سیدنا حسین بن علیؓ کے مختصر سوانح و فضائل
حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒسیدنا حسین بن علیؓ کے مختصر سوانح و فضائل
ابتدائی تعارف
سیدنا حسینؓ سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کے دوسرے صاحبزادے ہیں آپؓ سے آنحضرتﷺ سیدہ فاطمہؓ اور سیدنا حسنؓ کی طرح بے انتہا محبت کرتے تھے آپﷺ کبھی ان کو گود میں اٹھاتے کبھی کندھے پر بٹھاتے کبھی ہونٹوں پر بوسہ دیتے رخسار چومتے۔
ولادت:سیدنا حسینؓ کی ولادت سیدنا حسنؓ سے 11 ماہ بعد 3 شعبان 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی آپؓ کی ولادت کی خبر سن کر آنحضرتﷺ سیدہ فاطمہؓ کے گھر تشریف لے آئے کان میں اذان دی پھر سیدہ فاطمہؓ کو عقیقہ کرنے اور سر کے بالوں کے برابر چاندی خیرات کرنے کی تلقین فرمائی۔
کنیت اور القاب:آپؓ کی کنیت ابو عبداللہ اور القاب میں سید شبیر شہید سبط اصغر اور ریحا النبیﷺ مشہور ہیں۔
اولاد: سیدنا حسینؓ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں جن سے متعدد اولادیں ہوئیں اولاد نرینہ میں سے صرف ایک سیدنا علیؓ بن حسینؓ (جو سیدنا زین العابدین کے لقب سے مشہور ہیں) باقی بچے اور انہی سے نسل چلی ایک نوجوان فرزند سیدنا علی اکبرؓ اور ایک شیر خوار صاحبزادے سیدنا علی اصغرؓ واقعہ کربلا میں شہید ہوگئے بعض روایتوں میں ہے کہ ایک فرزند سیدنا عبداللہ بن حسینؓ نے بھی کربلا میں شہادت پائی۔ صاحبزادیوں کی تعداد اکثر اہلِ سیر نے تین بتائی ہے سیدہ سکینہؓ سیدہ فاطمہؓ سیدہ زینبؓ ۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا:
سید اشباب اھل الجنۃ الحسنؓ و الحسینؓ۔
ترجمہ: جنت والوں کے نوجوانوں کے سردار سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ ہیں (مشکوٰۃ)۔
الحسینؓ منی وانا من الحسینؓ احب اللہ من احب حسیناؓ حسینؓ سبط من الاسباط۔
ترجمہ: سیدنا حسینؓ مجھ سے ہیں میں سیدنا حسینؓ سے ہوں جو سیدنا حسینؓ سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے سیدنا حسینؓ میری اولاد کی اولاد ہے (ترمذی)۔
ریحان الدنیا والآخرۃ الحسنؓ الحسینؓ۔
ترجمہ: دنیا اور آخرت کے پھول سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ ہیں (ریاض النفوہ)۔
سیدنا حسینؓ عہدِ خلفاء ثلاثہ میں
سیدنا حسینؓ اور خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیقؓ
سیدنا ابوبکر صدیقؓ سیدنا حسینؓ کی بے حد عزت کرتے تھے سیدنا حسینؓ بچپن میں جب پہلی مرتبہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے سامنے لائے گئے تو آپؓ نے فرمایا ابنا لعلیؓ شبھا لنبیﷺ بیٹا علیؓ کا ہے اور مشابہ نبیﷺ کے ہے سیدنا ابوبکر صدیقؓ جب خلیفہ بنے تو حیرہ کی فتح کے بعد جو سیدنا خالد بن ولیدؓ کے ہاتھوں فتح ہوا تھا مالِ غنیمت میں ایک نہایت خوش قیمت چادر سیدنا حسینؓ کو چادر ہدیہ میں بھیجی تو آپؓ نے اسے بخوشی قبول فرمایا (فتوح البلدان صفحہ 254 بلا زری)۔
سیدنا حسینؓ اور خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ
سیدنا حسینؓ اور سیدنا حسنؓ کے لیے 505 ہزار درھم وظیفہ ان کے باپ اور بدری صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے برابر مقرر کیا (شرح معافی الآثار طحاوی جلد 2 صفحہ 81)۔
سیدنا عمرؓ نے فتوحاتِ مدائن کے مالِ غنیمت میں ایک لڑکی شاہ جہان کو جو بعد میں شہر بانو کہلائی سیدنا حسینؓ کو عطیہ میں دی اور اسی سے بعد میں سیدنا زین العابدینؓ پیدا ہوئے (شیعہ کتاب ناسخ التواریخ جلد 10 صفحہ 3)۔
اسلامی فتوحات میں ایک مرتبہ کپڑا آیا اس میں سیدنا حسینؓ کے موافق کوئی پوشاک نہ ملی تو آپؓ نے خصوصی طور پر علاقہ یمن کی طرف آدمی روانہ کیا وہاں سے مناسب لباس آیا سیدنا حسینؓ نے اسے زیب تن کیا سیدنا عمرؓ نے فرمایا کہ اب میری طبیعت خوش ہوئی ہے (کنزالعمال 106 جلد 7 البدایہ صفحہ 8207)۔
سیدنا حسینؓ اور خلیفہ سوم عثمان ذوالنورینؓ
خاندانِ بنی ہاشم کے سیدنا عثمانؓ کے ساتھ متعدد رشتے ہوئے طبقات ابنِ سعد میں ہے کہ سیدنا حسینؓ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ کا نکاح سیدنا عثمان بن عفانؓ کے پوتے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عثمانؓ کے ساتھ ہوا (طبقات صفحہ 347 جلد 7)۔
سیدنا حسینؓ کے صاحبزادی سیدہ سکینہ بنت حسینؓ سیدنا عثمانؓ کے پوتے زید بن عمرو بن عثمانؓ کے نکاح میں تھیں۔
واقعہ کربلا
معرکہ کربلا کے شرکاء
40 پیادہ 32 سوار 21 افراد اہلِ بیت عمرو بن خالد عبدالرحمٰن بن عمرو وقاص بن مالک کنانہ بن عتیق قیس بن ربیع عمار بن ابی الاسلام عود بن حجاج زبیر بن حسان عبداللہ بن عمرو وہب بن عبد مسلم بن عولجہ شبیر بن محمد محمد بن حنظلہ قاسم بن حبیب یزید مثبت حبیب بن مظاہر۔
مختصر واقعہ کربلا
سیدنا معاویہؓ کی وفات پر جب یزید مسندِ اقتدار پر متمکن ہوا تو سیدنا حسینؓ نے نیک نیتی اور دیانتداری سے بیعت سے انکار کیا اسی اثناء میں شیطانِ کوفہ سے سلیمان بن خزاعی نے کوفہ کی میٹنگ میں کہا تم ان کے اور ان کے بزرگوار کے شیعہ ہو اگر تم ان کی بیعت کر سکو گے تو ان کو عریضہ لکھ کر بلا لو پھر ایک عریضہ سیدنا حسینؓ کی جنت میں لکھا (جلاءُ العیون صفحہ 138)۔
یہاں تک کہ 600 خطوط سیدنا حسینؓ کے پاس پہنچے اور متعدد قاصد سیدنا حسینؓ کے پاس جمع ہوگئے اور آخر تک 12 ہزار خطوط کوفہ سے یہاں پہنچے ان خطوط کے جواب میں تمہارے پاس سیدنا مسلم بن عقیلؓ کو بھیجتا ہوں اگر سیدنا مسلمؓ مجھے لکھیں تو میں بہت جلد تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا جب سیدنا حسینؓ کے چچا زاد بھائی سیدنا مسلم بن عقیلؓ کوفہ پہنچے تو 18 ہزار کوفی شیعوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی پھر اچانک دوسرے روز ہزاروں آدمیوں نے منہ پھیر لیا اور شام تک صرف 30 اور پھر 10 آدمی آپؓ کے ساتھ رہ گئے (جلاء العیون صفحہ 164-143 جلد 2)۔
چند دنوں کے بعد سیدنا حسینؓ کو یہ خبر پہنچی کہ سیدنا مسلم بن عقیل بانی بن عروہ عبداللہ کو شہید کر دیا گیا ہے تو آپؓ نے افسردگی میں فرمایا ہمارے شیعوں نے ہماری نصرت سے ہاتھ اٹھا لیا ہے (جلاء العیون صفحہ 164 جلد 6)۔
