Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

مختصر احوال و مناقب سیدنا علی بن حسینؓ المعروف سیدنا زین العابدينؒ

  حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒ

مختصر احوال و مناقب سیدنا علی بن حسینؓ

المعروف سیدنا زین العابدينؒ

 ولادت: سیدنا زین العابدینؒ ہجرت کے 33 ویں سال مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے بعض روایات میں آپؒ کی ولادت کی تاریخ 36 ھ یا 38 ھ بھی مذکور ہے۔

آپؒ کے والد سیدنا حسینؓ جب کربلا میں شہید ہوئے تو اس وقت آپؒ بھی ہمراہ تھے والد کی مظلومانہ شہادت نے سیدنا زین العابدینؒ موصوف کی طبیعت پر گہرا اثر ڈالا تھا (از شواہد النبوه صفحہ نمبر 309)۔

سیدنا زین العابدینؒ کی والدہ کا نام شاہ جہان المعروف شہربانو تھا آپ شہنشاه ایران یزدگر کی صاحبزادی تھیں ایران کی فتح کے بعد جب شہریار بانو اور ان کی بہن نفیسہ قید ہو کر سیدنا عمرؓ کے پاس لائی گئیں تو آپ کا نکاح سیدنا حسینؓ اور آپ کی بہن نفیسہ کا نکاح سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے سب سے چھوٹے صاحبزادے محمد بن ابی بکر سے کر دیا گیا۔

کنیت اور لقب: آپؒ کی کنیت صاحبزادوں کے نام پر ابوبکر ابومحمد اور ابو الحسن مشہور ہے نام علی بن حسین لقب زین العابدین اور سجاد معروف ہے (از شواہد النبوه)۔

سیدنا زین العابدینؒ کا مقام و مرتبہ: نواسہ رسول اللہﷺ سیدنا حسینؓ کی اولاد ہونے کے باعث جو نسبی شرافت آپؒ کو حاصل تھی اس میں کسی بھی مؤرخ یا محدث کو کلام نہیں آپؒ کی خاندانی عظمت کا سورج چار دانگ عالم میں چمکتا رہا دنیا بھر کے تمام مسلمان آپؒ کی راہ میں آنکھیں بچھاتے تھے آپؒ جس حلقے یا شہر میں تشریف لے جاتے چاروں طرف سے خلقِ خدا کا ہجوم آپؒ کے گرد جمع ہو جاتا آپؒ کی عقیدت و محبت اور الفت و محبت ہر مسلمان کے دل میں جاگزیں تھی۔

دنیا کا کون مسلمان ہے جو اولاد رسولﷺ سے عقیدہ نہ رکھتا ہو آپؒ کی محبت کا سورج ہر کلمہ گو کے قلب میں روشن ہے ذریتِ پیغمبر جگر گوشہ سیدنا حسینؓ بلند فطرت اور اعلیٰ تدبر کے حامل تھے۔

حجاج کے دور میں سیدنا زین العابدینؒ کی عقیدت مندی کا واقعہ:

آپؒ کی ہر دلعزیز شخصیت سے وقت کے حکمرانوں پر لرزہ طاری رہتا تھا اس نوعیت کا ایک واقعہ "صواعق محرقہ" میں تفصیل کے ساتھ موجود

ہے عقائد جعفریہ جلد چہارم میں سیدنا زین العابدینؒ کے حالات میں ہے:

ابونعیم اور سلفی بیان کرتے ہیں کہ ہشام بن عبدالمالک نے

اپنے باپ یا بھائی ولید کی زندگی میں حج کیا دورانِ حج بھیڑ کی وجہ سے وہ حجر اسود تک نہ پہنچ سکا لہٰذا اس کے لیے آبِ زمزم کی ایک جانب کو بند کر دیا گیا وہ یہاں بیٹھ کر حجر اسود کو دیکھتا رہا اس کے ارد گرد شامی جاسوسوں کی ایک جماعت بھی تھی اس دوران سیدنا زین العابدینؒ کعبہ میں تشریف لائے جب آپؒ حجر اسود کے پاس پہنچے تو مجمع ادھر ادھر منتشر ہوگیا اور امام نے تسلی سے اس کا استلام کیا یہ دیکھ کر شامیوں نے اپنے خلیفہ سے عرض کیا یہ کون ہیں؟ ہشام نے اس وجہ سے کہ کہیں لوگ امام کے شیدائی نہ ہو جائیں کہہ دیا میں نہیں جانتا کون ہے اتفاقاً فرزدق شاعر وہاں موجود تھا بولا میں اس کو جانتا ہوں فرزدق نے سیدنا زین العابدینؒ کا ان اشعار کے ذریعہ تعارف کرایا:

هذا الذی تعرف البطحاء وطاته

والبيت يعرفه والحل والحرامه

هذا ابن خير عبدا الله كلهم

هذا التقى النقی الطاهر العلم۔

ترجمہ: یہ وہ شخص ہے جسے سرزمینِ بطحاء جانتی ہے اور اسے خانہ کعبہ اور حل و حرم سب پہچانتے ہیں۔

یہ اس شخصیت کا فرزند ہے جو تمام اللہ کے بندوں سے بہتر ہےیہ نہایت متقی پاکیزہ طاہر اور عالم ہے۔

اذا رائته قريش قال قائلها

الى مكارم هذا ينتهى الكرم

بينمي الى ذروه العزا لتی قصرت

عن نيلها عرب الاسلام والعجم۔ 

ترجمہ: جب اسے قریش نے دیکھا تو ایک کہنے والا بول اٹھا یہ وہ شخص ہے کہ جس پر اچھے اخلاق انتہا کو پہنچ گئے عزت کی اس بلندی تک اسے رسائی ہوگئی جس کے حصول سے عرب و عجم کے مسلمان قاصر رہے۔

 اعلیٰ اخلاق کا نمونہ:

خاندانِ نبوت کے چشم و چراغ سیدنا زین العابدینؒ بھی اپنے آباؤ اجداد کی تصویر کا عکس تھے تحمل و لیاقت متانت و سنجیدگی علم و بردباری کے ساتھ سطوت و بہادری اور اعلیٰ اخلاق و کردار بھی آپؒ کا طرہ امتیاز تھا محقق عصر حضرت مولانا محمد علی صاحب نے ("عقائدہ جعفریہ" جلد 4 صفحہ نمبر 463) پر "نور الابصار" کے حوالے سے

سیدنا زین العابدینؒ کی سخاوت و فیاضی اور عمدہ اخلاق کا ایک واقعہ یوں نقل کیا ہے:

دار الاصداف میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا زین العابدینؒ مسجد سے باہر تشریف لائے تو ایک شخص نے آپؒ سے نازیبا الفاظ کہے اس پر آپؒ کے بھائی اور غلام نے جوابی کارروائی کا ارادہ کیا آپؒ نے انہیں منع فرمایا اور خود اس بدزبان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا دیکھو ہمارے حالات تم سے پوشیدہ نہیں ہیں اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلا دھڑک بتا دو ہم تمہاری مدد کرنے کو تیار

ہیں یہ سن کر وہ سخت شرمندہ ہوا اور سیدنا زین العابدینؒ نے اسے پانچ ہزار درہم اور ایک کمبل عنایت فرمایا اس نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ واقعی رسول اللہﷺ کی اولاد ہیں اسی طرح ایک اور شخص نے آپؒ سے گستاخانہ کلام کیا آپؒ نے فرمایا دیکھو تمہارے اور ہمارے درمیان جہنم کی گھاٹی ہے اگر میں اس سے گزر گیا تو تمہارے اس گستاخانہ کلام کی مجھے پرواہ نہیں اور اگر نہ گزر سکا تو ان کلمات سے بڑھ کر سخت کلمات کا مستحق ہوں۔

سیدنا زین العابدینؒ کی جیل سے رہائی کی کرامت:

(شواہد النبوه مطبوعہ نبویہ گنج بخش لاہور صفحہ 309) پر ہے:

 ابنِ احمد ون نے زہری سے روایت کی ہے عبدالملک بن مروان خلیفہ نے کسی شکایت کی بناء پر سیدنا زین العابدینؒ کو مدینہ منورہ سے گرفتار کروایا اور سخت نگرانی میں رکھا جب انہیں گرفتار کر کے لے جا رہے تھے اور امام زہریؒ آئے اور ان کے قریب آکر روتے ہوئے کہنے لگے کاش میں آپؒ کی جگہ ہوتا آپؒ کو چھوڑ کر مجھے گرفتار کر لیا جاتا امام سیدنا زین العابدینؒ نے فرمایا تم کیا سوچتے ہو کہ یہ قید و بند کی زنجیریں مجھے تکلیف دیتی ہیں ہرگز نہیں میں اگر چاہتا تو یہ زنجیریں مجھے نہ پہنائی جاسکتیں میں نے یہ اس لیے قبول کی ہیں کہ ان کے ذریعہ مجھے اللہ تعالیٰ کا عذاب یاد آرہا ہے اس کے بعد آپؒ نے اپنے ہاتھ اور پاؤں زنجیر سے نکال کر فرمایا میں ان گرفتار کرنے والوں کے ساتھ دو دن سے زیادہ عرصہ نہیں رہوں گا خدا کی قسم ان گرفتار کرنے والوں کو ابھی دو دن بھی نہ گزرے تھے کہ بوقت صبح انہوں نے سیدنا زین العابدینؒ کو گم پایا بہت تلاش کیا گیا لیکن آپؒ نہ مل سکے۔

امام زہریؒ کہتے ہیں کہ میں خلیفہ عبدالملک کے پاس گیا تو اس نے سیدنا زین العابدینؒ کے بارے میں مجھ سے پوچھا میں نے کہا کہ جس دن آپ کے کارندوں نے انہیں گم پایا وہ سیدھے میرے پاس آئے اور فرمانے لگے تیرا اور میرا اب کیا ہوگا میں نے عرض کیا آپؒ میرے پاس قیام فرمائیں فرمایا مجھے یہ پسند نہیں اور یہ کہہ کر چل دیے لیکن بخدا میرا دل ان کی وجہ سے خوف زدہ ہوگیا عبدالملک خلیفہ نے جب سیدنا زین العابدینؒ کی یہ کرامت سنی تو اپنے گورنر حجاج بن یوسف کو حکم دیا کہ بنی عبدالمطلب کے خون سے ہاتھ اٹھا لیا جائے اور یہ بھی لکھا سیدنا زین العابدینؒ کو کہنا کہ اس واقعہ کی کسی کو اطلاع نہ دی جائے سیدنا زین العابدینؒ نے نور بصیرت سے خلیفہ کے اس خط کو جان لیا اسی وقت ایک خط عبدالملک کی طرف تحریر فرمایا لکھا کہ جو تم نے عبدالمطلب کے بارے میں فیصلہ کیا ہے میں اس کا ممنون ہوں جب یہ خط عبدالملک کے پاس پہنچا تو اس نے تاریخ تحریر کو پڑھا تو معلوم ہوا کہ اس نے جو خط حجاج بن یوسف کو اس مضمون کا لکھا تھا سیدنا زین العابدینؒ کا خط بھی اسی تاریخ کا لکھا ہوا تھا اور سیدنا زین العابدینؒ کے قاصد اور عبدالملک کے قاصد کی روانگی بھی ایک تاریخ کی تھی یہ دیکھ کر عبدالملک کو معلوم ہوگیا کہ سیدنا زین العابدینؒ صاحب کشف و کرامات ہیں لہٰذا اپنے غلام کے ہاتھ بہت سے درہم اور کپڑے سیدنا زین العابدینؒ کی خدمت میں اس نے ارسال کیے اور کہا کہ اپنی دعاؤں میں مجھے یاد رکھا کیجئے۔

سیدنا زین العابدینؒ کربلا میں

شہزادہ نبوت سیدنا زین العابدینؒ نے کربلا میں کوفیوں کے ہاتھوں ظلم کے بے پناہ دکھ اٹھائے والد اور بھائیوں کو اپنے سامنے ذبح ہوتے دیکھا آپؒ کی طبعیت میں اضمحلال اور نقاہت کے آثار نمایاں تھے سیدنا زین العابدینؒ نے کوفیوں کی بے وفائی اور غداری پر طویل خطبے ارشاد فرمائے جو اسی کتاب میں اپنے مقام پر موجود ہیں۔