حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت کس دن ہوئی؟ تحقیق
جعفر صادق❎ اعتراض: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہا کی شہادت ١ محرم کو نہیں ہوئی بلکہ سنی کتابیں ٢٦ذی الحج ٢٣ ہجری کو بتاتی ہیں
کسی کی تاریخ ولادت یا شھادت میں اختلاف کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن شیعہ حضرات اسے بغض اہلبیت بتا کر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں کہ اہلسنت والجماعت نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اصل شھادت تاریخ بدل دی اور وہ اس لئے کہ انہیں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقابلہ کرنا ہے اور اصل تاریخ یکم محرم نہیں بلکہ 26 ذی الحج ہے۔
اس پر ایک پوسٹر بنا کر جگہ جگہ پوسٹ کرتے پھر رہے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شھادت محرم میں نہیں بلکہ ذی الحج کے مہینے میں ہوئی ہے۔
سب سے پہلے تو ان روایت کا حال دیکھ لیں۔
حوالہ جات کی حقیقت:
1️⃣ طبقات ابن سعد جلد ٣ صفحہ ١٤٧
2️⃣ تاریخ طبری جلد ٣ صفحہ ٦٣٥
3️⃣ تاریخ ابن خلدون جلد ١ صفحہ ٣٨٤
4️⃣ تاریخ المسعودی جلد ٦ صفحہ ٦٤٠
5️⃣ تاریخ ابن کثیر جلد ٧ صفحہ ٦٧٩
1️⃣ طبقات ابن سعد جلد ٣ صفحہ ١٤٧
پہلا حوالہ طبقات ابن سعد (ج 3 ص 123 اردو ایڈیشن نفیس اکیڈمی کراچی) کا ہے۔ اول تو امام ابن سعد نے اس معاملے میں از خود کوئی واضح تاریخ معین نہیں فرمائی۔
دوسرا کہ انہوں نے اس باب کا عنوان ہی یہ بنایا ہے کہ حضرت عمر کی مدت خلافت اور حضرت عمرفارق کی عمر کے متعلق مختلف اقوال۔
پھر ان میں پہلے ترجمۃ الباب کی روایت کمزور ہے۔ ابوبکر بن محمد بن سعد نامی راوی کا تذکرہ کیا تو اس میں اختلاف نہیں کہ وہ مہجول الحال ہے۔ اس طرح سے 26 ذی الحجہ والی روایت نہایت کمزور ہے۔
2️⃣ تاریخ طبری جلد ٣ صفحہ ٦٣٥
دوسرا حوالہ تاریخ طبری (ج 3 ص 217 تا 218 اردو ایڈیشن نفیس اکیڈمی کراچی) کا ہے۔
امام طبری نے بھی ابن سعد کی طرح ان کی تاریخ وفات کے اختلاف کا تذکرہ کیا ہے۔ چنانچہ پہلا قول تو 27 ذی الحجہ کا بتایا ہے اور یہ روایت بھی نہایت کمزور ہے کیونکہ اس کے دو راوی سلیمان بن عبد العزیز اور جعفر بن عبد الرحمن تو مجہول الحال ہیں اور ایک راوی عبد العزیز بن عمران متروک ہے۔
دوسرا قول عبد العزیز بن عمران کا ہی ہے جو کہ بغیر کسی جرح کے 1 محرم کا بتایا ہے۔
تیسرا قول وہی ابن سعد کا ہی ذکر کیا ہے کہ 26 ذی الحجہ کو ہوئی لیکن جیسا پہلے واضح ہو چکا کہ وہ روایت انتہائی کمزور ہے۔
چوتھا قول ابو معشر کا 26 ذی الحجہ کا ہے جو احمد بن ثابت الرازی کے طریق سے ہے جو کہ کذاب تھا۔
پانچواں قول ہشام بن محمد کا 27 ذی الحجہ کا ہے جو کہ بلا سند اور منقطع ہے جو نہایت ہی کمزور ہے۔
3️⃣ تاریخ ابن خلدون جلد ١ صفحہ ٣٨٤
۔تیسرا حوالہ تاریخ ابن خلدون (ج 3 ص 236 اردو ایڈیشن دار الاشاعت کراچی) کا ہے۔
ابن خلدون نے اگرچہ 27 ذی الحجہ کا بتایا ہے مگر بلا سند ہے اور اس کا مضمون تقریبا وہی ہے جو تاریخ طبری کا پہلا قول ہے جس کی سند نہایت کمزور ہے۔
4️⃣ تاریخ المسعودی جلد ٦ صفحہ ٦٤٠
۔چوتھا حوالہ تاریخ مسعودی کا ہے۔ علی بن حسین المسعودی شیعہ رافضی ہے جس کا قول ہمارے لئے حجت نہیں۔
مسعودی شیعہ تھا ثبوت دیکھیں
5️⃣ تاریخ ابن کثیر جلد ٧ صفحہ ٦٧٩
