Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدنا حسن بن علیؓ مختصر سوانح و فضائل

  حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒ

سیدنا حسن بن علیؓ

مختصر سوانح و فضائل

ابتدائی تعارف

پیدائش:

 سیدنا حسن بن علیؓ آنحضرتﷺ کی سب سے چہیتی صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ کے بطن سے پہلے صاحبزادے تھے آپؓ کی اس سے زیادہ کیا عظمت ہوسکتی ہے کہ ایک طرف آپؓ کی نسبی شرافت آنحضرتﷺ سے قریب تر ہے دوسری طرف آپؓ کی تربیت بھی آغوشِ رسالتﷺ میں ہوئی مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سیدنا حسنؓ کی پیدائش 15 رمضان 3 ہجری بمطابق 1 اپریل 625 عیسوی کو مدینہ منورہ میں ہوئی سیدنا علیؓ نے آپ کا نام حرب رکھا لیکن آنحضرتﷺ نے تبدیل کرکے سیدنا حسنؓ رکھ دیا سیدنا حسنؓ کی ولادت پر آنحضرتﷺ بہت مسرور ہوئے آپﷺ نے خود ان کے کان میں اذان دی اپنا لعاب مبارک منہ میں ڈالا پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کیا دو مینڈھے ذبح کرائے نومولود کے سر کے بال اتروا کر ان کے برابر چاندی خیرات کی۔

آنحضرتﷺ کی صحبت

سیدنا حسنؓ بچپن ہی سے براہِ راست آپﷺ کی نگرانی میں رہے بچپن کے ابتدائی 7 سال تک سیدنا حسنؓ نے صحبتِ نبوتﷺ پائی آنحضرتﷺ کے سیدنا حسنؓ سے محبت و شفقت کے واقعات بخاری و مسلم میں موجود ہیں صحیح بخاری میں سیدنا ابوبکرؓ سے روایت ہے:

 آنحضرتﷺ منبر پر رونقِ افروز تھے اور سیدنا حسنؓ آپﷺ کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے ایک مرتبہ لوگوں کی طرف دیکھتے تھے اور ایک مرتبہ سیدنا حسنؓ کی طرف آپﷺ نے فرمایا:

ان ابنی هذا سيد لعل الله ان يصلح بين فئتين عظيمتين من المسلمين۔

ترجمہ: یہ میرا بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کرا دے گا۔

 قارئین کرام ملاحظہ ہوکہ آنحضرتﷺ کی پیشین گوئی کس طرح حرف بحرف پوری ہوئی جنگِ صفین اور جنگِ جمل کے بعد مسلمانوں میں قاتلین سیدنا عثمانؓ کے بارے میں پیدا ہونے والا اختلاف کس قدر بڑھ گیا تھا بالآخر مسلمانوں کی ان دو جماعتوں کے درمیان صلح و آشتی اور اتفاق و ارتباط کا سرا سیدنا حسنؓ کے سر آن پڑا اس حدیث سے دونوں جماعتوں کا مسلمان ہونا بھی واضح ہوا پھر صلح کی نوید ابھی آنحضرتﷺ کی زبانِ حق ترجمان سے ظاہر ہوگئی سیدنا حسنؓ کی سیدنا معاویہؓ سے صلح اور محبت نے پیغمبرِ اسلامﷺ کی بیان کردہ پیشین گوئی کو من و عن مکمل کر دیا اس صلح سے اسلام کی عظمت اور دینِ مصطفوی کی سربلندی کا نیا باب کھل گیا۔

لقب:سیدنا حسنؓ سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کے پہلے صاحبزادے ہیں آپؓ کا لقب ریحانتہ النبی تھا بعض کتابوں میں اس کے علاوہ سید شبر مجتبیٰ اور شبیہ رسول کو بھی آپؓ کے القاب میں شامل کیا گیا ہے۔

کنیت: سیدنا حسنؓ کی کنیت ابومحمد تھی ایک روایت کے مطابق یہ کنیت آنحضرتﷺ نے تجویز فرمائی تھی حالانکہ بڑے ہوکر آپ نے کسی فرزند کا نام بھی محمد نہیں رکھا۔ 

آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

 ان ابنی هذا سيد لعل الله ان يصلح بين فئتين عظيمتين من المسلمين۔

ترجمک: میرا یہ بیٹا(سیدنا حسنؓ) سردار ہے مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بیٹے کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی عظیم المرتبت جماعتوں میں صلح کرائے گا۔

 ريحان الدنيا والآخرة الحسنؓ و الحسينؓ۔

ترجمہ: دنیا اور آخرت کے دو پھول سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ ہیں۔

الحسنؓ والحسينؓ سبط من الاسباط۔

 ترجمہ: سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ (میری) اولاد کی اولاد ہے۔