سیدنا زین العابدین سے منقول ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے سیدنا حسینؓ کو باصرار کہا کہ کوفہ والے بے وفا ہیں ان کے پاس نہ جائیں مگر آپؓ نے جانے کا ارادہ ترک نہ فرمایا سیدنا حسینؓ جب کوفہ پہنچے تو 30 ہزار عراقیوں نے آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کی لیکن دوسرے ہی روز بیت کرنے والوں نے سیدنا حسینؓ پر تلوار کھینچی اور ہنوز بیعت ان کی گردنوں میں تھی کہ انہوں نے سیدنا حسینؓ کو دمشق جانے والے راستے کربلا کے مقام پر 10 محرم کو نہایت بے دردی اور مظلومیت کے ساتھ ذبح کر دیا اور اسلامی تاریخ کے اوراق پر یہ عظیم حادثہ ثبت ہوگیا۔
معرکہ کربلا میں شہید ہونے والے خاندانِ نبوت کے افراد
سیدنا سعد غلامؓ قنبر غلام سیدنا حسینؓ سیدنا عبداللہ بن عقیل عبدالرحمٰن بن عقیل سیدنا جعفر بن عقیل سیدنا عبداللہ بن مسلم سیدنا محمد بن عبداللہ سیدنا عون بن عبداللہؓ سیدنا ابوبکر بن حسینؓ سیدنا عثمان بن حسنؓ سیدنا عمر بن حسینؓ سیدنا زین العابدین بن حسینؓ علی اکبر بن حسینؓ علی اصغر بن حسینؓ سیدنا عبداللہ بن علیؓ سیدنا جعفر بن علیؓ عبداللہ بن حسن محمد بن سعد۔
سیدنا حسینؓ کے صفات و کمالات
سیدنا حسینؓ نے خانوادہ نبویﷺ میں پرورش پائی تھی اس لیے معدنِ فضل و کمل بن گئے تھے چونکہ عہدِ رسالت میں کم سن تھے اس لیے جناب رسالت مآبﷺ سے براہِ راست سنی ہوئی مرویات کی تعداد صرف 8 ہے البتہ بالواسطہ روایت کی تعداد کافی ہے حضورﷺ کے علاوہ انہوں نے جن بزرگوں سے احادیث روایت کی ہیں ان میں سیدنا علیؓ سیدنا عمر فاروقؓ سیدہ فاطمہؓ سیدہ ہندؓ بن ابی ہمالہ کے اسمِ گرامی قابلِ ذکر ہیں ان کے رواہ میں برادرِ بزرگ سید حسنؓ صاحبزادے سیدنا علی زین العابدینؓ صاحبزادیاں سیدہ سکینہؓ سیدہ فاطمہؓ پوتے سیدنا محمد باقرؓ سیدنا شعبی عکرمہمؒ سنان بن ابی سنانؒ عبداللہ بن عمرو بن عثمانؓ فرزوق شاعر وغیرہ شامل ہیں۔
تمام اربابِ سیر نے سیدنا حسینؓ کے فضل و کمال کا اعتراف کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ بڑے فاضل تھے سیدنا علیؓ قضا و افتاء میں بہت بلند مقام رکھتے تھے سیدنا حسینؓ نے ان کے آغوشِ تربیت میں پرورش پائی تھی اس لیے وہ مسندِ افتاء پر فائز ہوگئے تھے اور اکابرِ مدینہ مشکل مسائل میں ان کی طرف رجوع کیا کرتے تھے ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ ابنِ زبیرؓ نے ان سے پوچھا کہ قیدی کو رہا کرانے کا فرض کس پر عائد ہوتا ہے انہوں نے فرمایا ان لوگوں پر جن کی حمایت میں لڑا ہو ایک اور موقع اور سیدنا ابنِ زبیرؓ نے ان سے استفاء کیا کہ شیر خوار بچہ کا وظیفہ کب واجب ہوتا ہے انہوں نے فرمایا پیدائش کے فوراً بعد جب بچے کے منہ سے آواز نکلتی ہے اس کا وظیفہ واجب ہو جاتا ہے۔
