Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں ائمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کی تعلیمات

  حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒ

خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں ائمہ اہلِ بیتؓ کی تعلیمات

ہم نے پہلے دعویٰ کے مطابق شیعہ کتب سے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ 1400 سال سے امتِ مسلمہ جس "کلمہ طیبہ" کے جن دو اجزاء کو اسلام میں داخلے کی اساس قرار دے رہی ہے اسلام کا کلمہ اور سند لا اله الا الله محمد رسول الله ہے اس میں ایک لفظ کی بھی کمی بیشی کا کسی نے قول نہیں کیا حنفی حنبلی شافعی اور مالکی مسلمانوں کے تمام فقہی مکاتبِ فکر برصغیر پاک و ہند میں اہلِ سنت کے بریلوی اور دیوبندی اور اہلِ حدیث حضرات میں فروعی اختلاف کے باوجود کسی نے بھی اسلام کی بنیاد میں ادنیٰ سی تبدیلی کا کوئی قول پیش نہیں کیا۔

ہم نے شیعہ کتب سے ان کے بنیادی عقائد کی روشنی میں کلمہ طیبہ کی تبدیلی اور اس میں علی ولی اللہ وصی رسول اللہ اور خلیفہ بلافصل کے تین اجزاء کا اضافہ ثابت کر کے ایک طرف شیعہ مذہب کی اساس کو اسلام سے یکسر الگ اور جدا ثابت کیا ہے دوسری طرف جن ائمہ اہلِ بیتؓ سے دعویٰ محبت و الفت پر اس مذہب کی عمارت کھڑی کی گئی ہے ان کی طرف سے بھی شیعہ کے کلمہ کے علی الرغم مسلمانوں کے متفقہ اور اصلی کلمہ ہی کو اسلام کی بنیاد ثابت کیا ہے۔

اس کے بعد آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ائمہ اہلِ بیتؓ کے نزدیک الحمد سے لے کر والناس تک موجودہ قرآن ہی اصلی اور مکمل ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی کا قول خاندانِ نبوت کی طرف سے کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔

اب ہم ائمہ اہلِ بیتؓ کے وہ اقوال شیعہ کتب سے پیش کریں گے جس کے مطابق خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت و رفعت اور عدالت و ثقاہت آفتابِ عالم تاب کی طرح روشن نظر آ رہی ہے آنحضرتﷺ کی اولاد کی طرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف جو بعض باتیں ائمہ کی وفات کے دو تین سو سال بعد منسوب کی گئی ہیں وہ سفید جھوٹ اور من گھڑت روایات کا چربہ ہیں سیدنا علیؓ سے لے کر سیدنا حسن عسکریؒ تک کسی بھی امام یا خاندان کے کسی بھی بزرگ کی طرف سے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ یا کسی بھی صحابی کے خلاف کسی تصریح کا صحیح روایات میں کوئی ذکر نہیں شیعہ کے چھوٹے اور کذاب راویوں کی یہودیت زدہ کہانیوں سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے روشن کردار کو داغدار نہیں کیا جا سکتا سبائیت کی غلاظت سے آلود ہونے والی تاریخ بھی جماعتِ رسولﷺ کے تابناک کردار کو پراگندہ نہیں کر سکتی۔ 