آنحضرتﷺ کی محبت

رسول اللہﷺ ان سے انتہائی محبت فرماتے تھے جب یہ بچے تھے تو آنحضرتﷺ کبھی ان کے رخسار و لب چومتے اور کبھی ان کی زبان اپنے زبان مبارک میں لے کر چوستے کبھی گود میں کھلاتے کبھی سینہ اور پیٹھ پر بٹھاتے کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپﷺ سجدہ میں ہوتے اور یہ پُشت مبارک پر سوار ہو جاتے اور آپﷺ نہ صرف یہ کہ بیٹھنے دیتے بلکہ ان کی خاطر سجدہ کو اور طُول دیتے کبھی اپنے ساتھ منبر پر چڑھاتے زہری سیدنا انسؓ سے راوی ہیں کہ سیدنا حسن بن علیؓ رسول اللهﷺ سے بہت ہی مشابہ تھے سیدنا ہانیؓ سیدنا علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا حسنؓ کو مشابہت رسول اللہﷺ حاصل تھی سینہ سے سر تک اور سیدنا حسینؓ سینہ سے قدمہائے مبارک تک اپنے نانا کے مشابہ تھے سیدنا علیؓ کے دل میں اپنے صاحبزادے سیدنا حسنؓ کی بڑی عزت تھی وہ ان سے احترام و توقیر کا معاملہ فرماتے ایک روز فرمایا کبھی تم تقریر کرتے تو میں بھی سنتا کہنے لگے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ آپؓ کے سامنے زبان کھولوں ایک روز سیدنا علیؓ ایسی جگہ جا کر بیٹھ گئے جہاں سیدنا حسنؓ کو نظر نہ آسکیں سیدنا حسنؓ نے لوگوں کے سامنے تقریر کی سیدنا علیؓ سُن رہے تھے جب وہ اپنی تقریر ختم کر کے چلے تو سیدنا علیؓ نے فرمايا:

ذُرِّيَّةًۢ بَعۡضُهَا مِنۡۢ بَعۡضٍ‌ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ‌ۚ 

ترجمہ: یہ ایک ہی نسل تو ہے جس میں ایک دوسرے کا فرزند ہے)۔

(سوره آلِ عمران آیت 34)۔

 وہ بہت کم بولتے اور اکثر خاموش رہتے لیکن جب بات کرتے تو کوئی ان کے سامنے لب نہیں ہلاسکتا تھا دعوتوں میں کم شرکت فرماتے کسی لڑائی جھگڑے کے معالمہ میں نہ پڑتے کسی کے معاملہ میں دخل اندازی نہ کرتے جب ان سے رجوع کیا جاتا تو دلیل سے بات سمجھا دیتے انہوں نے تین بار اللہ کی راہ میں اپنا مال نکال دیا دو مرتبہ تو اس طرح دے دیا کہ ان کے پاس کچھ نہیں رہ گیا 25 بار پیدل حج کیے قربانی کے جانور آپ کے آگے آگے چلائے جاتے سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ میں سے کوئی گھوڑے پر سوار ہوتا اور سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کی نظر پڑتی تو بڑھ کر رکاب تھام لیتے اور اس کو اپنے لیے شرف سمجھتے ان دونوں میں کوئی طوافِ بیت اللہ کو نکلتا تو آپؓ کو سلام کرنے مصافحہ کرنے کے لیے لوگ اس طرح پروانہ وار ٹوٹ کر گرتے کہ ڈر لگتا کہ کہیں ان کو صدمہ نہ پہنچے

سیدنا حذیفہؓ سے مرفوعاً روایت ہے: الحسنؓ والحسینؓ سید الشباب اھل الجنہ یعنی سیدنا حسنؓ و حسینؓ جنتی نوجوانوں کے سردار ہوں گے۔

آنحضرتﷺ کی محبت کا ایک اور واقعہ

سیدنا ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول اللہﷺ اپنے دوش مبارک پر سیدنا حسن بن علیؓ کو لیے ہوئے جا رہے تھے تو ایک شخص نے دیکھ کر کہا

نعم الرکب رکبت یاغلام صاجزادے بڑی اچھی سواری پر بیٹھے ہو رسول اللہﷺ نے فرمایا: و نعم الراكب ھو اور سوار بھی بہترین ہے۔

سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ اسلام کے شہ سواروں میں ہوئے ہیں۔

 سیدنا نعیمؓ کہتے ہیں کہ: مجھ سے سیدنا ابو ہریرہؓ نےکہا کہ جب سیدنا حسنؓ کو دیکھتا ہوں تو آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں اس لیے کہ میں نے دیکھا کہ ایک روز دوڑتے ہوئے آئے اور آکر رسول اللہﷺ کی گود میں بیٹھ گئے (سیدنا ابو ہریرہؓ اپنے ہاتھ اپنی داڑھی پکڑ کر دکھایا کہ یہ) اس طرح ریش مبارک ہاتھ سے پکڑنے لگے اور رسول اللہﷺ اپنا دہن مبارک کھول کر ان کے منہ میں ڈالنے لگے اور فرماتے جارہے تھے

