سیدنا موسیٰ کاظمؒ (مختصر احوال و فضائل)
حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒسیدنا موسیٰ کاظمؒ (مختصر احوال و فضائل)
ولادت: سیدنا جعفر صادقؒ کے صاحبزادے سیدنا موسیٰ کاظمؒ کی ولادت 128ھ صفرالمظفر بروز اتوار کو ہوئی آپؒ کا جائے پیدائش مقام ابواہ ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے۔ آپ کا نام موسیٰ اور لقب کاظم تھا۔
والدہ کا نام: آپؒ کی والدہ امولا حمیدہ بریہ تھیں سیدنا موسیٰ کاظمؒ بھی اپنے والد سیدنا جعفر صادقؒ کی طرح خدا ترس اور صالح افراد میں شامل تھے۔
خلیفه مہدی بن منصور کی طرف سے گرفتاری:
مہدی کے حکم سے آپؒ کو 25 سال کی عمر میں گرفتار کیا گیا مدینہ منورہ سے گرفتار کر کے آپؒ کو بغداد لایا گیا تھا یہاں آپؒ کو بادشاہ کے ذاتی قید خانے میں محصور کیا گیا۔
خواب میں سیدنا علیؓ کی خلیفہ کو تنبیہ اور سیدنا موسیٰ کاظمؒ کی رہائی
شواہد النبوۃ میں سیدنا موسیٰ کاظمؒ کی گرفتاری کے بعد ایک رات میں خواب میں سیدنا علیؓ نے مہدی منصور سے فرمایا:
فهل عسيتم أن تفسدوا فی الأرض ان تقطعوا (الخ)۔
مہدی نے آدھی رات کے بعد اپنے کار خاص (سیکرٹری) اسبع کو بلایا اس وقت مہدی بلند آواز سے یہ آیت تلاوت کر رہا تھا خلیفہ نے مہدی کو حکم دیا کہ ابھی سیدنا موسیٰ کاظمؒ کو رہا کر کے میرے پاس لاؤ۔
ربیع کا بیان ہے:
رات کے آخری حصے میں سیدنا موسی کاظمؒ کو رہا کر کے دربار میں پیش کیا گیا خلیفہ نے آپؒ سے معانقہ کیا اپنے پاس بٹھا کر خواب سنایا اور پھر کہا کیا آپ نہیں کر سکتے کہ میرے اور میرے بچوں کے خلاف بغاوت ترک کر دیں آپؒ نے فرمایا مجھ پر بغاوت کا الزام جھوٹا ہے۔ میں آپ کے خلاف بغاوت کا تصور بھی نہیں کرسکتا اسی وقت خلیفہ نے آپؒ کو دس ہزار درہم اور سامان سفر دے کر مدینہ منورہ روانہ کر دیا (از شواہد النبوة صفحہ نمبر 336)۔
بعض روایات کے مطابق سیدنا موسیٰ کاظمؒ کو ایک بار پھر خلیفہ نے بعض شکایات پر گرفتار کر کے بغداد میں قید کیا آپؒ کی وفات قید ہی میں ہوئی 186ھ کا سن تھا اور ہارون رشید کا دور حکومت تھا (از شواہد النبوة صفحہ نمبر 336)۔
سیدنا موسیٰ کاظمؒ کا علم و فضل
"صواعق محرقہ" صفحہ 203 تذکرہ موسیٰ میں ہے:
"آپ اہلِ عراق میں عنداللہ قضائے حاجات کا دروازہ"
مشہور تھے اپنے دور کے لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار عالم اور سخی تھے ایک مرتبہ ہارون رشید نے ان سے پوچھا تم اپنے آپ کو آلِ رسولﷺ کہلاتے ہو حالانکہ تم اولادِ سیدنا علی المرتضیؓ کی ہو آپؒ نے جواباً یہ آیت پڑھی:
و من ذريته داود و سلیمان و عیسٰی و ایوب۔
ترجمہ: (یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے داودؑ سلیمانؑ عیسیٰؑ اور ایوبؑ گزرے ہیں حالانکہ حضرت
عیسیٰؑ کا تو کوئی والد نہیں تھا)۔
دوسری آیت یہ پڑھی:
تعالوا ندع ابناءنا وابناءكم (الخ)۔
ترجمه: (حضور اکرمﷺ نے بوقت مباہلہ سیدنا علیؓ سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کے علاوہ کسی اور کو نہیں بلایا تھا اور انہیں ہی آپ نے اپنے بیٹے کہا) (صواعق محرقہ 203 تذکرہ سیدنا موسیٰ کاظمؒ)
آپؒ کی کرامات
اول: کتب معتبرہ میں جناب شفیق بلخی سے روایت موجود ہے فرماتے ہیں:
کہ میں دورانِ حج سفر کرتے کرتے سرزمینِ قادسیہ جانکلا وہاں مجھے ایک خوبصورت اور بلند قامت شخص نظر آیا جس نے ادنیٰ کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے اور کندھے پر ایک شملہ ڈالا ہوا تھا اور پاؤں میں نعلین تھے۔ بھیڑ سے نکل کر وہ اکیلا بیٹھ گیا میں نے خیال کیا کہ یہ نوجوان کوئی صوفی معلوم ہوتا ہے اور اس کا خیال یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی پر بوجھ نہ بنے لہٰذا میں نے ارادہ کیا کہ اسے کچھ تنبیہ کی جائے تاکہ وہ ایسا کرنے سے باز آجائے جب میں اس کے نزدیک گیا تو وہ بولا اے شفيق اجتنبوا كثيراً من الظن ان بعض الظن اثم (الخ)۔ آیت پڑھی اور چلتا بنا میں سوچ میں پڑگیا کہ اس کو میرا نام اور میرا مقصد معلوم تھا کوئی نیک آدمی معلوم ہوتا ہے لہٰذا مجھے اس سے معافی مانگنی چاہیے میں اس کے پیچھے تیزی سے چلا لیکن اسے نہ پاسکا جب دوسری منزل پر ہم پہنچے تو میں نے اس نوجوان کو نماز میں مشغول دیکھا۔ جسم پر کپکپی اور آنکھوں میں آنسو تھے میں نے پھر معافی مانگنے کا ارادہ کیا تھوڑی دیر کے بعد میں اس کی طرف چل دیا اس نے دیکھ کر کہا اے شفيق انی لغفار لمن تاب و امن وعمل صالحا ثم اهتدی۔
یہ آیت پڑھی اور چل دیا میں نے خیال کیا کہ یہ نوجوان کوئی ابدال ہے جس نے دوبارہ میرے دل کی بات جان لی اسی طرح جب ایک اور مقام پر پہنچے تو میں نے اسی نوجوان کو ایک کنوئیں میں کھڑا پایا ہاتھ میں چرمی ڈول تھا اور اس سے پانی نکالنا چاہا لیکن ڈول کنوئیں میں گرگیا اس نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور یہ کلمات کہے انت ربی ان ظمات الماء وقوتی اذا اردت الطعام اللهم سيدى الى عيرك فلا تقدم۔
ان الفاظ کے ساتھ میں نے خدا کی قسم دیکھا کہ پانی اوپر آگیا اس نے ہاتھ بڑھا کر ڈول اٹھایا اس سے وضو کیا اور چار رکعت نماز ادا کی پھر ریت کے ایک ٹیلہ پر گیا اور تھوڑی سی مٹی ہاتھ میں لے کر اس ڈول میں ڈال دی اسے خوب ہلایا اور پھر اسے پی گیا میں یہ دیکھ کر اس کے قریب گیا اور سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیا میں نے عرض کیا کہ مجھے کچھ کھانا کھلائیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کچھ دے رکھا ہے وہ نوجوان بولا اے شفیق ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ظاہری و باطنی نعمتیں مجھے ملتی رہتی ہیں لہٰذا تو اللہ تعالیٰ کے بارے میں اچھا اور نیک گمان رکھ پھر مجھے وہی ڈول دیا میں نے اس سے پانی پیا اس میں ستو اور شکر ملے ہوئے تھے وہ اس قدر لذیذ تھے کہ میں نے زندگی بھر ایسی میٹھی کوئی چیز نہ کھائی اور نہ پی میں اس سے ایسا سیراب ہوا کہ چند دن تک مجھے کھانے پینے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی اس کے بعد وہ نوجوان مجھے نظر نہ آیا جب ہم مکہ معظمہ پہنچے تو میں نے اسے نماز تہجد پڑھتے دیکھا خشوع و خضوع سے اور آنکھوں سے آنسو بہا کر نماز ادا کر رہا تھا رات گئے تک یہی سلسلہ رہا صبح ہوئی نماز فجر ادا کرنے کے بعد طوافِ کعبہ کیا فراغت پر جب کعبہ سے باہر گیا تو میں بھی اس کے پیچھے پیچھے ہولیا میں نے دیکھا کہ اس کے پاس بہت سے غلام اور خادم ہیں اور اس کے ارد گرد لوگوں کا جمگھٹا ہے تمام حاضرین کی زبان پر یہ الفاظ تھے:
السلام علیک یا ابن رسول اللهﷺ۔
میں نے دریافت کیا کہ یہ نوجوان کون ہے تو مجھے بتلایا گیا کہ ان کا نام موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین ابن علی ابنِ ابی طالب ہے یہ سن کر میرے منہ سے برجستہ نکلا کہ اس سید زادے سے اس قسم کے واقعات کوئی تعجب کی بات نہیں (شواہد النبوة صفحہ 337 تذکرہ سیدنا موسیٰ بن جعفر مکتبہ نبویہ لاہور)۔
دوم: ہارون رشید نے خواب میں سیدنا علی المرتضیؓ کو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں برچھی تھی اور فرمایا اے ہارون اگر تو نے سیدنا موسیٰ کاظمؒ کو رہا نہ کیا تو میں اس برچھی سے تجھے ذبح کر دوں گا وہ سہما ہوا خواب سے اٹھا اس وقت پولیس افسر کو حکم دیا کہ سیدنا موسیٰ کاظمؒ کو رہا کر دیا جائے اور ساتھ ہی تین ہزار درہم ان کے لیے روانہ کیے اور یہ بھی کہا کہ سیدنا موسیٰ کاظمؒ کو یہاں رہنے یا کسی اور جگہ جہاں وہ چاہیں جانے کا اختیا ہے سیدنا موسیٰ کاظمؒ مدینہ تشریف لے آئے اور پھر ہارون الرشید نے آپ کو خواب کا واقعہ سنایا آپ نے اس سے عجیب تر واقعہ سنایا انہوں نے مجھے چند کلمات سکھلائے کہنے لگے میں نے ابھی وہ کلمات پورے ادا نہیں کیے تھے کہ میری رہائی ہوگئی (صواعقِ محرقہ صفحہ 204 تذکرہ سیدنا موسیٰ کاظم مطبوعہ قاہرہ طبع جدید)۔
آپ کی شب و روز کی عبادت
تاریخِ بغداد: عمار ابنِ ربانی سے روایت ہے کہ جب سیدنا موسیٰ کاظمؒ سندھی کے ہاں گرفتار کیے گئے تو سندھی کی ہمشیرہ نے اپنے بھائی کو کہا سیدنا موسیٰ کاظمؒ کو میرے سپرد کر دے وہ دیندار تھی سندھی نے اس کی بات مانی اور سیدنا موسیٰ کاظمؒ کو اس کے سپرد کر دیا یہی بی بی بیان کرتی ہے کہ جب سیدنا موسیٰ کاظمؒ نماز عشاء پڑھتے تو پھر اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح و تہلیل میں مصروف ہو جاتے جب رات ڈھل جاتی تو آپ نوافل شروع فرماتے صبح تک نفل ادا کرتے رہتے پھر تھوڑا سا ذکر کرتے حتیٰ کہ جب سورج طلوع ہوتا تو کچھ دیر وہیں بیٹھے رہتے صلوات چاشت ادا کرتے پھر سونے کی تیاری فرماتے مسواک کرتے کھانا کھاتے اور آرام کرنے کے لیے سو جاتے زوال تک آرام فرماتے پھر اٹھتے وضو فرماتے قبلہ رخ ہو کر اللہ کا ذکر فرماتے تسبیح و تہلیل اور نماز پڑھتے پھر دوسری نماز تک یہی سلسلہ جاری رہتا مغرب کے بعد نوافل ادا فرما کر پھر عشاء کا عمل اسی طرح جیسا کہ گزر چکا شروع فرماتے آپ کا یہ روزانہ کا معمول تھا (تاریخِ بغداد جلد 13 صفحہ 31 تذکرہ موسیٰ بن جعفر)۔
آپ کی سخاوت ( تاریخ بغداد)
محمد بن عبداللہ بکری کا کہنا ہے کہ قرض کی خاطر میں مدینہ آیا اس آنے جانے سے میں تھک گیا میں نے دل میں سوچا کہ اگر سیدنا موسیٰ کاظمؒ کے پاس قرض مانگنے چلا جاتا تو اس تکلیف سے چھوٹ جاتا میں اس سوچ پر عمل کرتے ہوئے ان کے پاس احد پہاڑ کے قریب واقعہ موضع نقمہ پہنچا آپ میری طرف آئے آپ کے ساتھ ایک غلام بھی تھا اس کے پاس گوشت تھا سیدنا موسیٰ کاظمؒ کے ہاں اس وقت کوئی مہمان نہ تھا لہٰذا میں نے ان کے ساتھ کھانا کھایا پھر انہوں نے مجھ سے میری حاجت کے بارے میں پوچھا میں نے انہیں سارا واقعہ سنا دیا آپ اٹھے مکان میں تشریف لے گئے جلدی ہی واپس آئے اور غلام سے فرمانے لگے تم ذرا چلے جاؤ غلام کے جانے کے بعد آپ نے اپنا ہاتھ میری طرف لمبا کیا اور ایک تھیلی پھینکی جس میں تین سو دینار تھے پھر اٹھے اور پشت پھیر کر تشریف لے گئے میں بھی اٹھا اپنی سواری پر سوار ہوا اور اپنے گھر واپس چل پڑا (تاریخِ بغداد جلد 13 صفحہ 28 تذکرہ موسیٰ بن جعفر)۔