شیخینؓ کے بعد دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں ائمہ اہلِ بیتؓ کی تعلیمات
حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒشیخینؓ کے بعد دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں ائمہ اہلِ بیتؓ کی تعلیمات
یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ اور آنحضرتﷺ کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپس میں ہمدم و ہمراز محب و مخلص دوست اور سچے ساتھی تھے ان کے درمیان کسی قسم کی کوئی مخاصمت و عداوت نہ تھی ہر معاملے میں ایک دوسرے کے ممد و معاون تھے اور آپس میں مشورہ کرتے ہر دونوں کے قلوب میں ایک دوسرے کے لیے بے پناہ محبت عظمت اور عزت کا جذبہ موجزن تھا یہ تمام حضرات رحماءُ بینھم کی صحیح اور سچی تفسیر تھے۔
جن جن لوگوں نے ان حضرات گرامی قدر کے درمیان عداوت و مخاصمت حسد و دشمنی کینہ و بغض کے جو جو واقعات حالات اور ملفوظات گھڑ رکھے ہیں یاد رکھئے ان میں ذرہ بھر بھی صداقت نہیں اور عقل و نقل کی روشنی میں اس کا باطل اور غلط ہونا واضح ہو چکا ہے
یوں تو حضرات اہلِ بیتؓ کے بےشمار ارشادات خود شیعہ کی کتابوں میں موجود ہیں جن میں حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت کا اعتراف کیا گیا ہے یہاں ان سب کو نقل کرنا مقصود نہیں چند ہی ائمہ کے ارشادات سے اس مسئلے کو سمجھا جا سکتا ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مجموعی فضیلت
پوری امت میں کوئی بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشابہ نہیں شیعہ کے پہلے امام سیدنا علی المرتضیٰؓ کا ارشاد:
ہم نے پچھلے اوراق میں سیدنا علی المرتضیٰؓ کے بہت سے ارشادات نقل کیے تھے انہیں پھر سے ضرور ملاحظہ فرمالیں یہاں صرف ایک ارشاد پیش کیا جاتا ہے اس سے اندازہ لگا لیں کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کے قلبِ اطہر میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کیسی عظمت تھی۔
خدا کی قسم میں نے اصحابِ محمدﷺ کو دیکھا ہے آج کوئی بھی ان کے مشابہ نہیں ہے وہ خالی ہاتھ پراگندہ بال غبار آلود چہرے سے صبح کرتے تھے اور وہ رات مسجدوں میں اور قیام کی حالت میں گزارتے تھے کبھی اپنی پیشانیاں زمین پر رکھتے تو کبھی اپنے رخسار وہ اپنی آخرت کو یاد کرتے تو ایسا لگتا تھا کہ انگاروں پر کھڑے ہوں ان کی آنکھوں کے درمیان طویل سجدوں کے باعث اتنا بڑا نشان تھا جتنا مینڈھے کے گھٹنوں پر ہوتا ہے جب اللہ کا ذکر ہوتا تو ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوتی تھیں اور عذاب کے خوف اور ثواب کی امید سے ایسے لرزتے اور کپکپاتے تھے جیسے تیز آندھی میں درخت کی حالت ہوتی ہے (نہج البلاغہ جلد 1 صفحہ 71 البدایہ والنہایہ جلد 8 صفحہ 2 حلیفہ صفحہ 76)۔
سیدنا علی المرتضیٰؓ کے ارشاد سے معلوم ہوا کہ
1۔ رسول پاکﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی کوئی قوم نہیں سیدنا علی المرتضیٰؓ کے اس ارشاد میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقام رفیع کو جس طرح بیان کیا ہے شیعہ کے نئی نسل اور منصف مزاج لوگوں کو بار بار اس پر غور کرنا چاہیے۔
سیدنا زین العابدینؒ کی تعلیمات
سیدنا زین العابدینؒ فرماتے ہیں کہ:
"اے اللہ حضرت محمدﷺ کے اصحابؓ پر رحمت نازل فرما جنہوں نے حضرت محمدﷺ کے ساتھ اچھی صحبت رکھی (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ ہیں) جو مصیبتوں میں مبتلا کیے گئے اور آپﷺ کی نصرت میں مشکلات برداشت کیں اور رسول اللہ ﷺ کو اپنے درمیان لے لیا اور دشمنوں کے شر سے رسول اللہﷺ کی محافظت کی آپﷺ کی جماعت کو مضبوط بنانے میں بھاگ دوڑ کی آپﷺ کی دعوت قبول کرنے پر ایک دوسرے سے سبقت کی اور ایسے مقام پر دعوت قبول کی کہ آپﷺ نے اپنی رسالت کی واضح دلیل سنی کلمہ حق کے اظہار کے لیے اپنی بیویوں اور اولاد کو خیرباد کہہ دیا اور (اسی دینِ حق کی خاطر اپنے باپ اور بیٹوں سے لڑائیاں کیں تاکہ آپﷺ کی نبوت مستحکم ہو جائے یہ لوگ آپﷺ کی محبت میں سرشار تھے اور آپﷺ کی دوستی میں اس تجارت کے امیدوار تھے کہ اس میں نقصان ہی نہیں اور ان لوگوں نے جب رسول اللہﷺ کا دامن پکڑ لیا تو ان کی قوم و قبیلہ نے ان کو نکال دیا اور جب رسول اللہﷺ کے ظل عاطفت میں آگئے تو سب رشتے ناطے ختم ہو گئے۔
اے اللہ آپ کی رضا اور آپ کے بغض میں انہوں نے جو کچھ چھوڑا اس کے طفیل ان کو مت بھلانا اور اپنی رضا سے ان لوگوں کو راضی رکھنا اور ان کو اس کی جزاء عطا فرما کہ ان لوگوں نے تیرے خلق کو تیرے دین پر جمع کیا اور وہ لوگ تیرے رسول کے ساتھی تھے لوگوں کو تیری اطاعت کی طرف بلاتے تھے اے اللہ تیری رضا کے لیے انہوں نے اپنی قوم کے شہروں سے ہجرت کی اس لیے آپ ان کو جزاء عطاء فرمائیے اور اس بات کی بھی جزاء دے کہ انہوں نے فراخی و معاش سے تنگی معاش کی طرف ہجرت کی (صحیفہ کاملہ آیاتِ بینات صفحہ 99)۔
فوائد و نتائج
سیدنا زین العابدینؒ کی دعا کا ایک ایک جملہ صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت میں ڈوبا ہوا ہے سیدنا زین العابدینؒ کے نزدیک
1۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسولﷺ کی اچھی طرح صحبت اختیار کی۔
2۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دینِ حق کی خاطر تکلیفیں برداشت کرتے ہوئے ہر موڑ پر دین قیم کی حفاظت کی۔
3۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہﷺ کی رسالت پر لبیک کہا آپﷺ کو دشمنوں سے حفاظت میں رکھا آپﷺ سے سب سے زیادہ اور سچی محبت کی اور آپﷺ ہی کی خاطر سب کچھ ترک کر دیا۔
اس لیے کہ سیدنا زین العابدینؒ نے بارگاہِ الہٰی میں ان کے لیے رحمت و کرم کی دعائیں مانگیں اور جزائے خیر عطا فرمانے کی دعا کی۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی غیبت گناہ ہے شیعہ کے چھٹے امام سیدنا جعفر صادقؒ کے ارشادات
شیعہ کے چھٹے امام ابوعبد اللہ جعفر صادقؒ (148ھ) سے مدحِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بہت سے ارشادات ملتے ہیں جو قابلِ دید ہیں۔
ابو زبیری کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جعفر صادقؒ سے پوچھا کہ ایمان کے مختلف منازل اور درجات ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں میں نے کہا اللہ آپ پر رحم فرمائے بیان فرمائیے تاکہ میں سمجھوں آپ نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں میں ایک دوسرے سے سبقت کا اس طرح جذبہ پیدا کیا ہے جیسے گھوڑ دوڑ کے دن گھوڑوں میں مقابلہ ہوتا ہے پھر حسبِ سبقت اللہ تعالیٰ ان کو درجہ دیتے ہیں چنانچہ ہر شخص کو حسبِ سبقت درجہ ملتا ہے سابق کا درجہ کم نہیں ہوتا اور نہ ہی مسبوق یا مفضول سابق اور فاضل سے مرتبے میں بڑھ سکتے ہیں اسی طرح امت کے پہلے اور پچھلے لوگوں میں درجہ فضیلت کا فرق ہے اگر سابق الی الایمان کو بعد میں ایمان لانے والے پر فضلیت نہ ہو تو امت کے پچھلے لوگ پہلوں کے ہم رتبہ ہو جائیں بلکہ تم ان سے بسا اوقات بڑھ جاؤ لیکن اللہ تعالیٰ نے سبقت ایمانی کی بناء پر سابقین کو مقدم رکھا اور ایمان سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے پچھلوں کو درجہ میں پیچھے