Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدنا علیؓ کے علم و فضل کا اقرار

  حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒ

سیدنا علیؓ کے علم و فضل کا اقرار

سیدنا معاویہؓ کو جب سیدنا علیؓ کے شہید ہونے کی خبر پہنچی تو بے اختیار رو پڑےآپؓ کی اہلیہ نے کہا کہ آپؓ تو ان سے لڑتے رہے ہیں ان پر رونا کیسا؟ آپؓ نے فرمایا تجھے کیا پتہ آج دنیا کس قدر علم و فضل اور ذخیرہ فقہ سے محروم ہو گئی ہے۔ 

حافظ ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں:

لما جاء خبر قتل علی الی معاویتہ جمل یبکی فقالت له امرئته تبکیہ وقد قاتلته ؟ فقال ویحك انک لاتلدین ما فقد الناس من فضل والفقه والعلم۔

ترجمہ: جب سیدنا امیر معاویہؓ کو سیدنا علیؓ کے قتل کی خبر پہنچی تو رونے لگے آپؓ کو آپؓ کی بیوی نے کہا آپؓ ان پر رو رہے ہیں آپؓ تو ان سے لڑتے رہے ہیں آپؓ نے فرمایا تیرا برا ہو تو نہیں جانتی آج لوگوں نے کس قدر علم وفضل اور فقہ کو کھو دیا ہے۔

اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ سیّدنا علیؓ فقہاءِ صحابہؓ میں سے تھے اور فقہ میں بہت اونچا مقام رکھتے تھے کیونکہ سیدنا امیر معاویہؓ جو خود بڑے فقیہ تھے جب وہ سیدنا علیؓ کی نقابت کے قائل اور اس درجہ معترف ہیں تو آپ اندازہ کریں اہلِ فن کی شہادتِ مشہودلہ کی فنی شان کو کا قدر دوبالا کرتی ہے۔

سیّدنا علیؓ کے شاگردوں میں ضرار اسدی سے کون واقف نہیں ضرار سیّدنا علیؓ کی شہادت کے بعد سیّدنا امیر معاویہؓ کی خدمت میں پہنچے تو سیدنا امیر معاویہؓ نے کہا کچھ سیّدنا علیؓ کے بارے میں کہیں اس نے کہا آپؓ مجھے معاف رکھیں تو بہتر ہوگا سیّدنا معاویہؓ نے پھر اصرار کیا کہ تجھے کچھ نا کچھ بتانا ہی ہوگا پھر اس نے آپؓ کے کچھ اوصاف بیان کیے اور سیدنا امیر معاویہؓ رو پڑے یہاں تک کہ آپؓ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی تقریباً سبہی شارحین نہج البلاغہ نے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔

وکان ضرار من اصحابِه علیہ السلام فدخل علی معاویتهؓ بعد موته فقال صفاتی علیؓ فقال تعافیتی عن ذلك فقال واللہ لتفعلن فتکلم بھدا الفضل قبلی معاویتهؓ حتیٰ خصلت لحبه۔

ترجمہ: ضرار سیّدنا علیؓ کے اصحاب میں سے تھے آپؓ کی وفات کے بعد وہ سیدنا معاویہؓ کے پاس آئے سیّدنا معاویہؓ نے اسے کہا کہ سیّدنا علیؓ کی کوئی صفت بیان کرو انہوں نے کہا کہ آپ مجھے اس سے معاف رکھیں آپؓ نے کہا تجھے ایسا کرنا ہوگا اس پر اس نے (ضرار نے) آپؓ کے علم وفضل کو بیان کیا یہاں تک کہ سیّدنا امیر معاویہؓ رو پڑے اور آپؓ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی۔

نہایت افسوس ہے کہ کوفہ کے لوگوں نے تقیہ کا مسئلہ ایجاد کر کے علم کے اس بیش بہا ذخیرے کو یونہی ضائع کردیا ضرباب میں ان سے دو دو روایتیں چلنے لگیں خود سیدنا علیؓ کے شاگردوں کو بھی احساس ہوگیا تھا کہ کس قدر علم صحیح مشتبہ کردیا گیا ہے امام مسلم صحیح مسلم کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:-

عن الا عمش عن ابی اسحق قال لما احدثوا تلک الانبیاءؑ بعد علی قال رجل من اصحابہ علی قاتلھم اللہ اتعلم افسدوا۔

