قرآن عظیم کے بارے میں ائمہ اہل بیتؓ کی تعلیمات
حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒقرآنِ عظیم کے بارے میں ائمہ اہلِ بیتؓ کی تعلیمات
قرآنِ عظیم خدا کی ایسی کتاب ہے جس کا آغاز ہی اس آیت سے ہو رہا ہے:
الٓمٓذَٲلِكَ ٱلۡڪِتَـٰبُ لَا رَيۡبَۛ فِيهِ الخ (سورة البقرہ آیت نمبر 1۔2)
ترجمہ: یہ ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔
اس کی حفاظت و صیانت کے بارے میں خدائی ارشاد ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (سورة الحجر آتی نمبر 9)۔
ترجمہ: ہم نے اس کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
خدائی حفاظت کی چادر کے بعد دنیا کا کوئی مسلمان یہ تصور ہی نہیں کر سکتا کہ وہ اس کی کسی آیت سورۃ رکوع یا پارہ کے تحریف و تبدل کا عقیدہ رکھے۔
آنحضرتﷺ کے دور میں جن آیات کی تلاوت یا مفہوم منسوخ ہوا وہ بھی وحی الٰہی کے خدائی حکم کی روشنی میں تھا ان آیات کو قرآن کی زبان میں ناسخ و منسوخ کہا گیا ہے جب کہ کسی انسان کی طرف سے اس کی آیات میں تبدیلی کا گمان بھی کسی مسلمان کے حاشیہ خیال میں ممکن نہیں خود قرآن کا بیان ہے:
اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗ (سورة القیامہ آیت نمبر 17)
ترجمہ: اس قرآن کو جمع کرنے کی ذمہ داری بھی ہم پر ہے۔
آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد عہدِ صدیقیؓ میں جب مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگِ یمامہ لڑی گئی اور اس میں 70 سے زائد حفاظِ قرآن شہید ہوئے تو سیدنا عمرؓ نے رائے دی کہ قراء اور حفاظ کی پے در پے شہادتوں کے باعث خطرہ ہے کہ قرآن کی صحت و حفاظت کا معاملہ کھٹائی میں پڑ جائے اس کے ساتھ سیدنا ابوبکرؓ کے حکم سے درختوں کے پتوں چمڑے کے پرتوں اور لکڑی کی تختیوں پر تحریر شدہ تمام قرآنی آیات کا دفتر جمع کیا گیا مدینہ منورہ اور اطراف کے تمام حفاظ اور قراء کی موجودگی میں قرآنِ عظیم کو پہلی مرتبہ صفحۂ قرطاس پر محفوظ کر دیا گیا۔
اس طرح اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗ (سورة القیامہ آیت نمبر 17)
کا خدائی وعدہ سیدنا ابوبکرؓ کے دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجتماع اور اتفاق سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔
سیدنا عثمانؓ کے دور میں تمام صوبوں اور اہم علاقوں کی تعداد کے مطابق قرآنِ پاک کے تمام نسخے کتابت کے زیور سے آراستہ کر کے دنیا بھر میں پھیلائے گئے۔
سیدنا امیرِ معاویہؓ نے عہدِ عثمانیؓ میں 70 بحری جہازوں کے ذریعے قرآن عظیم کو تین سو جزیروں میں پہنچایا قرآنِ عظیم کی جمع و ترتیب کے اس عظیم الشان کام میں سیدنا علیؓ برابر شریک رہے۔
آپؓ نے عہدِ صدیقیؓ عہدِ فاروقیؓ عہدِ عثمانیؓ میں قرآنِ عظیم کی تبویب تصویب اور ترتیب و تدوین میں نہ صرف یہ کہ کوئی اختلاف نہ کیا بلکہ مفید مشوروں سے خلفاء کو نوازتے رہے۔