ہم نے آنے والی سطور میں ائمہ اہلِ بیتؓ کے ارشادات نہایت عرق ریزی سے شیعہ کے ذخیرہ کتب سے جمع کر کے تصویر کا حقیقی رخ امتِ مسلمہ اور شیعہ کی نئی نسل کے سامنے پیش کیا ہے ان روایات کے مقابلے میں محمد بن يعقوب کلبی ملاباقر مجلسی قاضی نوراللہ شوستری اور خمینی کی کتابوں کا وہ مواد جس میں حضرات خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کافر و مرتد "منافق ابلیسں اور بدقماش تحریر کیا گیا ہے پر کام کے برابر اہمیت نہیں رکھتا ایک منصف مزاج شیعہ بھی جب ایک طرف سیدنا علیؓ سیدنا حسنینؓ کریمین سیدنا امام رضا کاظم سیدنا موسیٰ کاظم سیدنا تقی علیؒ، سیدنا نقی علیؒ اور سیدنا حسن عسکریؒ کے ارشادات کو اپنی ہی کتابوں سے ملاحظہ کرے گا اور دوسری طرف اسے 301 ھ میں شیعہ کے عہدِ انحراف کے بعد مرتب ہونے والی من گھڑت روایات کو دیکھے گا تو وہ یقیناً اپنے مذہب کے اس کھلے تضاد کے بعد ائمہ اہلِ بیتؓ کی تعلیمات ہی کو ترجیح دے گا۔

ہم دنیا بھر کے شیعہ کے سامنے قرآن و حدیث اور اسلامی فقہاء کی تعلیمات کی بجائے ایسی مقدس شخصیات کی طرف سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلفائے راشدینؓ کی منقبت و فضیلت کے اقوال پیش کر رہے ہیں جو شیعہ عقائد کے مطابق ان کے مذہب کی اساس ہیں راقم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خلفائے راشدینؓ کی عظمت پر اسلام میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی آئینی حیثیت" تصنیف کی تھی۔ 

اس میں قرآن عظیم کی 700 آیات کریمہ اور آنحضرتﷺ کی دو ہزار سے زائد احادیث کی روشنی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلفائے راشدینؓ کی عظمت و فضیلت بیان کی گئی ہے ایک مسلمان کے لیے آنحضرتﷺ کے مقدس رفقاء کی شانِ مرتبت کے لیے قرآن و حدیث کی گواہی کافی ہے لیکن شیعہ چونکہ قرآن میں تحریف اور احادیث رسول کے ذخیرہ کو سیدنا ابوہریرہؓ سیدہ عائشہؓ اور کئی دیگر حفاظ حدیث کے حوالے سے شک و اضطراب کی نظروں سے دیکھتے ہیں ہم نے اتمام حجت کے طور پر ائمه اہلِ بیتؓ کی طرف سے کسی اور کتاب یا ماخد کا سہارا لینے کی بجائے شیعہ ہی کی ہزاروں معتبر کتابوں اور ان کے مسلمہ محمدثین کی روایات سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خلفائے راشدینؓ کی تعریف و توصیف اور مذہب اہلِ سنت کی حقانیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔

سیدنا علیؓ سمیت ائمہ اہلِ بیتؓ کی تصریحات شیعہ کے لیے ان کی اپنی کتب کی روشنی میں پیش کر کے ایک ایسا خیر و جمع کیا ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں اب وہ کسی بھی تاویل سے اپنے کلمہ طیبہ عقیدہ تحریفِ قرآن اور تکفیر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و خلفائے راشدینؓ کا قول نہیں کر سکتا۔