اللهم انی احبه فاحبه اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما یہ بات آپﷺ نے تین بار فرمائی۔

سخاوت کا اہم واقعہ

 ابنِ عساکر نے کہا:

سیدنا حسنؓ کا واقعہ ہے کہ وہ ایک بار مدینہ منورہ کے کسی (چار دیواری سے گھرے ہوئے باغ کی طرف سے گزر رہے تھے تو ایک نو عمر حبشی غلام کو دیکھا کہ وہ بیٹھا ہے اس کے ہاتھ میں ایک روٹی تھی اور اس کے سامنے کتا بیٹھا تھا وہ لڑکا ایک لقمہ خود کھاتا اور ایک لقمہ کتے کو کھلاتا اس طرح پوری روٹی تقسیم کر کے اس کو کھلا دی سیدنا حسنؓ نے پوچھا تم نے کیوں اپنی روٹی میں آدھے کا شریک کتے کو بنا لیا اور خود زیادہ حصہ نہیں لیا؟ کہنے لگا میری آنکھیں اس کی (یعنی کتے کی) آنکھیں دیکھ کر شرم محسوس کرتی تھیں کہ میں زیادہ کھا جاؤں سیدنا حسنؓ نے پوچھا تم کس کے غلام ہو؟ کہا میں ابان بن عثمان کا غلام ہوں فرمایا اور یہ احاطہ کس کا ہے؟ کہا ابان کا سیدنا حسنؓ نے فرمایا میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ جب تک واپس نہ آجاؤں تم یہیں بیٹھے رہنا چنانچہ آپؓ گئے اور اس غلام کو خرید لیا اور احاطہ بھی خرید لیا اور غلام کے پاس آکر فرمایا میں نے تم کو خرید لیا اس نے اٹھ کر کہا اللہ اور اس کے رسولﷺ اور ان کے بعد میں آپ کے احکام سننے والا اور فرمانبردار ہوں پھر سیدنا حسنؓ نے فرمایا تو میری طرف سے آزاد ہے اور یہ احاطہ تجھے ہبہ کر دیا۔

عہدِ سیدنا صدیقِ اکبرؓ

 آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر صدیقؓ خلیفہ بنے تو قرابتِ رسولﷺ کی وجہ سے آپ بھی سیدنا حسنؓ سے بے انتہا محبت کرتے تے۔

 صحیح بخاری میں ہے:

 ایک مرتبہ نمازِ عصر کے بعد سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا علیؓ دونوں مسجد نبویﷺ سے اکٹھے باہر نکلے راستہ میں سیدنا حسنؓ کھیل رہے تھے سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے بڑی محبت اور شفقت کے ساتھ ان کو اٹھا کر کندھے پر بٹھا لیا اور فرمایا:

والله هذا شبها لنبی وليس بعلی

 ترجمہ: خدا کی قسم یہ نبیﷺ کے مشابہ ہیں اور سیدنا علیؓ کے مشابہ نہیں۔ 

یہ سن کر سیدنا علیؓ مسکرانے لگے سیدنا ابوبکرؓ کے سٙوا دو سالہ دورِ حکومت نے خاندانِ نبوت کے ساتھ آپؓ کے تعلقات نہایت مشفقانہ رہے۔  

6 ماہ بعد سیدہ فاطمہؓ بیمار ہوئیں تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی بیوی سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ کئی روز تک تیمارداری کے فرائض سرانجام دیتی رہیں سیدہ فاطمہؓ کی وفات کے بعد غسل اور تجہیز و تکفین بھی سیدہ اسماءؓ نے سر انجام دیے (از رحماء بینھم)۔

سیدہ فاطمہؓ کا جنازہ بھی صحیح روایت کے مطابق سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہی نے پڑھایا ان مختصر واقعات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ تو کیا پورے خاندانِ نبوت سے سیدنا ابوبکرؓ کے تعلقات نہایت خوشگوار رہے بعض لوگوں نے خاندانِ نبوت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان تعلقات کی کشیدگی کے بارے میں جو مٙن گھڑت باتیں تحریر کی ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں۔

عہدِ سیدنا فاروقِ اعظمؓ

سیدنا عمر فاروقؓ مسندِ نشین خلافت ہوئے تو انہوں نے بھی سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کے ساتھ ایسا ہی محبت آمیز برتاؤ رکھا انہوں نے بیتُ المال قائم کیا اور مسلمانوں کے اعلیٰ قدر مراتب سالانہ وظائف مقرر کیے تو سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کے وظیفے اصحابِ بدر کے وظیفوں کے برابر مقرر کیے

(5 ہزار درہم سالانہ) خود امیر المومنینؓ اور سیدنا علیؓ کا بھی اتنا ہی وظیفہ تھا اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے نزدیک سیدنا حسینؓ کی کیا قدر و منزلت تھی۔

عہدِ سیدنا عثمان ذوالنورینؓ

 سیدنا عثمان ذوالنورینؓ کے دورِ خلافت کا آغاز ہوا تو سیدنا حسنؓ پورے جوان ہو چکے تھے شیخینؓ کی طرح سیدنا عثمان ذوالنورینؓ کا سلوک بھی سیدنا حسنؓ کے ساتھ نہایت مشفقانہ اور محبت آمیز تھا 30/ 29 ہجری میں سیدنا عثمانؓ کے حکم سے سیدنا سعید بن العاصؓ نے طبرستان پر لشکر کشی کی تو سیدنا حسنؓ بھی دوسرے نوجوان قریش کے ساتھ اسلامی لشکر میں شریک ہوگئے اور کئی معرکوں میں دادِ شجاعت دی۔

سیدنا عثمانؓ کے دروازے پر پہرے دار کی حیثیت سے

سیدنا عثمانِ غنیؓ کے دورِ خلافت کے آخر میں شورش برپا ہوئی اور باغیوں نے کاشانہ خلافت کا محاصرہ کر لیا تو سیدنا علیؓ نے سیدنا حسنؓ کو کاشانہ خلافت کی حفاظت کے لیے متعین کر دیا کچھ اور جوانانِ قریش بھی ان کے ساتھ تھے سیدنا حسنؓ مدافعت کرتے ہوئے زخمی ہوگئے تاہم انہوں نے کسی باغی کو کاشانہ خلافت میں داخل نہ ہونے دیا بالآخر باقی دوسری طرف سے دیوار پھاند کر اندر گُھس گئے اور امیرالمومنین سیدنا عثمانؓ کو اس حالت میں شہید کر دیا جب وہ قرآنِ پاک کی تلاوت میں مشغول تھے علامہ جلال الدین سیوطیؒ کا بیان ہے کہ:

سیدنا علیؓ کو شہادت کی خبر ہوئی تو انہوں نے جوش و غضب میں سیدنا حسنؓ کو تھپڑ مارا کہ تم نے کیسی حفاظت کی کہ باغیوں نے اندر گھس کر سیدنا عثمانؓ کو شہید کر ڈالا جب انہوں نے صورتِ حال کی وضاحت کی اور اپنے زخم دکھائے تو سیدنا علیؓ کا غصہ ٹھنڈا ہوا سیدنا عثمانؓ کی شہادت کے بعد مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے سیدنا علیؓ سے قبولِ خلافت کے لیے اصرار کیا اس موقع پر سیدنا حسنؓ نے والد بزرگوار کو مشورہ دیا کہ جب تک تمام ممالک اسلامیہ کے لوگ آپ سے مسندِ نشین خلافت ہونے کی درخواست نہ کریں آپ کسی امرِ خلافت پر بیعت نہ لیجئے لیکن سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ خلیفہ کا انتخاب مہاجرین اور انصار کا حق ہے جب وہ کسی کو خلیفہ تسلیم کر لیں تو دوسرے تمام مسلمانوں پر اس کی اطاعت واجب ہو جاتی ہے بیعت کے لیے تمام دنیا کے مسلمانوں کے مشورہ کی شرط نہیں چنانچہ انہوں نے خلافت قبول کرلی سیدنا علیؓ کے مسندِ نشینِ خلافت ہونے کے بعد ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے اصلاح کا عٙلم بلند کیا اور سیدنا عثمانؓ کے قاتلوں سے بدلہ لینے کا مطالبہ کیا اسی سلسلے میں جنگِ جمل پیش آئی جنگ سے پہلے سیدنا حسنؓ اور سیدنا عمار بن یاسرؓ کوفہ گئے اور وہاں کے لوگوں کو اپنی حمایت پر اُبھارا ان کی مساعی کے نتیجہ میں تقریباً 10 ہزار اہلِ کوفہ سیدنا علیؓ کے لشکر میں شامل ہوئے جمل کے بعد 37 ھجری میں جنگِ صفین پیش آئی اس میں بھی سیدنا حسنؓ اپنے والد بزرگوار کے ساتھ تھے التوائے جنگ کے لیے سیدنا امیر معاویہؓ اور سیدنا علیؓ کے درمیان جو معاہدہ ہوا سیدنا حسنؓ نے ایک گواہ کی حیثیت سے اس پر دستخط کیے۔

سیدنا علیؓ کی شہادت کے بعد

رمضان 40 ہجری میں ایک خارجی ابنِ ملجم نے سیدنا علیؓ پر قاتلانہ حملہ کیا زخمی ہونے کے بعد وہ 3 دن زندہ رہے اس اثناء میں ان سے سیدنا حسنؓ کی جانشینی کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: 

نہ میں حکم دیتا ہوں نہ روکتا ہوں۔ 

تیسرے دن سیدنا علیؓ واصلِ بحق ہوگئے ان کی تجہیز و تکفین سے فراغت کے بعد کوفے کی مسجدِ جامع میں سیدنا حسنؓ کے لیے بیعت خلافت ہوئی بعض روایتوں کے مطابق بیس ہزار سے زیادہ لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی سیدنا امیرِ معاویہؓ والی شام نے ان کی خلافت کو تسلیم نہ کیا اور عراق کی طرف فوجی پیش قدمی شروع کر دی ان کے مقدمتہ الجیش کے افسر سیدنا عبداللهؓ بن عامر انبار سے ہوتے ہوئے مدائن کی طرف بڑھے سیدنا حسنؓ اس وقت کوفہ میں تھے انہیں سیدنا عبداللہؓ بن عامر کی پیش قدمی کی اطلاع ملی تو وہ بھی اہلِ عراق کو ساتھ لے کر مقابلہ کے لیے مدائن کی طرف روانہ ہوئے ساباط پہنچ کر انہوں نے اپنی فوج میں کمزوری اور جنگ سے پہلو تہی کے آثار دیکھے تو اس کے سامنے ایک خطبہ دیا جس میں فرمایا:

 سیدنا حسنؓ کا خطبہ

 لوگو میں کسی مسلمان کے خلاف اپنے دل میں کینہ نہیں رکھتا اور تمہارے لیے بھی وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں تمہارے سامنے ایک رائے پیش کرتا ہوں امید ہے تم اسے رد نہ کرو گے جس اتحاد و یگانگت کو تم ناپسند کرتے ہو وہ اس تشتت و افتراق سے بہتر ہے جو تم کو پسند ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میں سے اکثر لوگ جنگ سے گریز کرنا چاہتے ہیں تم لوگوں کو تمہاری مرضی کے خلاف لڑنے پر مجبور نہیں کرنا چاہتا سیدنا حسنؓ کی تقریر سن کر وہ لوگ جو سیدنا امیرِ معاویہؓ کے شدید مخالف تھے اور ان سے لڑنا فرض عین سمجھتے تھے برہم ہوگئے انہوں نے سیدنا حسنؓ کی تحقیر کی اور انہیں گھیر لیا ربیعہ اور ہمدان کے قبیلوں نے ان لوگوں کو پیچھے ہٹایا اور سیدنا حسنؓ گھوڑے پر سوار ہوکر مدائن کی طرف روانہ ہوئے راستے میں ایک خارجی جراح بن قبیصہ نے گھات لگا کر ان پر حملہ کیا اور زانوئے مبارک زخمی کر دیا عبداللہ بن خطل اور عبداللہ بن فیان نے جراح بن قبیصہ کو پکڑ کر قتل کر ڈالا اور سیدنا حسنؓ نے مدائن پہنچ کر قصر ابیص میں قیام کیا جب زخم مندمل ہوگیا تو وہ پھر سیدنا عبداللہ بن عامرؓ کے مقابلہ کے لیے مدائن سے نکلے اس اثناء میں سیدنا امیر معاویہؓ بھی ایک فوج گراں

کے ساتھ انبار پہنچ گئے۔

سیدنا معاویہؓ کے ساتھ صلح کے لیے سیدنا حسنؓ کا طرز عمل

سیدنا عبداللہ بن عامرؓ نے سیدنا حسنؓ کو پیغام بھیجا جس میں ان کو قسم دے کر جنگ ملتوی کرنے کے لیے کہا سیدنا حسنؓ کے ساتھیوں نے بھی انہیں میں مشورہ دیا اس پر سیدنا حسنؓ پھر مدائن لوٹ گئے سیدنا عبداللہؓ بن عامر نے فوراً مدائن کے گرد اپنی فوج پھیلا دی سیدنا حسنؓ پہلے ہی اپنے ساتھیوں کی کمزوری اور بزدلی سے دل برداشتہ تھے انہوں نے جنگ کا خیال ترک کر دیا اور چند شرائط پر سیدنا امیرِ معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دست برداری کا فیصلہ کیا یہ شرائط انہوں نے سیدنا عبداللہؓ بن عامر کی وساطت سے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو بھجوا دیں (الاخبارُ الطوال ابوحنیفہ دیوری)۔ 

حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ نے ابنِ سعدؒ کے حوالے سے "الاصابہ" میں بیان کیا ہے کہ سیدنا حسنؓ نے عمرو بن سلمتہ الارجی کو صلح کی غرض سے سیدنا امیرِ معاویہؓ کے پاس بھیجا سیدنا امیرِ معاویہؓ نے سیدنا عبداللہؓ بن عامر اور سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہؓ کو سیدنا حسنؓ کے پاس بھیجا ان دونوں نے سیدنا حسنؓ کی شرائط مان لیں اس طرح فریقین میں صلح ہوگئی پھر سیدنا امیرِ معاویہؓ اور سیدنا حسنؓ ساتھ ساتھ کوفے میں داخل ہوئے۔ 

صحیح بخاری میں یہ واقعہ کسی قدر مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہےاس کا خلاصہ یہ ہے:

سیدنا حسنؓ کی فوج پہاڑوں کے مانند امیر معاویہؓ کے لشکر کی طرف بڑھی تو سیدنا عمرو بن العاصؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ سے کہا میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ ایسا لشکر ہے جو اس وقت تک پیٹھ نہ پھیرے گا جب تک اپنے اقران کو قتل نہ کرے گا سیدنا امیرِ معاویہؓ نے کہا اگر یہ لوگ انہیں اور وہ انہیں قتل کر دیں تو میری طرف سے لوگوں کے معاملات کا نیز ان کی عورتوں اور بچوں کا ذمہ دار کون ہوگا؟۔

اس وقت انہوں نے سیدنا عبداللهؓ بن عامر اور سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہؓ کو سیدنا حسنؓ سے گفت و شنید کے لیے بھیجا۔ 

صلح کی شرائط

 ابوحنیفہ دیوریؒ نے " الاخبار اللوان" میں لکھا ہے کہ سیدنا حسنؓ ان شرائط پر سیدنا امیرِ معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوئے:

(1)۔ سب لوگوں کو بلااستثنا امان دی جائے گی اور کوئی عراقی محض بعض و کینہ کی بنا پر نہ پکڑا جائے گا۔ 

(2)۔ صوبہ اہواز کاکل خراج سیدنا حسنؓ کے لیے مخصوص ہوگا اور سیدنا حسینؓ کو دو لاکھ درہم سالانہ الگ دیے جائیں گے۔ 

(3)۔ صلات اور عطیات میں بنوہاشم کو بنوامیہ پر ترجیح دی جائے گی۔

سیدنا حسنؓ نے یہ شرطیں لکھ کر سیدنا عبداللہؓ بن عامر کو دیں انہوں نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کے پاس بھیج دیں سیدنا امیرِ معاویہؓ نے تمام شرطوں کی منظوری کا خط لکھ کر اپنی مہر لگائی اور معززین و عمائد کی شہادتیں لکھوا کر کاغذ سیدنا حسنؓ کے پاس واپس بھیج دیا اس طرح ملتِ اسلامیہ کے سر سے ایک بہت بڑا خطرہ ٹل گیا اور تمام مسلمان ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے بجائے سیدنا امیرِ معاویہؓ کی خلافت پر متفق ہوگئے۔ 

ابنِ اثیرؒ کا بیان ہے کہ سیدنا حسنؓ نے کوفہ کی جامع مسجد میں مجمع عام کے سامنے اپنی دست برداری کا اعلان ان الفاظ میں کیا:

لوگو اللہ تعالیٰ نے ہمارے اگلوں کے ذریعے سے تم کو ہدایت دی اور پچھلوں کے ذریعے تمہاری خونریزی بند کرائی دانائیوں میں بہترین دانائی تقویٰ اور عجز میں سب سے بڑا عجز فجور (بداعمالی) ہے اور یہ امر (خلافت) جو ہمارے اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کے درمیان متنازعہ فیہ ہے یا تو وہ اس کے مجھ سے زیادہ حقدار ہیں یا یہ میرا حق ہے جس میں اللہ عزوجل کی خوشنودی امتِ محمدیہ کی اصلاح اور تم لوگوں کو خونریزی سے بچانے کی خاطر دستبردار ہوتا ہوں آنحضرتﷺ کی پیشین گوئی پوری ہو گئی: اس کے بعد سیدنا حسنؓ اپنے اہل و عیال کو لے کر مدینہ منورہ چلے گئے اس طرح سرور عالمﷺ کی یہ پیشین گوئی پوری ہوگئی "میرا یہ بیٹا سید ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا"۔ 

