Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

ائمہ اہل بیتؓ کی طرف سے شیخینؓ کی فضیلت و عظمت کا اعتراف

  حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒ

ائمہ اہلِ بیتؓ کی طرف سے شیخینؓ کی فضیلت و عظمت کا اعتراف

سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ حضورﷺ سے محبت کرتے تھے

شیعہ کے دوسرے امام سیدنا حسنؓ کی تعلیمات

سیدنا حسن بن علیؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کی طرف نگاہ کرتے ہوئے فرمایا:

میں تم دونوں سے محبت کرتا ہوں اور جس سے میں محبت کرتا ہوں خدا اس سے محبت کرتا ہے اور تم دونوں سے ملائکہ کو بھی محبت ہو گئی کیونکہ خدا کو تم سے محبت ہے خدا اس سے محبت کرے جس کو تم سے محبت ہو خدا اس کا دشمن ہو جس کو تم دونوں سے دشمنی ہو جو تم دونوں سے میل رکھے خدا اس سے میل رکھے اور جو تم دونوں جدائی رکھے خدا اس سے جدائی اختیار کرے (نزہةُ المجالس جلد 2 صفحہ 374)۔

ظاہر ہے کہ سیدنا حسنؓ نے حدیثِ پاک پر پوری طرح عمل کیا اس لیے سیدنا حسنؓ کے نزدیک بھی وہ شخص بدترین ہے جو شیخینؓ کی تنقیص کرتا ہے آپ کے عقیدہ میں بھی شیخینؓ کی تنقیص کرنے والے خدا کے دشمن اور بدترین لوگ ہیں۔

سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کو برا کہنے والا اہلِ اسلام سے نہیں شیعہ کے چوتھے امام سیدنا زین العابدینؒ کا فرمان

سیدنا علی بن حسین (المعروف سیدنا زین العابدینؒ) کے پاس ایک شخص آیا اور ان سے کہا کہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کو رسول اللہﷺ سے کیا قرب حاصل تھا آپﷺ‎ نے فرمایا جو نزدیکی اور قرب ان کی قبروں کو حاصل ہے بحالتِ حیات بھی ان کو یہی قرب نصیب تھا (مسند احمد جلد 4 صفحہ 770 تہذیب التہذیب جلد 7 صفحہ 306)۔

اور جو لوگ حضرات خلفاءِ ثلاثہؓ آپ کے سامنے تنقیص کے لیے زبان بھی کھولتے تو آپ ان کو حکم فرما دیتے تھے کہ: ہمارے ہاں سے اٹھو اللہ تمہیں برکت نہ دے اور تمہارے گھر رحمت کے قریب نہ ہوں اور تم اسلام کے ساتھ مذاق کرتے ہو تم اسلام سے نہیں ہو! اٹھو! (الہدایہ والنہایہ الابنِ کثیر جلد 9 صحفہ 107)

سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ پر تبرا کرنا سیدنا علیؓ پر تبرا کرنا ہے

سیدنا زید بن علی بن الحسین (سیدنا حسینؓ کے پوتے) سیدنا علیؓ کی سیرت بتلاتے ہیں کہ: یقیناً سیدنا علیؓ کی سیرت و کردار سیدنا عمرؓ کے ساتھ مشابہ تھا اور ان دونوں حضرات کا ایک طریقہ اور ایک عمل تھا اس لیے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ سے تبرا و برات کرنا بعینہ سیدنا علیؓ سے بیزاری اختیار کرنا ہے (ریاض النضرۃ جلد 1 صفحہ 258)۔

شیعہ کے ممتاز بزرگ اور شاہِ ایران چاه قاچار کے وزیرِاعظم مرزا تقی اللسان الملک شیعی لکھتے ہیں کہ:

کوفہ کے مشہور لوگوں کی ایک جماعت (جس نے سیدنا زیدؒ کے ساتھ بیعت کی ہوئی تھی) سیدنا زیدؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگی کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے۔ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں؟ سیدنا زید بن امام زین العابدینؒ نے فرمایا کہ میں ان دونوں کے حق میں کلمہ خیر اور بہتر بات کے سوا کوئی قول نہیں کرتا اور میں نے اپنے خاندان سے بھی ان دونوں کے بارے میں کلمہ خیر کے بغیر کچھ نہیں سنا (ناسخُ التواریخ جلد 2 صفحہ 590 طبع ایران)۔

 دوسرے شیعہ بزرگ جمال الدین ابنِ منبہ (687ھ) نے اپنی کتاب عمدةُ الطالب میں اس کی تفصیل بھی بیان کی ہے اس میں لکھتے ہیں کہ:

