سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلفاء ثلاثہؓ کے دور میں
حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒسیدنا علی المرتضٰیؓ خلفاءِ ثلاثہؓ کے دور میں
عہدِ صدیقیؓ
نبی اقدس ﷺ کے وصال کے بعد صدیقی عہد اسلام میں سب سے اعلیٰ دور ہے اس وقت احیائے دین اور بقائے ملت کے استحکام کی شدید ضرورت تھی ان اہم مراحل میں دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ ساتھ سیدنا علیؓ نے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں ان میں سے یہاں ہم نے یہ چند ذکر کردی ہیں مثلاً
- مرکز اسلام مدینہ طیبہ کی نگرانی اور سیدنا علیؓ کا کردار۔
- مقام ذُوالقصہ کی طرف خلیفہ اولؓ کا اقدام اور علوی تعاون۔
- خلیفہ کے ساتھ علوی روابط۔
- تقسیمِ اموال و غنائم میں سیدنا علیؓ کی تولیت۔
- اہم دینی مسائل میں آپؓ سے مشاورت۔
- دیگر انتظامی امور میں مشاورت۔
- تدوینِ قرآن کے کارنامے کی تائید و توثیق۔
- اموالِ غنائم کا حصول اور سیدنا علیؓ کا کنیزوں کا قبول کرنا۔
خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا علیؓ صدیقی دور میں اسلام کے تمام اہم امور میں خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ رہے اور ان سے پوری طرح متفق رہے اور ان کے کارناموں میں ان کے ساتھ متحد و متعاون ریے سیدنا علیؓ کی قولی و فعلی زندگی عہدِ صدیقیؓ میں واضح طور پر شہادت دیتی ہے کہ اس دور کے تمام دینی و انتظامی مسائل بالکل درست تھے اور سیدنا علیؓ کا ان کے ساتھ کامل اتفاق تھا اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی خلافت ان کے نزدیک باطل نہیں تھی برحق تھی جو حضرات سیدنا علیؓ کے ان اقوال و افعال کو تقیہ پر محمول کرتے ہیں اور مجبوری ومصلحت بینی کی زندگی قرار دیتے ہیں انہوں نے سیدنا علیؓ کے ارفع مقام کو اور ان کے اعلیٰ اخلاق و کردار کو کئی گوناگوں اعتراضات کے ساتھ داغدار کردیا ہے (از سیرہ سیدنا علیؓ صفحہ 163)۔
عہدِ فاروقیؓ
سیدنا علی المرتضیٰؓ عہدِ فاروقیؓ میں بڑے اہم مناصب پر فائز رہے ہیں اور ان کا حکومتِ اسلامیہ میں بڑا بلند مقام تھا مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن رکین تھے اور قضاء وافتاء کے مرتبہ میں چیف قاضی اور مفتی اعظم تھے اور مجلسِ مشاورت میں ان کے مشورے کو خاص اہمیت دی جاتی تھی بعض اوقات سیدنا علیؓ کو سیدنا عمرؓ کے نیابت مدینہ منورہ پر حاصل ہوتی تھی عہدِ فاروقیؓ میں ان کو غنائم اور ہدایا برابر ملتے رہے اور آپؓ انہیں قبول کرتے رہے۔
مزید برآں ان کا خلیفہ ثانیؓ سے رشتہ داری کا تعلق ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے یعنی سیدنا علیؓ کی صاحبزادی سیدہ اُم کلثومؓ کا سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے نکاح میں ہونا مسلمات میں سے ہے۔
یہ تمام چیزیں سیدنا علیؓ کے خلیفہ ثانی سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے ساتھ عملی تعاون کی بہترین نظیریں ہیں اور شیعہ علماء و مجتہدین نے سیدنا علیؓ کے اس تعاون اور تعامل کو عبارتِ ذیل کی شکل میں تسلیم کیا ہے مرتضیٰ علمُ المہدی لکھتے ہیں کہ:
حتیٰ بایع القوم و حضر مجلسھم و دخل فی آراءھم وصلیٰ مقتدیابھم و اخذا اعطیتھم۔
- یعنی سیدنا علیؓ نے خلفاء ثلاثہؓ کی بیعت کی۔
- اور ان کی مجالس میں شامل ہوتے رہے۔
- اور ان کے مشوروں اور آراء میں داخل اور شریک رہے۔
- اور ان کی اقتداء میں نمازیں ادا کرتے رہے۔
- اور ان کے عطیات اور اموال حاصل کرتے رہے۔
سیدنا علیؓ کی عملی زندگی کا یہ ایک مختصر نمونہ ہے جو پیش خدمت کیا گیا جس سے فاروقی دور میں سیدنا علیؓ کا کردار آشکار ہوتا ہے اور خلیفہ ثانیؓ کے ساتھ آپؓ کا تعاون واضح ہوتا ہے (سیّدنا علیؓ صفحہ 182 183 مصنف مولانا محمد نافع صاحب)۔
عہدِ عثمانیؓ
- سیدنا علیؓ اور سیدنا عثمانِ غنیؓ کا باہم نسبی تعلق اور خاندانی قرب باقی خلفاء سے زیادہ ہے۔
- اور بخوشی و رضا سیدنا عثمانِ غنیؓ کے ساتھ سیدنا علیؓ کا بیعت کرنا مسلم ہے اہم امور خلافت میں مشورے دینا۔
- افتاء وقضاء کے مناصب قبول کرنا۔
- دیگر امور (ملکی انتظامات) میں شامل و شریک ہونا۔
- جمع مصاحف جیسے اہم مسائل میں ساتھ ہونا۔
- اس دور کی قومی و ملی جنگوں میں اولاد ابی طالب کا شریک ہونا اور غنائم و عطایا مالی حاصل کرنا وغیرہ وغیرہ۔
یہ تمام امور سیدنا علیؓ کے عملی کردار و اخلاق کو واضح کرتے ہیں اور مسئلہ تعاون کو خوب آشکار کرتے ہیں ان چیزوں کو وقتی مصلحت بینی پر محمول نہیں کیا جاسکتا اور تقیہ کی غلط تاویل کے ساتھ مودل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ تاویل روایت و درایت دونوں کے خلاف ہے اور سیدنا علیؓ کی شانِ دیانت داری اور شانِ اخلاص سے اس کی امید نہیں کی جاسکتی (سیّدنا علیؓ صفحہ 207 مولانا محمد نافع صاحب)۔