سید نا حسنؓ کی خلافت کے بارے میں روایتوں میں اختلاف ہے بعض روایتوں میں 4 ماہ اور بعض میں 8 ماہ سے کچھ اوپر بتائی گئی ہے دائرہ معارفِ اسلامیہ کے مطابق صحیح یہ ہے کہ ان کا زمانہ خلافت 20 رمضان 40 ھجری سے 15 جمادی الاولیٰ 41 ھجری تک ہے گویا وہ 7 ماہ 26 دن تک مسند نشین خلافت رہے۔

سیدنا حسنؓ سیدنا امیرِ معاویہؓ کی اطاعت پر تاحیات قائم رہے

 دستبرداری کے بعد سیدنا حسنؓ نے اپنی وفات تک کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیا اور نہایت خاموشی سے اپنے نانا کے جوار میں زندگی گزاری ان کے وقت کا بیشتر حصہ عبادت الہٰی میں گزرتا تھا ایک دفعہ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے مدینہ منورہ کے کسی شخص سے سیدنا حسنؓ کے حالات دریافت کیے تو اس نے کہا فجر کی نماز سے طلوعِ آفتاب تک مصلیٰ پر رہتے ہیں پھر ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور ملاقات کے لیے آنے والوں سے ملتے ہیں دن چڑھے چاشت کی نماز ادا کرکے امہات المومنینؓ کی خدمت میں سلام کے لیے حاضر ہوتے ہیں" (ابنِ عساکر)۔

مکہ معظمہ میں ہوتے تو عصر کی نماز بالالتزام حرم پاک میں ادا کرتے اور پھر طواف میں مشغول ہو جاتے۔ 

فکرِ معاش کی طرف سے بے نیاز تھے کیونکہ اہواز کا سالانہ خراج آپؓ کے لیے مخصوص تھا امام شعبیؒ کا بیان ہے کہ اس خراج کی رقم 10 لاکھ سالانہ تھی اس کثیر آمدنی کو وہ بے دریغ راہ خدا میں لٹاتے رہتے تھے ابنِ اثیرؒ کا بیان تھا کہ انہوں نے دو مرتبہ اپنا تمام مال اسباب اور تین مرتبہ کل مال اسباب کا نصف راہ خدا میں بانٹ دیا یہ ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی سائل ان کے در سے خالی ہاتھ چلا جائے حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنا ان کے نزدیک عبادت کا درجہ رکھتا تھا ایک مرتبہ طواف میں مشغول تھے کہ کسی شخص نے اپنی ضرورت کے لیے ساتھ لے جانا چاہا طواف چھوڑ کر اس کے ساتھ ہوگئے اور واپس جا کر طواف پورا کیا ایک مرتبہ اعتکاف میں تھے کہ کوئی سائل آگیا اس کے ساتھ ہوگئے انہوں نے اعتکاف کے دائرے سے نکل کر اس کی ضرورت پوری کی اور پھر اعتکاف میں بیٹھ گئے۔

سیدنا حسنؓ کی وفات

سیدنا حسنؓ نے باختلاف روایت 49 ھ یا 50 ھ میں وفات پائی اور جنتُ البقیع میں اپنی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہؓ کے پہلو میں دفن ہوئے اکثر اربابِ سیر نے لکھا ہے کہ سیدنا حسنؓ کی وفات زہر سے ہوئی جو ان کی ایک بیوی جعدہ بنتِ اشعث نے کسی وجہ سے دیا حافظ ابنِ عبدالبرؒ اور المسعودی کا بیان ہے کہ سیدنا حسنؓ کو کئی بار زہر دیا گیا لیکن جو زہر آخری بار دیا گیا وہی فیصلہ کُن ثابت ہوا بعض روایتوں کے مطابق زہر کھانے کے تیسرے دن اور بعض کے مطابق 40 دن علیل رہنے کے بعد وفات پائی حافظ ابنِ حجرؒ اور ابوحنیفہ دیوریؒ نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ سیدنا حسنؓ کی موت زہر سے نہیں بلکہ کسی اور علالت سے ہوئی (الاصابه الاخبار الطوال)۔

سیدنا حسنؓ کی رحلت کی خبر پھیلی تو ہر طرف کہرام برپا ہوگیا مدینہ منورہ کے بازار بند ہوگئے اور ہر شخص فرطِ غم سے نڈھال ہوگیا سیدنا ابوہریرہؓ مسجد نبویﷺ میں رو کر کہتے تھے کہ لوگو آج خوب رو لو کہ رسول اللہﷺ کا محبوب دنیا سے اٹھ گیا جنازہ میں اس قدر ہجوم تھا کہ اس سے پہلے مدینہ منورہ میں بہت کم دیکھنے میں آیا تھا ایک روایت کے مطابق جنازہ میں لوگوں کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ اگر سوئی بھی پھینکی جاتی تو زمین پر نہ گرتی سیدنا حسنؓ نے اپنی زندگی میں بہت سے نکاح کیے مختلف بیویوں سے آٹھ لڑکے پیدا ہوئے جن کے نام یہ ہیں سیدنا الحسن سیدنا زید سیدنا عمر سیدنا قاسم سیدنا ابوبکر سیدنا عبدالرحمٰن سیدنا طلحہ سیدنا عبیداللہ۔ 