قرآنِ عظیم کی موجودہ کیفیت ساری دنیا کے سامنے ہے کہ آنحضرتﷺ کی وفات سے لے کر سیدنا علیؓ کے عہدِ خلافت تک قرآنِ عظیم دو گَتوں کے درمیان محفوظ ہوا آنحضرتﷺ کے دورِ نبوت میں قرآن صفحۂ قرطاس پر منتقل نہیں ہوا تھا پہلے تین خلفاء کا 24 سالہ عہد جہاں ایک طرف خلافتِ راشدہ کے تابندہ انتخاب سے عبارت رہا وہاں اس عہد میں قرآنِ عظیم جیسی اولوالعزم خدائی دستاویز بھی جمع و ترتیب کے زیور سے آراستہ ہو کر ابدی حفاظت کے خلعت سے آراستہ ہو گئی کاغذ کے صفحات نے خدائی جواہر پاروں کو نقشِ دوام کی دولت سے مالا مال کر کے صبحِ قیامت تک کے لیے اس کے الفاظ کو چمکتے ہوئے موتیوں اور روشن جواہرات کی صورت میں اقوامِ عالم کے سامنے پیش کر دیا۔
قرآنِ عظیم کی معجزانہ حیثیت صرف اس صورت میں مانی جا سکتی ہے جب کہ اس کے ایک ایک حرف کو خدا کی طرف سے من و عن نازل شدہ مجموعه تسلیم کیا جائے مسلمانوں کا کوئی گروہ اس کی عظمت و حفاظت میں دو رائے نہیں رکھتا حنفی شافعی حنبلی اور مالکی چاروں فقہی مکاتبِ فکر اس کے مکمل ابدی ہونے اور غیر محرف و ناقابلِ تغیر صورت میں آج تک قائم رہنے پر متفق ہیں۔
سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ اور سیدنا ابوبکرؓ کے دور میں تراویح میں جو قرآن تلاوت کیا جاتا تھا وہ یہی قرآن تھا گھر گھر میں جس قرآن کی تلاوت ہوتی تھی وہ یہی تیس پاروں 114 سورتوں اور 6666 آیات والا قرآن تھا
اس پورے عہد میں سیدنا علیؓ سیدنا حسنؓ سیدنا حسینؓ سیدنا عباسؓ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سیدنا سلمان فارسیؓ سیدنا مقداد بن اسودؓ سیدنا ابوذر غفاریؓ سیدنا عمار بن یاسرؓ سمیت خاندانِ نبوت کے کسی فرد اور آنحضرتﷺ کے کسی صحابی نے کتاب کی ثقاہت و استناد پر کوئی کلام نہیں کیا۔
سیدنا علیؓ نے اپنے دورِ خلافت کے ساڑھے پانچ سالہ دور میں اسی قرآن کو مملکت کی اساس قرار دیا یہی تیس پاروں والا قرآن آپؓ کے دور میں مملکت کی ہزاروں مساجد میں پڑھایا جاتا رہا سیدنا علیؓ یا آپؓ کے صاحبزادوں میں کسی کی طرف سے اس کے اصلی نہ ہونے پر کوئی صراحت نہیں ملتی۔
شیعہ نے جس طرح کلمۂ طیبہ کی تحریف اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تکفیر کے سلسلے میں بعض جھوٹے راویوں کی طرف سے ائمہ اہلِ بیتؓ کی طرف مَن گھڑت اور شریعتِ محمدیہ کے اصول و قواعد کے خلاف باتیں منسوب کیں اسی طرح قرآنِ عظیم کے بارے میں بھی ائمہ کی طرف ایسی روایات منسوب کی گئی ہیں۔
سیدنا علیؓ اور سیدنا ابوبکرؓ کے تحریر کردہ قرآن کے دو نسخوں کی نمائش
1980 ء کے آغاز میں یمن کے میوزیم میں سیدنا علیؓ کے تحریر کردہ قرآن عظیم کے ایک نسخے کی نمائش کی گئی عالمی اداروں نے اس کی ویڈیو کیسٹیں تیار کیں سعودی حکومت نے اس کا پورا خاکہ سونے کے پرتوں پر منتقل کیا۔
ادھر ترکانِ عثمان کے قدیم دور سے استنبول (قسطنطنیہ) کے میوزیم میں سیدنا عثمانؓ کا کتابت شدہ نسخہ قرآن موجود ہے۔
خطاطی کے ماہرین اور عالم اسلام کے عظیم مفکروں نے قرآن کے دونوں نسخوں کے ایک ایک لفظ کو ہم آہنگ قرار دے کر اسے ایک دوسرے کا پر تو قرار دیا آج بھی یمن اور استنبول کے عجائب گھروں سے قرآن کے دو نسخوں کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
ان نسخوں کے آشکار ہونے کے بعد قرآن کے بارے میں سیدنا علیؓ اور خاندانِ نبوت کے نظریات کی بخوبی نشاندہی ہو جاتی ہے۔
سیدنا علیؓ کے نسخہ قرآن سے یہ بات واضح ہو گئی کہ چودہ سو سال سے دنیا بھر کے مسلمان جس قرآن عظیم کے جس صحیفہ عثمانیؓ پر ایمان رکھتے ہیں جسے تمام مسلمانوں نے اصلی نسخہ قرار دیا ہے سیدنا علیؓ کا نسخہ بھی اسی کا مماثل ہے اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سیدنا علیؓ اور مسلمانوں کا نسخہ قرآن ایک ہی چیز ہے۔
اس نسخۂ قرآن کی دریافت کے بعد شیعہ کی درج ذیل روایات پر غور کیجئے اور سر دہنئے کہ کس طرح قرآنِ عظیم کی ثقاہت و استناد اور حفاظت و صیانت کے اسلامی نظریے پر کلہاڑا چلایا گیا ہے۔
شیعہ نے قرآنِ عظیم کے بارے میں بھی دنیا بھر کے مسلمانوں سے جدا اور علیحدہ نظریہ اپنایا ہے اس نظریے کا نہ تو سیدنا علیؓ اور آپؓ کی اولاد کے کسی فرد سے کوئی تعلق ہے نہ ہی شیعہ کی ان من گھڑت روایات کو دنیا کے کسی بھی مسلمان کی تائید حاصل ہے۔
تحریفِ کلمہ طیبہ اور تکفیرِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح حفاظتِ قرآن کے عقیدے میں بھی شیعہ امت مسلمہ سے الگ سوچ کے حامل ہیں یہ عقیدہ بھی شیعہ نے اپنے ائمہ کی غلط باتوں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے گھڑا ہے جس طرح شیعہ نے عقیدہ امامت کے اثبات کے لیے دین اسلام کی جڑوں کو اکھاڑنے میں کسی مدافعت سے کام نہیں لیا اسی طرح تحریفِ قرآن کے بارے میں ان کی تمام اصولی اور بنیادی کتابوں میں کسی قسم کے شک و ریب کا اظہار نہیں سیدنا علیؓ اور اولاد کے نظریات کے برعکس شیعہ کی بنیادی کتابوں نے قرآن کے بارے میں درج ذیل نقطہ پیش کیا ہے:
قرآنِ مجید کے بارے میں شیعہ کے عقائد
تحریف اور تغیر و تبدل کے واقع ہونے میں قرآن تورات و انجیل ہی کی طرح ہے اور منافقینِ امت پر مسلط ہو کر حاکم بن گئے وہ قرآن میں تحریف کرنے کے بارے میں اسی طریقہ پر چلے جو طریقہ بنی اسرائیل نے اختیار کیا (فصل الخطاب صفحہ 70 بحوالہ بینات صفحہ 62)۔
وہ قرآن جو جبرئیلؑ محمدﷺ پر لے کر نازل ہوئے تھے اس میں سترہ ہزار آیتیں تھیں (اصولِ کافی صفحہ 671 بحوالہ بینات صفحہ 56)۔
اصل قرآن میں بہت سا حصہ ساقط کر دیا گیا ہے (صافی شرح اصول کافی جز ششم صفحہ 75 بحوالہ ایضاً صفحہ 56)۔
جو روایات صاف طور پر بتاتی ہیں کہ قرآن میں عبارت الفاظ اور اعراب کے لحاظ سے تحریف ہوئی ہے ان روایات کے صحیح ہونے اور ان کی تصدیق کرنے پر ہمارے اصحاب کا اتفاق ہے (بحوالہ ایضاً صفحہ 56)۔
یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ جو قرآن ہمارے پاس ہے وہ پورے کا پورا اس طرح نہیں ہے جس طرح محمدﷺ پر نازل ہوا تھا بلکہ اس میں کچھ حصہ ایسا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے قرآن کے خلاف ہے اور کچھ حصے میں تغیّر و تحریف واقع ہوئی ہے اور اس میں سے بہت سی چیزیں نکال دی گئی ہیں (دیباچہ تفسیر صافی بحوالہ احسن الفتاویٰ جلد 1 صفحه 75)۔
قرآن میں سے جو کچھ نکالا گیا ہے یا اس میں تحریف اور رد و بدل کیا گیا ہے اگر میں ان سب کو بیان کروں تو بات بہت لمبی ہو جائے اور وہ چیز ظاہر ہو جائے جس کے اظہار کی تقیہ اجازت نہیں دیتا (احتجاج طبری مطبوعه ایران صفحہ 128 بحواله ایضاً صفحہ 75)۔
قرآنِ مجید میں ایسی باتیں بھی ہیں جو خدا نے نہیں کیں (احتجاج طبرسی صفحہ 25 بحوالہ ایضاً صفحہ 81)۔