شیعہ کے پرانے بزرگ تو شاید اپنی ہٹ دہرمی اور ضد کے باعث سیدنا علیؓ اور ائمہ اہلِ بیتؓ کی واضح تعلیمات کے بعد بھی خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح اور عظمت کے اقرار کرنے میں تامل کریں مجھے ان کی آنے والی نسلوں سے امید ہے کہ وہ من گھڑت روایات اور جھوٹ پر قائم ہونے والے مذھب کو اب "تقیہ" کی پیوند کار سے بھی قبول نہیں کرے گی ظاہر ہے اگر "اصول کافی" میں مذکور سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کھلی تکفیر کی روایات صحیح ہیں اگر بحار الانوار حق الیقین جلاء العیون تذکرہ الائمہ میں ملاباقر مجلسی کی طرف سے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے منافق اور کافر ہونے کی باتیں ان کے مذهب و دین کا حصہ ہیں خمینی کی کشف اسرار کی وہ عبارت جس میں اس نے سیدنا ابوبکرؓ کو دشمنِ قرآن سیدنا عمرؓ کو کافر اور سیدنا عثمانؓ کو بدقماش تحریر کیا ہے ان کی حیثیت سیدنا علیؓ اور ائمہ اہلِ بیتؓ کے اعتراف عظمت کے مقابلے میں کیا رہ جائے گی دونوں نقطہ ہائے نظر میں کسی کو تسلیم کیا جائے گا کس کو رد کیا جائے گا کس نظریے کو شیعہ کا نظریہ اور کسی نظریے کو ائمہ اہلِ بیتؓ کا مذہب قرار دیا جائے گا میں دنیا بھر کے شیعہ سے ایک بار پھر کہوں گا کہ اگر وہ سیدنا علیؓ اور ائمہ اہلِ بیتؓ کا مذہب رکھتے ہیں تو انہیں تغیر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و خلفائے راشدینؓ کو خود ائمہ اہلِ بیتؓ کے افکار کی روشنی میں غیراسلامی نظریہ تسلیم کرنا پڑے گا اصولِ کافی حق الیقین کشف الاسرار کے مجموعوں کو دریا برد کر کے ان نظریات کو خاندانِ نبوت کے نظریات سے متصادم قرار دینا ہو گا یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ سیدنا علیؓ کو تو اپنا امام تسلیم کریں لیکن سیدنا علیؓ چینخ چینخ کر جن خلفائے راشدینؓ کی عظمت کا اعلان کریں آپ انہیں کافر قرار دیتے رہیں سیدنا علیؓ اور آپ کی اولاد کے تمام بزرگ جس کلمہ طیبہ کو اسلام کی اساس قرار دیتے رہے آپ اس کا حلیہ بگاڑ کر دو اجزاء سے کلمہ طیبہ پانچ اجزاء کر کے بھی سیدنا علیؓ کا راگ الاپتے رہیں دین کی اساس کو تبدیل کرنے کی ایسی جرات تو یہودیوں عیسائیوں کو بھی نہ ہوئی ان کے کسی فرقے نے بھی اپنے مذہب کے کلمہ والی اساس کو تبدیل نہیں کیا۔ 

سیدنا علیؓ اور آپ کی اولاد نے جس قرآنِ عظیم کو اپنے دین کی سب سے اہم اور مکمل دستاویز کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا پھر سیدنا علیؓ نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں بھی اس کی کسی تبدیلی اور کسی تحریف کا ذکر نہیں کیا خلافت و حکومت میں مکمل بااختیار ہونے کے باوجود انہوں نے کسی جگہ بھی موجودہ قرآن کو نامکمل نہیں کیا کسی مجموعہ کو اس کے علاوہ اصلی قرار دے کر چھپانے اور غار میں لے جانے کا ذکر نہیں کیا خلافت و اقتدار میں ہر قسم کی بےبسی ختم ہو جاتی ہے پھر اس کا کیا کیا جائے کہ انہی اکابرین اور ائمہ اہلِ بیتؓ کا نام لے کر موجودہ قرآن کو محرف شدہ قرار دیا جائے اسلام کی جڑوں کو اکھاڑنے کا کام اسلام کے اساطین اور سر بر آوردہ اولاد رسولﷺ کے نام سے کیا جائے۔

اب شیعہ کی جدید و قدیم نسل کو دو میں سے ایک چیز کا انتخاب کرتا ہو گا "تعلیماتِ آلِ رسولﷺ" یا سیدنا علیؓ اور آپ کی اولاد کی وفات کے تین سو سال بعد من گھڑت رادیوں کے ذریعے قائم ہونے والا بے بنیاد "شیعہ مذہب" یہاں دونوں چیزیں ایک دوسرے کی صاف ضد معلوم ہو رہی ہیں دونوں نظریات میں تعلیماتِ آلِ رسولﷺ کو اسلام اور شیعہ مذہب کو کفر قرار دیئے بغیر کوئی چارہ کار ہی نظر نہیں آتا اندھیرا اور سویرا کیونکر ایک جگہ جمع ہو سکتا ہے کفر اور اسلام کسی طرح ایک ہو سکتا ہے نیکی اور بدی کو کس طرح یکجا قرار دیا جا سکتا ہے۔

ع ببیں تفاوت راکجا از کجا

خلفائے ثلاثہؓ کے بارے میں سیدنا علیؓ کے ارشادات

نہج البلاغہ اور دیگر شیعہ کتب کی روشنی میں سیدنا ابوبکرؓ کی افضلیت کا اعلان سیدنا علیؓ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے نام اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

وكان افضلهم في الاسلام كما زعمت و انصحهم لله ولرسولهﷺ‎ الخليفة الصديقؓ و خليفه الخليفة الفاروقؓ ولعمری ان مكانهما في الاسلام العظيم وان المصاب بهما لجرح في الاسلام شديد يرحمهما الله وجزاهما باحسن ما عملا (از نہج البلاغۃ از ابن میشم بحرانی صفحه 486 سطر 2 مطبوعه تہران) 

اے سیدنا امیرِ معاویہؓ! جیسا کہ تو نے کہا واقعی اسلام کے اندر آنحضورﷺ کے خلیفہ سیدنا ابوبکرؓ اور اس کے خلیفہ سیدنا عمرؓ سب سے افضل تھے اور سب سے زیادہ خدا اور رسولﷺ کے خیر خواہ تھے اور اپنی زندگی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ان دونوں کا درجہ اسلام میں بہت بڑا درجہ ہے اور یہ تحقیق ان دونوں پر مصائب آئیں تو اسلام پر زخم کاری آتا ہے خدا ان دونوں پر رحمت کرے اور انہیں ان کے نیک کاموں کا بدلہ دے ۔

نوٹ: اس مکتوب شریف میں سیدنا علی المرتضیٰؓ نے جن باتوں کا اقرار فرمایا ہے زمانۂ حال کے مدعیانِ حُبِ علیؓ ان کے ماننے سے قاصر ہیں پانچ باتیں اس مکتوب شریف کا طرۂ امتیاز ہیں۔

1۔ سیدنا ابوبکرؓ آنحضورﷺ کے خلیفہ برحق تھے اور سیدنا عمرؓ ان کے خیلفہ برحق تھے۔

2۔ سیدنا ابوبکرؓ تمام مسلمانوں سے افضل تھے اور ان کے بعد سیدنا عمرؓ سب سے افضل تھے۔

3۔ سیدنا ابوبکرؓ خدا اور رسولﷺ کے سب سے زیادہ خیر خواہ تھے اور اسی طرح سیدنا عمرؓ بھی تھے۔

4۔ دینِ اسلام کے اندر سیدنا ابوبکرؓ کا درجہ بہت بلند تھا اور ان کے بعد سیدنا عمرؓ اس مقام پر تھے۔

5۔ دینِ اسلام اور سیدنا ابوبکرؓ میں کامل اتحاد تھا یہاں تک کہ ایک کا نقصان دوسرے کا نقصان تھا۔

آپؓ نے مندرجہ بالا پانچ باتوں کا اقرار کرنے کے بعد دعائے رحمت کا آپؓ کو ہدیہ بھیجا پس انصاف اور دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم جو کہ سیدنا علیؓ کے نام لیوا اور عقیدت مند ہیں سیدنا ابوبکرؓ کے حق میں مندرجہ بالا مکتوب کی پانچ حقیقتوں کا کھلے دل سے اقرار کریں اور سیدنا ابوبکرؓ پر شب و روز شکریہ کے طور پر ہدیہ رحمت بھیجا کریں مگر کیا کیا جائے اور کیا لکھا جائے اور شیعہ کی شکایت کس کے سامنے رکھی جائے کہ جس ہستی کے ذکر کے ساتھ سیدنا علیؓ ہدیۂ رحمت بھیجتے تھے آج کل سیدنا علیؓ کے نام نہاد عاشق اس ہستی پر رحمت کی بجائے لعنت کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور سیدنا ابوبکرؓ کی تکفیر کے اعلان کو وہ نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ 

سیدنا علیؓ کے نظریات سے واضح تصادم رکھنے والا سیدنا علیؓ کی محبت کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے۔

سیدنا ابوبکرؓ کی خلافت کی تائید میں سیدنا علیؓ کی صراحت

ثم ان المسلمين من بعده استخلفوا اميرين منهم صالحين فعملا بالكتب والسنه واحسنا السيرة ولم يعدوا السنه ثم توفيا رحمهما الله (حدیدی شرح نهج البلاغه جلد اول جزو ششم صفحه 295)۔

پھر آنحضورﷺ کے بعد تمام مسلمانوں نے یکے بعد دیگرے دو بزرگوں کو خلیفہ مقرر کیا جو نہایت نیک کردار تھے پس ان دونوں نے قرآن اور سنتِ رسولﷺ پر عمل کیا اور طرزِ حکومت کو خوبصورت بنایا اور طریقہ رسولﷺ سے ذرہ بھر تجاوز نہ کیا اس کے بعد فوت ہوئے خدا تعالیٰ ان دونوں پر اپنی رحمت نازل کرے۔ 

نوٹ: سیدنا علیؓ نے اپنے اس مکتوب شریف میں بھی پانچ باتوں کا اعتراف کیا ہے۔

1۔ تمام مسلمانوں نے سیدنا ابوبکرؓ کو خلیفہ منتخب کیا آپؓ پر اجماع مکمل ہوا تھا۔ 

2۔ سیدنا ابوبکرؓ صالح تھے صالحیت دو قسم کی ہو ایک خود نیکوکار ہونا دوسرے خلافت کے لائق ہونا یہ صفت دونوں قسموں کو شامل ہے۔

3۔ قرآن و حدیث پر آپؓ نے عمل کیا اور عمل جبھی ہو سکتا ہے کہ علم ہو پس اس فقرہ میں سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کے قرآن و حدیث کے عالم اور عامل ہونے کا اقرار فرمایا ہے۔ 

4۔ سیدنا ابوبکرؓ کا طرزِ حکومت نہایت اچھا تھا پس جو لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں وہ سیدنا علیؓ سے اختلاف کرتے ہیں سیدنا علیؓ اس حکومت کے حق میں تھے۔

5۔ سیدنا ابوبکرؓ نے سنتِ رسولﷺ سے ذرہ بھر تجاوز نہ کیا پس جو لوگ کہتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ کی وفات کے بعد سیدنا علیؓ نے سیرتِ حضرات شیخینؓ پر عمل پیرا ہونے سے انکار کر دیا تھا کھلا جھوٹ اور فریب ہے کیونکہ جب سیدنا علیؓ اقرار کر رہے ہیں کہ حضراتِ شیخینؓ نے سنتِ رسولﷺ سے ذرہ بھر تجاوز نہ کیا تھا تو پھر سیرتِ شیخینؓ اور سنتِ رسولﷺ ایک ہی چیز ہو گئی اور ایک کے انکار کو دوسرے کا انکار لازم ہو گیا اس صورت میں اگر سیدنا علیؓ سیرتِ شیخینؓ کا انکار کرتے ہیں تو سنتِ رسولﷺ کا انکار بلا توقف لازم آتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جس کا تصور بھی سیدنا علیؓ کے حقیقی عقیدت مند نہیں کر سکتے۔

سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کا دورِ خلافت انصاف اور عدالت پر مبنی تھا

