سیدہ فاطمہ الزہرا ع کا دروازہ اور فجاۃ اسلمی کو آگ سے جلانے پر حضرت ابو بکر کا اظہار افسوس۔
جعفر صادقشیعہ اعتراض
سیدہ فاطمہ الزہرا ع کا دروازہ اور فجاۃ اسلمی کو آگ سے جلانے پر حضرت ابو بکر کا اظہار افسوس۔
(طبری العقد الفرید)
(الجواب)
طبری وغیرہ تاریخ کی کتاہیں ایسی ہرگز نہیں جن کی تمام باتیں آنکھیں بند کر کے تسلیم کر لی جائیں لہذا غور کرنے سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ یہ تاریخ کا قصہ جو یہاں بیان ہوا دشمنی اور اخلاق سے گرے فعل پر دلالت کرتا ہے جبکہ اہل علم کی جماعت نے ان حضرات کے باہمی محبت و مودت کے واقعات کو نقل کیا ہے ۔
سنن الکبری بیہقی میں ھے.
حدثنا ابو حمزة عن اسماعیل بن ابی خالد عن الشعبي قال لما مرضت فاطمة بن عن اتاها ابو بکر الصديق فاستاذن عليها فقال علي رضي الله عنه يا فاطمة هذا ابوبکر پستأذن عليك فقالت اتحب ان اذن له قال نعم و اذنت له فدخل عليها بترضاها و قال و الله ما تركت الدار و المال و الأھل و العشيرة الا ابتغاء مرضاة الله و مرضاة رسوله ومرضاتكم اهل البيت ثم ترضاها حتى
رضيت هذا مرسل حسن باسناد صحيح۔
خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ (ان کے ہاں تشریف لائے اندر حاضر ہونے کی اجازت طلب کی تو حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا سے کہا کہ ابوبکر اندر آنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا اگر آپ کو پسند ہو تو ان کو اجازت دے دی جائے علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے پسند ہے اجازت ہوئی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اندر تشریف لائے اور رضا مندی حاصل کرنے کی خاطر کلام کرتے ہوئے کہنے لگے کہ
اللہ کی قسم خدا تعالی اور رسول اللہ کی خاطر اور تمہاری خوشنودی کیلئے ہم نے اپنا گھر بار مال دولت عزیز و اقربا کو چھوڑا (اس طرح کی کلام جاری رہی حتی کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے خوش اور رضا مند ہو گئیں۔
(رواہ السنن الکبری بیہقی مع الجوہر التقى جلد نمبر ٦ صفحہ ۳۰۱، مطبوعہ حیدر آباد الاعتقاد علی مذہب السلف ص ۱۸۱ طبع مصر)
اس طرح کی روایات مفصل کتابوں میں کثیر تعداد میں موجود ہیں محقق العصر حضرت مولانا محمد نافع رحمہ اللہ نے رحماء بینہم میں کچھ کو جمع فرما دیا ہے وہاں رجوع فرمائیں۔(٥)
جس ظلم اور تعدی کا اشارہ مذکورہ تاریخ میں پایا جاتا ہے خود خاندان پیغمبر کے حضرات اس کی صاف نفی کرتے ہیں کہ حضرات شیخین نے خاندان رسول پر نہ کوئی ظلم کیا اور نہ ہی حقوق مالیہ میں عدم روا داری اختیار فرمائی بلکہ احسان، محبت اور موت کا طرز اپنی زندگی میں جاری رکھا۔
نہج البلاغه روافض کے ہاں خاصی معروف اور قابل اعتماد جانی جاتی ہے۔ اس میں امام محمد باقر کا فرمان ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے
قال ابوبكر (الجوهرى) اخبرنا أبو زيد قال حدثنا محمد بن الصباح قال حدثنا يحيى ابن
, المتوكل ابو عقيل عن كثير النواء فال قلت لا بی جعفر محمد بن علي عليه السلام جعلني الله فداك ارائت ابابکر و عمر هل ظلما كم من حقكم شيئاً او قال ذهبا من حقكم بشي فقال لا و الذي انزل القرآن على عبده ليكون للعالمين نذيرا ما ظلمنا من حقنا مثقال حبة من خردل قلت جعلت فداك افا تولا هما؟ قال نعما او یحک تولا هما في الدنيا والاخره الخ۔
(شرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید شیعی المتوفی ۲۵۶ ھ جلد ٤ صفحہ ۱١۳، مطبوعہ بیروت الفصل الاول بحث فدک) خلاصہ یہ کہ کثیر النواء کہتے ہیں میں نے امام محمد سے عرض کیا کہ اللہ تعالی مجھے آپ پر فدا کرے ذرا ارشاد فرماؤ
تو! کیا حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے آپ کے حق کے بارے میں کچھ ظلم تو نہیں کیا یا کہا‘‘ آپ کا حق تو نہیں چھینا
پس امام نے فرمایا نہیں۔ مجھے اس ذات کی قسم جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تا کہ وہ عالم کیلئے
ڈرانے والے ہو جائیں انہوں نے ہم پر ایک رائی کے دانے برابر بھی ظلم نہیں کیا۔ میں نے عرض کیا گیا وہ دونوں
آپ سے محبت اور دوستی رکھتے تھے فرمایا ہاں تجھ پر افسوس وہ دونوں ہمیں دوست رکھتے ہیں دنیا میں اور آخرت میں“۔
امام محمد رحمہ اللہ کا یہ فرمان شیعہ کی دونوں طرف کے ارباب علم نے اپنی اپنی مصنفات میں اپنی اسناد کے ساتھ درج کیا ہوا ہے۔
نیز اس طرح کے مزید کئی ارشادات خاندان اہل بیت سے منقول ہیں جن سے طبری وغیرہ کی مذکورہ عبارتوں کی دھجیاں فضاء میں بکھر جاتی ہیں ۔ اور اعتراش میں پیش کی جانے والی ان عمارتوں کا بے وزن و خلاف واقعہ ہوا عیاں ہو جاتا ہے۔
ہم مکرر عرض کرتے ہیں کہ تاریخ میں درج تمام باتوں کو بلا تحقیق قبول کرنا اور بے سوچے تاریخ کی ایسی بے سروپا کہانیوں کی بنا پر الزام دینا بالکل غلط ہے کیونکہ مورخ کا کام افراد معاشرہ کے خیالات اور سوچ و فکر کو اپنی کتاب می درج کرنا ہوتا ہے سو جس طرح کی بات اسے ملے وہ اپنی کتاب میں درج کر لیتا ہے مذکورہ تاریخ کی با تیں بھی ایسی اڑائی ہوئی ہیں جن کی حقیقت ہم نے درج بالا مختصر گزارشات میں عرض کر دی ہے۔
(٦) طبری کی کافی ساری روایات لوط بن یحییٰ اور ہشام بن محمد کلبی جیسے متعصب شیعہ راویوں سے منقول ہیں جو خاص طور
پر صحابه کرام کے بارے میں منفی باتیں گھڑ گھڑ کر بیان کرتے رہتے تھے۔ لہذا طبری کی وہ تمام روایات مردود ہیں جوصحابہ کرام (رض) کے خلاف لکھی گئی ہیں جبکہ عقد الفرید کا مصنف تقیہ باز ( جھوٹا رافضی) شیعہ ہے جس کی کوئی بات اہل سنت کے نزدیک قابل اعتبار نہیں۔