پانچواں حوالہ تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنہایہ ج 7 ص 184 اردو ایڈیشن نفیس اکیڈمی کراچی) کا ہے۔
حافظ ابن کثیر نے کئی اقوال نقل کر کے پہلے قول ہی کو ترجیح دی ہے جو کہ 1 محرم الحرام کا ہے۔
کچھ مزید روایات
امور مؤرخ ،اور جرح و تعدیل کے مستند امام شمس الدین الذہبی اپنی بے مثال کتاب ’’ تذهيب تهذيب الكمال فی اسماء الرجال ‘‘میں لکھتے ہیں کہ:
امام ابن الجوزیؒ "مناقب عمر رضی اللہ عنہ "
لنک
ترجمہ :
23 ھجری کے ذوالحجہ کی چھبیس تاریخ بدھ کے روز آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا، اور اتوار کے دن یکم محرم چوبیس ہجری کو دفن کئے گئے ۔ آپ کی مدت خلافت دس برس ،پانچ ماہ اور اکیس دن تھی ۔
"طعن عمر رضي الله عنه يوم الأربعاء لأربع ليالٍ بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين، ودفن يوم الأحد صباح هلال المحرم سنة أربع وعشرين، فكانت ولايته عشر سنين وخمسة أشهر وإحدى وعشرين ليلة"
۔ تاریخ کامل کے مصنف نے بھی یہی لکھا ہے کہ ذی الحجہ کی چار راتیں باقی تھیں کہ آپ فوت ہو گئے اور یکم محرم کو دفن ہوئے۔ (الکامل جلد ۳ صفحہ ۵۲)
علامہ مسعودی لکھتے ہیں: حضرت عمر کو انکی خلافت کے دوران ہی میں مغیرہ کے غلام ابولولوہ نے قتل کر دیا تھا۔ اس وقت سن ہجری کا ۲۳ واں سال تھااور بدھ کا دن تھا جب کہ ماہ ذی الحجہ کے اختتام میں چار روز باقی تھے۔ (مروج الذہب جلد۲، صفحہ ۲۴۰)
علامہ محب الدین طبری لکھتے ہیں: آپ نے ۲۶ ذی الحجہ کو وصال فرمایا۔ بعض نے کہا کہ اس تاریخ کو زخم آیا تھا اور وفات آخری ذی الحجہ میں ہوئی۔ (ریاض النضرہ جلد ۲ صفحہ ۳۳۵)
امام اہلسنت جلال الدین سیوطی: ابو عبیدہ بن جراح کا بیان ہے کہ حضرت عمر بدھ کے دن ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ ھجری کو شہید ہوئےاور ہفتہ کے دن محرم کی چاند رات کو دفن کئے گئے۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ ۱۳۹)
روافض کا بغض صحابہ خصوصا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بغض کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
بعض قارئین کو ہمارے اس جملے سے حیرت ہوگی کہ ہم نے آج تک ان کے متعلق پر ایسا جملہ نہیں لکھا۔ یہ بات درست بھی ہے کہ ہمیں انکی بلکہ کسی بھی باطل کی صحابہ سے اس نفرت کی پرواہ نہیں نا کبھی ہمارا مقصد کسی نفرت، فرقہ واریت کو ہوا دینا رہا ہے ۔
ہمیں آج مسئلہ اس بات سے ہے کہ یہ لوگ اس حوالے سے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے جھوٹ گھڑنے اور حقائق کو توڑ موڑ کے پیش کرنے سے بھی باز نہیں آتے ۔ حضرت عمر ؓ اور پھر حضرت حسین ؓ ، کربلا اور صحابہ ؓ کے حوالے سے بہت سے ایسے موضوعات ہیں جنکو محرم میں خصوصی طور پر ہائی لائیٹ کرکے عوام کو کنفیوز کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ تحاریر میں ہماری کوشش یہ ہوگی کہ جذباتی باتوں سے بچتے ہوئے ان موضوعات کے متعلق اصل حقائق اور اعتدال کے رستے کی وضاحت کردی جائے۔ ایڈمن
*******
ایک دوست نے ان بکس میں سوال کیا ہے کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ بات غلط مشہور ہے کہ حضرت عمر فاروق رضي الله عنه کی شہادت یکم محرم الحرام کو ہوئی ... یہ در اصل دشمنان اہل بیت کی طرف سے پھیلایا گیا ہے جھوٹ ہے ..
