Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدنا علیؓ کا دور خلافت

  حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒ

سیدنا علیؓ کا دورِ خلافت

سیدنا علیؓ کا دورِ حکومت ساڑھے پانچ سال تک 22 لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض خطے تک محیط رہا۔

آپؓ کے دور مسلمانوں کے مابین سیدنا عثمان غنیؓ کے قاتلوں سے انتقام لینے کے لیے جنگِ جمل اور جنگِ صفین کے واقعات پیش آئے تاہم حکومت و خلافت مصطفوی کی اصلی روح عدل اجتماعی اور مساوات حقیقی خلیفہ چہارمؓ کے دورِ حکومت میں مصطفوی شریعت اور خلفائے ثلاثہؓ کے منہاج پر قائم رہی۔

آپؓ نے خلافتِ اسلامیہ کے باب میں جس درخشندہ عہد کو فروغ دیا وہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا عثمانؓ سے مشابہت اور مطابقت رکھتا ہے.

مسلمانوں کے باہمی اختلاف اور قاتلانِ سیدنا عثمانؓ کی چیرہ دستیوں نے خود سیدنا علیؓ کو اپنے گرد گھومنے والے ایک طبقے سے بیزار کر دیا تھا۔

اسد اللہ الغالبؒ کہ دورِ حکومت کے اصول و ضوابط کو سمجھنے کے لیے گورنر مصر کے نام لکھے جانے والے ایک خط پر غور کرنا ضروری ہے۔

سیدنا علیؓ کی طرف سے ارسال کیا جانے والا یہ خط ایک طرف حکومتی اصولوں کا شاہکار ہے دوسری طرف خلافتِ راشدہؓ کے زریں عہد کا آئینہ دار ہے یہ خط سیدنا علیؓ کے نظامِ سلطنت کا روشن آئینہ ہے۔

یہ ہے وہ وصیت جس کو اللہ کے بندے سیدنا علیؓ نے مالک اشتر کو جب اسے مصر کا گورنر بنایا روانہ کیا تاکہ ملک کا خراج جمع کرے اس کے دشمنوں سے لڑے اس کے باشندوں کے فلاح و بہبود کا خیال رکھے مالک کے تقویٰ اور اطاعتِ خداوندی کو مقدم رکھنے کا حکم دیا جاتا ہے آدمی کی سعادت خدا اور رسول اللہﷺ کے فرائض و سنن کی بجا آوری میں ہے اس سے انکار بدبختی ہے۔

رعایا میں دو قسم کے آدمی ہوں گے تمہارے دینی بھائی یا مخلوق خدا ہونے کے لحاظ سے تمہارے جیسے آدمی لوگوں سے غلطیاں تو ہوتی ہی ہیں جان بوجھ کے یا بھول چوک سے ٹھوکریں کھاتے ہی رہتے ہیں تم اپنے عفو کا دامن خطاکاروں کے لئے اسی طرح پھیلا دینا جس طرح تمہاری آرزو ہے کہ خدا تمہاری خطاؤں کے لئے اپنا دامن عفو و کرم پھیلا دے کبھی نہ بھولنا کہ تم رعایا کے افسر ہو خلیفہ تمہارا افسر ہے اور خدا خلیفہ کے اوپر حاکم ہے خلیفہ نے تمہیں گورنر بنایا ہے اور مصر کی ترقی و اصلاح کی ذمہ داری تمہیں سونپ دی ہے خدا سے لڑائی نہ مول لینا کیونکہ آدمی کے لئے خدا سے کوئی بچاؤ نہیں خدا کے عفو و رحمت سے کبھی بھی بے نیاز نہیں ہو سکتے عفو پر کبھی نادم نہ ہونا سزا دینے پر کبھی شیخی نہ بگھاڑنا غصہ آتے ہی دوڑ نہ پڑنا بلکہ جہاں تک ممکن ہو غصے سے بچنا اور غصے کو پی جانا

خبردار! رعایا سے کبھی نہ کہنا کہ میں تمہارا حاکم بنا دیا گیا ہوں اور اب میں ہی سب کچھ ہوں سب کو میری تابعداری کرنی چاہیے اس ذہنیت سے دل میں فساد پیدا ہوتا ہے دین میں کمزوری آتی ہے اور بربادی کے لیے بلاوا آتا ہے۔

