صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علماء دیوبند کا مؤقف
نقیہ کاظمیصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور علمائے دیوبند کا مؤقف:
یوں تو علوم و فنون، تہذیب و تمدن، صنعت و حرفت اور وہ تمام چیزیں جن کی انسانی زندگی میں ضرورت پیش آتی ہے ان کی تحصیل و تکمیل فرائض میں داخل ہے لیکن ان تمام فرائض میں نفوسِ انسانی کی تہذیب و تکمیل سب سے اہم اور ضروری فرض ہے اسی لیے دنیا میں انسان اوّل حضرت آدم علیہ السلام ہی اس ذمہ داری سے گراں بار ہو کر تشریف لائے، پھر یہ سلسلہ ترقی کرتا ہوا خلاصہ کائنات نبی آخر الزماںﷺ کی ذات اقدس تک پہنچ کر ابد الآباد تک کے لیے مکمل ہو گیا۔ ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ الخ۔
(سورۃ المائدہ: آیت، 3)
اب اگر یہ پوچھا جائے کہ اس تہذیب و تمدن اور اخلاقِ فاضلہ کے آخری علم بردار نے نفوس انسانی کی تہذیب میں کون سا کمال کر دکھایا؟ تو جواباً صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ان مقدس شخصیات کو پیش کردیا جائے گا جو آپﷺ کے اخلاق و اعمال کے مظہر اتم، آپﷺ کی تعلیم و تربیت کی واضح مثال، آپﷺ کے ارشاد و ہدایت کے مخاطب اوّل اور آپﷺ کے فیض صحبت سے شب و روز بہرہ اندوز تھے، یہ مقدس جماعت، رسولِ خداﷺ اور خلقِ خدا کے درمیان خدا تعالیٰ کا ہی عطا کیا ہوا وہ واسطہ ہے جس کے بغیر نہ اللہ کا نازل کردہ قرآن ہاتھ آ سکتا ہے، نہ رسول اللہﷺ کا بیان کردہ بیان قرآن لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيۡهِمۡ الخ۔
(سورۃ النحل: آیت، 44)
یہ مقدس جماعت دینِ مستقیم کی امین و محافظ، سنتِ نبوی کی پاسبان اور اسوہ رسالت کا مجسم نمونہ تھی اوراس کی سیرت، سیرت النبیﷺ کا پرتَو ہے، اس قدسی صفات جماعت نے تعلیماتِ نبویﷺ کو اپنے زن و فرزند اور اپنی جان و مال سے زیادہ عزیز رکھتے ہوئے اپنا سب کچھ قربان کرکے دنیا کے گوشے گوشے میں مِنْ و عَنْ و بلاکم و کاست پہنچایا ہے، اس مقدس جماعت کی تنقیص وتنقید نہ صرف یہ کہ ان کی شان میں گستاخی ہے بلکہ اصولِ دین سے اعتماد ختم کرنے اور قرآن و سنت کو نعوذ باللہ ناقابلِ اعتبار قرار دینے کے مترادف ہے جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ذات پر اعتماد نہیں ہوگا تو پھر ان کے واسطے سے پہنچنے والا قرآنِ کریم اور ان سے مروی احادیث رسول کا ذخیرہ کیوں کر معتبر ٹھہرے گا؟ اَللّٰہُمَّ احْفَظْنَا منہ
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور علماء دیوبند:
جماعت علماء دیوبند نہ کوئی نیا فرقہ ہے اورنہ ہی وقت و حالات کی پیدا کردہ نئے عقائد و خیالات کی حامل کوئی جماعت بلکہ یہ اہلِ السنت و الجماعت ہی ہیں جن کا مرکز تعلیم دیوبند ہے بہ قول حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب قدس سرہؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند:
ان کا واحد نصب العین کتاب و سنت کی روشنی میں امت کو اسی مزاج پر برقرار رکھنا ہے جو مزاج نبی اکرمﷺ نے اپنے فیضانِ صحبت وارشاد سے حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تابعین کرام رحمہم اللہ میں اور انہوں نے اپنے ما بعد کے طبقات میں سلسلہ بہ سلسلہ، زمان بہ زمان، مکان بہ مکان پیدا فرمایا تھا۔
اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شخصیات کے بارے میں علماءِ دیوبند کا موقف ہی کیا، ان کے کسی بھی عقیدے اور نظریے کو جاننے کے لیے اہلِ السنت و الجماعت کی کوئی بھی مستند و معتبر اور جامع کتاب دیکھ لی جائے اس میں اہلِ السنت و الجماعت کے عقائد، حنفی فقہ و اصولِ فقہ، احسان و تصوف اور تزکیہ اخلاق کے حوالے سے جو کچھ درج ہوگا، وہی علمائے دیوبند کے عقائد و مسائل ہوں گے اور احسان و تصوف ہوگا، انبیاء کرام علیہم السلام، حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعینؒ اور امت کے جن جن اولیائے عظامؒ کی علمی قدر و منزلت پر جمہور امت کا اتفاق ہے وہی شخصیات علماء دیوبند کے لیے مثال اورنمونہ ہیں۔
اس لیے ان سطور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے جو کچھ عرض کیا جا رہا ہے اس کی حیثیت قندِ مکرر کی ہے اور یہ مشک ہے جو مکرر رگڑا جا رہا ہے تاکہ امت اس خوشبو سے معطر ہو اور نجومِ ہدایت پر اہلِ زیغ و ضلالت کے اٹھائے ہوئے غبار کو چھانٹا جا رہا ہے تاکہ گم گشتہ گان راہ اپنی منزل مقصود کا پتہ لگا سکیں،
أصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِأیِّہِمْ اقْتَدَیْتُمُ اہْتَدَیْتُمْ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تاریخی روایات اور علمائے دیوبند:
احوالِ زمانہ سے عبرت حاصل کرنا، انقلاباتِ جہاں سے دنیا کی بے ثباتی کا سبق لے کر فکرِ آخرت کو مقدم رکھنا، اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات کا استحضار، انبیاء وصلحائے امت کے احوال سے قلوب کو منور کرنا اور کفار و فجار کے انجام بد سے نصیحت حاصل کرنا وغیرہ فنِ تاریخ کے فوائد ہیں جو واقعات نگاری اور احوالِ ماضیہ کو بیان کرنے کا نام ہے اس لیے اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے، اس کی اہمیت کے لیے تو یہی کافی ہے کہ قصص و تاریخ، قرآنِ کریم کے پانچ علوم میں سے ایک ہے اور اس کا وہ حصہ جس پر حدیثِ نبوی کے صحت و سقم کو پہچاننے کا مدار ہے، اس اہمیت کے باوجود تاریخ کا یہ مقام نہیں ہے کہ اس سے عقائد کے باب میں استدلال کیا جائے، یا حلال و حرام کی تعیین میں حجت قرار دیا جائے، یا قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے ثابت شدہ مسائل میں تاریخی روایات کی بنا پر شکوک و شبہات پیدا کیے جائیں اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تاریخی روایات کے باب میں علمائے دیوبند کا مؤقف جمہور امت کے مطابق یہ ہے کہ:
- چونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عام افرادِ امت کی طرح نہیں ہیں بلکہ یہ حضرات، رسولِ خداﷺ خلقِ خدا کے درمیان خدا تعالیٰ کا ہی عطاء کیا ہوا ایک واسطہ ہیں، یہ ازروئے قرآن و حدیث ایک خاص مقام رکھتے ہیں اس لیے ان کے مقام کی تعیین تاریخ سے نہیں، قرآن و سنت سے کی جائے گی۔
- چونکہ قرآنِ کریم کی دسیوں آیات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حالات مصرح مذکور ہیں اس لیے تاریخی روایات ان کے معارض قطعاً نہیں ہوسکتیں۔
- یہ ان احادیثِ صحیحہ ثابتہ کے بھی معارض نہیں ہوسکتیں جن کے جمع و تدوین میں وہ احتیاط برتی گئی ہے جو احتیاط تاریخ میں نہیں کی گئی،
اصول حدیث کے معروف امام ابن صلاح لکھتے ہیں:
وَغَالِبٌ علی الأخبارِیِّیْنَ الْإکْثَارُ وَالتَخْلِیْطُ فِی مَا یَرْوُوْنَہٗ۔
(علوم الحدیث، صفحہ، 263)
مؤرخین میں یہ بات غالب ہے کہ روایاتِ کثیرہ جمع کرتے ہیں جن میں صحیح و سقیم ہر طرح کی روایات خلط ملط ہوتی ہیں۔
4. پھر یہ مسئلہ عقائدِ اسلامیہ سے متعلق ہے اور جمہورِ امت نے کتب عقائد میں اپنے اپنے ذوق کے مطابق مفصل یا مجمل اس کا ذکر کیا ہے اس لیے اس کا مدار قرآن و سنت پر ہی رکھا جا سکتا ہے نہ کہ تاریخ کی خلط ملط روایات پر۔
عدالتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور علمائے دیوبند:
عدالت اور عدل کے معنیٰ کی فقہائے محدثین نے مختلف تعبیریں کی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ عادل وہ شخص ہے جو مسلمان عاقل بالغ ہو، کبائر سے مجتنب ہو، صغائر پر اصرار نہ کرتا ہو، نیز صغائر کا عادی بھی نہ ہو،
حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ شرح النخبہ میں فرماتے ہیں:
وَالمرادُ بِالْعَدْلِ مَنْ لَہٗ مَلَکَۃٌ تُحَمِّلُہٗ علی ملازمۃِ التقویس والمروۃِ والمرادُ بالتقوی اجتنابُ الأعمالِ السیئۃِ من شرکٍ، أو فسقٍ، أو بدعۃٍ۔
(شرح النخبہ: صفحہ، 24، 25 طبع دیوبند)
عدل سے مراد وہ شخص ہے جسے ایسا ملکہ حاصل ہو جو اسے تقویٰ اور مروت کی پابندی پر برانگیختہ کرے اور تقویٰ سے مراد شرک، فسق اور بدعت جیسے اعمالِ بد سے اجتناب ہے۔
عدالتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے جمہور اہلِ السنت و الجماعت کے شانہ بہ شانہ علمائے دیوبند کا موقف یہی ہے کہ:
اَلصَّحَابَۃُ کُلُّہُمْ عَدُوْلٌ مَنْ لَابَسَ الْفِتَنَ وَغَیْرُہُم۔
ترجمہ: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سب کے سب عادل ہیں جو اختلافات کے فتنے میں مبتلا ہوئے وہ بھی اور دوسرے بھی۔
علمائے دیوبند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت و جلالت میں کسی تفریق کے بھی قائل نہیں کہ کسی کو لائقِ محبت سمجھیں اور کسی کو معاذ اللہ لائقِ عداوت، کسی کی مدح میں رطبُ اللسان رہیں اور کسی کے حق میں تبرائی بن جائیں، ان کے نزدیک تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شرفِ صحبت میں یکساں ہیں البتہ باہم فرقِ مراتب ہے اور یہی جمہور کا قول معتبر ہے۔
والقولُ بِالتَّعْمِیْمِ ہو الذي صَرَّحَ بہ الجُمْہُورُ وہو المعتبر۔
(تدریب الراوی: صفحہ، 400)
پھر علماء دیوبند ان میں سے کسی کی شان میں گستاخی تو بہت دور کی بات رہی کسی ادنیٰ سی ایسی بات کو بھی روا نہیں رکھتے جو ان کے منصب و عظمت کے شایانِ شان نہ ہو اس لیے اگر کوئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سلسلے میں یوں ہرزہ سرائی کرتا ہے کہ: کچھ صحابہ فاسق ہیں جیسا کے ولید بن عقبہ اور اسی کے مثل کہا جائے گا معاویہؓ، عمروؓ، مغیرہ اور شعبہ کے حق میں۔ کہ معاذ اللہ وہ بھی فاسق ہیں۔
(نزل الابرار: جلد، 2 صفحہ، 96)
یا کوئی اپنے قلب کا ضلال یوں ظاہر کرتا ہے:
عائشہ سیدنا علیؓ سے لڑکر مرتد ہوئی اگر بے توبہ مری تو کافر مری (العیاذ باللہ) اور صحابہ کو پانچ پانچ حدیثیں یاد تھیں ہم کو سب کی حدیثیں یاد ہیں، صحابہ سے ہمارا علم بڑا ہے صحابہ کو علم کم تھا۔
(کشف الحجاب: صفحہ، 21)
یا کوئی یوں زبان تنقیص دراز کرتا ہے:
ان میں ایسے لوگ بھی ہوسکتے تھے اور فی الواقع تھے جن کے اندر تزکیہ نفس کی اس بہترین تربیت کے باوجود کسی نہ کسی پہلو میں کوئی کمزوری باقی رہ گئی تھی، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ادب کا کوئی لازمی تقاضہ بھی نہیں ہے کہ اس کا انکار کیا جائے۔
(خلافت و ملوکیت: صفحہ، 283)
یا کسی کی ہفوات کا ظہور یوں ہوتا ہے:
عثمانؓ، معاویہؓ اور یزید، سب ایک ہی درجے کے ظالم و مجرم تھے، بقیہ صحابہ یا تو شیخین کے گروپ کے تھے اور اقتدار تک پہنچنے کے ان کے مقصد کی تکمیل میں شریک بن گئے تھے، یا وہ شیخین اور ان کے حامیوں سے خائف تھے، شیخین کے خلاف کوئی بات زبان پر لانے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔
(مزید دیکھیے، خمینی، کشف الاسرار: صفحہ، 112، 120)
تو اس قسم کی تمام تر ہرزہ سرائیوں سے علمائے دیوبند بلکہ تمام اہلِ السنت و الجماعت نہ صرف یہ کہ اظہارِ برأت اور ان کی مذمت کرتے بلکہ اس طرح کے خیالات رکھنے والوں کے اسلام کو مشکوک مانتے اور اس ہرزہ سرائی کو زندقہ گردانتے ہیں اور فرمان رسول اللہﷺ:
إذَا رَأَیْتُمُ الذینَ یَسُبُّوْنَ أَصْحَابِیْ فَقُوْلُوْا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی شَرِّکُمْ۔
(جمع الفوائد: جلد، 2 صفحہ، 491)
ترجمہ: جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا کہتے ہیں تو تم کہہ دو کہ خدا کی لعنت ہو اس پر جو تم میں بدتر ہے۔ قرآن کی روشنی میں ایسے لوگوں کو مستحقِ لعنت شمار کرتے ہیں، امام مسلمؒ کے استاذ امام ابوزرعہ عراقی فرماتے ہیں:
جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ کسی صحابی کی تنقیص کر رہا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے؛ اس لیے کہ ہمارے نزدیک رسول اللہﷺ حق ہیں، قرآن حق ہے، قرآن و سنت ہم تک پہنچانے والے یہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حق ہیں، یہ تنقیص کرنے والے، ہمارے گواہوں کو مجروح کرنا چاہتے ہیں تاکہ کتاب و سنت کو باطل کریں لہٰذا خود ان کو مجروح کرنا زیادہ مناسب ہے، یہ زندیق ہیں۔
(الکفایہ، خطیب بغدادی: صفحہ، 49 حیدرآباد، دکن)
الغرض علمائے دیوبند اور تمام اہلِ السنت و الجماعت کے نزدیک عدالتِ صحابہ کے مسئلہ پر امت کا اجماع ہے، اس میں کسی شک و شبہ کی قطعاً کوئی راہ نہیں، پھر یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ لفظ ’’سب‘‘ عربی زبان کے اعتبار سے صرف فحش کلامی اور گالی گلوچ کو ہی نہیں کہتے بلکہ ہر ایسا کلام جس سے کسی کی تنقیص و توہین یا دل آزاری ہوتی ہے وہ لفظ ’’سبّ‘‘ میں داخل ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معصوم نہیں:
عدالتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مسئلے میں مذکورہ بالا وسعت اور عموم کے باوجود ہم ان کو معصوم نہیں کہتے البتہ انہیں محفوظ من اللہ مانتے ہیں جو ولایت کا انتہائی مقام ہے جس میں بشاشتِ ایمان، جوہرِ نفس بن جاتی ہے اور تقویٰ باطن ہمہ وقت مذکِّر رہتا ہے، اس میں امکان معصیت رہتا ہے اور معصیت کا صدور ہوا بھی ہے لیکن اس میں تقاضائے بشری اور بیرونی عوارض کار فرما رہے دواعی قلب کا دخل نہ رہا تھا اوراس صدورِ معصیت سے ان کی باطنی بزرگی اور باطنی تقویٰ کو جس کی اللہ تعالیٰ نے شہادت دی ہے متہم نہیں کیا جاسکتا۔
وَاَلۡزَمَهُمۡ كَلِمَةَ التَّقۡوٰى وَ كَانُوۡۤا اَحَقَّ بِهَا وَاَهۡلَهَا۔
(سورة الفتح: آیت، 26)
ایک شبہ کا ازالہ:
البتہ یہاں ایک خلجان دل میں پیدا ہوسکتا ہے، وہ یہ کہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین چھوٹے بڑے سب کے سب صرف روایت حدیث میں نہیں بلکہ زندگی کے تمام معاملات میں عادل ہیں اور عدالت کے مفہوم میں کبائر شرک و فسق اور بدعت وغیرہ سے اجتناب شامل ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معصوم بھی نہیں، ان سے صدور معصیت ہوا ہے جس پر آپﷺ نے حدود بھی جاری فرمائی ہیں، تو پھر ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر عدالت کا مفہوم کیوں کر صادق آ سکتا ہے؟
