Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مختصر احوال و فضائل سیدنا علی بن محمد المعروف سیدنا نقی رحمۃ اللہ

  حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒ

مختصر احوال و فضائل سیدنا علی بن محمد المعروف سیدنا نقیؒ

ولادت: سیدنا محمد المعروف سیدنا تقیؒ کے صاحبزادے سیدنا علی بن محمد المعروف سیدنا نقیؒ کے پیدائش 13 رجب 214 ھجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔

والدہ: سیدنا امام نقیؒ کی والدہ کا نام ثمانہ تھا یہ ام الفضل بن معمون کی لونڈی تھی سیدنا نقیؒ کا لقب ہادی اور عسکری مشہور ہے آپ کی کنیت ابوالحسن تھی سیدنا نقیؒ اپنے اجداد کی طرح خدا ترس اور ولایت وریاضت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے خاندانِ نبوت کے یہ چشم و چراغ عمر بھر اپنے جد بزرگوار رسول اللہﷺ کی شریعت کے فروغ میں مصروف رہے۔

وفات: سیدنا نقیؒ کی وفات 254 ھجری جمادی الثانی (دو شنبہ) کو عراق کے ایک علاقے سرمن رائی میں ہوئی یہ علاقہ آپ کی ذاتی ملکیت تھا (از شواھد النبوة صفحہ 258)۔

آپ کی زندگی کا زیادہ حصہ مدینہ منورہ میں گزرا تھا آپ پر زہد اور ترک دنیا کا غلبہ تھا خلیفہ متوکل جو اپنے دور کا طاقتور حکمران تھا اس نے آپ کو بیشتر مراعات اور سہولتوں سے نوازا تھا علاقہ بھر میں آپ کی مرجع خلائق تھے آپ کی مقبولیت سے حکمران طبقہ سخت پریشان تھا اس کی خواہش تھی کہ کسی نہ کسی طرح سیدنا نقیؒ کو پریشان کیا جائے۔

سیدنا نقیؒ کی عجیب و غریب کرامت

متوکل کے پاس ہندوستان سے ایک شعبدہ باز آیا ہوا تھا متوکل نے اسے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم اپنے فن سے سیدنا ہادیؒ کو لوگوں کے سامنے شرمندہ کرو اگر ایسا کر سکو تو ایک ہزار دینار انعام ملے گا اس نے کہا منظور ہے چھوٹی چھوٹی چند روٹیاں لائی جائیں وہ دسترخوان پر رکھی جائیں اور سیدنا نقیؒ کو اس دسترخوان پر جہاں بٹھایا جائے مجھے ان کے پہلو میں جگہ دی جائے پھر دیکھنا کیا تماشہ بنتا ہے متوکل نے یہ سب کچھ مہیا کر دیا دسترخوان پر بیٹھنے کے بعد کھانا کھانے کی اجازت دی گئی جب سیدنا نقیؒ نے روٹیوں کی طرف ہاتھ بڑھائے تو روٹی ان سے دور ہو جاتی تین مرتبہ ایسا ہی ہوا اور حاضرین خوب ہنسے اتفاق سے ایسی جگہ ایک قالین بچھا ہوا تھا اس پر شیر کی تصویر بنائی گئی تھی سیدنا ہادیؒ نے اس تصویر کو حکم دیا اس شعبدہ باز کو پکڑ لو وہ تصویر صحیح شیر بن کر شعبدہ باز پر لپکی اور پکڑ کر اسے زمین میں گاڑ دیا پھر وہ اسی قالین پر واپس کندھ ہوگئی موکل نے ہر چند درخواست کی کہ حضور اس کو زمین سے نکال دیں مگر آپ نے نہ مانی بلکہ فرمایا بخدا تم اس شعبدہ باز کو کبھی بھی نہ دیکھو گے وہ مجلس سے باہر آیا اور آئندہ وہ شعبدہ باز کبھی نظر نہ آیا۔

(شواہد النبوت صفحہ 362 تذکرہ سیدنا علی نقیؒ)۔

سیدنا نقیؒ کی سخاوت و فیاضی اور خدا ترسی کا عظیم واقعہ

ایک مرتبہ سرمن رائے کے کسی گاؤں میں آپ قیام پذیر تھے ایک اعرابی وہیں چلا گیا آپ سے ملاقات ہوئی آنے کی وجہ پوچھی کہنے لگا میں آپ کے جدِ امجد سیدنا علی المرتضیٰؓ سے قلبی لگاؤ رکھتا ہوں میں بہت بڑے قرضے کے نیچے دب کر رہ گیا ہوں آپ کے سوا میری مشکل کو کوئی دوسرا حل نہیں کر سکتا لہٰذا کچھ کیجئے فرمایا گھبراؤ نہیں صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا میں تمہیں کچھ باتیں کہتا ہوں ان کو غور سے سنو اور ان کی مخالفت نہ کرنا اعرابی کہنے لگا میں آپ کے ارشادات کی کیسے مخالفت کرسکتا ہوں آپ نے اپنے مبارک ہاتھ سے ایک تحریر لکھی مضمون یہ تھا کہ اعرابی کو اتنے پیسے دے دو جو اس کے قرض سے زیادہ ہوں کیونکہ یہ مقروض ہے یہ رقعہ دیکھ کر فرمایا اسے لے جاؤ اور میں جب سرمن رائے میں واپس آؤں تو میرے پاس آنا اور مجھ سے قرض کا مطالبہ کرنا بلکہ کچھ گرم سرد باتیں بھی کہہ دینا دیکھو میری نصیحت کی مخالفت نہ ہونے پائے اعرابی نے وعدہ کیا اور خط ہاتھ میں لیے واپس آگیا جب سیدنا واپس سرمن رائے تشریف لائے آپ کے ارد گرد آپ کے جان نثاروں اور دوستوں کا مجمع تھا یہ اعرابی بھی آگیا اور اپنا مطالبہ پیش کر دیا ساتھ ہی وہ رقعہ بھی ان کے حوالے کر دیا آپ کے اس مطالبہ کے جواب میں نرم نرم گفتگو فرماتے اور اظہار معذوری بھی کرتے اور ادائیگی کا وعدہ بھی فرماتے جب اس واقعے کی خبر خلیفہ متوکل کو ملی تو اس نے 30 ہزار درہم بھیجے آپ نے تمام درہم اس اعرابی کو دیے اور فرمایا ان میں سے جو قرض ہے وہ ادا کرو اور باقی سنبھال کر رکھو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو اور مجھے معذور ہی خیال کرنا یہ عربی کہنے لگا اے فرزندِ رسولﷺ خدا کی قسم آپ نے جو مرحمت فرمایا مجھے اس سے تین حصے کم کی امید تھی سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ فلاں چیز کہاں جاتی ہے۔

(شواہد النبوت صفحہ 359 تذکرہ سیدنا علی تقیؒ)