(سیدنا زیدؒ کا کا یہ دو ٹوک جواب سن کر) کہنے لگے آپ ہمارے خلیفہ و امیر نہیں ہیں زید سے یہ لوگ متفرق ہو گئے اور ساتھ چھوڑ دیا سیدنا زیدؒ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا ہے پس ان کا نام رافضہ اور رافضی رکھا گیا (عمدةُ المطالب)۔

سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ سے دوستی رکھو سیدنا باقرؒ کا اعلان

کسی شخص نے سیدنا باقرؒ سے پوچھا۔

جعلنی الله فداك اريت ابابكرؓ و عمرؓ هل ظلما كم من حقكم شيئا اوقال ذهبا من حقكم شيئا فقال لا والذی انزل الفرقان على عبده ليكون للعالمين نذيرا ما ظلمنا من حقنا مثقال حبه من خردل قال جعلت فداك افاتولاهما قال نعم ويحك تولاهما فی الدنيا والآخره وما اصابك ففی عنقی ثم قال لعن الله بالمغيره و بنان فانهما كذبا علينا اهل البيت (حدیدی نہج البلاغہ جلد دوم صفحہ 296)۔

خدا مجھے آپ پر قربان کرے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کے بارے بتلائیے کیا انہوں نے آپ لوگوں کے حقوق میں سے کوئی چیز چھین لی ہے؟ سیدنا باقرؒ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ اس کی قسم جس نے اپنے بندے پر قرآن اتارا تاکہ تمام جن و انس کے لیے ڈرانے والا ہو ہمارے حقوق میں سے رائی کے دانہ کے برابر بھی کوئی چیز نہیں لی گئی پوچھنے والے نے عرض کیا میں ان دونوں سے دوستی رکھوں؟ سیدنا باقرؒ نے فرمایا ہاں اے میرے پیارے ان دونوں سے دنیا و آخرت میں دوستی رکھ اور اگر اس کی وجہ سے تجھ پر کوئی مصیبت آئے تو وہ میری گردن پر مراد یہ ہے کہ میں دنیا و آخرت میں ذمہ دار ہوں اس کے بعد سیدنا باقرؒ نے فرمایا خدا تعالیٰ مغیرہ اور بنان کو ہلاک کرے کیونکہ ان دونوں نے ہم اہلِ بیتؓ پر جھوٹ باندھے ہیں۔

سیدنا ابو بکرؓ خلافت کے اہل تھے سیدنا باقرؒ کا اعلان

ایک اعرابی نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ سے عرض کیا:

السست امرتنی ان لا اتامر على اثنين قال بلىٰ قال فما بالكل فقال ابوبكرؓ لم احدلها احدا غيرى احق منى قال ثم رفع ابوجعفر الباقر يديه وخفضهما فقال صدق صدق۔

(حدیدی شرح نہج البلاغہ جلد اول جزء ششم صفحہ 291)۔

کیا تو نے مجھ سے کہا نہیں تھا کہ دو آدمیوں پر بھی حاکم نہ بنوں؟ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے جواب دیا کہ ہاں میں اسی طرح کہا پس اعرابی نے کہا کہ پھر تو کیوں حاکم بن بیٹھا؟ سیدنا ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ ہاں حکومت اس لیے قبول کی کہ میرے بغیر کوئی شخص اس لائق نہ تھا راوی کہتا ہے کہ جب سیدنا محمد باقرؒ اس موقع پر پہنچے تو اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور فرمایا کہ سیدنا ابوبکرؓ نے سچ کہا سیدنا ابوبکرؓ نے سچ کہا۔ 

نوٹ: سیدنا محمد باقرؒ اس روایت کے راوی ہیں جب سیدنا ابوبکرؓ کے جواب پر پہنچے تو اس کی تصدیق کے لیے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف کر دیئے ہیں گویا خدا تعالیٰ کو سیدنا ابوبکرؓ کی صداقت پر گواہ بنا رہے ہیں پس سیدنا ابوبکرؓ نے جو فرمایا کہ پیغمبر کی خلافت کے لیے کوئی شخص مجھ سے زیادہ لائق نہ تھا سیدنا محمد باقرؒ نے اس بات کی سچائی پر خدا کو گواہ بنایا اور افضلیتِ سیدنا صدیقِ اکبرؓ پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔

جو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کے مرتبہ کو نہیں پہچانتا وہ جاہل ہے
 سیدنا باقرؒ کی تعلیمات

