Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حضرت زین العابدین رح کی والدہ ماجدہ حضرت شہر بانو

  جعفر صادق

حضرت زین العابدین رح کی والدہ ماجدہ حضرت شہر بانو

حضرت شہر بانو ایران کے بادشاہ یزد گرد سوم کی بیٹی تھیں۔

آپ کا نام بی بی شہربانو مشہور ہے۔ آپ کی ولادت ایران کے شاہی دربار میں ہوئی، آپ عفت، حیا اور پاکیزگی سے مالامال تھیں یہ عظیم خاتون اپنی پاکیزہ فطرت پر پورے استحکام کے ساتھ باقی رہیں اور دربار کے برے اخلاقی اقدار اور بیہودہ نظریات و روایات کا آپ کے بیدار ضمیر پر کسی قسم کا اثر نہیں پڑا ۔ خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور ميں عربوں کے ساتھ کسی جنگ ميں یہ قید ہو گئی تھیں۔

مال غنیمت اور قیدیوں کے ساتھ انہیں ایران سے مدینہ لایا گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

شہزادیوں کو اگرچہ کافر ہی کیوں نہ ہوں بیچنا نہیں چاہیے انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دو تاکہ مسلمانوں میں سے کسی کو اپنی ہمسری کے لیے پسند کر لیں۔ حضرت عمر رض نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس مشورہ سے ان کے احترام کو قائم رکھا اور بی بی شہربانو نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے چھوٹے بیٹے حضرت امام حسین رض  (جن کی عمر اس وقت تیس سال تھی اور انہوں نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی) کو پسند کیا تو انہوں نے ان سے نکاح کر لیا۔ حضرت علی نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ ان کا احترام و خیال رکھنا۔

اہل مدینہ کنیزوں سے شادی، نکاح نہیں کرتے تھے۔ حضرت امام حسین  رض کے اس انسانی اقدام سے بہ تدریج یہ رسم ختم ہو گئی اور مسلمانوں میں کنیزوں سے عقد کرنے کا رواج پیدا ہو گیا۔

 

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اتنی محبت تھی کہ ان کے فرزند ارجمند کو تمام صحابہ کرام چھوڑ کر ایک ہی شاہی خاندان ان کی حسین و جمیل خاتون شہر بانو بخش دی اس خاتون کے ساتھ وہ تمام زیورات اور شاہانہ پوشاک بھی تھی جو کہ باغ فدک سے کہیں زیادہ قمتی تھی یہی شہر بانو سلسلہ سادات کی جدہِ عُلیا بنیں یہ اہل بیت کے ساتھ فاروق اعظم کے بے پناہ محبت کی جیتی جاگتی تصویر ہے کیوں کہ اگر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دل میں کچھ رنج ہوتا تو اس صورت میں حضرت علی کی سفارش کوئی اثر نہ دکھاتی دوسری بات اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو خلیفہ برحق سمجھتے تھے کیوں کہ اگر نا حق سمجھتے تو ان کی خلافت میں حاصل ہونے والا مال غنیمت کبھی بھی حضرت علی اپنی اولاد کے لیے لینا پسند نہ فرماتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ نہ شہر بانو زوجہ حسین بنتیں اور نہ اہل بیت وجود میں آتے لہذا اس عبارت سے یہ بھی بات معلوم ہوتی ہے کہ اہل بیت کا پودا لگانے والے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہی ہیں اور یہ بات مسلمہ ہے کہ پودا لگانے والا پودے کی آبیاری تو کرتا ہے لیکن برباد ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تو کیسے ممکن کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اہل بیت کے مخالف ہوں اور اہل بیت اپنے محسن کے کس طرح بدخواہ ہو سکتے ہیں