موجودہ قرآن میں خلافِ فصاحت اور قابلِ نفرت الفاظ موجود ہیں (طبرسی صفحه 30 بحواله ایضاً)۔
موجودہ قرآن کو اولیاء الدین کے دشمنوں نے جمع کیا (ایضاً)
موجودہ قرآن کی ترتیب خدا کی مرضی کے خلاف ہے (فصل الخطاب صفحہ 30 بحوالہ ایضاً)۔
سیدنا علیؓ کا نام قرآن میں کئی مقامات سے نکال دیا گیا (دیباچہ تغییر صافی بحوالہ ایضاً صفحہ 75)۔
آیت وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِيمًا (پارہ نمبر 22 سورۃ الاحزاب آیت 71) اس طرح نازل ہوئی تھی و من يطع الله ورسوله في ولايه على والائمه من بعده فقد فاز فوزا عظيما یعنی جس نے سیدنا علیؓ اور ان کے بعد کے اماموں کے بارے میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کی پس اس نے بہت بڑی کامیابی پا لی (اصولِ کافی صفحہ 262 بحوالہ ایضاً صفحہ 79)۔
آیت فَبَدَّلَ ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ قَوۡلاً غَيۡرَ ٱلَّذِى قِيلَ لَهُمۡ فَأَنزَلۡنَا عَلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ رِجۡزً۬ا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ بِمَا كَانُواْ يَفۡسُقُونَ (پارہ نمبر 1 سورۃ البقرہآیت نمبر 51) اس طرح نازل ہوئی تھی فبدل الذين ظالموا ال محمد حقهم قولا غير الذي قيل لهم فانزلنا على الذن ظلموا ال محمد حقهم رجزا من السماء بما كانو يفسقون یعنی ظالموں نے کہنے کے باوجود آلِ محمدﷺ کے حق کو بدل دیا اور آلِ محمدﷺ کے حق میں ظلم کرنے کی وجہ سے نافرمانوں پر ہم نے آسمانی عذاب نازل کیا (اصول کافی' صفحہ نمبر 267، بحوالہ ایضاً صفحہ نمبر 71)۔
آیت وَلَوۡ أَنَّہُمۡ فَعَلُواْ مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيۡرً۬ا لَّهُمۡ الخ (پارہ 5 سورۃ النساء آیت نمبر 66) یہ اس طرح نازل کی گئی تھی ولوانهم فعلوا ما يوعظون به فی على لكان خیر الهم یعنی اگر یہ لوگ سیدنا علیؓ کے بارے میں کی گئی نصیحت پر عمل کریں تو ان کے لیے بہتر ہو گا۔ (اصول کافی صفحہ 268 بحوالہ ايضاً)۔
جو دعویٰ کرے کہ اس نے پورا قرآن جس طرح کہ وہ نازل ہوا ہے جمع کر لیا ہے وہ انتہائی درجہ کا جھوٹا ہے پورا قرآن تو صرف سیدنا علیؓ اور ان کے بعد اماموں نے جمع کیا ہے (صافی کتاب الحجہ بحوالہ بینات صفحہ 102)۔
قرآن جس طرح نازل ہوا تھا اس کو رسول اللہﷺ کی وصیت کے مطابق صرف سیدنا علیؓ نے آپﷺ کی وفات کے بعد چھ مہینے مشغول رہ کر جمع کیا تھا جمع کرنے کے بعد اسے لے کر ان لوگوں کے پاس آئے جو رسول اللہﷺ کے بعد خلیفہ بن گئے تھے آپؓ نے فرمایا: اللہ کی کتاب جس طرح نازل ہوئی ہے وہ یہ ہے پس ان سے سیدنا عمرؓ نے کہا کہ ہم کو تمہاری اور تمہارے اس قرآن کی ضرورت نہیں تو سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ آج کے دن کے بعد اس کو نہ تم دیکھ سکو گے اور نہ کوئی اور دیکھ سکے گا یہاں تک کہ میرے بیٹے مہدی علیہ السلام کا ظھور ہو گا اس قرآن میں بہت سی زیادات ہیں جب مہدی ظاہر ہوں گے تو موجودہ قرآن آسمان کی طرف اٹھا لیا جائے گا اور وہ اس قرآن کو نکال کر پیش فرمائیں گے جس کو سیدنا علیؓ نے جمع فرمایا تھا (انوار النعمانیہ جلد دوم طبع ایران از سید نعمت الله الموسوی الجزائری صفحه 357 تا صفحه 364 بحوالہ بینات صفحه 59)۔