کر دیا اس لیے ہم بعد والے مومنوں میں ایسے لوگ پاتے ہیں جو ظاہری نماز روزہ حج زکوۃ جہاد انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ میں پہلوں سے بڑھے ہوئے ہیں اب اگر سبقت ایمانی کا اعتبار نہ ہوتا تو اکثر عمل کی وجہ سے پچھلے پہلوں سے درجہ میں بڑھ جاتے لیکن اللہ نے اس بات کو تسلیم ہی نہیں کیا کہ بعد والے مؤمن پہلوں کا درجہ حاصل کر لیں یا جن کو اللہ نے مؤخر کر دیا وہ پہلوں سے بڑھ جائیں اور جن کو مقدم کیا وہ پچھلوں سے کم رتبہ ہو جائیں۔
میں نے پوچھا بتلائیے کہ اللہ تعالیٰ نے سبقت الی الایمان کے بارے میں مومنین کے حق میں کیا ارشاد فرمایا ہے تو آپ نے یہ آیات تلاوت کیں۔
1۔ سَابِقُوٓاْ إِلَىٰ مَغۡفِرَةٍ۬ مِّن رَّبِّكُمۡ وَجَنَّةٍ عَرۡضُہَا كَعَرۡضِ ٱلسَّمَآءِ وَٱلۡأَرۡضِ أُعِدَّتۡ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ بِٱللَّهِ الخ (سورة الحديد آیت نمبر 21)۔
2۔ وَٱلسَّـٰبِقُونَ ٱلسَّـٰبِقُونَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ ٱلۡمُقَرَّبُونَ (سورة الواقعه آیت نمبر 10 11)۔
3۔ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ الخ (سورة التوبہ آیت نمبر 100)۔
(1)۔ جلد چلو اپنے پروردگار کی بخشش کی طرف اور جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان و زمین کی چوڑائی کے برابر ہے وہ ان لوگوں کے واسطے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں۔
(2)۔ اور جو اعلیٰ درجے کے ہیں وہ تو اعلیٰ ہی درجے کے ہیں (اور) وہ قرب رکھنے والے ہیں۔
(3)۔ اور جو مہاجرین اور انصار ایمان لانے میں سب سے سابق اور مقدم ہیں اور (بقیہ امت میں) جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس (اللہ) سے راضی ہوئے۔
پس اللہ تعالیٰ نے ایمان میں سبقت کی بدولت مہاجرین کو اولاً ذکر فرمایا پھر ثانیاً انصار کو ثالثاً نیکی میں ان کے فرمانبرداروں کو بیان فرمایا پس ہر گروہ کو اپنے اپنے مرتبے پر رکھا ہے (اصولِ کافی جلد باب السبقت الی الایمان و تفسیر صافی ہند صفحہ 187)۔
شیعوں کی مستند کتاب مفتاح الشریعت اور مفتاح الحقیقت میں ایک حدیث ہے جسے ملا باقر علی مجلسی نے بحارُ الانوار میں قاضی نورُاللہ شوستری نے سیدنا صادقؒ سے بیان کیا ہے کہ:
غیبت بہت بڑا گناہ ہے اور بہتان و افتراء اس سے بھی بڑھ کر ہے جب عام آدمیوں کے حق میں غیبت اور بہتان گناہ کبیرہ ہے تو اصحابِ رسولﷺ کے حق میں کس قدر بڑا گناہ ہو گا پس ان کے حق میں نیک اعتقاد رکھنا ضروریاتِ دین میں سے ہے ان کے فضائل بیان کرنے میں رطبُ اللسان رہنا چاہیے اور ان کے دشمنوں سے نفرت رکھنا چاہیے (آیاتِ بینات جلد 1 صفحہ 103)۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین امت کے افضل ترین افراد تھے شیعہ کے گیارہویں امام سیدنا حسن عسکریؒ کی تعلیمات
شیعہ کے گیارہویں امام سیدنا حسن عسکریؒ (260ھ) کی ایک تفسیر شیعہ گروہ کے ہاں معروف ہے تفسیرِ سیدنا حسن عسکریؒ میں آپ کا ارشاد ہے کہ:
1۔ تمہیں یہ حکم ہے کہ تم ان لوگوں کے راستے پر چلو جن پر یوں انعام ہوا کہ اللہ و رسولﷺ پر ایمان حضرت محمدﷺ ان کی پاکیزہ آل اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو افضل ترین امت اور منتخب شدہ تھے سے محبت کی توفیق ہوئی (صفحہ 25)۔
2۔ جو مرد یا عورت حضرت محمدﷺ آپﷺ کی آل اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت رکھے اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھے تو اس نے خدا کے عذاب سے بچاؤ کے لیے ایک مضبوط قلعہ بنالیا اور محفوظ رکھنے والی ڈھال بنائی (صفحہ 25)۔