ترجمہ: سیدنا علیؓ کے بعد جب لوگوں نے ان کے نام سے ایسی باتیں گھڑیں تو سیدنا علیؓ کے ایک شاگرد نے کہا خدا ان لوگوں کو غارت کرے کتنا علم ان لوگوں نے فاسد کیا ہے ان لوگوں نے آپؓ کے علم کو اس درجہ مشتبہ کردیا کہ اب ان کی وہی روایات لائق اعتبار سمجھی جاتی ہیں جو سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگرد سیّدنا علیؓ سے روایت کریں کوفہ میں محفوظ علمی مسند سیّدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی ہی رہ گئی تھی سیّدنا علیؓ کا دارالحکومت یہی کوفہ تھا آپؓ جن لوگوں میں کھڑے تھے انہوں نے آپؓ کی طرف وہ کچھ منسوب کر ڈالا کہ سیّدنا ابنِ عباسؓ جب ان مسائل کو دیکھتے تو صاف کہہ دیتے کہ سیّدنا علیؓ نے یہ فیصلہ ہرگز نہ کیا ہوگا یہ تو غلط ہے سیّدنا مغیرہؓ کہتے ہیں:

 لم یکن یصدق علی فی الحدیث الا من اصحاب عبداللہ بن مسعودؓ۔

ترجمہ: سیدنا علیؓ کی وہی حدیث صحیح سمجھی جاتی ہے جو آپؓ سے سیّدنا عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگرد سے روایت ہے۔

اس وقت اس سازش پر بحث نہیں کہ آلِ یہود نے کس بےدردی سے اس ذخیرہ علم کو ضائع کیا کہنا صرف یہ ہے کہ آپؓ کے سیّدنا امیر معاویہؓ جیسے شدید سیاسی مخالف نے بھی آپؓ کے علم و فضل کا صریح لفظوں میں اقرار کیا ہے اور یہ بات سیّدنا علیؓ کا ایسا جلی وصف ہے جو ہر موافق ومخالف سے خراجِ تحسین حاصل کررہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں واقعی بابِ علم (علم کا دروازہ) تھے۔

حضور ﷺ سے روایت ہے:

انا مدینته العلم وعلی بابھا یا انا دارالحکمة وعلی بابھا

ثابت ہو نہ ہو لیکن اس حقیقت کے اعتراف سے چارہ نہیں کہ آپؓ واقعی علم کا شہر تھے۔

یہ گمان نہ کیا جائے کہ یہ صرف یکطرفہ ٹریفک تھی انہیں سیدنا امیر معاویہؓ بھی بہت بڑے محدث اور فقیہ تھے اور سیدنا علیؓ بھی کھلے طور پر کہتے تھے کہ ہم ایمان میں ان سے بڑھ کر نہیں اور وہ ایمان میں ہم سے زیادہ نہیں معاملہ برابر کا سا ہے ہمارا اختلاف صرف خون سیّدنا عثمانؓ کے بارے میں ہوا اور خدا جانتا ہے کہ ہم اس سے بری ہیں اس میں یعنی ان کے قاتلوں کو پناہ دینے میں ہمارا کوئی دخل نہیں ہے۔

شریف رضی (404 ھجری) لکھتا ہے کہ آپ نے فرمایا

ان ربنا واحد ونبینا واحد ودعوتنا فی الاسلام واحد لاستزیدھم فی الایمان بااللہ والتصدیق برسوله ولا یستریموننا الامر واحد۔

ترجمہ: ہم دونوں ایک رب اور ایک نبیﷺ کے ماننے والے ہیں اسلام میں ہم دونوں فریق کی دعوت ایک ہے ہم ان سے ایمان باللّٰہ اور تصدیق رسالت محمدیہﷺ میں کسی اور چیز کے طالب نہیں اور نہ وہ ہم سے (ایمانیات میں) کسی اور چیز کا اضافہ چاہتے ہیں ہمارا اور ان کا (سیدنا امیر معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں کا) معاملہ ایک ہے۔

دیکھئے سیّدنا علیؓ نے کس دلیل سے اپنے آپ کو اور سیّدنا امیر معاویہؓ کو ایک مقام پر لا کھڑا کیا ہے اور کس صفائی سے اپنے ایمان کو اور اہلِ شام کے ایمان کو یکساں بتلایا ہے آپؓ فرما رہے ہیں کہ رسالت محمدیہﷺ کا پروانہ ہونے میں ہم دونوں ایک ہیں اور ہمارا سیدنا امیر معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں سے کوئی دینی اختلاف نہیں امورِ سلطنت میں جو اختلاف وہ اور نوع کا ہے سیّدنا علیؓ کا یہ مؤقف ہم نے سرسری طور پر ذکر کیا ہے اصل موضوع یہ تھا کہ سیدنا علیؓ سیّدنا امیر معاویہؓ کی نظر میں کیسے تھے اس پر ہم شہادت پیش کر چکے ہیں۔