راوی عطیہ ابن سعد العوفی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
جعفر صادقعطیہ ابن سعد العوفی کا احوال
عطیہ ابن سعد العوفی پر مندرجہ ذیل علماء نے جرح کی ہے
1️⃣ امام جرجانی فرماتے ہیں مع ضعفہ یکتب حدیثہ وکان یعد من شیعۃ الکوفہ
2️⃣ امام بیہقی فرماتے ہیں ضعیف (معرفۃ السنن ج ۱۲ ص ۲۵۹) لا یحتج بہ (سنن الکبرٰی ج ۶ ص ۳۰)
3️⃣ امام ابوحاتم الرازی فرماتے ہیں ضعیف (تہذیب التہذیب ج ۷ ص ۲۰۱)
4️⃣ امام ابن حبان فرماتے ہیں لا یحل الاحتجاج بہ (المجروحین ج ۲ ص ۱۷۶)
5️⃣ امام ابو داود السجستانی فرماتے ہیں لیس بالذی یعتمد علیہ ( تہذیب التہذیب ج ۷ ص ۲۰۱ )
6️⃣ امام ابو زرعۃ الرازی فرماتے ہیں لین (تہذیب التہذیب ج ۷ ص ۲۰۱)
7️⃣ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں ضعیف الحدیث (المجروحین ج ۲ ص ۱۷۶، تہذیب الکمال للمزی ج ۲۰ ص ۱۴۷)
8️⃣ امام نسائی فرماتے ہیں ضعیف (الضعفاء والمتروکین للنسائی ج ۱ ص ۵۲۲)
9️⃣ امام جوزجانی فرتے ہیں ضعیف
1️⃣0️⃣ ابن حجر فرماتے ہیں یخطیء کثیرا وکان شیعیا مدلسا (التقریب رقم ۴۶۱۶) نیز فرماتے ہیں ضعیف الحفظ مشہور بالتدلیس القبیح (طبقات المدلسین ج ۱ ص ۵۰)
1️⃣1️⃣ امام دارقطنی فرماتے ہیں ضعیف
1️⃣2️⃣ امام ذہبی فرماتے ہیں ضعیف (سیر اعلام النبلاء ج ۸ ص ۳۴۱)
1️⃣3️⃣ امام سفیان الثوری فرماتے ہیں یضعف حدیثہ (الکامل ج ۵ ص ۳۶۹)
1️⃣4️⃣ ابن سعد فرماتے ہیں ومن الناس من لا یحتج بہ
1️⃣5️⃣ امام یحیی بن سعید القطان فرماتے ہیں ضعیف
1️⃣6️⃣ امام یحیی بن معین فرماتے ہیں ضعیف الا انہ یکتب حدیثہ (الکامل لابن عدی ج ۵ ص ۳۶۹)
1️⃣7️⃣ علامہ عقیلی نے عطیہ العوفی کا تذکرہ اپنی کتاب (الضعفاء ج ۳ ص ۳۵۹) میں کیا
1️⃣8️⃣ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں ضعیف (تفسیر القرآن العظیم ج ۲ ص ۳۱۲)
1️⃣9️⃣ علامہ سیوطی فرماتے ہیں عطیۃ ضعیف (الدر المنثور ج ۴ ص ۳۰۲)
2️⃣0️⃣ شارح صحیح مسلم امام نووی فرماتے ہیں عطیۃ ضعیف (المجموع ج ۳ ص ۴۴۶)
2️⃣1️⃣ علامہ سخاوی فرماتے ہیں عطیۃ ضعیف (الاجوبۃ المرضسۃ ج ۱ ص ۱۸۷)
2️⃣2️⃣ علامہ صنعانی ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں ضعفہ لانہ من روایۃ عطیۃ (سبل الاسلام ج ۳ ص ۲۰۶)
2️⃣3️⃣ علامہ بوصیری ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں ہذا اسناد ضعیف عطیۃ العوفی ضعفہ احمد وغیرہ (الزوائد ج ۱ ص ۵۰۴)
2️⃣4️⃣ علامہ ابن ملقن ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں وفیہ عطیۃ العوفی وھو واہ باجماعھم (الخلاصۃ ج ۱ ص ۳۰۱)
2️⃣5️⃣ علامہ عبدالحق الاذدی فرماتے ہیں لا یحتج بہ (الاحکام الوسطی ج ۶ ص ۲۶۵)
2️⃣6️⃣ علامہ البانی فرماتے ہیں مدلس ضعیف (السلسلۃ الضعیفہ ج ۱ ص ۱۴۳)
عطیہ ابن سعد العوفی کی توثیق
عطیہ ابن سعد کی توثیق سوائے علامہ عجلی اور حافظ ابن سعد کے اور کسی بڑے محدث سے ثابت نہیں۔ علامہ عجلی نے اپنی کتاب معرفۃ الثقات ج ۲ ص ۱۴۰ میں ان کو ثقہ قرار دیا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ولیس بالقوی۔ اسی طرح ابن سعد نے بھی ان کو ثقہ قرار دیا لیکن ساتھ ہی فرمایا یخطیء کثیرا وکان شیعیا مدلسا یعنی کثرت سے غلطیاں کرتا تھا، اور شیعہ نیز مدلس بھی تھا۔ اور ایک دوسری جگہ پر یہ بھی فرمایا ومن الناس من لا یحتج بہ یعنی عطیہ کا شمار ان لوگوں میں سے ہے جن سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ (طبقات الکبرٰی ج ۶ ص ۳۰۴)
عطیہ ابن سعد العوفی کی روایات کی تصحیح و تحسین
