Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حضرت عمر ؓفاروق حضرت علی ؓ کے داماد تھے۔

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

سنی اور شیعہ کتب میں متفقہ طور پر یہ بات واضح ہے کہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے داماد تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
حضرت ام كلثوم ( زينب صغرىٰ ) بنت علی ۔۔۔۔ جوکہ سیدہ فاطمہ الزھراء ؓ بنت رسول اللہ ﷺ کی ۔۔۔۔ سب سے چھوٹی بیٹی تھیں ۔۔۔۔ بلاشبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ۔۔۔۔ زوجہ محترمہ تھیں ۔۔۔۔ اور یہ ایسی حقیقت ہے ۔۔۔۔ کہ سنی محدثین کرام کے علاوہ خود شیعہ محدثین ۔۔۔۔ اور مؤرخین ۔۔۔۔ کو بھی اس حقیقت کے معترف ہیں...!

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت ام کلثوم بنت علی  ..!!!

اہل سنت کتب

صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ
’’ثعلبہ بن ابی مالک کہتے ہیں ۔۔۔۔ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی عورتوں میں چادریں تقسیم کیں ۔۔۔۔ ایک عمدہ چادر بچ رہی ۔۔۔۔ ان کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک نے کہا ۔۔۔۔ کہ حضرت ! آپ یہ چادر رسول اللہﷺ کی نواسی ۔۔۔۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی صاحبزادی ۔۔۔۔ ام کلثوم ؓ کو عنایت فرما دیجیے ۔۔۔۔ جو آپ کی بیوی ہیں" ۔۔۔۔ امیر المؤمنین حضرت عمر ﷜ نے فرمایا : میری بیوی ام کلثوم کے مقابلہ میں ۔۔۔۔۔ بی بی ام سلیط اس چادر کی زیادہ مستحق ہیں ۔۔۔۔ وہ انصاری عورت تھیں ۔۔۔۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی تھی ۔۔۔۔ امیر المؤمنین کہنے لگے :
یہ بی بی ام سلیط ؓ جنگ احد میں ۔۔۔۔ پانی کی مشکیں اپنی کمر پر لاد لاد کر ۔۔۔۔ ہمارے لیے لاتی تھیں ۔
(بخاری : باب حمل النساء القرب الی الناس فی الغزو ج1 ص3)
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں :

كان عمر قد تزوج ام كلثوم بنت علي وامها فاطمة ولهذا قالوا لها بنت رسول الله وكانت قد ولدت له في حياته وهي اصغر بنات فاطمة.
(فتح الباری شرح صحیح بخاری ، باب حمل النساء القرب الی الناس فی الغزو ص59)

کہ حضرت ام کلثوم امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں ۔۔۔۔ ان کی والدہ محترمہ کانام فاطمہ بنت رسول اللہﷺ ہے ۔۔۔۔ اسی لیے لوگوں نے ان کو بنت رسول اللہﷺ کہا ۔۔۔۔ بی بی کلثوم ؓ رسول اللہ ﷺ کی حیات ہی میں پیدا ہوئی تھیں ۔۔۔۔ اوریہ حضرت فاطمہ ؓ الزھراء کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں ۔
علامہ کرمانی صحیح بخاری کی اس حدیث شرح میں لکھتے ہیں کہ ام کلثوم فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ کی بیٹی ہیں ۔۔۔۔ جو رسول اللہ کی حیات میں پیدا ہوئی تھیں ۔۔۔۔ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ۔۔۔۔ اس محترمہ کار شتہ طلب کیا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا :
اگر آپ کو میری بیٹی پسند ہے ۔۔۔۔ تو میں نے اس کا نکاح آپ سے کر دیا۔ (کرمانی شرح البخاری حاشیہ صحیح البخاری ص403)
امیر المومنین فی الحدیث حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی اس صحیح حدیث کے بعد ۔۔۔۔ ہم کسی اور سنی کتاب کی تصریح ۔۔۔۔ اور حوالہ کی مزید ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔۔۔۔ اور پھر مزید برآں شیخ الاسلام امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ ۔۔۔۔ اور علامہ کرمانی رحمہ اللہ کی صراحت کے بعد ۔۔۔۔ کسی قسم کی کوئی تشنگی باقی نہیں رہ جاتی ۔۔۔۔ تاہم اتمام حجت کیلئے اکابر شیعہ علماء کی کتب معتبرہ سے ۔۔۔۔ ایسے گیارہ دلائل پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔ جن میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا داماد تسلیم کیا گیا ہے ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت ام کلثوم بنت علی سے شیعہ محدثین/مؤرخین کی کتب معتبرہ اور اصول اربعہ

( از فروع کافی) :
پہلے ملاحظہ فرمائیں شیعوں کی معتبر ترین کتاب اصول کافی کا مختصر تعارف ۔
اس کتاب کے مؤلف اور شیعہ کے ثقة الاسلام ابو جعفر بن یعقوب بن اسحاق کلینی الرازی المتوفی 328تا 329ھ اپنی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ کہ میں نے اس کتاب کو امام غائب مہدی المنتظر پر پیش کیا ۔۔۔۔ (جو "سر من رئی" غار میں چھپا ہوا ہے)
تو انہوں نے فرمایا :

"ھذا کاف لشیعتنا"

یعنی اس پر مہر تصدیق ثبت فرمائی ۔۔۔۔ اور کہا کہ یہ کتاب ہمارے شیعوں کیلئے کافی ہے ۔۔۔۔ دوسری کتاب کی حاجت نہیں ۔
ملاخلیل شارح کافی ۔۔۔۔ اپنی کتاب الصافی شرح اصول کافی میں لکھتے ہیں :
’’ ہمارے علماء کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے ۔۔۔۔ کہ آثار صحیح اس پر دلالت کرتے ہیں ۔۔۔۔ کہ جوحدیث بھی کافی (اصول و فروع ) میں مروی ہے بالکل صحیح ہے ۔ ‘‘ (الصافی : ص36)
ان دونوں وضاحتوں سے ثابت ہوا ۔۔۔۔ کہ شیعہ دنیا میں کافی ( اصول وفروع ) کو صحیح اور مستند کتاب ۔۔۔۔ اور اس کی احادیث کا انکار گویا امام کو جھٹلانے کے مترادف ہے ۔۔۔۔ اور سنیوں کی صحیح البخاری کے پائے کی کتاب سمجھی جاتی ہے ۔۔۔۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ صحیح اور معتبر مانتے ہیں ۔۔۔۔ کیونکہ بزعم شیعہ اس کتاب پر امام مہدی نے صحت کا مہر لگایا ہے ۔۔۔۔ اس لیے ہم نے اس کتاب کے حوالہ جات کو مقدم رکھا ہے ۔۔۔۔ اب حوالہ جات ملاحظہ فرمائیے !

1۔ عن أبى عبد الله فى تزويج أم كلثوم فقال إن ذلك فرج غصبناه . ( فروع كافى باب تزويج ام كلثوم كتاب النكاح ج5ص 346)

امام جعفر صادق سے جب بى بى ام کلثوم زینب صغریٰ بنت علی کے نکاح کے متعلق پوچھا گیا ( کہ اس کا نکاح حضرت عمر سے کیسے ہو گیا ؟ تو فرمانےلگے کہ یہ ایک رشتہ ہم سے چھین لیا گیا تھا ۔
 دوسری دلیل
جناب جعفر صادق کا بیان ہے کہ جب حضرت عمر نے امیر المومنین علی علیہ السلام سے ام کلثوم بنت علی کا رشتہ طلب فرمایا تو آپ نے جواب میں فرمایا: وہ ابھی جوان نہیں ہوئی تو اس جواب کے بعد حضرت عمر نے حضرت عباس بن عبدالمطلب سے ملاقات کی اور دریافت کیا کہ کیا میں بیمار ہوں؟ تو حضرت عباس ﷜ نے پوچھا : کیوں کیا بات ہے ؟ تو حضرت عمر نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے آپ کے بھتیجے (علی) سے ان کی بیٹی ام کلثوم کا رشتہ طلب کیا ہے ، انہوں نے انکار کر دیا ہے ۔ یاد رکھیے ! اگر اس نے میری فرمائش پوری نہ کی تو میں تم سے آب زمزم کی انتظامی سربراہی واپس لے لوں گا اور تمہاری ایک ایک بزرگی ختم کر دوں گا اور علی پر چوری کے دو گواہ قائم کر کے چوری کی حد میں اس کا داہناہاتھ کاٹ دوں گا تو حضرت عباس نے حضرت علی علیہ السلام سے حضرت عمر کے جذبات کی اطلاع کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی دختر ام کلثوم کا نکاح کامعاملہ میرے سپرد کر دو تو حضرت علی علیہ السلام نے یہ معاملہ حضرت عباس کے سپرد کر دیا ۔

( فروع کافی : 5/ 346طبع دار الکتب الاسلامیہ طہران )

 تیسری دلیل 

عن عبدالله بن سنان، ومعاوية ابن عمار، عن أبي عبدالله عليه السلام قال: سألته عن المرأة المتوفى عنها زوجها أتعتد في بيتها أو حيث شاء‌ت؟ قال: بل حيث شاء‌ت، إن عليا عليه السلام لما توفي عمر أتى أم كلثوم فأخذ بيدها فانطلق بها إلى بيته.