جواب :
سر دست تین حوالے پیش خدمت ہیں .. جنکے اندر صاف طور پر ذکر ہے کہ حضرت عمر فاروق رضي الله عنه کی وفات محرم کی پہلی تاریخ کو ہوئی تھی ... اور یہی بات مشہور ہے .
حوالہ نمبر 1:
ابن اثير جزرى اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ "حضرت عمر رضي الله عنه کو جب زخمی کیا گیا تو وہ دن بدھ کا دن تھا، اور ماه ذو الحج ختم ہونے میں تین دن باقی تھے ، اور آپ کی تدفین اتوار کی صبح ہوئی اور اس دن محرم کا پہلا دن تھا " ۔(اسد الغابة في معرفة الصحابة ، ج 4 ص 166)
نوٹ: ابن اثیر نے آگے ایک اور روایت ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ "والاول اصح ما قيل في عمر" کہ پہلی بات جو حضرت عمر رض کے بارے میں کہی گئی ہے وہ زیاہ صحیح ہے (یعنی آپ کی تدفین یکم محرم کو ہوئی تھی)
حوالہ نمبر 2:
ابو حفص الفلاس کی روایت ہے کہ "ذو الحجة کی چند راتیں باقی تھیں کہ حضرت عمر رضي الله عنه حملے میں زخمی کیے گئے ، اسکے بعد آپ تین راتیں زندہ رہے اور سنہ 24 ہجری کے محرم کی پہلی تاریخ کو آپ کی وفات ہوئی" (تاريخ مدينة دمشق يعني تاريخ ابن عساكر ،ج 44 ص 478)
حوالہ نمبر 3:
"حضرت عبدالله بن زبير رضي الله عنه سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : حضرت عمر رضي الله عنه کو بروز بدھ جب ذو الحج کے تین دن باقی تھے زخمی کیا گیا پھر آپ تین دن تک زندہ رہے پھر اسکے بعد آپ کی وفات ہوئی" (كتاب المحن ، صفحه 66)
ایک عجوبہ :
میں اسی موضوع پر تحقیق کر رہا تھا کہ حضرت عمر رضي الله عنه کی وفات کس تاریخ کو ہوئی تو ایک كتاب میں یہ الفاظ ملے ..کتاب کا مصنف "رافضی" ہے اور متشدد قسم کا رافضی ہے ... نام ہے "نعمة الله جزائرى" لکھتا ہے کہ :
"دوسرے کا قتل 9 ربيع الاول کو ہوا" (دوسرے مراد خلیفہ دوم ہیں) (الانوار النعمانية ، جلد 1 صفحه 84)
اور اس پر مزید مزے کی بات یہ ملی کہ اس کتاب پر حاشیہ میں یہ لکھا گیا کہ
"قتل عمر في اليوم التاسع منه كان مشهوراً بين الشيعة"
یہ بات شيعہ میں مشھور تھی کہ حضرت عمر (رض) کا قتل 9 ربيع الاول کو ہوا تھا۔۔
✅ اس کے علاوہ یہ بات نہایت اہم ہے کہ کم و بیش تقریبا ہر مورخ نے ہی ان پر ابو لولو فیروز کے حملہ کرنے سے شہادت کے دن تک کا درمیانی حصہ تین یا چار دن ذکر کیا ہے۔
ہمارا بھی یہی موقف ہے کہ حضرت عمر پر حملہ 26 یا 27 ذی الحجہ کو ہوا اور ان کی شہادت اس واقعہ کے تیسرے یا چوتھے دن بعد 1 محرم الحرام کو ہوئی اور حجرہ عائشہ میں اسی روز دفن ہوئے۔ اس بارے میں حافظ ابن کثیر کی صراحت اصح ہے۔
اگر کوئی قول 26 ذی الحج کا مل بھی جائے تو بھی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں اقوال ملتے ہیں پر مشہور قول جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ امام ابن کثیر اور دیگر آئمہ اہلسنت کے نزدیک یکم محرم ہی ہے۔