ایک جگہ ارشاد ہے:
3۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے آپ کی اولاد نکالی جن میں انبیاء و رسل علیہم السلام اور اللہ کے بندوں کے کئی لشکر تھے سب سے بہتر حضرت محمدﷺ اور آل محمدﷺ تھے اور ان سے فاضل و بہترین حضرت محمدﷺ کے اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور آپﷺ کی امت کے نیکو کار لوگ تھے (صفحہ 192 اور صفحہ 33)
ایک جگہ فرماتے ہیں:
4۔ ربِ تعالی نے فرمایا اے آدم علیہ السلام اگر آلِ محمدﷺ کے نیکو کاروں کا کوئی آدمی تمام انبیاء علیہم السلام کی آل کے ساتھ تولا جائے تو ان سے بھاری نکلے اور حضرت محمدﷺ کے نیکوکار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا کوئی آدمی تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے صحابہ کے ساتھ تولا جائے تو تمام پر بھاری ہو۔
اے آدم علیہ السلام ایک کافر یا سب کفار آلِ محمدﷺ یا اصحابِ محمدﷺ کے کسی فرد سے محبت رکھیں تو اللہ تعالیٰ اسے یوں بدلہ دے گا کہ اسے توبہ اور قبول ایمان کی توفیق دے کر جنت میں داخل کرے گا اللہ تعالیٰ حضرت محمدﷺ آپﷺ کی آل آپﷺ کے اصحابِ سے محبت رکھنے والے پر اتنی رحمت برساتے ہیں کہ اگر اللہ کی روزِ اول سے لے کر آخر تک کفار مخلوق پر بھی تقسیم کی جائے تو سب کو کافی ہو اور انہیں انجام خیر تک پہنچادے جو قبولیت ایمان ہے تاکہ وہ جنت کے مستحق ہو جائیں۔
اور جو شخص آلِ محمدﷺ یا اصحابِ محمدﷺ یا ان کے کسی فرد سے بغض رکھے تو اس کو اللہ تعالیٰ اتنا سخت عذاب دیں گے کہ اگر اس کو اللہ کی تمام مخلوق پر تقسیم کیا جائے تو سب ہی کو ہلاک کر ڈالے (تفسیر حسن عسکریؒ صفحہ 196 ماخوذ از عدالتِ صحابه کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مولفه مولانا مصر محمد میانوالوی)۔
فوائد و نتائج
سیدنا حسن عسکریؒ کے ارشادات کا خلاصہ یہ ہے کہ:
1۔ صحابه کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین افضل ترین امت اور اللہ کی طرف سے منتخب شدہ تھے۔
2۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت رکھنے والے پر اللہ کی بے پایاں رحمت برستی ہے اور عذاب سے حفاظت ہوتی ہے۔
3۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پہلے تمام انبیاء علیہم السلام کے اصحاب سے بہترین اور افضل تھے۔
4۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض و عناد رکھنا اللہ کے غضب و غصہ کو دعوت دیتا ہے۔
5۔ اگر کوئی کافر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت رکھے تو اللہ تعالیٰ اس محبت کی بدولت اسے ایمان کی توفیق نصیب فرما دیتا ہے۔
آنحضرتﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ستاروں کی طرح تھے شیعہ کے آٹھویں امام سیدنا رضاؒ کا ارشاد
ابو علی حسن بن احمد حاکم کہتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن یحییٰ صدفی نے کہا ان سے محمد بن موسیٰ نصر رازی نے ان سے ان کے والد نے روایت کی کہ (شیعہ گروہ کے آٹھویں) امام سیدنا رضاؒ سے اس حدیث:
اصحابی کالنجوم بايهم اقتديتم اهتديتم۔
میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ستاروں کی طرح ہیں جس کے پیچھے چلو گے ہدایت پا جاؤ گے۔
اور حدیث دعوا الى اصحابی (میرے لیے میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بد گوئی چھوڑ دو) کے متعلق پوچھا گیا تو سیدنا رضاؒ نے فرمایا: ہٰذا صحیح یعنی یہ حدیث صحیح ہے ( عیون الاخبار بحوالہ عدالتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین)۔
فوائد و نتائج
سیدنا رضاