ولایت فقیہ کا عقیدہ
حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒولایتِ فقیہ کا عقیدہ
ولایتِ فقیہ دوسرا یا دوسری بدعت ہے جس کا اضافہ ان لوگوں کے تسلط کے زیر اثر کیا گیا جو زمانہ غیبتِ کبریٰ میں امام مہدی کی نیابت کا دعویٰ کرتے ہیں یہ نظریہ دقیق تر معنیٰ میں حلوی نظریہ ہے جو اسلامی فکر میں مسیحی انداز فکر کی طرف سے آیا جو کہ اللہ تعالیٰ کے مسیح کی شکل میں اور مسیح کے فقیہ اعظم کی شکل میں ظاہر ہونے کا قائل ہے تفتیشی عدالتوں کے زمانہ میں سپین اٹلی اور فرانس کے ایک حصہ میں پاپائے روم بے پایاں خدائی اختیارات کے نام سے فیصلے کرتا اور پھانسی پر لٹکانے زندہ جلانے اور قید کرنے کی سزائیں سناتا تھا اس کے "گارڈ" پرامن گھروں میں شب و روز داخل ہوتے اور ان کے مکینوں کے ساتھ برا اور مفسدانہ سلوک کرتے غیبتِ کبریٰ کے بعد یہی بدعت شیعی طرز فکر میں شامل ہو گئی اس نظریہ نے اس وقت مذہب کا رنگ اختیار کر لیا جب شیعہ علماء نے امامت کے متعلق زیادہ زور دینا شروع کیا اور یہ کہنے لگے کہ یہ الہٰی منصب ہے جو رسول کے نائب کے طور پر امام کے سپرد کیا گیا ہے اور یہ کہ امام زندہ لیکن نظروں سے غائب ہے تاہم غائب ہونے کے سبب اس کے وہ اختیارات مفقود نہیں ہوئے جو اسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے حاصل تھے اور یہ اختیارات اس کے نائبین کی طرف منتقل ہو گئے ہیں کیونکہ غائب ہر معاملہ میں اس کی نمائندگی کرتا ہے جس کا وہ نائب ہو۔
اس طرح شیعی انکار کے بڑے حصہ کا احاطہ ولایتِ فقیہ نے کر لیا لیکن ان میں سے بہت سوں نے سابق الذکر معنیٰ میں "ولایت" کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ولایت رسول اللہﷺ اور ان کے بعد بارہ اماموں کے ساتھ خاص ہے اور امام کے نائبین کی طرف منتقل نہیں ہوتی فقیہ کی ولایت قاضی سے بڑھ کر نہیں ہوتی جو ایسے اوقاف کے لیے امین مقرر کر سکتا ہے جس کا کوئی متولی نہ ہو یا پاگل اور عاجز کا نگران مقرر کرنے کا اختیار رکھتا ہے
ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ "ولایت فقیہ" کا نظریہ عالم خیال سے علمی دائرہ کار میں آنے کا موقع نہیں پا سکا یہ موقع صرف اس وقت ملا جب ایران میں شاہ اسماعیل صفوی نے اقتدار پر قبضہ کیا یہ وہی زمانہ ہے جسے ہم نے شیعہ اور تشیع کے درمیان معرکہ آرائی کا عہد قرار دیا ہے۔
ایران پر شیعہ کا تسلط 907 ھ میں ہوا
شاہ اسماعیل ایک صوفی خاندان میں پیدا ہوا جس کا مستقر اردبیل شہر میں تھا جو ایران کے شمال مغرب میں واقع ہے اس کے آباء و اجداد صوفی تحریک کے مرکز و محور تھے جس کا شعار علی اور ان کے اہلِ بیتؓ کی محبت تھا اور ترکی آذربائیجان میں اس کا بڑا اثر رسوخ تھا 907 ھ میں شاہ اسماعیل نے قوت حاصل کر لی اور ایرانیوں اور عثمانیوں کے درمیان جنگوں کے بعد جنہوں نے ایران کو تباہ کر ڈالا ایران کا بادشاہ بن بیٹھا اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہ اسماعیل جس کی باوقار تاج پوشی ہوئی تو وہ صرف 13 برس کا تھا کہ پشت پر صوفی قیادت کار فرما تھی جو نوجوان بادشاہ کو اپنے مقاصد کے مطابق استعمال کر رہے تھے اور جب شاہ اسماعیل نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ایران قم قاشان اور نیشاپور جیسے چند شہروں کے سوا شیعہ کا وجود نہ تھا شاہ نے شیعیت کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دینے کا اعلان کیا صوفیوں کے جلوس ایرانی شہروں کے درمیان سیدنا علیؓ اور اہلِ بیتؓ کی مدح پر مشتمل اشعار و قصائد پڑھتے ہوئے آنے جانے لگے یہ لوگ عامۃ الناس کو شیعہ مذہب میں داخل ہونے کی ترغیب دیتے شاہ اسماعیل صفوی نے شیعہ مذہب اختیار کر لینے کا اعلان نہ کرنے والوں کی گردنیں تلوار سے اڑا دیں۔
اس مقام پر ایک لطیفہ بھی ہم ذکر کر دیں اصفہان کے شہری خارجی تھے جب ان تک شاہ کا شیعت قبول کر لینے یا ان کی گردنیں اڑا دینے کا حکم پہنچا تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں چالیس روز کی مہلت دی جائے تاکہ اس دوران وہ سیدنا علیؓ کو زیادہ سے زیادہ سبِّ و شتم کر سکیں بعد ازاں وہ نئے مذہب میں داخل ہو جائیں گے چنانچہ انہیں نے ان کی خواہش کے مطابق مہلت دی گئی اس طرح اصفہان بھی دوسرے شیعہ شہروں کی صف میں شامل ہو گیا۔
باوجود امریکہ شاہ اسماعیل بذاتِ خود اپنی پرورش اور صوفیانہ مقام کے اعتبار سے شیعہ ہی تھا لیکن ایران کو خالص شیعی رنگ میں رنگنا نئی حکومت کا درد سر تھا عثمانیوں کے ساتھ جنگیں اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے علاقائی جنگیں تھیں جن کی جڑیں قدیم تھی لیکن مگر اس سلسلہ کا جاری رہنا مسلمان کی مسلمان کے ساتھ جنگ حرام ہونے کے نظریہ سے متصادم تھا اور مسلمان کا مسلمان کو قتل کرنا ایسا معاملہ تھا کہ ایران کے اندر اسے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا عثمانی خلافت کے ساتھ منسلک رہنا اور خلیفہ کا مطیع رہنا جسے امیر المومنین کا لقب دیا جاتا تھا ایسا معاملہ تھا جس کے حامی موجود تھے لیکن شاہ اسماعیل کے ایرانی قوم کو سکھائے ہوئے نئے دین نے ایرانیوں میں شدید تعصب پیدا کر دیا اور عثمانی خلیفہ کی ایران کو خلافت عثمانیہ میں شامل رکھنے کی تمام امیدوں کا خاتمہ کر دیا اور اس وقت جب کہ شاہ خود کو صوفیوں کا مدار و محور سمجھے ہوئے تھا شیعوں نے ایسی شان و شوکت حاصل کر لی جس کی مثال نہیں ملتی مگر اس نے بھی ولایت فقیہ کا سہارا لیا۔
ہمارے زمانہ کی تاریخ میں جو کہ شیعہ اور تشیع کے درمیان معرکہ آرائی کا دور ہے ولایت فقیہ شیعہ ممالک میں جو حوادث کے اسٹیج پر خونخوار اور تند و تیز صورت میں ظاہر ہو رہی ہے جس نے تمام انسانی اور اسلامی اقتدار کو بیک قلم مٹانا شروع کر دیا ہے اس نظریہ کے بارے میں فقہاء کے درمیان پھوٹ پڑنے والا اختلاف جس نے خوفناک معرکہ آرائی کی صورت اختیار کر لی ہے نیز حکمران فقہاء کا جبر تشدد جس کا نشانہ حکومت سے باہر رہنے والے فقہاء کو بنایا گیا شاید اندوہناک ترین اختلافات میں سے ہے جن کی ذمہ داری ولایت فقیہ کے سر پر ہے۔
جیسا کہ تھوڑی دیر پہلے کہہ چکا ہوں کہ میں فقہی بحثوں جدل سے ہٹ کر بعض دیگر اہم ترین زادیوں سے متعہ کا گہری نظر سے جائزہ لوں گا فرزندانِ شیعہ امامیہ میں سے تعلیم یافتہ اور مہذب طبقہ کے ساتھ اس کی بھیانک صورت رکھوں گا میری تمام اصلاحی کوشش اور اس کی عملی صورت اگر اس طبقہ کے ساتھ وابستہ ہے انہی سے مجھے امید اور توقع ہے کہ وہ اصلاحی تصحیح کی مساعی کو آگے چلانے کے لیے قیادت کریں گے بلاشبہ جو اسلام انسان کی تکریم کے لیے آیا ہے جیسا کہ درج ذیل آیت میں ارشاد ہوا ہے:
وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ الخ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 70)۔
"ہم نے بنی آدم کو عزت و تکریم بخشی"۔
رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:
انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق (الحدیث)
"مجھے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے"۔
کیا ممکن ہے کہ یہ اسلام کوئی ایسا قانون دے جس میں ایسی جنسی اباحت ہو اور عورت کے وقار کی اس حد تک توہین کی گئی ہو جس کی نظیر ہمیں اباحیت پر قائم معاشروں کی قدیم و جدید تاریخ میں کہیں نہ مل سکے حتیٰ کہ "لوئی چہار دہم" "وارسا" میں واقع اپنے محل میں ترکی اور فارسی بادشاہ اپنے محلات میں ایسا کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔
مذکورہ بالا آیت میں بنی آدم کے لفظ میں مرد و عورت برابر شامل ہیں اور جن مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے رسول اللہﷺ تشریف لائے تھے وہ بھی مرد و عورت دونوں جنسوں کے لیے ہیں قانون متعہ میں عورت کی تکریم اور اس کے اخلاق کی حفاظت کا کیا مقام ہے؟ اس قانون میں عورت کا مقام صرف ذلت اور رسوائی ہے اور اس کی حیثیت بالکل اس سودے کی ہے جسے جب چاہے ایک کے بعد دوسرا بغیر کسی حد و شمار کے بدلتا رہے عورت جسے اللہ تعالیٰ نے اس شرف سے نوازا ہے کہ جہاں وہ ماں کی حیثیت سے عظیم مردوں اور عورتوں کو برابر طور پر جنم دیتی ہے وہاں اسے ایک ایسا مرتبہ بھی دیا ہے جو ماں کے علاوہ کسی کو نہیں دیا فرمایا:
الجنۃ تحت اقدام الامھات۔
جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔
کیا اس بلند مرتبہ ماں کی شایان شان ہے کہ وہ اپنے اوقات یکے بعد دیگرے مختلف مردوں کی آغوش عشرت میں دادِ عش دیتے ہوئے گزارے اور ایسا ہو بھی شریعت کے نام سے؟۔
شیعہ مذہب میں متعہ کی کوئی گنجائش نہیں
ہمارے بعض فقہاء نے اللہ انہیں معاف کرے متعہ کی ایک تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہتے ہیں گویا یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس نے ایسا شرعی قانون بنایا جس کی بدولت مرد بدکاری میں مبتلا ہونے سے بچ جاتا ہے لیکن اس کے ذہن میں یہ پہلو نہ آیا کہ اسلام صرف مردوں ہی کا دین نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کے لیے نازل ہوا ہے جس میں عورتیں بھی شامل ہیں اور قوانین المیہ اور شرائع سماویہ اس لیے نہیں اترے کہ انسان کی شہوتیں اور جنسی تقاضے شریعت و قانون کے پردے میں پورے ہوتے رہیں اسلام تو اس لیے آیا ہے کہ لوگوں کو زمانہ جاہلیت کی اباحیت سے نکال کر فضائل و اخلاق سے آراستہ کرے نہ اس لیے کہ جاہلیت اور اس کے مظاہر کو تشریع اور قانون الہٰی کا تقدس دے۔
اسلام بیک وقت چار سے زائد بیویاں جمع کرنے کو حرام قرار دیتا ہے اور ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کے لیے سخت ترین شرط رکھتا ہے جیسے کہ آیت ذیل میں تصریح آئی ہے:
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً الخ۔ (سورة النساء آیت 3)
"پھر اگر ڈرو کہ ان میں انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی نکاح کرو"۔
اور بیویوں کے درمیان عدل قائم کرنا مشکل ترین کام ہے بعض اوقات تو ناممکن کی حد تک پہنچ جاتا ہے اس قسم کی شرط (عدالت) رکھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مرد کو مقید رکھا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ تعدد ازواج کے راستہ پر چلتا ہوا انسان طبعی تقاضے بشری ضرورت نسل اور خاندان کی تنظیم اور امت کے مفاد سے بڑھ کر شہوات نفسانی کی وادی میں چل نکلے اس لیے طلاق کی کراہت کے متعلق سختی سے بیان ہوا ہے جیسے کہ ارشاد نبوی:
ان ابغض الحلال الی اللہ الطلاق۔
"حلال امور میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے ناپسند طلاق ہے"
اور طلاق کو بھی سخت ترین شروط و قیود کے ساتھ مقید کر دیا ہے ان شروط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وقوعِ طلاق کے لیے دو گواہوں کی حاضری ضروری ہے
ایک ایسا آسمانی دین جس کا مؤقف نکاح اور اس کی شروط کے بارے میں اتنا واضح اور ٹھوس ہو کیا یہ بات قرین عقل ہے کہ وہ خود ہی اپنے اس قانون کے منافی کوئی ایسا قانون جاری کرے جس میں اتنی بے لگام اباحیت ہو کہ آسمان اور زمین اس سے لرزنے لگیں اور اسلام جیسا دین ایسی اباحیت کا اختیار دے۔
مجھے یقین ہے کہ میری یہ ندائے اصلاح اپنے گرد ان تمام فرزندانِ شیعہ کو جمع کر لے گی جو ایسے قلب و نظر سے بہرہ اور ایسی سوچ رکھتے ہیں جس سے وہ معاملے کی سنگینی گر انباری اور ذلت و رسوائی کا ادراک کرتے ہیں اور معاملہ آفتاب نصف النہار سے بھی زیادہ واضح اور ظاہر ہے۔
اصلاح:
یہاں مسئلہ تصحیح سے بہت زیادہ اہم ہے یہ بڑی ہو شربا حالتِ بد شیعہ افکار میں داخل ہو گئی ہے حتیٰ کہ وہ روایات جو اس کے حلال ہونے کے بارے میں آئی ہیں خواہ وہ کتب شیعہ میں ہوں یا دیگر لوگوں کی کتابوں میں حتیٰ کہ وہ روایات جو یہ بیان کرتی ہیں کہ یہ صدر اسلام میں جائز تھا حالانکہ خلیفہ سیدنا عمر بن خطابؓ نے اسے حرام قرار دے دیا میں یہی باور کرتا ہوں کہ یہ تمام روایات اسلام کے رخِ زیبا کو داغدار کرنے کے لیے وضع کی گئی ہیں اور دوسری جانب دیگر تمام اسلامی فرقوں نے اس نظریہ کی اہمیت اور اس کے بڑے بڑے معاشرتی اور اخلاقی مفاسد کی حقیقت کو پا کر اس کے مقابلے میں ایسا موقف اختیار کیا جو حق عدل اور فضیلت کے امتیازی نشانات کا حامل ہے لیکن ہمارے فقہاء شیعہ یا تو مسئلہ کی سنگینی کا ادراک نہیں کر سکے یا سب کچھ سمجھنے کے باوجود صرف جمہور اہلِ اسلام کی مخالفت کے شوق میں ہی غضب الہٰی کو دعوت دینے والی لعنت کو حلال قرار دیا اور اس کی اجازت دی کیونکہ جمہور مسلمانوں کی مخالفت کی فضیلت میں کئی روایات وضع کر کے انہیں جھوٹ اور بہتان باندھتے ہوئے سیدنا صادقؒ کی طرف منسوب کیا گیا جن میں آیا ہے:
الرشد فی خلافھم۔
"ہدایت ان کی مخالفت میں ہے"۔
یعنی اہلِ سنت والجماعت کی رائے سے اختلاف کرنے میں ہی رشد و ہدایت ہے ہمارے فقہاء کے فقہی استدلالات میں اس ناقابلِ فہم پچیدگی کے علاوہ میرا خیال ہے کہ وقتی نکاح کے نظریہ کو شیعہ خصوصاً نوجوانوں کے لیے مذہب کو جاذب نظر بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے کیونکہ اس مذہب میں کچھ خاص امتیازات جنہیں دیگر اسلامی مذاہب تسلیم نہیں کرتے بلاشبہ دین کے نام سے جائز قرار دے کر جنسی لالچ دینا ایک ایسا عمل ہے جو اپنے اندر ہر جگہ اور ہر وقت نوجوانوں اور کمزور طبع لوگوں کے لیے بڑی کشش رکھتا ہے جب میں اپنی کتب روایات میں ایسی روایات پڑھتا ہوں جو متعہ کی فضیلت اس کے ثواب اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے کے لیے ائمہ کے نام منسوب ہیں تو مجھے ہرگز کوئی تعجب نہیں ہوتا میں ان روایتوں کے بارے میں اپنی صریح اور واشگاف موقف کی طرف اس کتاب میں کئی مقامات میں اشارہ کر چکا ہوں اور ہمارے تمام تر توجہ اسی پر مرکوز ہے کہ شیعہ گروہ کو اللہ ان روایات سے نجات دلائے۔
میں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو شیعہ کے مستقبل اصلاح کے بارے میں ان کے موقف اس کے اصول و مبادی کی طرف غیر مشروط رجحان و میلان سے لمحہ بھر کے لیے بھی نا امیدی سے دوچار نہیں ہوں ہو سکتا ہے کہ اس اسلامی کوشش کو ابتدائی مرحلے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے لیکن کلمہ حق بالآخر اپنا راستہ خود بخود بنا لیا کرتا ہے بیدار مغز تعلیم یافتہ مہذب طبقہ جو اپنے آپ کو ناکارہ و افکار سے آزاد کرا سکتا ہے جو انہیں ماں باپ اور فقہاءِ مشائخ نے تلقین کیے ہوں کی خصوصی توجہ دنیا بھر میں شیعہ کے مستقبل کی بہترین ضمانت ہے۔
میں ایک بار پھر عارضی نکاح کی طرف آتا ہوں اور ان فقہاء سے سوال کرتا ہوں جو متعہ کے جواز اور اس پر عمل کے مستحب ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں کیا وہ اپنی بیٹیوں بہنوں اور رشتہ دار لڑکیوں کے ساتھ اس قسم کی کسی حرکت کی اجازت دینا پسند کریں گے یا ان کے بارے میں ایسی بات سن کر ان کے چہرے سیاہ پڑ جائیں گے رگیں پھول جائیں گی اور غصے پر قابو نہیں رکھ سکیں گے۔
عاشورہ محرم کے نام سے غلط رواج نواسہ رسولﷺ کے نام پر ہنگامہ آرائی
ضرورت کا تقاضہ ہے کہ ہم دس محرم کو سیدنا حسینؓ کے غم میں آہنی زنجیروں سے کندھے پیٹنے تلواروں اور سنگینوں سے سر پھوڑنے کا ذکر مستقل فصل میں کریں۔
چونکہ یہ بدصورت مظاہرہ تاحال شہادتِ سیدنا حسینؓ کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریبات و مجالس کی رسموں کا حصہ ہے اور ہر سال ایران پاکستان ہندوستان اور لبنان کے علاقوں میں برپا ہوتا ہے اور پاکستان کے بعض علاقوں میں تو اہلِ سنت اور شیعہ کے درمیان خونی معرکے کا سبب بنتا ہے فریقین کی سینکڑوں بے گناہ جانیں اس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالنا ضروری ہے۔
جیسا کہ ہم گزشتہ فصل میں کہہ چکے ہیں کہ شیعہ کئی صدیوں سے عاشورہ محرم کا دن بطورِ یادگار مناتے ہیں ان زیارتوں کی قرات کے علاوہ جن کا ہم تفصیل سے ذکر کر چکے ہیں اس دن شیعہ شعراء قبر سیدنا حسینؓ کے پاس اپنے قصائد بھی پیش کرتے ہیں حتیٰ کہ ایک عربی شاعر "شریف رضی" نے جب قبر سیدنا حسینؓ کے پاس اپنا "عصماء" نامی قصیدہ پڑھا جس کا مطلع ہے ع "کربلاء لازلت کرباو بلا" اور جب درج ذیل شعر پر پہنچا:
کم علی نریتک کما صرعوا
من دم سال مون قتل جری
"تیری قبر پر جب معرکہ بپا ہوا تو کس قدر خون بہا اور کتنے ہی قتل ہوئے"۔
تو رونے لگا اور اس قدر رویا کہ بے ہوش ہو گیا اور یہ بھی ثابت ہے کہ ائمہ شیعہ محرم کی 10 تاریخ کا اہتمام سے مناتے اپنے گھروں میں بیٹھ رہتے زائرین سے تعزیتیں قبول کرتے اس دن لوگوں کو کھانا بھی کھلاتے ان کے سامنے سیدنا حسینؓ اور رسول اللہﷺ کے اہلِ بیت کے فضائل اور ان کی شہادت کی یاد میں قصیدے پیش کرتے اور خطبے دیتے ہیں۔
زائرینِ کربلا میں اور قبرِ سیدنا حسینؓ کے پاس جلوس کی صورت میں اور انفرادی طور پر گزرتے اور گریہ زاری کرتے ہوئے مذکورہ زیارتوں کی تلاوت کرتے ہوئے اور یہ بھی اس احتفال و زیارت کا حصہ ہوتا ہے اور یہ رسم جو شیعی دنیا میں سیدنا حسینؓ کے لیے منعقدہ مجالس میں اب تک جاری ہے اس کا خاتمہ لازماً آہ و بقا پر ہوتا ہے۔ کیونکہ:
من بکیٰ تباکر علی الحسینؓ وجبت علیہ الجنۃ۔
ترجمہ: "جو شخص حسینؓ کے غم میں رویا اور مکر سے ٹسوے بہائے اس کے لیے جنت واجب ہے"۔
جیسا کہ ائمہ کی طرف منسوب بعض روایتوں میں ذکر ہے (نعوذ باللہ کیا ائمہ اسی بات کہہ سکتے ہیں)۔
ایسے ہی شیعہ سیدنا حسینؓ کے غم میں محرم و صفر میں سیاہ لباس پہنتے ہیں اور اس سیاہ پوشی کی عادت نے اس وقت خاصی وسعت اختیار کر لی جب شیعہ اور تشیع میں پہلا معرکہ بپا ہوا اور جب شیعہ سیاسی اور اس اسلامی سٹیج پر ایک ایسی قوت بن کر ابھرے جو برسرِ اقتدار خلافت کو ملیامیٹ کر دینا چاہتی تھی عاشورہ محرم کی تقریبات کی ترویج و ترقی میں بابو یہی خاندان کا بھی بڑا واضح کردار ہے جنہوں نے ایران و عراق پر خلافت عباسیہ کی حمایت کے نام سے حکومت کی لیکن ان محفلوں نے اس وقت عام رواج پکڑا اور شیعی طبیعت و مزاج کا گویا حصہ بن گئی جب شاہ اسماعیل صفوی نے زمام اقتدار سنبھال لی اور ایران کو شیعت میں داخل کر دیا اور اہلِ ایران میں مذہب کے ساتھ خصوصی تعلق پیدا کر دیا تاکہ ایران کے پڑوس میں واقع ممالک خلافتِ عثمانیہ کے مقابلے میں ڈٹ جائیں جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں اور صفوی شاہی دربار ہر سال عشرہ محرم میں سوگ منانے کا اعلان کرتا اور عاشورہ کے دن تقریب میں آنے والوں کا استقبال شاہ خود کرتا شاہی محل سرا میں اس غرض سے خاص محفل منعقد ہوتی جس میں عام لوگ جمع ہوتے اور شاہ بذاتِ خود ان میں حاضری دیتا ایسے ہی شاہ عباس اول صفوی اس نے پچاس برس حکومت کی اور وہ شاہان صفوہ میں قوت "گرفت" اور مکاری و عیاری میں سب سے بڑا ہوا تھا وہ بھی عاشورہ محرم کو سیاہ لباس پہنتا اور اپنی پیشانی پر کیچڑ مل لیتا اور جلوس جب سیدنا حسینؓ کی مدح اور ان کے قاتلوں کے خلاف اظہارِ نفرت کرنے کے لیے مرثے گاتے ہوئے سڑکوں پر چلتے تو شاہ مذکور ان کی قیادت کرتا تھا) یہ سب چیزیں بعد کی پیداوار ہیں جیسا کہ آگے آ رہا ہے)۔
زنجیر زنی کا شیعہ مذہب سے کوئی تعلق نہیں:
ہمیں یہ تو بالضبط معلوم نہیں ہو سکا کہ عاشورہ کے دن آہنی زنجیروں سے کندھے پیٹنے کا آغاز کب ہوا اور ایران عراق وغیرہ جیسے شیعہ علاقوں میں اس رسم نے کب رواج پایا لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تلوار سے سرکوبی اور اسے زخمی کر کے عاشورہ محترم کو سیدنا حسینؓ پر اظہارِ غم کا طریقہ ایران اور عراق میں ہندوستان سے انگریزی استعمار کے زمانے میں شروع ہوا ہے اور انگریز شاطر نے شیعہ کی جہالت سادگی اور سیدنا حسینؓ کے ساتھ اندھی عقل اور محبت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں سیدنا حسینؓ کے غم میں سرکوبی کو تعلیم دی۔
حتیٰ کہ ماضی قریب میں بھی بغداد اور تہران میں برطانوی سفارت خانے حسینی تعزیہ کے جلوسوں کی مدد کرتے رہے ہیں جو اسی مذکورہ بالا بدترین مظاہرے کی شکل میں گلیوں اور بازاروں میں چکر لگاتے تھے انگریزی استعمار کے ان بدترین جلوسوں کی کاروائی کی ترویج و اشاعت کے پسِ پردہ انتہائی مکروہ سیاسی مقاصد تھے وہ ان کی نمائش کو برطانوی عوام اور آزاد اخبارات کے سامنے جو حکومت برطانیہ کے ہندوستان اور دیگر اسلامی ممالک میں نو آبادیاتی نظام کی مخالفت کر رہے تھے بطور ایک معقول وجہ جواز کے پیش کرنا چاہتا تھا تا کہ وہ ان ممالک کے عوام کے وحشیانہ مظاہرے سے یہ ثابت کر سکے کہ یہ قومیں کسی ایک تعلیم کی محتاج ہیں جو انہیں جہالت و بربریت سے نکال سکے یہ تعزیتی جلوس جو دس محرم کو عام بازاروں کے چکر لگاتے ان میں کبھی ہزاروں لوگ شریک ہوتے جو آہنی زنجیروں سے اپنی پیٹھوں کو لہولہان کر لیتے تلواروں اور خنجروں سے اپنے سروں کو زخمی اور خون آلود کر لیتے ان کی تصویریں یورپ کے انگریزی اخبارات میں چھاپی جاتیں اس سے شاطر سمراجی یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ جن اقوام کی ثقافت کا مظہر یہ تصویری جھلکیاں ہیں نو آبادیاتی نظام کے ذریعے ان ممالک کے عوام کو شہریت و ترق کے راستے پر گامزن کرنا ہماری انسانی ذمہ داری ہے۔
کہتے ہیں کہ عراق میں انگریزی عہد اقتدار میں اس وقت کے عراقی وزیراعظم یاسین ہاشمی جب انگریزی راج ختم کرانے کے لیے مذاکرات کرتے لندن گئے تو ایک انگریز نے ان سے کہا ہم تو صرف اس لیے عراق میں رکے ہوئے ہیں کہ عراقی قوم کو احمقانہ انارکی سے نکالیں تاکہ وہ ہم دوش سعادت ہو سکے یاسین ہاشمی اس بات پر برا فروختہ ہو کر غصے کی حالت میں کمرہ مذاکرات سے باہر نکل آئے تو انگریز نے ان سے بڑی لجاجت اور نرم خوئی سے معذرت کر لی پھر پورے احترام سے ہاشمی کو عراق کے بارے میں ایک دستاویز فلم دیکھنے کو کہا جس میں نجف کربلا اور کاظمیہ کی شاہراہوں پر چکر لگاتے ہوئے تعزیہ سیدنا حسینؓ کے جلوس دکھائے گئے تھے جو بڑے خوفناک اور قابلِ نفرت منظر پیش کر رہے تھے گویا انگریز یہ کہنا چاہتا تھا کہ جس قوم میں ذرا بھر بھی تہذیب کا حصہ ہو وہ خود اپنے ساتھ یہ مار دھاڑ کر سکتی ہے؟۔
یہاں ایک پر لطف روشن خیالی اور حکمت پر مشتمل مکالمہ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا یہ گفتگو میں نے تیس برس قبل شیعہ فرقہ کے ایک بڑے عالم اور شیخ سے سنی تھی وہ باوقار کبیر الحسن شیخ دس محرم کے دن دوپہر بارہ بجے مقامِ کربلا میں روضہ سیدنا حسینؓ کے قریب میرے پاس کھڑا تھا اسی اثناء میں ایک جلوس بھنگڑا ڈالتا ہوا آیا سروں کو تلواروں سے زخمی کیے ہوئے غمِ سیدنا حسینؓ میں خون بہاتا ہوا ایک اور جم غفیر روضہ سیدنا حسینؓ پر وارد ہوا پیشانیوں اور پہلوؤں سے بھی خون بہہ رہا تھا انتہائی قابلِ نفرت شکل میں جسے دیکھ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے تھے پھر اس کے پیچھے ایک اور جلوس آگیا وہ بھی بہت بڑی تعداد میں تھا اور زنجیروں سے اپنی کمریں لپیٹ کر اپنے آپ کو خون آلود کیے ہوئے تھے ان جلوسوں کو دیکھ کر وہیں اس بوڑھے شیخ اور وسیع الظرف عالم نے کچھ سوالات کیے اور ہمارے مابین درج ذیل گفتگو ہوئی:
شیخ نے پوچھا: "ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے یہ خود ہی اپنی جانوں کو ان مصائب و آلام میں مبتلا کیے ہوئے ہیں؟"
میں نے کہا: "آپ سن نہیں رہے یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ وہ ہائے حسینؓ ہائے حسینؓ تو پکار رہے ہیں جس کا مطلب واضح ہے کہ یہ ماتمِ سیدنا حسینؓ میں اپنی یہ حالت بنائے ہوئے ہیں۔"
پھر شیخ نے نیا سوال کیا: "کیا سیدنا حسیؓن اس وقت قادر مطلق بادشاہ کے پاس پاک مقام میں نہیں ہیں؟"
میں نے کہا: "یقیناً وہیں ہیں"۔
شیخ نے پھر پوچھا: "کیا اس وقت سیدنا حسینؓ اس جنت میں نہیں ہے جس کی چوڑائی آسمان و زمین کی طرح ہے وہ متقیوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔"
میں نے کہا: "ہاں (بالکل اس جنت میں ہیں)"
شیخ نے سوال کیا: "کیا جنت میں بڑی بڑی آنکھوں والی تہ کیے ہوئے آبدار مورتوں کی طرح حوریں نہیں ہیں؟"
میں نے کہا: "ہیں"
شیخ نے ٹھنڈی آہ بھری اور رنج و غم سے بھرپور لہجے میں کہا صدِ افسوس ان بد دماغ جاہل لوگوں پر کہ یہ اس وقت سیدنا حسینؓ مرحوم کی خاطر اپنی یہ حالت بنائے ہوئے ہیں جبکہ سیدنا حسینؓ اسی لمحے جنت اور اس کی نعمتوں میں ہیں اور دائم نوجوان خدمت گزار ان کے اس پاس آفتابے آب خورے اور شراب ناب کے گلاس لے کر پھر رہے ہیں۔
ماتم سینہ کوبی اور زنجیر زنی کی حرمت
1352 ہجری میں جب شام کے سب سے بڑے شیعی عالم سید محسن امین عالمی نے ان جیسے اعمال کے حرام ہونے کا اعلان کیا اور اپنی رائے کے اظہار میں عدیم النظیر جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شیعہ سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ طوفان برپا کرنے سے باز آ جائیں تو انہیں علماء کی صفوں میں سے ہی بعض مذہب کے ٹھیکے داروں کی طرف سے بڑی زوردار مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور مذہب کے ان اجارہ داروں کے پیچھے سیدنا علیؓ کے الفاظ میں "کمینے بے لگام اور بے وقوف" لوگوں کی طاقت تھی اور قریب تھا کہ سید امین کے یہ اصلاحی اقدامات ناکامی سے دوچار ہوتے اگر ہمارے دادا مرحوم سید ابو الحسن شیعہ کے زعیم اعلیٰ کی حیثیت سے ان کے موقف کی تائید کر کے ان کی پشت پناہی نہ کرتے جدِ امجد نے ان اعمال کے خلاف سید امین کی رائے کے حق میں غیر مشروط تائیدی اعلان کیا اور ان کی حمایت میں فتویٰ جاری فرمایا۔
سید امین کی اصلاحی تحریک کے حق میں ہمارا دادا مرحوم کی تائیدی موقف کے بڑے دور رس اثرات ظاہر ہوئے اگرچہ سید ابو الحسن کے خلاف بھی کئی مجتہدین اور فقہاء نے آواز اٹھائی جیسا کہ اس سے قبل سید امین کا ان سے پالا پڑا تھا مگر سید ابوالحسن نے بالاخر اپنے ارفع و اعلیٰ مقام و مرتبہ کی وجہ سے سب کو زیر کر لیا اور جمہور شیعہ نے اس بزرگ ترین رہنما کا فتویٰ تسلیم کرتے ہوئے اس کی اطاعت شروع کر دی اور آہستہ آہستہ ان اعمال شفیعہ میں کمی واقع ہونے لگی اور یہ شریعت کی سکرین سے غائب ہونے لگے لیکن ان کے آثار بالکل مٹنے نہ پائے تھے بلکہ کچھ کمزور سے مظاہر اب بھی باقی تھے کہ جدِ امجدؒ 1365ھ میں وفات پا گئے تو شیعت کی نوخیز لیڈرشپ نے نئے سرے سے لوگوں کو ان اعمال کے لیے اکسانا شروع کر دیا اور ان کے اثرات پھر سے شیعی دنیا میں رونما ہونے لگے لیکن وہ صورت حال دوبارہ نہیں آئی جو 1353ھ سے پہلے تھی۔
اور جب ایران میں اسلامی جمہوریت کا اعلان ہوا اور اقتدار پر "ولایت فقیہ" نے قبضہ کیا تو مذہبی سیاست کے حصے کی حیثیت سے ان اعمال کے احیاء کے لیے احکام صادر ہو اور تازہ دم اسلامی جمہوریہ نے پوری دنیا میں موجود شیعہ کو مالی اور اخلاقی مدد کر کے اس بدعت کے احیاء کے لیے برانگیختہ کیا جسے انگریزی استعمار نے دو سو برس قبل عالم اسلام کے شیعی علاقوں میں رواج دیا تھا انگریز کا مقصد یہ تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کا یہ قبیح اور بدنما مظہر دنیا کے سامنے پیش کر کے عالمِ اسلام پر اپنے استعمار کا جواز حاصل کر سکے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔
اس وقت جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں صدِ افسوس کہ پاکستان ایران ہندوستان اور لبنان کے شہروں میں دس محرم کو ہر سال بڑے بڑے جلوسوں کے مظاہرے ہوتے ہیں بالکل اسی وحشیانہ صورت میں سڑکوں پر گشت کرتے ہیں جس کی ہم تصویر کشی کر چکے ہیں اور پھر اسی روز خوفناک جنون اور انسانی حماقت کے منہ بولتی تصویریں مشرق و مغرب کی ٹی وی سکرین پر دنیا کے سامنے پیش کی جاتی ہیں تاکہ اسلام اور مسلمانوں پر برے وقت کا انتظار کرنے والے دشمنانِ اسلام کی تقویت کا باعث بنیں (ممتاز شیعہ عالم کی زبان سے حقیقت پسندی کا یہ اعلان عجائبات سے کم نہیں)
اصلاح:
امامیہ شیعہ کے تعلیم یافتہ اور مہذب طبقہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ جاہل عوام کو ہر ممکن کوشش کر کے اس قسم کے کاموں سے روکیں جنہوں نے سیدنا حسینؓ کی انقلابی تحریک کا چہرہ مسخ کر کے اس کی اصل شکل بگاڑ دی ہے اور مبلغ اور واعظ حضرات پر تو اس سے بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اس بارے میں واضح ترین کردار ادا کریں یہاں میں پوری صراحت و وضاحت سے اس حقیقت کا اظہار کر دینا چاہتا ہوں کہ عاشورہ محرم کو شہادتِ سیدنا حسینؓ کا مقصد و سبب اس سے بہت بلند و بالا اور ارفع و اعلیٰ تھا جس کی تصویر آج شیعہ پیش کرتے ہیں آپ نے ہرگز جامِ شہادت اس لیے نہیں نوش کیا تھا کہ لوگ ان کے غم میں روئیں چہرے پیٹیں اور درماندہ و مسکین کی سی صورت اختیار کریں بلکہ امام ممدح تو ظلم و استبداد کے مقابلے میں شجاعت و بہادری اعظم بالجزم اور جان تک قربان کر دینے کا موثر ترین درس دینا چاہتے تھے چنانچہ اگر ضروری بھی ہو تو شہادتِ سیدنا حسینؓ کی یاد میں منعقد محفل سیدنا حسینؓ کے مقام و مرتبہ کے شایان شان اور طوفان بدتمیزی جہالت بیک وقت مضحکہ خیز اور رلا دینے والے اعمال سے ہٹ کر ہونی چاہی وہ ثقافتی اجتماعات کس قدر خوبصورت ہوں جن میں بلیغ خطبے اور قصائد پیش کیے جائیں اور راہِ حق میں جان دینے اور جہاد کرنے سے متعلق ہیں اس طریقے سے تعمیری انداز میں سیدنا حسینؓ کی یاد میں اپنے تربیت کرنی چاہیے تخریبی انداز اختیار کر کے اپنے کو ہلاک نہیں کرنا چاہیے اور ہم پر یہ فرض ہے کہ حمایت و مدافعت کے میدان میں سیدنا حسیؓن کا حق ادا کریں نہ کہ مسئلے کا حلیہ بگاڑ کر موصوف کے ساتھ اہانت و بدسلوکی کے مرتکب ہوں اگر ہم سیدنا حسینؓ کے ساتھ محبت و نصرت کا جذبہ صادق رکھتے ہیں تو ہمیں مذکورہ طریقہ کا اختیار کرنا ہوگا۔
شیعہ عالم کی تصریحات کے بعد
یہ تھا شیعہ مذہب کا وہ نقشہ جو عصرِ حاضر کے ایک شیعہ عالم اور نجف اشرف عراق کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب اور امام کے صاحبزادے ڈاکٹر موسیٰ موسوی کی زبانی آپ نے ملاحظہ فرمایا۔
ڈاکٹر موسوی کی کتاب اصلاح الشیعہ سے چند اِقتباس نقل کر کے ہم نے ایک طرف شیعہ مذہب کے اصلی عقائد سے ان کے انحراف کا نقشہ دکھایا ہےودوسری طرف ہم ناظرین کے سامنے یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ شیعہ مذہب کے موجودہ عقائد خود ان کے اپنے ائمہ اور قرونِ اولیٰ کے مقتداؤں اور پیشواؤں کی تعلیمات کے خلاف ہیں ڈاکٹر موسیٰ کے بقول سیدنا علیؓ کی خلفاءِ ثلاثہؓ کی بیعت اور باہمی تعلقات کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلفاءِ راشدینؓ کی تکفیر اور تنقید سے سیدنا علیؓ اور ان کی اولاد کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔
آگے چل کر ہم دیگر ائمہ اہلِ بیتؓ کی طرف سے شیعہ مذہب کے موجدوں اور راویوں کے بارے میں خود شیعہ کُتب ہی سے ایسی ہدایات پیش کریں گے جس سے اس مذہب کی ثقافت و استناد اور شرعی حیثیت کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔
جس مذہب کے راویوں کے کذاب اور مبالغہ آرائی کا حامل ہونے کی صراحت اس کے اساطین واضح طور پر کر چکے ہوں اسے محمدی شریعت کے ساتھ نتھی کرنا پرلے درجے کی حماقت اور جہالت ہے۔
کفریہ عقائد اور اسلام کو یکجا کرنے والا محمدی شریعت کا بہت بڑا باغی ہے۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ شیعہ کے نامور عالم دین نے اعتراف حقیقت اور معرفت اصلیت کی روشنی میں کس قدر کھلے دل سے دنیا بھر کے شیعہ کو کس درد بھرے انداز میں دعوت فکر دی ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین کے خلاف شیعہ کی تکفیر فتاویٰ جات اور تحریفِ قرآن متعہ تقیہ اور ماتم کو ائمہ اہلِ بیتؓ کی تعلیمات سے انحراف قرار دے کر جمہور مسلمانوں کے مسلک و مذہب کی حقانیت پر بھی یک گونہ مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
شیعہ عالم کی ان تصریحات کی روشنی میں ہم نے "تعلیماتِ آلِ رسولﷺ" کو شیعہ کی جدید نسل کے سامنے آشکارہ کیا ہے ہمارا مدعا سیدنا علیؓ اور آپ کی اولاد کی سچی تعلیمات سے بھولی بسری نئی شیعہ نسل کو ہم آغوش کرنا ہے ہم چاہتے ہیں ائمہ اہلِ بیتؓ سے کئی سو سال کے بعد وضع کیے جانے والے مذہب کے مقابلے میں خاندانِ نبوت کی حقیقی تعلیمات عام ہوں اس کے لیے شیعہ عالم کی حقیقت پسندانہ تصریحات کو بطورِ تائید پیش کیا گیا ہے۔