Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدنا علیؓ اور آپؓ کی اولاد کے نامور اساطین اور اماموں کا مختصر تعارف احوال و سوانح

  حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒ

سیدنا علیؓ اور آپؓ کی اولاد کے نامور اساطین اور اماموں کا مختصر تعارف احوال و سوانح

 1۔ سیدنا علیؓ کے مختصر حالات

خاندان: سیدنا علیؓ کا خاندان بنی ہاشم ہے قریش مکہ میں اس خاندان کا مقام و مرتبہ نہایت ممتاز تھا حرمِ کعبہ کی خدمت اسی خاندان کے ذمہ تھی (البدایہ جلد 2 صفحہ 254)۔

بنو ہاشم کا اس سے بھی بڑا اعزاز یہ تھا کہ دنیا کے سب سے بڑے سردار اور مقصودِ کائنات حضرت محمدﷺ بھی اسی خاندان میں پیدا کیے گئے یہ خاندان حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی مکہ مکرمہ میں آمد کے بعد سے اسی دیار میں آباد تھا قریش کے دیگر خاندانوں میں بنو ہاشم ہی سب سے زیادہ ممتاز اور بزرگی کے حامل تھے۔

والد کا نام و نسب:  سیدنا علیؓ کے والد کا نام عبد مناف اور ان کی کنیت ابوطالب تھی سلسلہ نسب یوں ہے علی بن ابوطالب (عبد مناف) بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصیٰ بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ۔

عز و شرف: سیدنا علیؓ کے والد ابوطالب عبد مناف اور حضورﷺ کے والد حضرت عبداللہ حقیقی بھائی تھے ابوطالب عبد مناف عبداللہ اور زبیر عبدالمطلب کے تینوں بیٹے فاطمہ بنت عمرو بن عائذ کے بطن سے تھے (البدایہ جلد 2 صفحہ 286)۔

والدہ: سیدنا علیؓ کی والدہ سیدہ فاطمہ بنتِ اسدؓ تھیں پہلی ہاشمی خاتون ہیں جن کی شادی ہاشمی خاندان میں ہوئی اس طرح آپؓ نجیب الطرفین ہاشمی ٹھہرے آپؓ مشرف باسلام ہوئیں اور مدینہ منورہ میں آپؓ کی وفات ہوئی سیدہ فاطمہ بنتِ اسدؓ کی وفات ہوئی تو آنحضرتﷺ نے ان کے کفن دفن کے انتظامات فرمائے اور اپنا قمیض مبارک ان کے کفن میں شامل فرمایا اور قبر تیار ہونے کے بعد پہلے خود قبر میں داخل ہوئے (اسد الغابہ تحت سیدہ فاطمہ بنتِ اسدؓ)۔

برادران اور خواہران:ا بو طالب کے چار فرزند تھے طالب عقیل جعفر اور علی نسب قریش میں ہے کہ چاروں بیٹوں کی پیدائش کے دوران 10 10 برس کا وقفہ تھا عقیل کے ایک بیٹے کا نام یزید تھا جس کی وجہ سے ان کی کنیت ابویزید تھی (طبقات ابنِ سعد جلد 4 صفحہ 29)۔

طالب غزوہ بدر میں کفار کی جانب سے تھے اور کفر پر موت آئی باقی تینوں بھائی اسلام سے مشرف ہوئے سیدنا عقیلؓ نے صلحِ حدیبیہ کے بعد سیدناجعفرؓ نے ابتدائی 20 آدمیوں میں اور سیدنا علیؓ نے بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا (طبقات ابنِ سعد جلد 4 صفحہ 29)۔

بہنیں: سیدنا علیؓ کی حقیقی بہنیں دو تھیں سیدہ 

 اُم ہانیؓ فاختہ بنتِ ابوطالب اور سیدہ جمانیہؓ بنتِ ابوطالب۔

ولادت: سیدنا علیؓ تمام بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے آپؓ کی ولادت شعب بنو ہاشم میں ہوئی (الاصابہ ابنِ حجر جلد 4 صفحہ 164)۔