سیدنا علیؓ کے خطبے کا ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے: ثم استخلف الناس ابابكرؓ ثم استخلف ابوبکرؓ عمرؓ واحسن السيره وعدلا فی الامه (ناسخ التواریخ جلد سوم از کتاب دوم صفحہ 641)

پھر تمام لوگوں نے سیدنا ابوبکرؓ کو خلیفہ بنایا اس کے بعد سیدنا ابوبکرؓ نے سیدنا عمرؓ کو خلیفہ بنایا ان دونوں نے طرزِ حکومت کو نہایت اچھا بنایا اور امت میں انصاف اور عدالت کو قائم کیا۔

نوٹ: سیدنا علیؓ نے اس خطبے میں دو باتوں کا اقرار کیا ہے ایک تو سیدنا ابوبکرؓ کے طرزِ حکومت کی اچھائی کا اور دوسرے ان کا امت میں عدالت کا قیام اگر کوئی شخص ان دونوں باتوں میں غور کرے تو مقامِ سیدنا ابوبکرؓ کی حقیقت سے واقف ہو سکتا ہے۔

سیدنا ابوبکرؓ ہی خلافت کے زیادہ حق دار تھے

وقال علىؓ والزبيرؓ ما غضبنا الافى المشوره وانا لنرى ابابكرؓ احق الناس بها انه الصاحب الغار وثانی اثنين وانا لنعرف له سنه ولقد امره رسول اللهﷺ بالصلوه وهو حى (حدیدی شرح نہج البلاغه جلد اول جزو ششم صفحہ 293)۔ 

سیدنا علیؓ اور سیدنا زبیرؓ نے کہا ہماری شک رنجی محض مشورہ کی وجہ سے ہے اور ہم یقین جانتے ہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ سب سے زیادہ خلافت کے حق دار ہیں اس لیے کہ وہ صاحبِ غار اور ثانی اثنین ہیں اور یقیناً وہ عمر میں بھی بڑے ہیں اور خدا کے رسولﷺ نے اپنی زندگی میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا۔

نوٹ: اس ارشاد سے اس شک رنجی کی وجہ واضح ہو گئی جو بعض روایات میں آئی ہے اور جس کو بعض لوگ بڑے طمطراق سے عوام میں بیان کرتے رہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اس ناراضگی کی وجہ اپنا استحقاقِ خلافت ہے الحمدللہ کہ خود سیدنا علیؓ نے واضح کر دیا کہ ہماری شک رنجی اس واسطے نہیں کہ ہم خلافت کے مستحق ہیں اور سیدنا ابوبکرؓ خلافت کے اہل نہیں ہیں بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارے مشورے کے بغیر انتخابِ خلیفہ کیوں ہوا ہے؟ انتخابِ خلیفہ کے وقت ہم بھی موجود ہوتے اور سب سے پہلے بیعت کرنے والے ہم ہوتے اس چیز کے فوت ہو جانے کا غم تھا جو سیدنا علیؓ اور سیدنا زبیرؓ کے مال خاطر اور شک رنجی کا باعث تھا اسی چیز کو واضح کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ ہم خلافت کا حق دار سیدنا ابوبکرؓ کو جانتے ہیں۔

سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ حق پر تھے

سیدنا علیؓ خلفاءِ ثلاثہؓ کی صداقت پر خدا کو گواہ بنا رہے ہیں:

اللهم انی اشهدك و کفی ک شهیدا فاشهدا لی انک ربی و أن محمداﷺ رسولك نبی والأوصياء من بعده ائمتی (صحیفہ علویہ" مطبوعه نجف اشرف صفحه 37)

خدایا میں تجھے گواہ بناتا ہوں اور تیری گواہی کافی ہوتی ہے پس تو اس بات پر گواہ ہو جا کہ تو میرا رب ہے اور اس بات پر بھی گواہ ہو جا کہ محمدﷺ جو کہ تیرا رسول ہے وہ میرا پیمبر ہے اور اس بات پر گواہ ہو جا کہ آپﷺ کے بعد جو جانشین ہوئے ہیں وہ میرے امام ہیں۔