’’عبد اللہ بن سنان اور معاویہ بن عمار سے روایت ہے کہ ہم نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ جب کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ عدت وفات کہاں گزارے ؟
اپنے شوہر کے گھر بیٹھے یا جہاں چاہے گزارے ؟
تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ جہاں چاہے بیٹھے ۔ کیونکہ جب حضرت عمر فوت ہوگئے تو حضرت علی علیہ السلام نے اپنی بیٹی ام کلثوم کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے ۔
 چوتھی دلیل 
سلیمان بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جعفر بن صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ بیوہ عورت عدت وفات كہاں پوری کرے ؟ اپنے شوہر کے گھر عدت پوری کرے یا جہاں چاہے بیٹھ سکتی ہے ؟ آپ نےمیرے جواب میں کہا :جہاں چاہے اپنی عدت پوری کرے اور اپنی اس رائے کو مدلل کرتے ہوئے فرمایا کہ جب عمر فوت ہوئے تھے تو حضرت علی علیہ السلام نے اپنی دختر ام کلثوم ( زوجہ عمر ) کے پاس تشریف لائے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے ۔

( فروع کافی : کتاب الطلاق 6/ 116)

تبصرہ :قارئین کرام ! اسے مذہبی تعصب کہیے گا ۔۔۔۔ یا سبائی ہاتھ کی صفائی ۔۔۔۔ کہ جب نکاح ام کلثوم کا دلائل قاطعہ ۔۔۔۔ اور براہین ساطعہ کی وجہ سے انکار نہ کر سکے ۔۔۔۔ تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ جیسے غیور ۔۔۔۔ اور جسور ۔۔۔۔ انسان کو بے بس ۔۔۔۔ اور مجبور محض ۔۔۔۔ ظاہر کر دیا ، گویا حضرت علی کرم اللہ وجہہ ۔۔۔۔ جن کے بارے میں شیعہ حضرات "لافتى إلا على ولاسيف إلا ذوالفقار " اور مولیٰ مشکل کشا کہتے ۔۔۔۔ نہیں تھکتے ۔۔۔۔ بصورت اکراہ و مجبوری اس نکاح کامعاملہ ۔۔۔۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو سونپ کر اپنی جان چھڑائی تھی ۔۔۔۔ سبائی حضرات اس حقیقت واضحہ کی کوئی بھی تاویل کریں ۔۔۔۔ مگر یہ حقیقت اپنی جگہ بہر حال ۔۔۔۔ اور بہر نوع قائم اور دائم ہے ۔۔۔۔ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے داماد ۔۔۔۔ اور بی بی ام کلثوم بنت علی ہمشیرہ حضرت حسین رضی اللہ عنہا کے شوہر نامدار تھے ۔۔۔۔ مزید پڑھئے ۔
 پانچویں دلیل 
شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن جعفر الطوسی متوفی 460ھ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’تہذیب الاحکام ‘‘ میں غیر مبہم الفاظ میں اعتراف کیا ہے ۔۔۔۔ کہ بی بی ام کلثوم بنت علی جوسیدہ فاطمہ الزھراہ ؓ کے بطن سے تھیں حضرت عمر کی زوجہ محترمہ تھیں۔
نوٹ :۔ "تہذیب الاحکام" شیعہ کے صحاح اربعہ میں سے اھم کتاب ہے

’’ عن عبدالله بن سنان، ومعاوية ابن عمار، عن أبي عبدالله عليه السلام قال: سألته عن المرأة المتوفى عنها زوجها أتعتد في بيتها أو حيث شاء‌ت؟ قال: بل حيث شاء‌ت، إن عليا عليه السلام لما توفي عمر أتى أم كلثوم فانطلق بها إلى بيته.‘‘

( تهذيب الاحكام،كتاب النكاح)

عبد اللہ بن سنان اور معاویہ بن عمار سے ر وایت ہے کہ ہم نے ابو عبداللہ(امام جعفر صادق) علیہ السلام سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ جب کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ عدت وفات کہاں گزارے ؟
اپنے شوہر کے گھر بیٹھے یا جہاں چاہے گزارے ؟
تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ جہاں چاہے بیٹھے۔ کیونکہ جب عمر فوت ہو گئے تو حضرت علی علیہ السلام اپنی بیٹی ام کلثوم کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے ۔
 چھٹی دلیل

عن سليمان بن خالد قال: سألت عن عبد الله عن امرأة توفى زوجها أين تعتد في بيت زوجها تعتد أو حيث شاءت؟ قال: بل حيث شاءت ثم قال: إن علياعليه السلام لما مات عمر أتى أم كلثوم فأخذ بيدها فانطلق بها إلى بيته .

