مختصر احوال و کوائف و مناقب سیدنا جعفر صادقؒ
حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒمختصر احوال و کوائف و مناقب سیدنا جعفر صادقؒ
ولادت: سیدنا جعفرؒ 83 ھ ربیع الاول کے آخری عشرے میں سوموار کے دن مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔
لقب اور کنیت: آپؒ کا لقب صادق اور کنیت ابوعبداللہ اور اسماعیل تھی۔
والد کا نام: آپؒ سیدنا محمد باقرؒ کے صاحبزادے تھے۔
والدہ کا نام: آپؒ کی والدہ کا نام ام فروہ تھا یہ سیدنا ابوبکرصدیقؓ کے پوتے قاسم بن محمد بن ابی بکر اور سیدنا ابوبکرؓ کی پوتی سیدہ اسماء بنت عبدالرحمٰن بن ابوبکر کی صاحبزادی تھیں۔
گویا سیدنا جعفر صادقؒ کی والدہ کا شجرہ نسب ننہیال اور دادھیال میں سیدنا ابوبکرصدیقؓ سے ملتا ہے اس لیے سیدنا جعفر صادقؒ فرمایا کرتے تھے:
ولدنی ابوبکر مرتین:
ترجمہ: سیدنا ابوبکرؓ نے مجھے دو مرتبہ جنا (از شواہد النبوه صفحہ 326)۔
وفات: ایک روایت میں آپؒ نے سیدنا ابوبکرؓ کو اپنا امام اور پیشوا قرار دیا ہے سیدنا جعفرؒ نے 65 سال کی عمر میں بروز سوموار ماہ شوال 148ھ کو مدینہ منورہ میں وفات پائی آپؒ کی قبر جنت البقیع میں سیدنا زین العابدینؒ اور سیدنا حسنؓ کی قبر کے متصل واقع ہے سیدنا جعفر صادقؒ کی وفات سے خلفاءِ راشدینؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین کے بارے میں سیدنا حسنؓ کے کلمات اس کتاب میں اپنے مقام پر موجود ہیں۔
سیدنا جعفر صادقؒ کے فضائل و کمالات:
سیدنا علیؓ کی اولاد میں سیدنا جعفر صادقؒ کا مقام و مرتبہ مسلمہ حیثیت رکھتا ہے آپؒ ولایت و بزرگی کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے خدا ترسی للہیت اور فیاضی آپؒ کا طرہ امتیاز تھا سیدنا جعفر صادقؒ کے دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین میں سیدنا انسؓ اور قلیل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین حیات تھے آپؒ ان کی خدمت میں حاضری دیتے فرزند رسولﷺ ہونے کی وجہ سے ہر شخص آپؒ سے گہری عقیدت رکھتا تھا ان کی طرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین خلفاءِ راشدینؓ کے خلاف روایات کی نسبت کرنے والوں نے آپؒ کی وفات کے ڈیڑھ سو سال بعد آپؒ کی تعلیمات کا مذاق اڑا کر مَن گھڑت کلمات آپؒ کے نام سے عام کیئے۔
سیدنا جعفر صادقؒ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین کے مابین خوشگوار تعلقات قائم تھے آپؒ شرف صحابیت تو نہ پاسکے بلکہ آپؒ کو جلیل القدر تابعی کا مقام حاصل تھا۔
تقوی اور بزرگی میں آپؒ ممتاز حیثیت رکھتے تھے اپنے دور کے بڑے بڑے لوگ آپؒ کے تقدس اور پاکبازی کے معترف تھے آپؒ کا شمار اولوالعزم تابعیوں میں ہوتا تھا۔
سیدنا جعفر صادقؒ کی چند کرامات:
امام ابنِ جوزیؒ کی معرکتہ الارا کتاب "صفوة الصفوه " میں لیث بن سعد کی اسناد کے ساتھ لکھا گیا ہے:
میں مکہ معظمہ میں نمازِ عصر ادا کر رہا تھا فراغت کے بعد کوہ ابوقیس کی چوٹی پر چڑھ گیا وہاں مجھے ایک شخص دکھائی دیا میں اس کے قریب پہنچا تو وہ یارب یارب کہہ کر خدا کو پکار رہا تھا دعا مانگتے مانگتے اس کا سانس ٹوٹ گیا پھر اس نے یاحی یاحی پڑھنا شروع کیا۔ حتیٰ کہ پھر سانس ٹوٹ گیا پھر یارحیم پھر ارحم الراحمین پڑھا ہر مرتبہ اس کا سانس اکھڑ جاتا سات مرتبہ اس طرح کرنے کے بعد یہ الفاظ کہے:
اللهم ان اشهتنی من هذا العنب اللهم وان بردی قداخلقا۔
ابھی یہ دعائیہ کلمات ختم نہ ہوئے تھے کہ میں نے وہاں انگوروں کا ایک گچھا اور دو نئی چادریں پڑی دیکھیں اس موسم میں انگور کہیں بھی دستیاب نہ تھے اس شخص نے انگور کھانے شروع کیے تو
میں نے بھی شرکت کی درخواست کی پوچھا تم کیوں شرکت کرنا چاہتے ہو میں نے عرض کیا وجہ یہ ہے کہ آپ نے دعا فرمائی تھی اور میں نے بھی آمین کی تھی فرمایا آؤ اور کھاؤ لیکن کوئی دانا باقی نہ بچے میں نے ان کا جو ذائقہ پایا وہ بے مثل تھا میں نے خوب سیر ہو کر وہ کھائے لیکن حیران کن بات یہ کہ ان میں سے ایک بھی دانا کم نہ ہوا وہ شخص پھر مجھے کہنے لگا اور کھاؤ میں نے عرض کیا اب حاجت نہیں رہی فرمایا اچھا تو پھر ادھر ادھر جاؤ کیونکہ میں ان چادروں کو چھپانا چاہتا ہوں میں ایک طرف ہوگیا تو اس نے چادروں میں سے ایک کا تہبند بنالیا اور دوسری کو اوپر اوڑھ لیا اور پرانی چادروں کو ہاتھ میں پکڑ کر چل دیا میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا جب صفا مروہ پر پہنچے تو اس سے ایک اور شخص ملا اس نے عرض کیا اے رسول اللہﷺ کے فرزند میرا جسم ڈھانپے اللہ تعالی تمہارا تن ڈھانپئے گا اس نے وہ دونوں چادریں اس مانگنے والے کو دے دیں میں پھر اس سائل کے پیچھے ہو لیا اس سے میں نے دریافت کیا بھائی ذرا مجھے بتلاؤ کہ جس نے تمہیں یہ چادریں عطا کیں وہ کون ہے؟ وہ بولا وہ سیدنا جعفر بن محمد ہیں بعد ازاں میں نے ان سے حدیث سننے کی بہت خواہش کی لیکن وہ نہ مل سکے(شواہد النبوۃ صفحہ نمبر 331 مکتبہ نبویہ لاہور)۔
(دوم صواعق محرقہ) صفحہ 302 مطبوعہ قاہرہ طبع جدید:
سیدنا جعفر صادقؒ کے چچا زاد بھائی عبداللہ المحض جو بنی ہاشم کے سردار اور محمد نفس ذکیہ اور ابراہیم کے والد ہیں بنی ہاشم نے ان کی بیعت کا ارادہ کیا یہ وہ زمانہ تھا کہ بنی امیہ کی حکومت کمزور ہوچکی تھی بنی ہاشم نے ایک اجتماع کیا اور اس میں یہ طے پایا کہ سیدنا جعفر صادقؒ کو بلایا جائے لہٰذا جب انہیں دعوت دی گئی تو انہوں نے انکار کر دیا بنی ہاشم اس سے یہ سمجھے کہ سیدنا جعفرؒ کو نفس زکیہ اور ابراہیم سے حسد ہے جب اس کا علم سیدنا جعفرؒ کو ہوا تو انہوں نے فرمایا مجھے کسی سے کوئی حسد نہیں لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ حکومت نہ ان دونوں میں سے کسی کو اور نہ ہی مجھے مل سکتی ہے بلکہ اس شخص کو ملے گی جو پیلے رنگ کی قباء پہننے والا ہے (یعنی منصور عباسی) سیدنا جعفرؒ کی یہ بات منصور عباسی کے دل میں سما گئی حتیٰ کہ وہ بادشاہ بن گیا اس امر کی خبر سیدنا جعفرؒ کے والد جناب سیدنا باقرؒ بھی پہلے ہی سے دے چکے تھے لہٰذا سیدنا جعفرؒ نے منصور سے کہا کہ تم مشرق و مغرب پر حکومت کرو گے اور تمہاری حکومت دیر تک چلے گی منصور دوانقی نے پوچھا اے سیدنا جعفرؒ آپ کی حکومت پہلے ہوگی یا ہماری فرمایا پہلے تمہاری حکومت ہوگی پھر اس نے پوچھا کیا میری اولاد میں سے بھی کوئی بادشاہ بنے گا آپؒ نے فرمایا ہاں بنے گا پھر دوانقی نے پوچھا بنی امیہ اور ہماری حکومت میں سے کس کا زمانہ طویل ہوگا فرمایا تمہاری حکومت زیادہ دیر تک چلے گی لیکن تمہاری مملکت کے ساتھ بچے گیند کی طرح کھیلیں گے سیدنا جعفرؒ نے یہ سب کچھ بتا کر فرمایا یہ باتیں مجھے میرے والد نے بتلائی تھیں پھر جب منصور بادشاہ بن گیا تو سیدنا جعفرؒ کی ان باتوں پر بہت تعجب کیا کرتا تھا۔