اس سلسلے میں علمائے دیوبند اور اہلِ السنت و الجماعت کا واضح جواب یہ ہے کہ یہ صحیح ہے کہ بعض صحابہ سے معصیت کا صدور ہوا لیکن معصیت، عدالت کے لیے نقصان دہ اس وقت ہے جب کہ اس سے توبہ نہ کی گئی ہو یا اللہ تعالیٰ نے از خود معاف نہ کر دیا ہو اور امت کے عام افراد کے حق میں یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ ان کے گناہ کی معافی ہوئی یا نہیں اس لیے جب تک وہ توبہ نہ کرلیں اور توبہ پر ثابت قدمی ظاہر نہ ہو جائے ان کو ساقط العدالت ہی مانا جائے گا مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معاملہ ایسا نہیں ہے کیونکہ:
1: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قلوب میں جو خوف و خشیت اور معاصی سے تنفر راسخ ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم یہ گمان رکھیں کہ انہوں نے ضرور توبہ کرلی ہوگی اور بعض کا توبہ کرنا قطعی دلائل سے معلوم بھی ہے ان کا حال یہ ہے کہ وہ صرف زبانی توبہ پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ کوئی اپنے آپ کو رجم جیسی سخت ترین سزا کے لیے پیش کر دیتا ہے، کوئی اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیتا ہے اور جب تک قبولِ توبہ کا اطمینان نہیں ہو جاتا اس کو صبر نہیں آتا۔
2: ہمارا خیال ہے کہ ان کے حسنات، دینِ متین کے تئیں ان کی قربانیاں اور ان کی رسول اللہ سے محبت و نصرت اتنی عظیم اور بھاری ہے کہ عمر بھر کا ایک آدھ گناہ وعدہ الہیٰ کے مطابق معاف ہوہی گیا ہوگا۔
اِنَّ الۡحَسَنٰتِ يُذۡهِبۡنَ السَّيِّاٰتِ الخ۔
(سورۃ ھود: آیت، 114)
3: یہ ہمارا محض خیال نہیں ہے یہ قرآنِ کریم کی ایک سے زائد آیات سے مؤید اور تصدیق شدہ ہے کہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کسی خاص جماعت کے لیے خاص اور کہیں سابقین و آخرین تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے عام اعلان ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے، بیعتِ حدیبیہ میں شریک تقریباً ڈیڑھ ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں قرآنِ کریم کا یہ واضح اعلان ہے:
لَـقَدۡ رَضِىَ اللّٰهُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ يُبَايِعُوۡنَكَ تَحۡتَ الشَّجَرَةِ الخ۔
(سورۃ التوبہ: آیت، 18)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہوگیا جب کہ وہ درخت کے نیچے آپﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے۔
سابقین و آخرین تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اعلان کیاگیا:
وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُمۡ بِاِحۡسَانٍ رَّضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ الخ۔
(سورۃ التوبہ: آیت، 100)
اور مہاجرین اور انصار میں سے جو سب سے پہلے سبقت کرنے والے ہیں اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ ان کی اتباع کی اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔
سورۃ الحدید میں ارشادِ باری ہے:
وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الۡحُسۡنٰى الخ۔
(سورۃ الحدید: آیت، 10)
اللہ نے ان میں سے ہر ایک سے حسنیٰ کا وعدہ کرلیا ہے پھر سورۃ الانبیاء میں حسنیٰ کے متعلق یہ ارشاد ہے:
اِنَّ الَّذِيۡنَ سَبَقَتۡ لَهُمۡ مِّنَّا الۡحُسۡنٰٓى اُولٰٓئِكَ عَنۡهَا مُبۡعَدُوۡنَ۞
(سورۃ الانبیاء: آیت، 101)
جن کے لیے ہماری طرف سے حسنیٰ مقدر کردی گئی وہ جہنم سے دور کیے جائیں گے۔