وزراء اور مشیروں کے بارے میں سیدنا علیؓ نے فرمایا

بدترین وزیر وہ ہے جو شریروں کی طرف داری کرے اور گناہوں میں ان کا ساجھی ہو ایسے آدمی کو اپنا وزیر نہ بنانا کیونکہ اس قسم کے لوگ گناہ گاروں کے مددگار اور ظالموں کے ساتھی ہوتے ہیں ان کی جگہ تمہیں ایسے آدمی مدد دیں گے جو عقل و تدبیر میں ان کے برابر ہوں گے مگر گناہوں سے ان کی طرح برے نہ ہوں گے نہ کسی ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کی ہوگی نہ کسی گناہ گار کا اس کے گناہ میں ساتھ دیا ہوگا یہ لوگ تمہیں کم تکلیف دیں گے تمہارے بہترین مددگار ثابت ہوں گے تم سے پوری ہمدردی رکھیں گے اور گناہ سے اپنے سب رشتے کاٹ دیں گے ایسے ہی لوگوں کو تم صحبتوں اور عام درباروں میں اپنا مصاحب بنانا۔

پھر یہ بھی یاد رہے کہ خاص الخاص لوگوں میں بھی وہی تمہاری نگاہوں میں سب سے ذیادہ مقبول ہوں جو ذیادہ سے ذیادہ کڑوی بات تم سے کہہ سکتے ہوں اور ان کاموں میں تمہارا ساتھ دینے سے انکار کر سکتے ہوں جو خدا اپنے بندوں کے لئے ناپسند فرما چکا ہے اہلِ تقویٰ و صدق کو اپنا مصاحب بنانا انہیں ایسی تربیت دینا کہ تمہاری جھوٹی تعریف کبھی نہ کریں کیونکہ تعریف کی بھرمار سے آدمی میں غرور پیدا ہوتا ہے اور تمہارے سامنے نیکوکار اور خطاکار برابر نہ ہوں ایسے کرنے سے نیکوں کی ہمت پست ہو جائے گی اور خطاکار اور بھی شوخ ہو جائیں گے ہر آدمی کو وہ جگہ دینا جس کا وہ اپنے عمل کے لحاظ سے مستحق ہے اور تمہیں جاننا چاہیے کہ رعایا میں اپنے حاکم کے ساتھ حسنِ ظن اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ حاکم رعایا پر رحم و کرم کی بارش کرتا رہے اس کی تکلیفیں دور کرے اور کوئی ایسا مطالبہ نہ کرے جو اس کے بس سے باہر ہو یہ اصول تمہارے لیے کافی ہے اس سے رعایا کا حسنِ ظن تمہیں بہت ہی مشکلوں سے نجات دے گا۔

خود تمہارے حسنِ ظن کے سب سے زیادہ مستحق وہ ہیں جو تمہارے امتحان میں سب سے اچھے اُتریں اسی طرح تمہارے سوءِ ظن کے بھی سب سے زیادہ مستحق وہی ہوں جو آزمائش میں سب سے بڑے نکلیں۔

فوج کے بارے میں سیدنا علیؓ کی ہدایات

اپنی فوج کے معاملے میں ہوشیاری سے کام لینا انہی لوگوں کو افسر بنانا جو تمہارے خیال میں اللہ و رسولﷺ کے اور تمہارے امام کہ سب سے زیادہ خیرخواہ ہوں صاف دل ہوں ہوشمند ہوں جلد غصے میں نہ آجاتے ہوں عذر معذرت قبول کر لیتے ہوں کمزوروں پر ترس کھاتے ہوں زبردستوں پر سخت ہوں نہ سختی انہیں جوش میں لے آتی ہو نہ کمزوری انہیں بٹھا دیتی ہو۔

مشتبہ معاملات پیش آئیں اور تمہاری بصیرت و علم کام نہ دے تو انہیں اللہ کی طرف اور اللہ کے رسول اللہﷺ کی طرف لوٹانا کیونکہ خدا مسلمانوں کی ہدایت کے لیے فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ۔ الخ

(سورۃ النساء: آیت نمبر 59)

اللہ کی طرف معاملے کو لٹانا یہ ہے کہ کتابِ محکم اور نص صریح کی طرف لوٹا جائے اور رسول اللہﷺ کی طرف لوٹانا یہ ہے کہ جامع سنتِ نبویﷺ کو لیا جائے نہ کہ اسے جس میں اختلاف پڑ گیا ہے۔