نوٹ: اس ارشاد میں جہاں سیدنا علیؓ نے خدا کے رب ہونے اور حضورﷺ کے پیغمبر ہونے کا اقرار کیا ہے وہاں آپﷺ کے جانشینوں کو اپنا امام تسلیم کیا ہے اور ظاہر ہے کہ ان جانشینوں میں پہلا نمبر سیدنا ابوبکرؓ بن ابی قحافہ کا ہے پس ان کو بھی امام تسلیم کر لیا گیا میرے خیال میں سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کی تعریف کی انتہا کر دی ہے اور انہیں وصی نبیﷺ اور امام خلق تسلیم کر لیا۔

سیدنا ابوبکرؓ ہی خلافت کے لائق تھے

سیدنا علیؓ نے سیدنا ابو سفیان سے خطاب کیا: 

امسک علیک فارنرئینا ابابكرؓ لها اهلا (حدیدی شرح نہج البلاغه جلد اول جزو ششم صفحه 291)

اے سیدنا ابو سفیانؓ اس بات سے باز رہ اس لیے کہ ہم نے سیدنا ابوبکرؓ کو خلافت کے لائق جانا ہے۔

نوٹ: سیدنا ابو سفیانؓ سیدنا علیؓ کو مشورہ دے رہے تھے کہ آپؓ خلافت کے لیے کھڑے ہو جائیں میں آپؓ کی ہر ممکن طریق سے امداد کروں گا اس کے جواب میں فرمایا کہ خاموش ہو جاؤ میں اس مشورہ کو قبول نہیں کرتا ہم نے سیدنا ابوبکرؓ کو خلافت کے لائق جان کر اس کے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔

سیدنا ابوبکرؓ کو خلافت کا اہل سمجھ کر خلیفہ تسلیم کیا ہے

سیدنا علیؓ نے فرمایا:

لولا ان رئينا ابابكرؓ اهلا لما تركناه (حدیدی شرح نہج البلاغه جلد اول جزو دوم صفحہ 74)

اگر ہم سیدنا ابوبکرؓ کو خلافت کے لائق نہ جانتے تو اسے اس مقام پر ہرگز نہ چھوڑتے۔ 

نوٹ: سیدنا علیؓ کی بہادری اور شجاعت کا تقاضا یہی ہے جو آپ کے اس ارشاد سے ظاہر ہو رہا ہے اکراہ اور اضطرار اور مجبوری سب کے سب آپؓ کی شان کے مناسب نہیں ہیں دعا ہے کہ خدا تعالیٰ مدعیانِ محبت کو معرفت عطا کرے آمین یا رب العالمین۔

سیدنا ابوبکرؓ سیدنا ابوذرؓ اور سیدنا سلمانؓ سے زیادہ تارک الدنیا کوئی نہیں سیدنا جعفر صادقؒ کا اعلان سیدنا جعفر صادقؒ سے مروی ہے آپ نے سیدنا ابوبکرؓ اور سیفنا سلمان فارسیؓ اور سیدنا ابوذر غفاریؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

من ازهد من هولاء (فروغ کافی جلد دوم کتاب المعيشۃ صفحہ 4 پر ایک طویل حدیث ہے)

یعنی مذکورہ بالا تینوں بزرگوں سے زیادہ تارکِ دنیا کون ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ سیدنا جعفر صادقؒ نے سیدنا ابوبکرؓ کے زاہد اور تارکِ دنیا ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔

حضورﷺ کے عمل کی وجہ سے سیدنا ابوبکرؓ کو ہم نے خلیفہ تسلیم کیا سیدنا علیؓ

قال علىؓ لما قبض النبیﷺ نظر باقی امرنا فوجدنا النبی قد قدم ابابكرؓ فی الصلوه فرضينا لدنيانا من رضى رسول اللهﷺ لديننا فقدمنا ابابكرؓ (طبقات ابنِ سعد مطبوعہ بیروت جلد سوم صفحہ 183)

سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرتﷺ کی روح مبارک قبض کر لی گئی تو ہم نے حکومت کے بارے میں سوچا پس آپﷺ نے جو سیدنا ابوبکرؓ کو نماز کے لیے آگے کیا تھا وہ ہمیں اس باب میں راہنما دستیاب ہو گیا اور خدا کے رسولﷺ نے جس شخص کو ہمارے دین کا پیشوا بنایا تھا ہم نے اس کو اپنی دنیا کا پیشوا بنا لیا اور سیدنا ابوبکرؓ کو امام اور سربراہ بنا لیا۔

سیدنا علیؓ کے اس ارشاد مبارک پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک مرضِ وفاتِ نبیﷺ میں امامت سیدنا ابوبکرؓ بار شاد پیغمبر تھی اور یہ خلافتِ سیدنا ابوبکرؓ کی زبردست دلیل تھی اور یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ سیدنا علیؓ اس دلیل کی دریافت کرنے میں تنہا نہیں ہیں بلکہ تمام بنو ہاشم اس چیز میں آپؓ کے ساتھ متفق ہیں۔

حضورﷺ نے کسی کو اپنا خلیفہ از خود نامزد نہیں کیا تھا

عن علیؓ بن ابی طالب انه قيل له الاتوصى؟ قال ما اوصى رسول اللهﷺ فاوصى ولكن ان اراد الله خيرا فسيجمعهم على خيرهم كما جمعهم بعد نبيهم على خيرهم (شافی شریف مرتضیٰ الھدیٰ مطبوعه تہران صفحہ 171)

سیدنا علیؓ سے عرض کیا گیا کیا آپ اپنا خلیفہ نامزد نہیں فرماتے؟ آپؓ نے جواب دیا کہ خدا کے رسولﷺ نے نامزد نہیں کیا تو میں کیسے نامزد کروں لیکن اگر خدا تعالیٰ مسلمانوں کے حق میں بھلائی کا ارادہ کرے گا تو ان کو اپنے میں سے بہترین آدمی پر متفق بنادے گا جیسا کہ نبی کریمﷺ کے بعد تمام مسلمانوں میں سے بہترین آدمی پر انہیں اجتماع عطا کر دیا تھا۔ 

نوٹ: یہ ارشاد بھی سیدنا ابوبکرؓ کے افضل ہونے پر دلالت کر رہا ہے نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدنا علیؓ نے بھی اپنے فرزندی ارجمند سیدنا حسنؓ کو نامزد نہیں کیا تھا اگرچہ بعض لوگوں نے اس روایت سے اختلاف بھی کیا ہے۔

پوری امت میں حضورکریم ﷺ کے بعد سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کا درجہ ہے

وروی ابوجحیفه و محمد بن علی عبد خير و سويد بن غفله و ابوحكيمه و غيرهم وقد قيل انهم اربعه عشر رجلا ان عليا عليه السلام قال في خطبته خير هذه الأمه بعد نبيها ابوبکرؓ و عمرؓ (شافی سید مرتضیٰ علم الھدیٰ مطبوعه تہران صفحہ 171)

ابوجحیفہ اور محمد بن علی اور عبدخیر اور سوید بن غفلہ اور ابوحکیمہ اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سے راوی روایت کرتے ہیں کہا گیا ہے کہ وہ چودہ عدد راوی ہیں کہ سیدنا علیؓ نے خطبے میں ارشاد فرمایا اس امت میں نبی کریمﷺ کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکرؓ پھر سیدنا عمرؓ ہیں۔

نوٹ: یہ ارشاد اسی طرح صفحه 428 نہج البلاغہ پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