سیدنا حسنؓ کے صفات و کمالات

 سیدنا حسنؓ جس خانوادے میں پلے بڑھے وہ علم و فضل کا سرچشمہ تھا اس لیے فضل و کمال کے لحاظ سے وہ بھی نہایت بلند مقام پر فائز ہوگئے ان کا شمار مدینہ منورہ کے ان اصحاب میں ہوتا تھا جو علم و افتاء کے منصب پر فائز تھے۔ ان کے چند فتاویٰ بھی کتابوں میں موجود ہیں سیدنا حسنؓ عہد نبویﷺ میں کمسن تھے تاہم روایت حدیث سے ان کا دامن خالی نہیں رہا ان سے تیرہ احادیث مروی ہیں دینی علوم کے علاوہ وہ اس زمانہ کے مروجہ فنون میں بھی دسترس رکھتے تھے مختلف روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اونچے درجے کے خطیب تھے اور شعر و شاعری میں بھی درک رکھتے تھے شکل و شمائل میں سیدنا حسنؓ رسول اکرمﷺ سے مشابہ تھے سیرت بھی نہایت پاکیزہ تھی ان کے گلشن اخلاق میں زہد و استغناء حلم و تحمل جود و سخا خوش خلقی امن پسندی صلح جوئی نرم خوئی اور خیر خواہی امت نہایت خوش رنگ پھول ہیں۔

سیدنا حسنؓ کے تاریخیِ اقوال

دوسرے فضائل اخلاق کے ساتھ نہایت عاقل و دانا بھی تھے اہلِ سیر نے ان کے بہت سے حکیمانہ اقوال نقل کی ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں۔

  1.  مکارم اخلاق 10 ہیں:

(1)۔ زبان کی سچائی۔

(2)۔ حسنِ خلق۔

(3)۔ صلہ رحمی۔

(4)۔ مہمان نوازی۔

(5)۔ حق دار کی حق شناسی۔ 

(6)۔ جنگ کے وقت حملہ کی شدت۔ 

(7)۔ سائل کو دینا۔

(8)۔ احسان کا بدلہ دینا۔

(9)۔ پڑوسی کی حفاظت و حمایت۔ 

(10)۔ شرم و حیا۔

  1. * سب سے اچھی زندگی وہ بسر کرتا ہے جو اپنی زندگی میں دوسروں کو بھی شریک کرے اور سب سے بری زندگی اس کی ہے جس کے ساتھ کوئی دوسرا زندگی نہ بسر کر سکے۔
  2.  ضرورت کا پورا نہ ہونا اس سے کہیں بہتر ہے کہ اس کے لیے کسی نااہل کی طرف رجوع کیا جائے۔
  3. ایک شخص نے کہا مجھ کو موت سے بہت ڈر معلوم ہوتا ہے فرمایا اس لیے کہ تم نے اپنا مال پیچھے چھوڑ دیا اگر اس کو آگے بھیج دیا ہوتا تو اس تک پہنچنے کے لیے خوفزدہ ہونے کی بجائے مسرور ہوتے۔
  4.  مروت یہ ہے کہ انسان اپنے مذہب کی اصلاح کرے اپنے مال کی دیکھ بھال نگرانی کرے اسے بر محل صرف کرے سلام زیادہ کرے لوگوں میں محبوبیت حاصل کرے کرم یہ ہے کہ مانگنے سے پہلے دے احسان و سلوک کرے بر محل کھلائے پلائے بہادری یہ ہے کہ پڑوسی کی طرف سے مدافعت کرے آڑے وقتوں میں اس کی حمایت و امداد کرے اور مصیبت کے وقت صبر کرے۔
  5.  ایک مرتبہ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے ان سے پوچھا کہ حکومت میں ہم پر کیا فرائض ہیں فرمایا جو سلیمانؑ بن داؤدؑ نے بتائے ہیں سیدنا امیرِ معاویہؓ نے کہا انہوں نے کیا بتایا ہے؟ فرمایا انہوں نے اپنے ظاہر و باطن دونوں میں اللہ کا خوف کرے غصہ اور خوشی دونوں میں عدل و انصاف کرے فقر اور تمول میں درمیانی چال رکھے زبردستی کسی کا مال نا غضب کرے اور نہ اس کو بےجا صرف کرے جب تک وہ ان باتوں پر عمل کرتا رہے گا اس وقت تک اس کو دنیا میں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

(از کتاب علی المرتضیٰ)