سیدنا حسینؓ دینی علوم کے علاوہ اس عہد کے عرب کے مروجہ علوم میں بھی پوری دسترس رکھتے تھے ان کے تبحرِ علمی علم و حکمت اور فصاحت و بلاغت کا اندازہ ان کے خطبات سے کیا جاسکتا ہے جن میں سے کچھ آج بھی کتبِ سیر میں محفوظ ہیں فضائل اخلاق کے اعتبار سے سیدنا حسینؓ پیکر محاسن تھے عبادت و ریاضت ان کا معمول تھا قائم اللیل اور دائم الصوم تھے فرض نمازوں کے علاوہ بکثرت نوافل پڑھتے تھے ان کے فرزند سیدنا علی زین العابدینؓ کا بیان ہے کہ وہ شب و روز میں ایک ایک ہزار نمازیں نوافل پڑھ ڈالتے تھے روزے بکثرت رکھتے تھے اور سادہ غذا سے افطار فرماتے تھے رمضان المبارک میں کم از کم ایک مرتبہ قرآنِ پاک ضرور ختم کرتے تھے حج بھی کثرت سے کرتے تھے اور وہ بالعموم پاپیادہ ایک روایت کے مطابق انہوں نے 25 حج پاپیادہ کیے
(تہذیب الاسماء امم نوویؒ)
ذریعہ معاش: سیدنا حسینؓ مالی حیثیت سے نہایت آسودہ حال تھے سیدنا عمر فاروقؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں پانچ ہزار ماہانہ وظیفہ مقرر کیا تھا جو انہیں سیدنا عثمانؓ کے زمانہ تک برابر ملتا رہا سیدنا حسنؓ خلافت سے دستبرداری کے وقت سیدنا امیرِ معاویہؓ سے ان کے لیے دو لاکھ سالانہ مقرر کرا دیئے تھے اس مرفہ الحال کے باوجود ان کی زندگی پر فخر و زہد کا اثر نمایاں تھا اپنا مال کثرت سے راہِ خدا میں لٹاتے رہتے تھے کوئی سائل ان کے در سے خالی ہاتھ نہ جاتا تھا بعض مرتبہ غرباء کے گھروں پر خود کھانا پہنچاتے تھے اگر کسی قرض دار کی سقیم حالت کا پتہ چلتا تو خود اس کا قرضہ ادا کر دیتے تھے۔
سخاوت اور دریا دلی: ایک دفعہ نماز میں مشغول تھے گلی میں ایک سائل کی آواز کانوں میں پڑی جلدی جلدی نماز ختم کر کے باہر نکلے صدا دینے والے سائل پہ خستہ خالی دیکھی تو اپنے خادم قنبر کو آواز دی وہ حاضر ہوئے تو پوچھا ہمارے اخراجات میں سے کچھ باقی رہ گیا ہے؟ قنبر نے جواب دیا آپ نے دو سو درہم اہلِ بیت میں تقسیم کرنے کے لیے دیے تھے وہ ابھی تقسیم نہیں کیے گئے ہیں۔
فرمایا یہ ساری رقم لے آؤ اہلِ بیت سے ذیادہ ایک مستحق آگیا ہے قنبر نے 200 درہم لا کر پیش کیے تو سب کے سب سائل کو دے دیئے اور ساتھ ہی معذرت کی کہ اس وقت میرا ہاتھ خالی ہے اس سے زیادہ خدمت نہیں کر سکا۔
صدقہ خیرات کے علاوہ اہلِ علم اور شعراء کی سرپرستی بھی کرتے تھے اور ان کو انعام کے طور پر بڑی بڑی رقموں سے نوازتے رہتے تھے۔
سیدنا حسینؓ کے مجالس وقار اور متانت کا مرقع ہوتی تھیں
لوگ ان کا حد سے زیادہ احترام کرتے تھے ان کے سامنے ایسے سکون اور خاموشی سے بیٹھتے تھے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور وقار و متانت اور بلند مرتبت کے باوجود سیدنا حسینؓ تمکنت اور خود پسندی سے کوسوں دور تھے اور بے حد حلیم الطبع اور منکسر المزاج تھے نہایت کم حیثیت کے لوگوں سے بھی خندہ پیشانی سے ملتے تھے ایک مرتبہ کسی طرف جا رہے تھے راستے میں کچھ فقراء کھانا کھا رہے تھے انہوں نے سیدنا حسینؓ کو دیکھ کر اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی آپ سواری سے اتر پڑے اور فرمایا ان اللہ لا یحب المتکبرین بے شک اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا پھر ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا فارغ ہوئے تو ان سب کو دعوت پر بلایا جب وہ لوگ حاضر ہوئے تو آپؓ نے گھر والوں کو حکم دیا جو کچھ ذخیرہ ہے وہ سب بھجوا دو۔