(تهذيب الاحكام :حواله مذكوره )

’’سلیمان بن خالد کہتے کہ میں نے حضرت جعفر صادق سے پوچھا کہ بیوہ عورت عدت وفات کہاں پوری کرے ؟
اپنے شوہر کے گھر عدت پوری کرے یا جہاں چاہے بیٹھ سکتی ہے ؟
آپ نے میرے جواب میں کہا : جہاں چاہے اپنی عدت پوری کرے اور اپنی اس رائے کو مدلل کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت عمر فوت ہوئے تھے تو حضرت علی علیہ السلام نے اپنی دختر ام کلثوم ( زوجہ عمر ) کے پاس تشریف لائے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے ۔‘‘
ان دونوں روایات کا درجہ اسناد:
فروع کافی کی روایات نمبر 3 ونمبر 4 کو ہم سے شیعہ کی صحاح اربعہ میں شامل کتاب ’’تہذیب الاحکام‘‘ سے دوبارہ اس لیے نقل کیا ہے تاکہ قارئین کو ان روایتوں کے پائے کا علم ہو جائے کہ شیعی محدثین نے ان روایات کو صرف قبول ہی نہیں کیا ۔۔۔۔ بلکہ ان سے مسائل فقہیہ کا استخراج بھی کیا ہے ۔۔۔۔ تاکہ کسی شخص کو ان روایتوں کو کمزور یا ضعیف کہنے کی جرات ہی نہ ہو ۔۔۔۔ کیونکہ محدث اس روایت سے ہی مسئلہ اخذ کرتا ہے جس کو وہ صحیح سمجھتا ہے ۔۔۔۔ ضعیف اور کمزور روایت سے استدلال کی کوئی تک ہی نہیں ہوتی ۔ جب اصل اور مستدل ہی کمزور ہو تو فرع اور استدلال لامحالہ تار عنکبوت ہی ہو گا۔
 ساتویں دلیل 
حضرت جعفر علیہ السلام نے اپنے والد حضرت باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور اس کابیٹا زید بن عمر بن خطاب دونوں ماں بیٹا ایک ہی وقت فوت ہوئے ۔۔۔ اور یہ علم نہ ہو سکا ۔۔۔۔ کہ ان دونوں سے میں سے کو ن پہلے فوت ہوا ۔۔۔۔ اور ان دونوں میں سے کوئی دوسرے کا وارث نہ بن سکا ۔۔۔۔ اور ان دونوں کی نماز جنازہ بھی اکٹھی پڑھی گئی ۔

(تهذيب الاحكام9/ 262۔263)


دیکھئے ! کتنے صاف اور کھلے الفاظ میں اقرار کیا گیا ہے ۔۔۔۔ کہ حضرت کلثوم بنت علی نہ صرف عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ تھیں بلکہ ان کے بطن سے ایک بیٹا بھی پیدا ہوا جس کا نام زید بن عمر تھا۔
دو روایتیں ( یعنی نمبر 3ونمبر 4 ) جناب ابوجعفر محمد بن حسن طوسی المتوفی 460ھ اپنی کتاب ’’ استبصار فیما اختلف من الاخبار ‘‘ میں بھی لائے ہیں ،
نوٹ:۔ یہ کتاب بھی شیعہ کی صحاح اربعہ میں شمار ہوتی ہے ۔
مولف کے اس طرز عمل سے ثابت ہوتا ہے ۔۔۔۔ کہ یہ دونوں روایتیں ان کے نزدیک غایت درجہ کی صحیح ہیں ۔۔۔۔ ورنہ وہ ان کو بار بار نقل نہ کرتے ۔


 آٹھویں دلیل 

عن عبدالله بن سنان، ومعاوية ابن عمار، عن أبي عبدالله عليه السلام قال: سألته عن المرأة المتوفى عنها زوجها تعتد في بيتها أو حيث شاء‌ت؟ قال: بل حيث شاء‌ت، إن عليا عليه السلام لما توفي عمر أتى إلىأم كلثوم فانطلق بها إلى بيته- (كتاب الاستبصار :باب المتوفى عنها زوجها ان تبيت عن منزلها ام لا –

( ج3ص 302)