پھر ملک میں انصاف قائم کرنے کے لیے ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا جو تمہاری نظر میں سب سے افضل ہوں ہجوم معاملات سے تنگ دل نہ ہوتے ہوں اپنی غلطی پر اڑے رہنا ہی ٹھیک نہ سمجھتے ہوں اور حق ظاہر ہوجانے پر باطل ہی سے چمٹے نہ رہتے ہوں طماع نہ ہوں اپنے فیصلوں پر غور کرنے کے عادی ہوں فیصلے کے وقت شکوک و شبہات پر رکنے والے ہوں صرف دلائل کو اہمیت دیتے ہوں مدعی اور مدعا علیہ سے بحث میں اکتا نہ جاتے ہوں واقعات کی تہ تک پہنچنے سے جی نہ چراتے ہوں اور حقیقت کھل جانے پر اپنے فیصلے میں بے باک اور بے لاگ ہوں یہ ایسے لوگ ہوں جنہیں نا تعریف بے خود کر دیتی ہو نہ چاپلوسی مائل کر سکتی ہو مگر ایسے لوگ کم ہوتے ہیں۔

تمہارا فرض ہے کہ غازیوں کے فیصلوں کی جانچ کرتے رہو اپنے دربار میں انہیں ایسا درجہ دو کہ تمہارے کسی مصاحب اور درباری کو ان پر دباؤ ڈالنے یا انہیں نقصان پہنچانے کی ہمت نہ ہوسکے غازیوں کو ہر قسم کے خوف سے بالکل آزاد ہونا چاہیے۔

گورنروں کے نام خط میں آپؓ نے یہ بھی فرمایا:

"عمال حکومت کے معاملات پر بھی تمہیں نظر رکھنا ہوگی

اخراجات کی جانچ پڑتال کرنا ہوگی رورعایت سے یا صلاح مشورے کے بغیر کسی کو عہدہ نہ دینا کیونکہ ایسا کرنے سے ظلم و خیانت کے دروازے کھل جاتے ہیں اچھے گھرانوں اور سابقین اسلام کے خدمت گزاروں میں تجربہ کار اور باحیا لوگوں ہی کو منتخب کرنا کہ ان کے اخلاق اچھے ہوتے ہیں اپنی آبرو کا خیال رکھتے ہیں طمع کی طرف کم جھکتے ہیں اور انجام پر زیادہ نظر رکھتے ہیں عہدے داروں کو بہت اچھی تنخواہیں دینا اس سے یہ لوگ اپنی حالت درست کر سکیں گے اور حکومت کے اس مال سے بے نیاز رہیں گے جو ان کے ہاتھ میں ہوگا اس پر بھی حکم عدولی کریں یا امانت میں خلل ڈالیں تو تمہارے پاس ان پر حجت ہوگی مگر ضروری ہے کہ ان کاموں کی جانچ پڑتال کرتے رہنا نیک لوگوں کو مخبر بنا کر ان پر چھوڑ دینا یہ اس لیے کہ جب انہیں معلوم ہوگا کہ خفیہ نگرانی بھی ہو رہی ہے تو امانت داری اور رعایا سے مہربانی میں اور زیادہ چست ہوجائیں پھر اگر ان میں سے کوئی شخص خیانت کی طرف ہاتھ بڑھائے اور تمہارے جاسوسوں سے تصدیق ہوجائے تو بس یہ شہادت کافی ہے تم بھی سزا کا ہاتھ بڑھانا جسمانی اذیت کے ساتھ خیانت کی رقم بھی اگلوا لینا خائن کو ذلت کی جگہ کھڑا کرنا اور پوری طرح اسے رسوا کر ڈالنا (از کتاب سیدنا علیؓ ابنِ ابی طالب صفحہ 173)۔

سیدنا علی المرتضیٰؓ کا تاریخ ساز خط بلاشبہ حکومت و امانت اور خلافت و سلطنت کے باب میں عظیم الشان شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے عہدِ حاضر کے حکمران اگر سیدنا علیؓ کہ ان ہدایات کے پاسداری کرلیں تو ان کی حکومتیں صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی اور عوامی حکومتیں بن سکتی ہیں۔