نوحہ وماتم اور تعزیہ سازی کی رسم کہاں سے اور کب سے؟
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندایک تاریخ ایک حقیقت
نوحہ و ماتم اور تعزیہ سازی کی رسم کہاں سے اور کب سے؟
بات چل رہی تھی دس محرم تک شیعہ حضرات کی مختلف رسومات اور ماتم، نوحہ، تعزیہ وغیرہ کا جو شہادت حسین اور واقعہ کربلا کے پردہ میں ہورہا ہے تعزیہ سازی کی رسم کب سے اورکیسے شروع ہوئی اس سلسلہ میں مستند ترین شخصیت، فخرالمحدثین ابوالمآثر حضرت مولانا حبیب الرحمن محدث اعظمی رحمة اللہ علیہ رحمتہ واسعہ نے جو تحقیق فرمائی ہے اس سے بہتر کوئی دوسری تاریخی روایات نہیں ملتیں۔
حضرت محدث اعظمی رحمہ الله عليہ نے شیعوں کے ایک رسالہ ”عزاداری کی تاریخ اور اسکا اثبات سنی نقطئہ نظر“ کا جواب ابطال عزا داری کے نام سے دیا ہے جو دارالمبلغین کے ترجمان الداعی جلد 6 بابت ماہ جمادی الآخر 1361ھ کے شمارہ میں شائع ہوا تھا۔
شیعہ مولف نے اپنے رسالہ ”عزاداری کی تاریخ“ کے بارے میں لکھا ہے کہ عزاداری کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ میں نے اپنے رسالہ میں اس نظریہ علماء اہل سنت کی کتابوں سے ثابت کیا ہے (میں اسی کو بنیاد بنارہا ہوں حضرت ابوالمآثر کی تحقیق لکھتا ہوں) شیعی مولف رسالہ نے لکھا ہے شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد عزاداری بمعنی گریہ وماتم کی ابتداء یزید کے گھر سے ہوئی (ص5)، ملا باقر مجلسی ایک زبردست شیعہ مجتہد ومصنف ہیں وہ اپنی کتاب جلاء العیون ص524 میں لکھتے ہیں:
«جب اہل بیت حسین، یزید کے محل میں داخل ہوئے تو اہل بیت یزید نے زیور اتار کر لباس ماتم پہنا۔ صدائے نوحہ وگریہ بلندہوئی اوریزیدکے گھر میں تین روز تک ماتم رہا۔»
اسی طرح ناسخ التواریخ ص 278 اور منہج ص 328 میں اس ماتم کا ذکر ہے۔
پھر شیعہ مولف رسالہ میں لکھتا ہے:
«حضرت حسین کی شہادت کے بعد تین سو برس تک عشرہ محرم میں رونے پیٹنے کی رسم کا کہیں وجود نہ تھا 352ھ سب سے پہلے معزالدولہ ویلمی نے صرف دسویں محرم کو بغداد میں حضرت حسین کے ماتم کرنے کا حکم نافذ کیا اور اس کے بعد 363ھ میں المعزلدین اللہ فاطمی نے مصر میں بھی حکم جاری کیا۔ص10-11۔»
ہندوستان میں چھٹی صدی ہجری تک گریہ ماتم کا کہیں وجود نہیں ملتا۔
ہندوستان کے سوا دنیا میں کہیں بھی تعزیے نہیں بنتے اور ہندوستان میں بھی آٹھویں صدی تک اسکا کوئی نشان نہیں ملتا۔ (ص30-31)
یہ تمام عبارتیں شیعہ مولف کے رسالہ کی ہیں جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ یہ اہل سنت علماء کی کتابوں سے اخذ ہیں۔
ابوالماثر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: معزالدولہ ویلمی نہایت غالی شیعہ بلکہ تبرائی رافضی تھا اورالمعز لدین اللہ فاطمی ایک مجوسی النسل بے دین رافضی تھا۔ جس رسم کی بنیاد یزید نے ڈالی ہو اور معزالدولہ والمعز نے اس کو ترقی دی ہو ظاہر ہے کہ ایک غیرت مند سنی کو اس سے جس قدر نفرت ہوگی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصر و شام،ایران و افغانستان وغیرہ یہ رسم صرف شیعہ ادا کرتے ہیں جیسا کہ شیعہ مولف نے ص:19 میں خود تسلیم کیا ہے
”مصر و ایران وغیرہ میں عزائے حسین صرف شیعان علی سے مخصوص ہے“۔
ابوالمآثر رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ہمایوں کے زمانہ میں بھی ماتم کا کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں لیکن اگر ہوتا رہا ہو اس کی وجہ بھی صرف یہی ہوسکتی ہے کہ اس وقت ایرانی شیعہ ہندوستان میں آکر آباد ہوگئے ایرانیوں کی امداد کی وجہ سے ہمایوں بھی ان شیعوں کی دلدہی کرتا تھا چنانچہ شیعہ مولف کے رسالہ میں بھی اس کے اشارات پائے جاتے ہیں دیکھو،ص:35۔
بہرحال اب تک تھوڑی بہت جہاں یہ رسم ہوتی تھی صرف شیعوں کے ساتھ مخصوص تھی سنیوں کی شرکت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ہاں جب وہ زمانہ آیا جب بقول مولف تمام اطراف ہند میں شیعہ حکمراں تھے اس وقت ان کے حکمرانوں نے حکومت کے زور سے تعزیہ داری و ماتم کی ترویج کی اور سنیوں کو بجبر واکراہ تعزیہ دار بنایا جیساکہ ص38 و 39 کی عبارت اس کی غمازی کررہی ہے۔
تعزیہ سازی کا آغاز
یہ تو ابھی صرف گریہ وماتم اور نوحہ و زاری کی تاریخ ہے ابھی تعزیہ داری کو لیجئے تو یہ ایک ایسی بدعت ہے کہ ہندوستان کے سوا کسی جگہ کسی عہد میں اس کا نام و نشان نہیں پایا جاتا اور ہندوستان میں بھی خود مولف کے بیان کے مطابق قاضی شہاب الدین دولت آبادی کے زمانہ تک (یعنی نویں صدی ہجری تک( اس کا پتہ نہیں چلتا، تاریخیں، سفرنامے اور دوسرے مظان کل کے کل خاموش ہیں تیمور لنگ کو اس کا موجد قرار دینا عامیانہ روایت پر مبنی ہے مولف خود تصریح کرتاہے کہ اس کا تاریخی ثبوت اب تک فراہم نہیں کیا جاسکا ہے (ص 41 رسالہ عزاداری کی تاریخ)۔
بہرحال عالمگیر کے زمانے سے پہلے تعزیہ کا کہیں ذکر نہیں ملتا اور عالمگیر کے عہد میں صرف ایک تابوت بنانے کا ذکر جن صاحب نے لکھا ہے وہ غالی شیعہ تھے جیسا کہ مولف نے خود ہی لکھا ہے دیکھو ص33 و 39 عزاداری کی تاریخ۔
مضمون کے آخر میں محدث اعظمی ابوالمآثر رحمہ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
ناظرین غور فرمائیں کہ شیعہ مولف نے ماتم و تعزیہ کی جو تاریخ بیان کی ہے اس میں شیعوں کے سوا کسی دوسرے کا نام نہیں آتا لیکن رسالہ کی تمہید میں لکھتے ہیں کہ ”یہ رسوم فرقہٴ اہلسنّت سے زیادہ وابستہ ہیں“ یہیں سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ شیعوں کے مذہب میں سچائی کی کتنی قدر وقیمت ہے۔
تعزیہ داری حرام ہے
حضرت مولانا عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«تعزیہ داری درعشرئہ محرم وساختن ضرائح وصورت وغیرہ درست نیست زیراکہ تعزیہ داری عبارت ازیں ست کہ ترک لذائذ وترک زینت کند وصورت محزون و غمگیں نمایند یعنی مانند صورت زناں سوگ دارندہ بنشیند ومرد را ہیچ ازیں قسم در شرع ثابت نشود»
(فتاویٰ عزیزی ص 72 مطبوعہ دہلی)
(عشرئہ محرم میں تعزیہ داری اور تعزیے یا قبروں کی صورت بنانا جائز نہیں ہے اس لئے کہ تعزیہ نام ہے اس بات کا کہ لذیذ چیزوں اور زینت کو ترک کردے اور شکل وصورت غمگین و محزون بنائے یعنی سوگ والی عورتوں کی طرح بیٹھے، مرد کو یہ بات کسی موقع پر شریعت سے ثابت نہیں ہے۔)
تعزیہ داروں کی مجلس میں حاضر ہونا جائز نہیں
دراں مجلس بہ نیت زیارت وگریہ زاری حاضر شدن ہم جائزنیست زیراکہ آنجا زیارت نیست کہ جائے او حاضر شود ایں چوبہا کہ ساختہٴ او ہستند قابل زیارت نیستند بلکہ قابل ازالہ اند چنانچہ درحدیث شریف آورہ مَنْ رای منکم منکرًا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان (رواہ مسلم) و در مجلس تعزیہ داری رفتہ ومرثیہ وکتاب شنید اگر در مرثیہ وکتاب احوال واقعی نیست بلکہ کذب وافترا و تحقیر بزرگاں در ذکر پس شنیدن ایں چنیں مرثیہ وکتاب بلکہ دریں قسم مجلس حاضر شدن ہم روا نیست (فتاویٰ عزیزی ص73 مطبوعہ دہلی)
(اس مجلس میں گریہ وزاری کی نیت سے جانا کبھی جائز نہیں ہے اسلئے کہ وہاں زیارت کی چیز نہیں ہے کہ اسکے لئے حاضر ہو یہ لکڑیاں جو اسی کی بنائی ہوئی ہیں زیارت کے قابل نہیں ہیں بلکہ مٹانے کے قابل ہیں ، جیساکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص کوئی غیرشرعی چیز دیکھے تواس کو ہاتھ سے مٹادے، اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے اوراس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے برا جانے اور یہ ایمان کا ادنیٰ درجہ ہے،اور تعزیہ داری کی مجلس میں مرثیہ و کتاب سننا تو اگر مرثیہ و کتاب میں واقعی حالات نہ ہوں بلکہ کذب و افتراء اور بزرگوں کی تحقیر ہوتو ایسا مرثیہ و کتاب سننا بھی جائز نہیں ہے)۔
یہ ایک تلخ حقیقت اور مشاہدہ ہے کہ ہندوپاک اور بنگلہ دیش میں سنیوں کی آج ایک بہت بڑی تعداد تعزیہ داری اور سینہ کوبی اور نوحہ خوانی کی مشرکانہ رسم میں مبتلاء ہے اور بہت فخر سے خود کو اہل سنت والجماعت کے لقب سے یاد کرتی ہے۔اللہ ان کو ہدایت دے نیز تعزیہ داری کے جلوس میں مسلمانوں کی بڑی تعداد تماشہ بین کی حیثیت سے موجود ہوتی ہے جبکہ اس سے اجتناب ضروری ہے۔