شیعہ کو ووٹ دینا سخت گناہ کی بات ہے
شیعہ کو ووٹ دینا سخت گناہ کی بات ہے
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے میں کہ: مذہب اہلِ سنت والجماعت کے اپنے مذہبی عالم، فاضل یا اپنے مذہب کا کوئی دیندار کے ہوتے ہوئے، اس کو چھوڑ کر دنیاوی لالچ یا وہمی دباؤ کی وجہ کر کے اہلِ شیعہ جو سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کا سبیّ شیعہ ہو، اور بے نمازی وغیرہ بھی ہو۔ اس کے ساتھ دستِ بیعت یا معاہدہ ہو کر وقتِ مقابلہ حق و باطل کا ہوتے ہوئے، سر میدان پر اہلِ سنت والجماعت کے کوئی چند افراد اپنے مذہب کو نظر انداز کرتے ہوئے، اپنے ووٹوں سے یا معاونت سے مذکورہ شیعہ کے ساتھ دستِ بیعت کرتے ہیں۔ جس سے اہلِ شیعہ باطل مذہب اپنے اپ کو سچا ہونا دلیل پکڑتے ہیں کہ ہم سچے ہیں ہمارا مذہب سچا ہے۔ اہلِ سنت والجماعت ایسے ایمان فروشوں کے لئے کیا فتویٰ دیتے ہیں؟ آیا وہ افراد ایمان پر قائم ہیں؟ اور نکاح باقی ہیں یا نہیں؟ نمازِ جمعہ اس کا پڑھنا پڑھانا جائز ہے یا نہیں؟ نیز دعا سلام کیسا ہے؟ اگر بے علمی کی وجہ کر کے زبانی معاہدہ کر بیٹھیں، کہ ووٹ شیعہ سبیّ کو دیویں گے تو اس وعدہ کا عند الشریعت کیا فیصلہ ہے نیز اگر اپنے مذہب کا ووٹ لینے والا کوئی نہ ہو تو اہلِ شیعہ کے لئے ووٹ استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: شیعہ امیدوار کو سنی کے مقابلے میں ووٹ دینا ناجائز اور سخت گناہ ہے لیکن صرف چونکہ ووٹ دینا اس کے مذہب کی تصدیق اور حق سمجھنا نہیں ہے۔ لہٰذا مؤمن باقی رہے گا، اس کا نکاح بھی باقی ہو گا نمازِ جنازہ بھی اس کا پڑھا جائے گا. ہاں سنی کے مقابلے میں شیعہ کو ووٹ دینا گناہ ہے اسے توبہ کرنا لازم ہے۔
اگر شیعہ کو ووٹ دینے کا اس نے معاہدہ کر لیا ہے تو شریعت میں وہ اس معاہدے کا پابند نہیں ہے بلکہ اسے اس کے خلاف ضرور کرنا چاہئے اور قسم اٹھانے کی صورت میں اس کے اوپر لازم ہے کہ قسم توڑ کر سنی مسلمان کو ووٹ دے کر کفارہ یمین ادا کرے، اور اگر اپنا ہم مذہب کھڑا نہ ہو تو ووٹ کو استعمال نہیں کرنا چاہئے۔
چونکہ کسی ایک امیدوار نے منتخب ہونا ہوتا ہے۔ اس لئے امیدواروں میں جو دین و مذہب، میں اہلِ سنت والجماعت کے قریب ہو، دین و مذہب میں مفید ممبری کے لئے اس کے حق میں استعمال کریں۔
(فتاویٰ مفتی محمودؒ:جلد:11:صفحہ:380)