 سیدنا جعفر صادقؒ کے والد محترم سیدنا محمد باقرؒ فرماتے ہیں کہ:

تم اہلِ بیتؓ میں سے کوئی شخص گزرا ہے جو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ پر سب وشتم کرتا ہو انہوں نے فرمایا کہ نہیں میں تو ان دونوں حضرات کو دوست رکھتا ہوں اور ان سے موالات اور محبت رکھتا ہوں اور ان کے حق میں استغفار کرتا ہوں (طبقاتِ ابنِ سعد جلد 5 صفحہ 236)۔

شیعہ خیاط کہتے ہیں کہ:

جب میں سیدنا محمد باقرؒ کو رخصت کرنے گیا تو آپؒ نے بطورِ وصیت مجھے فرمایا کہ میری طرف سے اہلِ کوفہ کو پیغام دے دو کہ جو شخص سیدنا ابو بکرؓ و سیدنا عمرؓ سے بیزاری کرتا ہے میں اس سے بری ہوں اللہ تعالیٰ ان دونوں سے راضی ہوں اور ان کو راضی رکھیں (رياض النضرة جلد 1 صفحہ 58)۔

ایک مرتبہ جابر سے سیدنا محمد باقرؒ نے فرمایا کہ:

مجھے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عراق میں ایک قوم ہے وہ لوگ ہماری محبت اور دوستی کے دعویٰ دار ہیں اور سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کے متعلق کمی بیشی کرتے ہیں اور افسوس تو یہ ہے کہ الزام مجھ پر لگاتے ہیں کہ میں نے ان کو اس چیز کا امر کیا ہے (سیدنا محمد باقرؒ نے فرمایا کہ) ان کو اطلاع کر دو کہ اللہ تعالیٰ گواہ ہے کہ میں ان سے بری و بیزار ہوں اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر مجھے اس قوم پر حکومت حاصل ہو جائے تو ان کی خون ریزی و قتل کے اس کے (اللہ کے) ہاں تقریب و نزدیکی حاصل کروں مجھے رسول اللہﷺ کی شفاعت ہی نصیب نہ ہو اگر میں سیدنا ابو بکرؓ و سیدنا عمرؓ کے لیے استغفار نہ کروں اور ان کے حق میں ترنم و دعا کے کلمات نہ کہوں اللہ کے دشمن ان دونوں (کے مقام) سے غافل ہیں (صواعقِ محرقہ صفحہ 28)۔

اسی طرح ایک موقعہ پر فرمایا کہ: جو لوگ اس چیز کو میری طرف منسوب کرتے ہیں ربِ کعبہ کی قسم انہوں نے یہ سب جھوٹ اور دروغ گوئی کی ہے (تفسیر ابنِ کثیر جلد 2 صفحہ 553)۔

پھر فرمایا کہ: مغیرہ بن سعید اور بنان کے ساتھ اللہ تعالیٰ وہی معاملہ فرمائے جس کے وہ اہل ہیں ان دونوں نے ہم اہلِ بیتؓ پر جھوٹ اور افتراء و دروغ بنا بنا کر پھیلا دیئے اور ہماری طرف منسوب کر دیئے (ہم ان سے بری ہیں۔) (شرح نہج البلاغه لابنِ ابی الحدید شیعی معتزلی جلد 4 صفحہ 113 وفاء ابو وفا جلد 3 صفحہ 1001)۔

سیدنا محمد باقرؒ کا یہ فرمان جس کو شیعہ و سنی دونوں علماء نے نقل کیا ہے بڑا وزنی ہے اور ہزار توجہ کا مستحق ہے اس کو بار بار ملاحظہ کریں اور صحیح راہ حاصل کریں۔

شیعہ کے چھٹے امام سیدنا جعفر صادقؒ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی قبروں پر سلام پڑھتے تھے

سیدنا جعفر صادقؒ (148ھ) (جن کی طرف منسوب شیعہ فرقہ جعفریہ اپنی نسبت کرتا ہے) کا کیا رد عمل رہا ہے اور ان کے شیخینؓ کے بارے میں کیا عقائد و خیالات تھے وہ ملاحظہ فرمائیں اور فقہ جعفریہ کی حقیقت معلوم کریں سیدنا جعفر صادقؒ کا عمل ملاحظہ فرمائیے شیعوں کی مستند کتاب الشافی صفحہ 238 طبع قدیم میں ہے کہ:

سیدنا جعفر صادقؒ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کے ساتھ دوستی اور محبت رکھتے تھے جس وقت رسول اللہﷺ کے روضہ اطہر) پر صلوٰۃ و سلام کے لیے حاضر ہوتے تو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی قبور پر صلوٰۃ و سلام کہتے ہیں۔

انقلابِ زمانہ دیکھئے کہ سیدنا جعفر صادقؒ تو ان کی قبور مبارکہ پر سلام کہیں اور رحمت کی دعائیں کریں اور ان کے نام سے اپنے مذہب کو چمکانے والے یہ مجتہدین ان سے بیزاری اور لاتعلقی بلکہ کفر و ارتداد کے بے دریغ گولے پھینکیں۔

سالم کہتا ہے کہ سیدنا جعفر صادقؒ نے فرمایا کہ سیدنا ابوبکرؓ میرے نانا ہیں کیا کوئی شخص اپنے آباؤ اجداد کو گالی بھی دیتا ہے؟ یاد رکھو رسول اللہﷺ کی شفاعت ہی مجھے نصیب نہ ہو اگر میں سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ سے تولٰی اور دوستی نہ رکھوں اور میں ان کے دشمن سے بیزاری اختیار نہ کروں (سیرت عمر لابنِ جوزی صفحہ 32 طبع مصر)۔

شیعہ کے نامور مجید قاضی نورُ اللہ شوستری (1019ھ) لکھتے ہیں:

”ایک شخص نے سیدنا جعفر صادقؒ سے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کے متعلق سوال کیا تو امام موصوف نے جواباً فرمایا کہ یہ دونوں بزرگ امام تھے عدل و انصاف کرنے والے تھے حق بات پر قائم رہے حق پر ہی ان کا خاتمہ ہوا قیامت میں اللہ تعالیٰ ان پر رحمت نازل فرمائے (احقاق الحق جلد 1 صفحہ 16 طبر مصر)۔

ذرا آج کل کے شیعہ اور جعفریوں کا حال دیکھیں یہ تو شیخینؓ کو ظالم و غاصب اور ناحق اور نہ جانے کیا کیا خطاب دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رہتے ہیں اگر کوئی ان کے سامنے شیخینؓ کی تعریف کریں تو ان کی آنکھیں خون سے بھر آتی ہیں اور وہاں حال یہ تھا کہ سیدنا جعفر صادقؒ ان کے لیے دعائے رحمت اور انہیں عادل امام اہلِ حق ہی فرماتے تھے (بحواله رحماءُ بينهم جلد سوم از مولانا محمد نافع صاحب)۔

سیدنا جعفر صادقؒ کی عبارت میں کوئی پیچیدگی نہیں کہ جس کی تشریح و توضیح کی جائے لیکن شیعہ علماء نے اس عبارت کی ایسی توجیہیں کیں کہ الامان و الحفیظ نیکی بدی ہو گئی ایمان کفر بن گیا شیخ شیطان بن گیا (استغفر الله) مگر اپنی تاویلات سے خود بھی مطمئن نہ ہوئے لہٰذا مجبور ہو کر تقیہ شریف کا دامن تھامنا پڑا اور کہنا پڑا کہ آپ نے تقیہ فرمایا تھا تقیہ کی سیاہ چادر اور منافقت کی اس ردا نے شیعہ کے سارے مذہب کو معجون مرکب بنا دیا ہے جس کا کوئی اصول بھی قابلِ اعتبار نہیں۔

 سیدنا موسیٰ کاظمؒ کی تعلیم

سیدنا موسیٰ کاظمؓ (183ھ) نے اپنے آباو اجداد سے مرفوعاً ایک روایت نقل کی ہے روایت کے اصل راوی سیدنا حسن بن علیؓ ہیں فرماتے ہیں کہ:

فرمایا رسول اللهﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ میرے ہاں بمنزلہ کان کے ہیں اور سیدنا عمرؓ میرے نزدیک منزلہ آنکھ کے اور سیدنا عثمانؓ میرے ہاں بمنزلہ دل کے (معانی الاخبار الشیخ صدوق شیعی جلد 38 و تفسیر حسن عسکریؒ بحوالہ رحماءُ بينهم جلد 1 صفحہ 426)۔

ان شیعی روایات کی موجودگی میں بھی اگر انہیں شیخینؓ کی فضیلت کا اعتراف نہیں کرتا تو پھر اور کون سی شہادتیں ان کے نزدیک لائقِ حُجت ہوں گی؟ مکن ہے کوئی کہہ دے کہ یہ سب تقیہ ہی تھا اور ہے (بحوالہ رحماءُ بینھم جلد سوم)۔