آپؓ کی ولادت کے بارے علماء کا اختلاف ہے بعض نے کعبہ میں آپؓ کی ولادت کا قول نقل کیا ہے لیکن علماء کی اکثریت نے اس قول کو ضعیف قرار دیا ہے تاہم ولادتِ کعبہ کے قول کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی یہ کوئی نئی بات نہیں سیدہ خدیجہؓ کے بھانجے حکیم بن حزامؓ بھی سیدنا علیؓ سے کئی سال پہلے کعبہ میں پیدا ہوئے تھے آنحضرتﷺ کی کسی حدیث نے کعبہ کی پیدائش کو عظمت کا حامل قرار نہیں دیا یہ ایک اتفاقی واقعہ ہے کیونکہ خانہ کعبہ عبادت خانہ ہے ولادت خانہ نہیں ہے۔

سنِ ولادت: سیدنا علیؓ آنحضرتﷺ کی ولادت کے 30 سال بعد پیدا ہوئے۔

نام: ولادت کے بعد آپؓ کی والدہ نے آپؓ کا نام اسد اور ابوطالب نے علی رکھا آپؓ کے القاب (اسداللہ حیدر المرتضیٰ) ہیں کنیت ابوتراب مشہور ہوئی۔

تربیت: سیدنا علیؓ دو سال کی عمر میں آنحضرتﷺ کے گھر آئے اور یہیں آپؓ کی تربیت ہوئی جب آنحضرتﷺ کی وفات ہوئی تو آپؓ کی عمر 29 سال تھی۔

ہجرت:  آنحضرتﷺ کی زندگی کا مشکل ترین دور بعثت کے بعد 13 سالہ مکی دور تھا اس دور میں آپﷺ پر مصائب کے جھکڑ آئے مشکلات کی وادی میں آپﷺ کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سمیت اتارا گیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جانگسل عواقب اور المناک تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔

بالآخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپﷺ کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کا حکم ہوا اس موقع پر آپﷺ نے جس رات مکان سے ہجرت کا آغاز کیا وہ بھی تاریخِ اسلام کا انوکھا عنوان ہے شبِ ہجرت آپﷺ نے اپنے بستر پر سیدنا علیؓ کو سُلایا لوگوں کی امانتیں بھی آپؓ کے سپرد کیں اور آپﷺ خود سیدنا ابوبکرؓ کو ان کے گھر سے ساتھ لے کر مدینہ منورہ روانہ ہوگئے سیدنا علیؓ آنحضرتﷺ کے حکم کے مطابق مکہ مکرمہ تین روز قیام کرنے کے بعد مدینہ منورہ روانہ ہوگئے جب سیدنا علیؓ مدینہ منورہ پہنچے اس وقت آپﷺ قُباء میں عدم بن کلثوم کے مکان پر قیام پذیر تھے سیدنا علیؓ یہیں سے آپﷺ کے قافلے میں شریک ہوگئے (البدایہ جلد 3 صفحہ 177)۔

مواخات: جب آنحضرتﷺ مکہ سے مدینہ منورہ پہنچے تو آپﷺ نے ایک خصوصی حکمت عملی کے تحت دو دو آدمیوں میں مواخات قائم کی یہ برادرانہ ربط معاشی اور معاشرتی اتار چڑھاؤ کو ختم کرنے کے لیے بہت مفید ثابت ہوا مہاجرین اور انصار میں یہ ربط جب قائم ہوا تو سیدنا علیؓ کی مواخات سیدنا سہل بن حنیف انصاریؓ کے ساتھ ہوئی (از خطیب بغدادی صفحہ 70)۔

غزوہ بدر میں شرکت: سیدنا علیؓ نے مدینہ منورہ میں آنحضرتﷺ کے ہمراہ غزوہ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شرکت فرمائی آپؓ نے نہایت جرأت اور بسالت اور اعلیٰ شجاعت کے تاریخی کارنامے سر انجام دیے جس سے اسلام کی تاریخ روشن ہے آنحضرتﷺ نے جنگِ اُحد میں ابتدائی مبارزت میں تین تین افراد کو سب سے پہلے میدان میں اترنے اور بالمقابل موجود کو ناکوں چنے چبوانے کا حکم دیا ان میں سیدنا حمزہؓ اور سیدنا عبیدہؓ کے ساتھ تیسرے سیدنا علیؓ تھے سیدنا علیؓ آنحضرتﷺ کی زندگی میں تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے آپؓ نے تمام بالخصوص اُحد اور خیبر میں شجاعت اور بہادری کے ایسے ایسے جوہر دکھائے اسلامی تاریخ میں سُنہرے حروف سے لکھے ہوئے ہیں سیدنا علیؓ کی جرأت و بسالت تاریخِ اسلام میں درخشندہ آئینہ کی حیثیت رکھتی ہے (البدایہ جلد 3 صفحہ 273)۔