مختصر احوال و فضائل سیدنا علی بن موسیٰ کاظم المعروف سیدنا رضا کاظم رحمۃ اللہ
حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒمختصر احوال و فضائل سیدنا علی بن موسیٰ کاظم المعروف سیدنا رضا کاظمؒ
ولادت: سیدنا موسیٰ کاظمؒ کے صاحبزادے "سیدنا علیؒ" 153 ھجری ماہِ ربیع الاول میں اپنے دادا سیدنا جعفر صادقؒ کی وفات کے 35 سال بعد مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔
نام: آپؒ کا نام آپ کے والد نے سیدنا مامون الرضا رکھا تھا اس لیے آپؒ رضا کے لقب سے مشہور ہو کر سیدنا علی رضاؒ کے نام سے پکارے جانے لگے۔
والدہ کا نام: آپ کی والدہ کا نام ارویٰ تھا ان کو ام البنین نجمہ اور شمانہ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔
وفات: سیدنا علی رضاؒ کی وفات جمعۃ المبارک رمضان المبارک 202 ھجری میں عراق کے شہر طوس کے علاقے سناباد کے مقام پر ہوئی سیدنا ہارون الرشید کی قبر بھی اسی علاقے میں واقع ہے یہ سیدنا ہارون الرشید کے قبہ سے مغربی جانب سرائے حمید بن قحبطہ الطائی کا علاقہ ہے۔
خلیفہ ہارون الرشید کے دور کی ایک کرامت:
آپؒ کی بعض کرامات:
خلیفہ مامون الرشید نے آپ کو اپنا ولی عہد مقرر کر دیا اس کے بعد جب بھی آپ اسے ملنے تشریف لاتے تو ملازم سرکار آپ کی آمد پر مامون کے دروازے پر لٹکے ہوئے پردے اٹھا دیتے ہیں تاکہ آپ اندر تشریف لے جائیں یہ معاملہ چلتا رہا حتیٰ کہ کچھ حاسدوں کو یہ برا لگا اور انہوں نے باہم صلاح و مشورہ کیا کہ اگر اب آئیں تو ان کے استقبال کو نہ کوئی کھڑا ہو اور نہ ہی پردہ اٹھایا جائے لیکن جب آپ تشریف لائے تو انہوں نے استقبال بھی کیا اور پردہ بھی اٹھا دیا جب آپ اندر تشریف لے گئے تو ایک دوسرے کو کوسنے لگے پھر باہم طے کیا کہ اگلے روز اپنے فیصلے پر مضبوطی سے ڈٹے رہیں گے آپ تشریف لائیں انہوں نے کھڑے ہو کر آپ کو سلام تو کیا لیکن پردہ اٹھانے میں لیت و لعل کرنے لگے قبل اس کے کہ وہ پردہ اٹھائیں اللہ تعالیٰ نے زوردار ہوا بھیجی جس سے پردہ خود بخود اٹھ گیا اور آپ اندر تشریف لے گئے ہوا بھی بند ہوگئی جب آپ نے واپسی کا ارادہ فرمایا تو پھر بھی ویسے ہی ہوا چلی پردہ اٹھا اور آپ باہر تشریف لے آئے حاسد یہ دیکھ کر کہنے لگے جسے اللہ تعالیٰ دوست رکھے اسے کوئی بھی نیچا نہیں دکھا سکتا پھر سے وہ اپنی پہلی روش پر خدمت کرنے لگے (شواہد النبوة صفحہ 344 تذکرہ سیدنا علی بن موسیٰ بن جعفرؒ)۔
بعض حفاظ سے منقول ہے کہ ایک عورت نے خلیفہ متوکل کے حضور اپنی نسبت سادات سے ظاہر کی متوکل نے ارد گرد بیٹھے لوگوں سے پوچھا کوئی اس کے سید ہونے کی تحقیق کرسکتا ہے تو سیدنا علی رضاؒ کی طرف لوگوں نے اشارہ کیا متوکل نے انہیں بلایا جب آپ تشریف لائے تو خلیفہ نے بہت احترام کیا تخت پر بٹھایا تو پھر اس عورت کے بارے میں سوال کیا آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے سیدنا حسینؓ کی اولاد کو درندوں پر حرام کر دیا ہے لہٰذا کسی سید کو درندہ نہیں کھا سکتا اس عورت کو بھی کسی درندے کے سامنے پیش کیا جائے جب خلیفہ نے اس عورت کو درندے کے سامنے کرنے کا ارادہ کیا تو وہ بول اٹھی میں جھوٹی ہوں کسی نے متوکل سے کہا کہ یہ تجربہ خود سیدنا علی رضاؒ پر بھی کرنا چاہیے جنہوں نے یہ تجویز بتائی متوکل نے اس کی بات مانتے ہوئے تین درندے بلوائے جب یہ تینوں محل کے صحن میں لائے گئے اور وہاں کھلے چھوڑ دیے گئے ادھر متوکل نے سیدنا علی رضاؒ کو بلایا جب آپ صحن میں داخل ہوئے تو دروازہ بند کر دیا گیا سیدنا علی رضاؒ اور درندے ایک ہی جگہ تھے لوگوں نے خاموشی سے شیر کی آواز سنی وہ گرج رہا تھا آپ صحن میں چلتے رہے اور جب سیڑھیوں پر چڑھ کر متوکل کے پاس آنے کا ارادہ کیا تو وہ درندے بھی آپ کے ساتھ چل دیے ارد گرد گھومنے لگے آپ اپنی آستین سے ان کو بہلا پھسلا رہے تھے درندے دروازے کے قریب آکر رک گئے اور سیدنا علی رضاؒ متوکل کے پاس تشریف لے گئے کچھ دیر اس سے گفتگو فرما کر واپس واپس تشریف لائے اور سیڑھیوں سے اترنے پر وہی درندے پہلے کی طرح آپ کے کپڑوں کے ساتھ چاپلوسی کرنے لگے اِدھر اُدھر گھومنے لگے حتیٰ کہ آپ دروازے سے باہر تشریف لائے بعد میں خلیفہ نے آپ کی کرامت سے متاثر ہو کر بہت بڑا نذرانہ پیش خدمت کیا بعد میں متوکل سے کہا گیا کہ جس طرح تمہارے چچا زاد بھائی علی رضاؒ نے کر کے دکھایا ہے تم بھی ایسا کر کے دکھلاؤ اسے یہ جرات نہ ہوئی اور کہا کہ تم لوگ میرے قتل کا ارادہ کیے ہوئے ہو پھر لوگوں سے کہا کہ اس واقعہ کو زیادہ اچھالنے کی ضرورت نہیں (کیونکہ شاید کچھ کم عقل یہ نہ سمجھیں کہ متوکل نے یہ سب کچھ سیدنا علی رضاؒ کو شہید کروانے کے لیے کیا تھا) (صواعقِ محرفہ صفحہ 205 تذکرہ سیدنا علی رضاؒ)۔
آپ کے مرتبہ و مقام کی ایک جھلک
آپ ایک مرتبہ نیشاپور میں گئے اور اس کی گلیوں میں پھر رہے تھے لوگوں نے ایک موٹے کپڑے سے آپ پر سایہ کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے لوگ آپ کی زیارت نہ کر سکتے تھے اتنے میں دو حافظ ایک ابو ذرعہ رازی دوسرے محمد بن اسلم طوسی مع اپنے بہت سے شاگردوں کے آۓ اور آپ کی زیارت کے لیے بڑی منت سماجت کی اور ان کی دلی تمنا تھی کہ اپ سے کوئی ایسی ایک حدیث سماعت کرے جو ان کے ابا و اجداد سے ان تک پہنچی ہو بہرحال آپ نے اپنے خچر کو روکا اور سایہ کرنے والا کپڑا ہٹا دیا لوگوں نے جی بھر کر زیارت کی آپ کی زلف شانوں پر لٹک رہی تھی کچھ لوگ چیخ رہے تھے کچھ رو رہے تھے کچھ مٹی میں لوٹ پوٹ اور کچھ آپ کے خچر کے پاؤں چوم رہے تھے علماء نے زوردار آواز سے کہا لوگو خاموش ہو جاؤ تاکہ دونوں حافظ آپ سے کوئی حدیث لکھوا سکیں خاموشی پر سیدنا علی رضاؒ نے فرمایا مجھے میرے والد سیدنا موسیٰ کاظمؒ انہیں ان کے والد سیدنا زین العابدینؒ انہیں ان کے والد سیدنا حسینؓ انہیں ان کے والد سیدنا علی المرتضیٰؓ انہیں رسول اللہﷺ نے اور آپﷺ کو جبرائیل امین نے اور جبرائیل امین کو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا لا الہ الا اللہ میرا قلعہ ہے جو بھی ان کلمات کو پڑھے گا وہ میرے قلعہ میں داخل ہو جائے گا اور جو میرے قلعہ میں آگیا وہ عذاب سے امن میں ہوگیا اس حدیث قدسی کی روایت کرنے کے بعد آپ نے پھر سے پردہ ڈال دیا اور چل پڑے آپ سے اس حدیث پاک کو لکھنے والوں کی تعداد کی گئی تو 20 ہزار کے لگ بھگ تھی اور ایک اور حدیث کی روایت یوں بھی آپ سے آتی ہے ایمان قلب کے لیے معرفت اقرار زبان کے لیے اور عملِ ارکان کے لیے معرفت ہے ہوسکتا ہے یہ دونوں احادیث الگ الگ واقعہ کے پیش نظر ہوں امام احمد کہتے ہیں کہ اگر میں اس حدیث کے اسناد کو پڑھوں تو اسے سن کر صاحب جنون تندرست ہو جاۓ (صواعقِ محرفہ صفحہ 205 تذکرہ سیدنا علی رضاؒ)۔