Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شہادت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ 18 ذی الحج

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

شہادت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ 18 ذی الحج

اگر ہم 10 محرم کی طرف جاتے ہوئے رستہ میں 18 ذی الحج کی تاریخ پڑھیں تو ایک ایسی شہادت دکھائی دیتی ہے جس میں شہید ہونے والے کا نام حضرت عثمانؓ ہے۔

جی ہاں وہی سیدنا عثمانؓ جنہیں ہم ذالنورین کہتے ہیں۔
وہی سیدنا عثمانؓ جسے ہم دامادِ مصطفیﷺ کہتے ہیں۔
وہی سیدنا عثمانؓ جسے ہم ناشرِ قرآن کہتے ہیں۔
وہی سیدنا عثمانؓ جسے ہم خلیفہ سوئم کہتے ہیں۔
وہی سیدنا عثمانؓ جو سیدنا علیؓ کی شادی کا سارا خرچہ اٹھاتے ہیں۔
وہی سیدنا عثمانؓ جس کی حفاظت کے لیے سیدنا علیؓ اپنے بیٹے سیدنا حسینؓ کو بھیجتے ہیں۔
وہی سیدنا عثمانؓ جسے جناب محمد الرسول اللہﷺ کا دوہرا داماد کہتے ہیں۔
خیر یہ باتیں تو آپ کو طلباء خطباء حضرات بتاتے رہتے ہیں۔
کیونکہ سیدنا عثمانؓ کی شان تو بیان کی جاتی۔
سیدنا عثمانؓ کی سیرت تو بیان کی جاتی ہے۔
سیدنا عثمانؓ کی شرم و حیا کے تذکرے کیے جاتے ہیں ان کے قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے واقعات سنائے جاتے ہیں لیکن بد قسمتی ہے یہ کہ ان کی مظلومیت کو بیان نہیں کیا جاتا ان کی دردناک شہادت کے قصہ کو عوام کے سامنے نہیں لایا جاتا۔
تاریخ کی چیخیں نکل جائیں اگر سیدنا عثمانؓ کی مظلومیت کا ذکر کیا جائے کوئی عالم یا خطیب نہیں لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ سیدنا عثمانؓ وہ مظلوم تھا۔
جس کا 40 دن پانی بند رکھا گیا آج وہ سیدنا عثمانؓ پانی کو ترس رہا ہے جو کبھی امت کے لیے پانی کے کنویں خریدا کرتا تھا۔
حضرت عثمانؓ قید میں تھے تو پیاس کی شدت سے جب نڈھال ہوئے تو آواز لگائی ہے کون مجھے پانی پلائے؟
حضرت علیؓ کو پتہ چلا تو مشکیزہ لے کر سیدنا علیؓ سیدنا عثمانؓ کا ساقی بن کر پانی پلانے آ رہے ہیں۔
ہائے آج کربلا میں علی اصغر پر برسنے والے تیروں کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن سیدنا علیؓ کے مشکیزہ پر برسنے والے تیروں کا ذکر نہیں ہوتا باغیوں نے سیدنا علیؓ کے مشکیزہ پر تیر برسانے شروع کیے تو سیدنا علیؓ نے اپنا عمامہ ہوا میں اچھالا تاکہ سیدنا عثمانؓ کی نظر پڑے اور کل قیامت کے روز سیدنا عثمانؓ اللہ کو شکایت نا لگا سکے کہ اللہ میرے ہونٹ جب پیاسے تھے تو تیری مخلوق سے مجھے کوئی پانی پلانے نا آیا۔
کربلا میں سیدنا حسینؓ کا ساقی اگر عباس تھا۔
تو مدینہ میں سیدنا عثمانؓ کا ساقی سیدنا علیؓ تھے۔
اس سیدنا عثمانؓ کو 40 دن ہو گئے ایک گھر میں بند کیئے ہوئے جو سیدنا عثمانؓ مسجدِ نبوی کے لیے جگہ خریدا کرتا تھا۔ آج وہ سیدنا عثمانؓ کسی سے ملاقات نہیں کر سکتا جس کی محفل میں بیٹھنے کیلئے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین جوق در جوق آیا کرتے تھے۔ 40 دن گزر گئے اس سیدنا عثمانؓ کو کھانا نہیں ملا جو اناج سے بھرے اونٹ نبیﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا کرتا تھا۔ آج اس سیدنا عثمانؓ کی داڑھی کھینچی جا رہی ہے جس سیدنا عثمانؓ سے آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے تھے۔ آج اس سیدنا عثمانؓ پر ظلم کیا جا رہا ہے جو کبھی غزوہ احد میں نبی کریمﷺ کا محافظ تھا۔ آج اس سیدنا عثمانؓ کا ہاتھ کاٹ دیا گیا جس ہاتھ سے آپﷺ کی بیعت کہ تھی۔
ہائے عثمانؓ میں نقطہ دان نہیں میں عالم نہیں جو تیری شہادت کو بیان کروں اور دل پھٹ جائیں آنکھیں نم ہو جائیں۔
آج اس سیدنا عثمانؓ کے جسم پر برچھی مار کر لہو لہان کر دیا گیا جس سیدنا عثمانؓ نے بیماری کی حالت میں بھی بغیر کپڑوں کے کبھی غسل نہ کیا تھا آج آپ کی 2 بیٹیوں کے شوہر کو ٹھوکریں ماری جا رہی ہیں۔
18 ذی الحج 35 ھجری ہے جمعہ کا دن ہے حضرت عثمانؓ روزہ کی حالت میں ہیں باغی دیوار پھلانگ کر آتے ہیں اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی داڑھی کھنچتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں ایک باغی پیٹھ پر برچھی مارتا ہے ایک باغی لوہے کا آہنی ہتھیار سر پر مارتا ہے ایک تلوار نکالتا ہے سیدنا عثمانؓ کا ہاتھ کاٹ دیتا ہے وہی ہاتھ جس ہاتھ سے آپ کی بیعت کی تھی قرآن سامنے پڑا تھا خون قرآن پر گرتا ہے تو قرآن بھی عثمانؓ کی شہادت کا گواہ بن گیا سیدنا عثمانؓ زمین پر گر پڑے تو سیدنا عثمانؓ کو ٹھوکریں مارنے لگے جس سے آپ کی پسلیاں تک ٹوٹ گئیں سیدنا عثمانؓ باغیوں کے ظلم سے شہید ہو گئے۔
اسلام وہ شجر نہیں جس نے پانی سے غذا پائی
دیا خون صحابہؓ نے پھر اس میں بہار آئی
گر شرم و حیا پہ کوئی دیوان لکھے گا
مجھے ہے یقین سیرتِ عُثمانؓ لکھے گا
اللہ آپ کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے آمین۔