Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح اور زوجین کی عمر

  حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒ

سیدنا علیؓ کا سیدہ فاطمہؓ سے نکاح اور زوجین کی عمر

(از سیرہ سیدنا علی المرتضیٰؓ مولانا محمد نافع صاحب)

ماہِ رجب 2 ہجری میں سیدنا علیؓ کا نکاح سیدہ فاطمہؓ کے ساتھ آنجنابﷺ نے کر دیا تھا اور نکاح کا مہر چار صد مشقال مقرر کیا گیا علماء نے لکھا ہے کہ اس وقت سیدنا علیؓ کی عمر 21 یا 24 سال کی تھی اور سیدہ فاطمةؓ کی عمر علی الاختلاف اقوال 15۔18 یا 19 سال کے قریب تھی۔

(شرح مواہب المدینہ جلد 2 صفحہ 3)

مجلسِ نکاح: انعقاد نکاح کے لیے بابرکت اجتماع بالکل سادہ تکلفات زمانہ سے مبراء اور رسوماتِ مروجہ سے خالی تھا اس مبارک نکاح کی تقریب میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ سیدنا فاروقِ اعظمؓ سیدنا عثمان ذوالنورینؓ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل تھے اور شاہدِ نکاح تھے اہلِ سنّت و شیعہ علماء دونوں نے ان بزرگوں کی شمولیت و شہادتِ نکاح کو درج کیا ہے اور خطبہ نکاح جناب نبی اکرمﷺ نے پڑھا۔

(ذخائر العقبیٰ المحب طبری صفحہ 30 باب زکر تزویج سیدہ فاطمہؓ)

جہیز: طبقاتِ ابنِ سعد اور مسندِ احمدؒ کی روایات کی روشنی میں رخصتی سیدہ فاطمہؓ کے موقع پر آپؓ کو جو جہیز دیا گیا وہ ایک چارپائی ایک بڑی چادر چمڑے کا تکیہ (جو کھجور کی چھال یا خوشبودار گھاس اذخر سے بھرا ہوا تھا) ایک مشکیزہ دو کوزے اور ایک آٹا پیسنے کی چکی پر مشتمل تھا۔

سیدنا علیؓ کے خانہ مبارک میں شادی کے موقع پر یہ مختصر سامان زاہدانہ معیشت کے لیے کافی اور مکتفی تھا جہانداری کی زیب و زینت کا کوئی نشان تک نہ تھا اور اہلِ ثروت کا سامان تعیش مفقود تھا اور متمولین جیسی آرائش معدوم تھی۔

(مسندِ احمد جلد 1 صفحہ 104 تحتِ مسنداتِ علویؒ)

حصولِ مکان اور رخصتی: رسول اللہﷺ نے سیدنا علیؓ کے سکونتی مکان کے لیے اپنے ایک صحابی سیّدنا حارثہ بن نعمانؓ کے مکان کا ذکر فرمایا سیدنا حارثہؓ پہلے بھی رسول اللہﷺ کی خاطر ایک مکان پیش کر چکے تھے تو اس دفعہ سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کے لیے سیدنا حارثہ بن نعمانؓ سے پھر ایک مکان لینے میں آپﷺ کو تردد ہوا یہ بات جب سیّدنا حارثہؓ تک پہنچی تو سیدنا حارثہ بن نعمانؓ نے خود آنحضرتﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض داشت پیش کی کہ یارسول اللہﷺ میں اور میرا مال اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ کے لیے حاضر ہے جو مکان آپﷺ مجھ سے حاصل فرمائیں گے وہ میرے لیے اس مکان سے زیادہ پسندیدہ ہوگا جو آپﷺ میرے لیے چھوڑیں گے تو آنحضرتﷺ نے ان کا مکان سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کے لیے قبول فرمایا اور دعائے خیر کے کلمات کہتے ہوئے فرمایا:

بارک اللہ علیک یا فرمایا بارک اللہ فیک اس کے بعد اس مکان میں سیدہ فاطمہؓ کی رخصتی کا انتظام کیا گیا اور مکان کی تیاری کے سلسلے میں صفائی اور دیگر ضروری انتظامات اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے سیدہ اُم سلمہؓ کی معاونت سے مکمل فرمائے مکان کی تیاری کے بعد ذوالحجہ 2 ہجری میں سردارِ دو جہاںﷺ نے اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہؓ کو سیدنا علیؓ کے اس مکان کی طرف اپنی خادمہ سیدہ اُم ایمنؓ کی معیت میں پیادہ روانہ فرمایا اور اس طرح خاتونِ جنتؓ کی رخصتی اس سادہ سی تقریب کی صورت میں مکمل ہوئی جس میں مروجہ رسومات کا کوئی شائبہ تک نہ تھا اور یہ عمل امت کے لیے تعلیم کا بے مثل نمونہ تھا اس واقعے کے متعلق سیدہ عائشہؓ اور سیدنا جابرؓ فرمایا کرتے تھے:

 وما ارینا عرسا احسن من عرس فاطمہؓ

ترجمہ: یعنی سیدہ فاطمہؓ کی شادی سے بہتر اور عمدہ ہم نے کوئی شادی نہیں دیکھی۔

دعوتِ ولیمہ: رخصتی کی اس مبارک تقریب کے بعد دعوتِ ولیمہ کا مختصر سا انتظام کیا گیا جس میں جو کی روٹی کچھ کھجور اور پنیر سے اپنے احباب کے لیے دعوتِ طعام ترتیب دی گئی اس بابرکت شادی کا متبرک ولیمہ تھا جس میں نہ تکلف تھا نہ تصنع اور نہ ہی قبائلی تفاخر مدِنظر تھا دعوتِ ولیمہ ایک سنت طریقہ ہے اس سنت کو نمود و نمائش کے بغیر نہایت سادگی سے ادا کیا گیا اور اہلِ اسلام کے لیے اس میں عملی نمونہ پیش کیا گیا۔

(تاریخُ الخمیس جلد 1 صفحہ 411 تحتِ بناء علیؓ بہ فاطمہؓ)۔

دعائیہ کلمات: جب انتظامی مراحل مکمل ہوگئے اور رخصتی بھی ہوچکی تو آنحضرتﷺ سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کے مکان پر تشریف لے گئے اس موقع پر مناسب حال نصائح و ہدایات ارشاد فرمائیں اور زوجین کے لیے یہ دعائیہ کلمات کہے:

اللہم بارک فیھا و بارک علیھما و بارک لھما والنسلھما

ترجمہ: یعنی اے اللہ زوجین کے مال و جان میں برکت عطا فرما اور ان کی اولاد کے حق میں بھی برکت فرما۔

(الاصابہ لابنِ حجر جلد 4 صفحہ 366 تحت سیدہ فاطمہؓ)

(بحوالہ کتاب سیدنا علی المرتضیٰؓ صفحہ 30 مولانا محمد نافع صاحب)