جب ان آیاتِ قرآنیہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی لغزشوں کی معافی واضح طور پر معلوم ہوگئی تو ان کو کسی وقت بھی کسی معاملے میں ساقط العدالت یا فاسق نہیں کہاجا سکتا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے غیر معصوم ہونے اور ان کے عادل ہونے میںجو ایک ظاہری شبہ ہوا کرتاہے اس کا جواب جمہورِامت کے نزدیک یہی ہے جو بالکل واضح اور صاف ہے۔
مشاجراتِ صحابہ اور علمائے دیوبند:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مابین جو اخلافات رونما ہوئے اور خون ریز جنگوں تک کی نوبت آ گئی ان اختلافات کو علمائے امت، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے مشاجرات کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں، جنگ و جدال کی تعبیر سے گریز کرتے ہیں کہ اس میں یک گونہ ان کے تئیںسوء ادب ہے، مشاجرہ کے معنیٰ از روئے لغت ایک درخت کی شاخوں کا دوسرے میں داخل ہونا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ درختوں کے لیے باعثِ زینت ہے نہ کہ عیب، اس طرح علمائے امت اس اختلاف کی تعبیر سے ہی یہ اشارہ دینا چاہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے وہ اختلافات جو اپنی انتہاء کو پہنچ گئے تھے اور جس میں وہ باہم برسرِ پیکار بھی ہوگئے، وہ اختلافات بھی کوئی نقص و عیب نہیں بلکہ زینت وکمال ہیں۔
مشاجراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں باعثِ تشویش یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق، جب تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین واجب الاحترام اور لائق تعظیم ہیں اور کسی ایک کے حق میں بھی ادنیٰ سے ادنیٰ سوء ادب کی گنجائش نہیں تو پھر اختلاف کے موقع پر یہ احترام کیسے قائم رہ سکتا ہے کیونکہ ان اختلافات میں ایک فریق کا حق پر اور دوسرے فریق کا خطا پر ہونا بدیہی ہے بلکہ ایمان و عقیدے کے لیے اہلِ حق اور اربابِ خطاء کی تعیین ضروری بھی ہے تو جو خطا پر ہیں ان کی تنقیص ایک لازمی امر ہے۔
مشاجراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اس شبہ کے سلسلے میں علمائے امت اور علمائے دیوبند کا دوٹوک مؤقف یہ ے کہ باجماعِ امت تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین واجب التعظیم ہیں، اسی طرح اس بات پر بھی اجماع ہے کہ جنگِ جمل و جنگِ صفین میں سیدنا علیؓ حق پر تھے اور ان سے مقابلہ کرنے والے سیدنا معاویہؓ وغیرہ خطا پر لیکن ان کی خطا اجتہادی تھی جو شرعاً گناہ نہیں کہ جس پر وہ اللہ تعالیٰ کے عتاب کے مستحق قرار پائیں بلکہ معاملہ یہ ہے کہ جب انہوں نے اصولِ اجتہاد کی رعایت کرتے ہوئے اپنی وسعت بھر تمام تر کوشش کی پھر بھی خطا ہوگئی تو وہ ایک اجر کے حق دار ہوں گے، اس طرح خطا وصواب بھی واضح ہوگیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقام و مرتبے پر کوئی آنچ بھی نہیں آئی، ہمارے خیال میں مشاجراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں سورۃ الحجرات کی آیت وَاِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اقۡتَتَلُوۡا الخ۔
(سورۃ الحجرات: آیت، 9)
کے ذیل میں اہلِ السنت و الجماعت کے مسلک کی بہترین تحقیق فرمائی ہے، اس کا مطالعہ کر لینا ہی چاہیئے، یہ سطور اس تفصیل کی متحمل نہیں۔
تاہم مفسر موصوف کے ایک استدلال کا خلاصہ نقل کر دینا مناسب ہوگا جو ان شاء اللہ بیمار دلوں کے لیے سامانِ شفاء ہوگا۔
مفسر موصوفؒ نے اس نظریے کو مدلل کرتے ہوئے کہ دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی گناہ اور فسق و فجور کا مرتکب نہیں تھا، سیدنا طلحہؓ سیدنا زبیرؓ اور سیدنا عمارؓ سے متعلق ارشاداتِ نبویﷺ بیان فرمائے ہیں، جس کا ماحصل یہ ہے:
نبی اکرمﷺ نے سیدنا طلحہٰؓ کے بارے میں فرمایا ہے: سیدنا طلحہٰؓ روئے زمین پر چلنے والے شہید ہیں اور سیدنا زبیرؓ کے بارے میں خود سیدنا علیؓ سے یہ حدیث مروی ہے سیدنا زبیرؓ کا قاتل جہنم میں ہے سیدنا علیؓ یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ صفیہ کے بیٹے کے قاتل کو جہنم کی خبر دے دو اور یہ دونوں حضرات ان عشرہ مبشرہ میں ہیں جن کے نام لے کر جنتی ہونے کی خبر حضورﷺ نے دی ہے، پھر یہ بھی معلوم ہے کہ ان دونوں حضرات نے سیدنا عثمانؓ کے قصاص کا مطالبہ کیا تھا، سیدنا علیؓ سے مقابلہ کیا اور اسی دوران شہید ہوئے۔
دوسری طرف سیدنا عمار بن یاسرؓ ہیں، سیدنا علیؓ کے طرف دار ہیں آپؓ کے مخالفین سے پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اور نبی اکرمﷺ نے ان کی شہادت کی بھی پیشین گوئی فرمائی ہے۔
جب حال یہ ہے کہ سیدنا علیؓ کے طرف دار بھی شہید اور مخالفین بھی شہید، تو پھر کیسے کسی فریق کو گناہ گار یا فاسق کہا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں! بلکہ ان تمام حضرات کے پیش نظر رضاء الہیٰ کے حصول کے سوا کچھ نہ تھا، دونوں کا اختلاف کسی دنیوی غرض سے نہ تھا؛ بلکہ اجتہاد ورائے کی بنا پر تھا جس پر کسی بھی فریق کو مجروح و مطعون نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کنارہ کش رہے وہ بھی اجتہاد کی بنا پر اس لیے وہ بھی نقص وعیب سے مبرا اور واجبُ التعظیم ہیں۔
پھر علمائے دیوبند کے نزدیک سب سے اہم سکوت اور کفِّ لسان ہے اور سیدنا حسن بصریؒ کا یہ قول ان کے لیے اسوہ ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:
یہ ایسی لڑائی تھی جس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین موجود تھے اور ہم غائب، وہ پورے حالات کو جانتے تھے، ہم نہیں جانتے، جس معاملے پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اتفاق ہے، ہم اس میں ان کی پیروی کرتے ہیں اور جس معاملے میں ان کے درمیان اختلاف ہے اس میں سکوت اختیار کرتے ہیں۔
(قرطبی سورۃ الحجرات)
خلاصہ کلام:
الغرض! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کتاب و سنت کی روشنی میں اس امت کے افضل ترین اور مقدس ترین افراد ہیں، ان کے قلوب صاف اور وہ عنداللہ راضی و مرضی ہیں، وہ سب کے سب عادل، متقن اور پاک باطن ہیں، امت کا کوئی بڑے سے بڑا ولی ان میں سے ادنیٰ کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا، وہ حق و باطل کی کسوٹی ہیں اور تنفید سے بالاتر ان کی محبت، اللہ اور رسول اللہ کی محبت ہے اور ان سے بغض اللہ اور اللہ کے رسول سے بغض، ان کی عیب جوئی اوران کے مشاجرات کو اُچھالنا زیغِ باطن کی علامت اور زندقہ ہے، ان کے اختلافات حق و باطل کے نہیں، اجتہادی خطا وصواب کے ہیں اس لیے ان پر معصیت کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
ان سطور کو سرخیلِ جماعت دیوبند شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن قدس سرہ کے تلمیذِ رشید، استاذِ محترم حضرت مولانا فخر الدین سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کے ایک قول پر ختم کیا جاتا ہے، حضرت فرمایا کرتے تھے:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فارق بین الحق و الباطل ہیں چناںچہ قرونِ اولیٰ میں روافض وخوارج کے ضلال کی ایک وجہ یہی تنقیصِ صحابہ تھی اور دورِ حاضر میں غیر مقلدین و مودودیین کے ضلال کا بھی ایک سبب یہی ہے۔