امام ترمذی نے عطیہ العوفی کی بعض روایات کو حسن قرار دیا، لیکن جیسا کہ اہل علم جانتے ہیں کہ امام ترمذی روایات کی تحسین میں تساہل پسندی سے کام لیتے تھے۔ اسی لئے امام ذہبی نے اپنی کتاب میزان الاعتدال میں فرمایا فلا یغتر بتحسین الترمذی، فعند المحاققۃ غالبہا ضعاف یعنی امام ترمذی کا روایت کو حسن قرار دینے سے دھوکہ مت کھائیے ، کیونکہ ان میں سے اکثر ضعیف ہیں نیز فرمایا لا یعتمد العلماء علی تصحیح الترمذی یعنی علماء امام ترمذی کی تصحیح روایات پر اعتماد نہیں کرتے۔اس کے علاوہ امام ترمذی کے اپنے قول کے مطابق وہ جس حدیث کو حسن قرار دے، ضروری نہیں کہ اس کا راوی ضعیف نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں وما ذکرنا فی ھذا الکتاب حدیث حسن فانما اردنا بہ حسن اسنادہ عندنا کل حدیث یروی لا یکون فی اسنادہ من یتھم بالکذب ، ولا یکون الحدیث شاذا ویروی من غیر وجہ نحو ذاک فھو عندنا حدیث حسن ۔ دیکھئے علل الصغیر للترمذی ج ۱ ص ۷۵۸ ۔ اور بعض اوقات ایک روایت حسن لغیرہ یا صحیح لغیرہ ہوتی ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس روایت کی کوئی دوسری حسن یا صحیح شاہد موجود ہے، اگرچہ بذات خود یہ حسن یا صحیح کے درجے تک نہیں پہنچتی۔ اور البانی نے اسی وجہ سے بعض روایات کو حسن قرار دیا، جس میں عطیہ بن سعد العوفی موجود ہے، جبکہ عطیہ بن سعد العوفی ان کے نزدیک ضعیف ہے جیسا کہ ہم السلسۃ الضعیفۃ کے حوالے سے ثابت کر چکے ہیں۔
عطیہ عوفی۔۔
جھوٹے مدلس مکار کا حال۔
عطیہ عوفی کو جمہور محدثینِ کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔
تھذیب الأسماء واللغات للنوي:48/1،
طرح التثریب لابن العراقي: 42/3،
مجمع الزوائد للھیثمي: 412/1،
البدرالمنیر لابن الملقن: 463/7،
عمدۃ القاري للعیني: 250/6
اس کو امام یحییٰ بن سعید قطان، امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام ابو حاتم رازی، امام ابو زرعہ رازی، امام نسائی، امام ابن عدی، امام دارقطنی، امام ابن حبان اور علامہ جوزجانی رحمہم اللہ وغیرہ نے "ضعیف" قرار دیا ہے۔
اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہوگیا تھا، جیساکہ :
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عطیہ عوفی کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام نے اتفاق کرلیا ہے۔
الموضوعات: 386/1
٭نیز حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام کا اجماع ہے
المغنی في الضعفاء: 62/2
حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ باتفاقِ محدثین ضعیف ہے۔
البدر المنیر: 313/5
عطیہ عوفی تدلیس کی بُری قِسم میں بُری طرح ملوث تھا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ کمزور حافظے والا تھا اور بُری تدلیس کے ساتھ مشہور تھا۔"
طبقات المدلّسین، ص: 50
٭حافظ ذہبی رحمہ اللہ زیر بحث روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: "یہ روایت باطل ہے، اگر واقعی ایسا ہوتا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس چیز کا مطالبہ کرنے نہ آتیں جو پہلے سے ان کے پاس موجود اور ان کی ملکیت میں تھی۔"
میزان الاعتدال: 135/3
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اگر اس روایت کی سند صحیح بھی ہو تو اس میں اشکال ہے، کیونکہ یہ آیت مکی ہے اور فدک تو سات ہجری میں خیبر کے ساتھ فتح ہوا۔ کیسے اس آیت کو اس واقعہ کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔"
تفسیر ابن کثیر:69/5
عطیہ عوفی اپنے استاذ ابو سعید محمد بن السائب الکلبی (کذاب) سے روایت کرتے ہوئے "عن أبي سعید" یا "حدثني أبو سعید" کہہ کر روایت کرتے ہوئے یہ دھوکا دیتا تھا کہ وہ سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کررہا ہے۔ یہ(والی) تدلیس حرام اور بہت بڑا فراڈ ہے۔ یاد رہے کہ عطیہ عوفی اگر عن ابی سعید کے ساتھ الخدری کی صراحت بھی کردے تو اس سے الکلبی ہی مراد ہے، سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ مراد نہیں ہیں۔
تفصیل کے لیے دیکھئے کتاب المجروحین لابن حبان (176/2)
ثبوت::عطیہ کا شیعہ ہونا
عطیہ العوفی امام باقر کے اصحاب میں سے تھا۔