عبد اللہ بن سنان اور معاویہ بن عمار کہتے ہیں کہ ہم نے امام جعفر صادق سے دریافت کیا کہ بیوہ عورت اپنی عدت کہاں پوری کرے ؟ کیا ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر ہی کے گھر عدت پوری کرے ؟ کہا: جہاں چاہے عدت پوری کر سکتی ہے کیونکہ عمربن خطاب کی وفات پر حضرت علی علیہ السلام اپنی بیٹی ام کلثوم کو حضرت عمر کے گھر سے اپنے گھر لے آئے تھے ۔
 نویں دلیل 

عن سليمان بن خالد قال: سألت أبا عبد الله ع عن امرأة توفى زوجها أين تعتد في بيت زوجها تعتد أو حيث شاءت؟ قال: بلى حيث شاءت ثم قال: إن عليا ع لما مات عمر أتى أم كلثوم فأخذ بيدها فانطلق بها إلى بيته .

(كتاب الاستبصار :باب المتوفى عنها زوجها ان تبيت عن منزلها ام لا –( ج3ص 302)

سلمان بن خالد کہتے ہیں کہ ہم نے امام جعفر صادق سے دریافت کیا کہ بیوہ عورت اپنی عدت کہاں پوری کرے ؟ کیا ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر ہی کے گھر عدت پوری کرے ؟ کہا: جہاں چاہے عدت پوری کر سکتی ہے کیونکہ عمر بن خطاب کی وفات پر حضرت علی ﷜ اپنی بیٹی ام کلثوم کو حضرت عمر کے گھر سے اپنے گھر لے آئے تھے ۔
 دسویں دلیل 
قاضی نور اللہ شوستری ۔۔۔۔ شہید ثالث ۔۔۔۔ جو کہ گیارہویں صدی کے مشہور شیعہ مجتہد ہیں ۔۔۔۔ اپنی مایہ ناز کتاب مجالس المؤمنین میں فروع کافی کی دوسری روایت کو فارسی زبان میں یوں لکھتے ہیں :
درکتاب استغاثہ وغیرہ آں مسطور است کہ چوں عمر بن خطاب جہت ترویج خلافت فاسدہ خود داعیہ تزویج ام کلثوم دختر حضرت امیر نمودو آں حضرت جہت اقامت حجج مکررا اظہار بادامتناع نمود آخر عمر ﷜ عباس ﷜ راخود طلبید وسوگند ہوردہ گفت کہ اگر علی رابد امادی من راضی نمیسادی آنچہ در دفع او ممکن باشد خواہم کر د ومنصب سقایتا حج و زمزم را از تو خواہم گرفت عباس ملاحظہ نمود کہ اگر ایں نسبت واقع نشود آں فظ وغلیظ مرتکب چناں امر ناصواب خواہد شد ، امیر علیہ السلام التماس والحاح نمود کہ نکاح آں مطہرہ مظلومہ رابو تفویض نماید چوں مبالغہ عباس در آں با ب از حد گزشت آنحضرت از روئے اکراہ ساکت ستدند ، تا آنکہ عباس از خود ارتکاب ترویج اور نمود وجہت اطفاء نائرہ فتنہ اور راباں منافق ظاہر الاسلام عقدفرمود۔

(مجالس المومنین ج1 ص 182، کشف الاسرار ص39)


