محبت و رفاقت کا حق با حسن وجوہ ادا کیا، تم ثانی اثنین اور رفیقِ غار (ثور) تھے اور تم پر سکون نازل ہوا تھا، تم ہجرت میں آپﷺ کے رفیق تھے اور اللہ کے دین میں اور رسولﷺ کی امت پر تم آپﷺ کے ایسے خلیفہ تھے جس نے اُس وقت خلافت کا حق ادا کر دیا جبکہ لوگ مرتد ہوگئے تھے اور تم نے خلافت کا وہ حق ادا کردیا جو پیغمبر کے کسی خلیفہ نے ادا نہیں کیا تھا۔ چنانچہ تم نے اُس وقت مستعدی دکھائی جب کہ تمہارے ساتھی سُست ہوگئے تھے اور تم نے اُس وقت جنگ کی جبکہ وہ عاجز ہوگئے تھے، جب وہ کمزور تھے تو تم قوی رہے، اور تم نے رسولﷺ کے راستہ کو اُس وقت تھامے رکھا جبکہ لوگ پست ہوگئے تھے۔ تم بلا نزاع و تفرقہ خلیفہ برحق تھے، اگرچہ اس سے منافقوں کو غصہ، کفار کو رنج، حاسدوں کو کراہت اور باغیوں کو غیظ تھا، تم امر حق پر ڈٹے رہے۔ جبکہ لوگ بزدل ہوگئے، اور تم ثابت قدم رہے جب وہ ڈگمگا اٹھے، اور جب وہ رک گئے تو تم نورِ الٰہی کی روشنی میں رواں رہے، پھر انہوں نے بھی تمہاری پیروی کی اور منزل پر پہنچ گئے، تمہاری آواز سب سے پست، تمہارا تفوق سب سے اعلیٰ، تمہارا کلام سب سے زیادہ باوقار تمہاری گفتگو سب سے زیادہ باصواب، تمہاری خاموشی سب سے زیادہ طویل، تمہارا قول سب سے زیادہ بلیغ تھا، تمہاری ذات سب سے زیادہ شجاع اور معاملات کی سب سے زیادہ واقف اور عمل میں سب سے زیادہ بزرگ تھی، واللہ تم اہلِ دین کے سردار تھے۔ جب لوگ دین سے ہٹے تو تم آگے بڑھے اور جب وہ دین پر جھکے تو تم ان کے پیچھے پیچھے تھے تم اہلِ ایمان کے مہربان باپ تھے، اس مہرِ پدری سے وہ تمہاری اولاد بن گئے، جب بھاری بوجھوں کو وہ نہ اٹھا سکے اُن کو تم نے اٹھایا، جو ان سے فرو گذاشت ہوئی اس کی تم نے نگہداشت کی، جو چیز انہوں نے کھو دی اس کی تم نے حفاظت کی، جو انہوں نے نہ جانا وہ تم نے سکھایا تم نے جانبازی کی جب وہ عاجز ہوگئے تم ثابت قدم رہے جب وہ گھبرا گئے تم نے داد خواہوں کی داد رسی کی، وہ اپنی رہنمائی کے لیے تمہاری رائے کی جانب رجوع ہوئے اور کامیاب ہوئے، تمہارے ذریعے سے اُن کو وہ ملا جس کا ان کو گمان نہ تھا، تم کافروں کے لیے بارش عذاب اور آتشِ سوزاں تھے اور مؤمنوں کے لیے رحمت اُنس و پناہ تھے تم نے اوصاف کی فضا میں پرواز کی ان کا خلعت پالیا، اُن کے محاسن لے لیے اور فضائل کی بازی جیت لی تمہاری دلیل کو شکست نہیں ہوئی، تمہاری بصیرت کمزور نہیں ہوئی اور تم نے بزدلی نہیں دکھائی، تمہارے دل میں کجی پیدا نہیں ہوئی اور وہ منحرف نہیں ہوا، تم اس پہاڑ کی مانند تھے جس کو آندھیاں حرکت نہیں دے سکتیں اور جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا تم رفاقت اور مالی خدمت دونوں کے اعتبار سے سب سے زیادہ احسان کرنے والے تھے، اور ارشادِ نبویﷺ کے موافق جسمانی لحاظ سے گو کمزور لیکن الله کے معاملے میں قوی تھے، اپنے نفس کے اعتبار سے متواضع، الله کے نزدیک بڑے اور لوگوں کی آنکھوں میں بھاری بھرکم اور بڑے تھے۔ تمہاری نسبت نہ کوئی دھوکا میں تھا اور نہ وہ حرف گیری کرسکتا تھا۔ تم میں نہ کسی کی طمع تھی اور نہ تم کسی کی رعایت کرتے تھے، ضعیف اور پست آدمی تمہارے نزدیک قوی تھا کہ تم اس کو حق دلاتے تھے اور قوی تمہارے نزدیک کمزور اور ناچیز تھا کہ تم اس سے حق لے کر رہتے تھے، اس معاملہ میں قریب و بعید سب تمہاری نظر میں برابر تھے، تمہارا سب سے زیادہ مقرب وہ تھا جو خدا کا سب سے زیادہ فرمانبردار اور سب سے زیادہ پرہیزگار تھا، تمہاری شانِ حق راستی اور نرمی تھی تمہارا قول حکم اور منطقی تھا، تمہارے حکم میں حلم تھا اور حزم ورائے میں دانائی تھی اور عزم تھا۔ ان اوصاف و فضائل کی قوت سے تم نے باطل کو اکھیڑ کر پھینک دیا، اس کے بعد راستہ صاف تھا،مشکل آسان تھی اور فتنہ و فساد کی آگ سرد، دین تمہاری مدد سے اعتدال پر آگیا، ایمان تمہاری وجہ سے قوی ہوگیا اور اسلام اور مسلمان مضبوط ہوگئے اور فرمانِ الٰہی غالب آگیا، اگرچہ کفار کو سخت ناگوار تھا، اس حسن و خدمت میں واللہ تم بہت آگے نکل گئے اور اپنے جانشین کو سخت دشواری میں ڈال دیا اور علانیہ خیر کے مراتب پالیے، تمہاری شان آہ و بکا سے ارفع ہے اور تمہارا ماتم آسمان پر عظیم ہے اور تمہاری مصیبت نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے تمہاری مصیبت پر ہم انا لله وانا الیهِ رَاجِعُونَ کہتے ہیں، قضائے الٰہی پر رضامند ہیں اور اس کے حکم کو تسلیم کرتے ہیں۔ واللہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد تمہاری وفات سے بڑھ کر مسلمانوں پر کبھی کوئی مصیبت نہیں پڑے گی، تم دین کی عزت، حفاظت، اور پناہ تھے مسلمانوں کی جمعیت قلعہ اور جائے پناہ اور منافقین کے حق میں سختی اور غصہ، اس کی جزا میں الله تعالیٰ تم کو تمہارے نبیﷺسے ملا دے اور ہم کو تمہارے اجر سے محروم اور تمہارے بعد گمراہ نہ فرمائے۔ ہم پھر اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہتے ہیں۔
بقول راوی جب تک سیدنا علیؓ خطبہ فرماتے رہے تمام اشخاص پر خاموشی مسلط رہی اور خطبہ کے اختتام پر تمام لوگ اس قدر روئے کہ (بلا اختیار) آواز بلند ہوگئی اور تمام نے بالاتفاق کہا کہ اے رسول اللہﷺ کے خویش آپ نے سچ فرمایا۔ (الریاض النضرہ)
یہاں سے اجتماعی رونے پر استدلال نہ کیا جائے یہ ایک غیر اختیاری کیفیت تھی اور اندرونی جذبات کا ایک بلا اختیار اظہار تھا، پھر یہ خطبہ ان تین ایام سوگ میں تھا جن کی شریعت نے اجازت دی ہے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا جسدِ مبارک سامنے تھا اور سیدنا علیؓ تقریر فرما رہے تھے۔
لیکن جب اصل صدمہ پر تین دن گزر چکے ہوں پھر ایسی مجالس قائم کرنا اور مرحومین کا اس انداز میں ذکر کرنا کہ سننے والوں پر رقت طاری ہو یہ ایک اختیاری عمل ہے جو بارادۂ ماتم کیا جاتا ہے اس کی اسلام میں اجازت نہیں، یہ ایک اختیاری اور اجتماعی ماتم ہے جو سوگ کے تین دنوں کے بعد ہر سال کیا جاتا ہے۔
پھر یہ مدح جو اس خطبہ میں ہے ممنوع نہیں جو سامنے کہنا ناجائز ہو۔ سامنے تعریف کرنے والے اس لائق ہیں کہ اُن کے منہ میں مٹی ڈالی جائے اس لئے کہ مدح کہنے والے (سیدنا علیؓ) اور حمدوح کریم (سیدنا ابوبکرؓ) میں عالم کا فرق ہے، یہ عالم دنیا میں تھے اور وہ اعلیٰ علیین میں پہنچ چکے تھے جو عالمِ برزخ کی ایک منزل ہے۔
سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے فضائل پر اس خطبہ کے بعد کچھ تحریر کرنا محض خامہ فرسائی کے سواء کچھ اہمیت نہیں رکھتا، کیونکہ یہ خطبہ سیدنا ابوبک رصدیقؓ کی حقیقی تصویر ہے ہر قسم کی گستاخی کے لیے ایک دیوار ہے۔
علاؤہ ازیں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے بعد اس خطبہ کی صداقت کی شہادت ہے جو سیدنا حسنؓ نے دی، ابو مریم کا بیان ہے:
کہ میں کوفہ میں تھا سیدنا حسن بن علیؓ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا کہ اے لوگوں! رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا، میں نے ربِ کریم کو عرش پر دیکھا، اس عرصہ میں رسول اللہﷺ تشریف لائے اور عرش کے ایک پایہ کے پاس قیام فرمایا، پھر ابوبکرؓ آئے اور دوش مبارک پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوگئے پھر عمرؓ آئے اور ابوبکرؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوگئے، پھر عثمانؓ آئے اُن کے ہاتھ میں اُن کا سر تھا عرض کی الٰہی اپنے بندوں سے پوچھ کہ انہوں نے مجھ کو کس قصور میں قتل کیا۔ اس کہنے پر آسمان سے دو خون کے پرنالے زمین میں بہنے لگے، یہ خطبہ سن کر لوگوں نے سیدنا علیؓ سے کہا کہ آپ دیکھتے ہیں سیدنا حسنؓ کیا کہتے ہیں۔
فرمایا:جو دیکھا ہے وہ کہتے ہیں۔
یہ تھی سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی ذات ملکوتی صفات اور یہ تھے دینِ محمدیﷺ پر ان کے احسانات جو رہتی دنیا تک قائم رہیں گے، مگر زمانے کی روش کتنی بڑی کافر نعمت، ناسپاس، ناشکر گذار اور محسن آزار ہے کہ اس قسم کے قدس صفات بزرگ کے پاک دامن سے بھی الجھنا اپنا عین حق تصور کرتی ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں نے اپنے بزرگوں کی خدمات کا حق صحیح معنوں میں ادا نہیں کیا۔ اس کے برعکس مخالف الزام تراشیوں کے لیے کمر بستہ ہوگئے۔ جب لوگوں نے خدا پر کسی کا باپ ہونے، نبی پر ساحر اور کاہن ہونے کے اتہام باندھے تو پھر اس قسم کے بزرگ حلقہ دشنام و تبراء میں آنے سے کیسے بچ سکتے تھے، فطرتِ کائنات یہی ہے۔
یہود کی شہ یا مخالفین کی الزام تراشی اگر صرف مخالفت تک محدود رہتی تو اسے سیاسی رقابت کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔ مگر یہ بات کس قدر عقل و خرد سے متصادم ہے کہ اسے ایک مذہبی گروہ نے عبادت کا درجہ دے رکھا ہے اور وہ اسے اپنا فرقہ وارانہ حق سمجھتے ہیں کہ ہر نماز کے بعد یہ ناپاک عبارت بعقیدہ عبادت اپنی نجس زبان سے کہیں۔
باید بعد از ہر نماز بگوید اللهم العن ابابكر(استغفر الله)
(عین الحیاۃ ملا باقر مجلسی صفحہ 599 مطبوعہ ایران)
اور پھر ایسے سادہ لوح یا چالاک بھی ہیں جو شیعہ ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ہمارا عقیدہ نہیں اور ہم ایسا نہیں کرتے۔ کلینی اور باقر مجلسی ہمارے مذہب کے ترجمان نہیں ہیں یہ سچ ہے، جھوٹ کی کوئی انتہاء نہیں، بولنے والا بے شرم چاہیئے۔