’’کتاب استغاثہ وغیرہ میں منقول ہے کہ جب عمر بن خطاب نے اپنی خلافت کو ترویج دینے کیلئے حضرت علی علیہ السلام کی بیٹی ام کلثوم کارشتہ طلب کیا تو آپ نے دوبارہ حجت قائم کرنے کیلئے اس سے انکار کر دیا ۔ آخر کارحضرت عمر نے حضرت عباس کو اپنے پاس بلایا اور قسم کھا کر کہا کہ اگر آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو مجھے اپنا داماد بنانے پر تیار نہ کیا تو مجھ سے جو کچھ ہو سکا کروں گا اور سقایہ حج اور زمزم کامنصب تجھ سے واپس لے لوں گا۔ جب حضرت عباس نے یہ معلوم کر لیا کہ یہ سخت آدمی اس ناروا معاملہ کو اسی طرح کرے گا جیسا کہ وہ کہہ کر رہا ہے تو حضرت عباس نے حضرت علی علیہ السلام کو چمٹ کر التماس کی کہ اس مطہرہ مظلومہ کے نکاح کا معاملہ اس کے ہاتھ میں دے دیں ۔ جب حضرت اس بارے میں حد سے گزر گئے تو حضرت علی علیہ السلام نے بصورت اکراہ خاموشی اختیار کر لی یہاں تک کہ حضرت عباس پھر اپنے آپ اس نکاح کے مرتکب ہوئے اور بھڑکنے والے فتنہ کی آگ کو بجھانے کی خاطر اس منافق ظاہر اسلام (عمر) کے ساتھ عقد کیا ۔
قارئین کرام ! اندازہ فرمائیے قاضی نور اللہ شیعہ مجتہد نے کتنے زہریلے الفاظ میں اس نکاح کا اقرار کیا ہے ۔۔۔۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی رضامندی کو کتنی چابکدستی سے غتر بود کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔ اور فاورق اعظم رضی اللہ عنہ پر کتنا ناپاک حملہ کیا ہے ۔۔۔۔ ایک طرف تو انہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی دامادگی کا شرف حاصل ہو رہا ہے ۔۔۔۔ اور دوسری طرف ان پر منافقت کا فتویٰ لگا کر فتنہ سبائیت کو ہوا دی جا رہی ہے ۔۔۔۔ اور تیسری طرف ام کلثوم کو مظلومہ اور مجبورہ ثابت کرکے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نفرت ولائی جار ہی ہے ۔
اگر آپ تھوڑی سابھی غور فرمائیں گے ۔۔۔۔ تو آپ پر یہ راز کھل جائے گا ۔۔۔۔ کہ حب اہل بیت کا لبادہ اوڑھ کر ۔۔۔۔ اہل بیت سے کس قدر دشمنی کی جار ہی ہے ۔۔۔۔۔ اور ان کی غیرت کامذاق اڑایا جا رہا ہے ۔۔۔ ( العیاذ باللہ) وہ اتنے کمزور تھے ۔۔۔۔۔ کہ وہ اپنی بیٹیوں کی عزت کی حفاظت نہ کر سکتے تھے ۔۔۔۔ جبکہ شیعی عقیدہ کےمطابق حضرت علی مولیٰ مشکل کشا ہیں ۔۔۔۔ اور چودہ سو سال کے بعد ان کی مدد کر سکتے ہیں ۔۔۔۔ اور یاعلی مدد ان کا ورد بن چکا ہے ۔۔۔۔ جس کا آغاز عبد اللہ بن سباء نے کیا تھا ۔


 گیارہویں دلیل 
لیجیے ! ہم آپ کی خدمت میں پیش کیے دیتے ہیں ۔۔۔۔ ایسی روایت جو شیعہ کی معتبر ترین تاریخی کتاب "ناسخ التواریخ" میں درج ہے ۔۔۔۔ جو نہ صرف قاضی نور اللہ کی اس دوہری پالیسی کی تردید کر رہی ہے ۔۔۔۔ بلکہ اس رشتہ کے معاملہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مکمل رضامندی کابھی کھلا ثبوت ہے ۔۔۔۔ وہ روایت حسب ذیل ہے :
’’حضرت علی علیہ السلام نےحضرت عمر سے اپنی بیٹی ام کلثووم کا نکاح بڑی خوشی سے خود کیا ، مہر وصول کیا اور بیٹی کو اپنے شوہر عمر کی اتباع کی وصیت فرمائی ۔‘‘

(ناسخ التواریخ ج2ص 296)

مزید برآں یہ کہ خود قاضی صاحب موصوف اپنی اس کتاب ’’مجالس المومنین ‘‘ میں ایک دوسرے مقام پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اس مجبوری کا خود بھی ذکر نہیں کرتے ۔ فرماتے ہیں :
نبی اکرمﷺ نے اپنی بیٹی عثمان کو دی اور علی ولی نے اپنی بیٹی عمر کو دی ۔

(مجالس المومنین ج1ص 204)

غور کیجئے :۔
کہ شیعوں کے چوتھی صدی کا محدث اعظم محمدبن یعقوب بن اسحاق کلینی رازی اپنی مایہ ناز کتاب ’’کافی ‘‘ میں دو مقام پر چار ہندسوں کے ساتھ اس واقعہ کو بیان کرے ۔۔۔۔ اور پانچویں صدی کا شیعی محدث علامہ ابوجعفر محمد بن حسن بن علی طوسی جس کو شیعی دنیا میں امام مسلم کا رتبہ حاصل ہے ۔۔۔۔ اپنی دونوں تصنیفوں میں اس روایت کو متعدد طرق سے نقل کرے ۔۔۔۔ اس بنا پر اس روایت کو درجہ تواتر کیوں حاصل نہ ہو گا ۔۔۔۔۔۔؟
حالانکہ شیعی اصول حدیث کی کتابوں میں اس سے کم درجہ کی اخبار کو درجہ تواتر میں شمار کیا گیا ہے ۔ دیکھیے ’’معالم الاصول ‘‘ میں منقول ہے :
(ترجمہ) ’’تواتر معنوی کا بیان ۔۔۔۔ بہت سے واقعات کثرت سے آتے ہیں اور مختلف ہوتے ہیں لیکن ہر ایک خبر ان سے التزامی اور تضمنی کے اعتبار سے ایک ہی منتج ہوتی ہے اور ان سے ایک قدر مشترک کا علم حاصل ہو جاتا ہے اور ایسی خبر کانام ’’متواتر من جہت المعنی‘‘ رکھا جاتا ہے جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام امیر المومنین کے جنگی واقعات ہیں کہ آپ نے فلاں شخص کو غزوہ بدر میں اس طرح قتل کیا اور فلاں کے ساتھ احد میں یہ سلوک کیا وغیرہ وغیرہ ۔ پس یہ خبریں التزامی طور پر آپ کی شجاعت پر دلالت کرتی ہیں اگرچہ ان جزئیات سے کوئی شے بھی قطعی علم کے درجہ کو نہیں پہنچتی ۔ ‘‘
(معالم الاصول )
جب جنگی خبروں کو تواتر کا درجہ دیا جارہا ہے ۔۔۔۔ تو اس حدیث کو کیوں درجہ تواتر حاصل نہ ہو گا ۔۔۔۔۔۔؟
اور خبر متواتر سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے اور اس کا انکار ناممکن ہے ۔۔۔۔ اسی لیے تو کتاب ’’مراۃ العقول شرح فروع واصول ‘‘ کےمصنف نے اس روایت کو منکرین پر تعجب کااظہار کیا ہے ، فرماتے ہیں :

تلك الأخبار وما سيأتي بأسانيد أن عليا عليه السلام لما توفي عمر أتى أم كلثوم فانطلق بها إلى بيته وغير ذلك مما أوردته في كتاب بحار الأنوار إنكار ذلك عجيب

یہ تمام حدیثیں اور جوبعد میں باسناد ذکر کی جائیں گی کہ جب حضرت عمر فوت ہو گئے تو حضرت علی علیہ السلام ام کلثوم کے پاس آئے اور ان کو اپنے گھر لے گئے اس کے سوا جن روایات کو میں نے اپنی کتاب ’’ بحار الانوار ‘‘ میں ذکر کیا ہے ان کا انکار کرنا عجیب بات ہے ۔
حدیث متواتر سے انکار ناممکن ہے :۔
تکثیر اسناد کے ساتھ روایت کے بیان ہونے کےبعد اس سے انکار مشکل نہیں ناممکن ہوتا ہے ، کیونکہ متواتر کے سچے ہونے اور واقع ہونے کی کوئی شک ہوتا ہی نہیں جیسا کہ ’’معالم الاصول ‘‘ میں متواتر کی تعریف میں لکھا ہے :

فالمتواتر هو خبر جماعة يفيد بنفسه العلم بصدقه ولاريب فى امكانة ووقوعه . (ص169)

یعنی متواتر وہ روایت ہے جسے ایک جماعت بیان کرے اور وہ بذات خود فائدہ علم یقینی کا دیتی ہے بلحاظ اپنے سچے ہونے کے ، اس کے وقوع اور امکان میں کسی قسم کے شک کی بھی گنجائش نہیں ہوتی ۔
کتاب ’’معالم الاصول ‘‘ شیعہ کےنزدیک اصول حدیث وفقہ کی یکتا کتاب ہے ۔ ان مذکورہ حدیثوں کی روشنی میں جو تعداد اسناد کے اعتبار سے حد تواتر کو پہنچ چکی ہیں انکار کرنا گویا شیعہ مذہب سے انکار کے مترادف ہے ۔
 ‎آپ متعجب ہوں گے کہ جب اتنی روایات صحیح موجود ہیں تو پھر شیعہ حضرات اس رشتہ کا انکار کیوں کرتےہیں ۔۔۔۔۔۔۔؟
اصل بات وہی ہے ۔۔۔۔۔ جو ہم ابتدا میں ذکر کر آئے ہیں ۔۔۔۔۔ کہ جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو داماد فاطمہ الزھراء کا شرف حاصل ہو جاتا ہے ۔۔۔۔ تو پھر تمام شیعی اعتراضات ۔۔۔۔ جو خلیفہ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر کئے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ ان کی حقیقت "ھباء منشورا"
کی سی رہ گئی ہے ۔۔۔۔ اور تمام شیعی مذہب کا تارہ وپور بکھر کر رہ جاتا ہے ۔۔۔۔ اس لیے وہ اتنی بین روایات کے ہوتے ہوئے بھی اپنے بوسیدہ اعتراضات ۔۔۔۔ اور ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے ۔۔۔۔ اور میں نہ مانوں کی رٹ لگائے جاتے ہیں ۔۔۔۔ حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ ۔۔۔۔۔ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کا داماد ۔۔۔۔ تسلیم کرلینے سے شیعہ سنی اختلاف کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے ۔۔۔۔ حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ گہرے مراسم رکھتے تھے ۔۔۔۔ اور یوں آپس میں شیرو شکر تھے ۔۔۔۔ تو صاف معلوم ہوتا ہے ۔۔۔۔ کہ دونوں ایک دوسرے کو پکا مسلمان سمجھتے تھے ۔۔۔۔ ورنہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک منافق ۔۔۔۔ ظاہر الاسلام اور کافر سے اپنی صاحبزادی کانکاح کیوں کرتے ۔۔۔۔۔۔۔؟
اگر وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حقوق کے غاصب ہیں ۔۔۔۔ تو انہوں نے بایں قوت وحشمت اپنےبدترین دشمن کو شرف دامادی کیوں عطا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
دراصل بات یہ ہے کہ حضرت عمر سبائی پروپیگنڈہ کا ہدف بنایا گیا ہے ۔۔۔۔ ورنہ ان کے مخلص مسلمان ہونے اور اسلام کی خدمات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین یا اہل بیت کو کسی قسم کا انکار یا شک وشبہ نہ تھا ۔
ایک تاویل اور اس کا جواب :۔
شیعہ حضرات حضرت عمر فاروق کی دشمنی میں اس رشتہ کا انکار کرتے ہوئے اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ام کلثوم بنت علی ؓ کا رشتہ طلب کیا تھا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک جن عورت کو اپنی بیٹی ام کلثوم کی صورت میں ڈھال کر عمر رضی اللہ عنہ سے بیاہ دیا تھا ۔
جواب :۔
اہل علم وتحقیق شیعہ علماء خود ایسی پوچ تاولوں کو مسترد کرتےہوئے اس حقیقی واقعہ کو کھلے دل اور شرح صدر کے ساتھ تسلیم کر چکے ہیں ۔۔۔۔ جیسا کہ ’’فروع کافی ‘‘ کے محشی علامہ علی اکبر غفاری دلیل اول کےحاشیہ میں اس رشتہ کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

ام كلثوم هذه هى بنت أمير المؤمنين عليه السلام قد خطبها إليه عمر فى زمن خلافته .

(حاشيه فروع كافى : ج5 ص 436)


’’یہ بی بی ام کلثوم امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی دختر ہیں اور حضرت عمر نے اپنی خلافت میں اس بی بی کا رشتہ حضرت علی سے طلب کیا تھا ۔‘‘
لیجئے جناب! اس پوچ تاویل کا بھانڈا بیچ چورا ہے کے پھوٹ گیا ۔
ایک اور تاویل اور اس کاجواب :-
ام کلثوم نامی عورت جس کانکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوا وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھی ۔
جواب :۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دختر کانام بھی ام کلثوم تھا ۔۔۔۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز صحیح نہیں ۔۔۔۔ کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بیٹی کانام ام کلثوم نہ تھا اور پھر ’’تہذیب الاحکام ‘‘ کی وہ روایت جو پیش نظر مقالہ کی دلیل نمبر 7 میں ہے

عن جعفر ، عن أبيه عليهما السلام قال : ماتت أم كلثوم بنت عليّ وابنها زيد بن عمر بن الخطاب في ساعة واحدة لا يُدرى أيّهما هلك قبل فلم يُورَّث أحدهما من الآخر وصُلِّي عليهما جميعاً.کی کیا تاویل کروگے؟

(ملاحظہ فرمائیے

تہذیب الاحکام ، کتاب المیراث )

خلاصہ کلام یہ کہ سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا بنت علی کرم اللہ وجہہ جوکہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کےبطن سے تھیں ۔۔۔۔ اور رسول اللہ ﷺ کی نواسی تھیں ۔۔۔۔ بلاشبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بلاجبر و اکراہ شادی ہوگئی تھیں اور ان کے بطن سے ایک لڑکا زید بن عمر بن خطاب پیدا ہوا تھا اور اس رشتہ کی روایت خود شیعہ علمائے اصول کے نزدیک متواتر ہے اور متواتر روایت کا انکار بڑی جسارت ہے اور مذہب شیعہ سے انکار کے مترادف ہے ۔


واللہ ورسولہ اعلم بالصواب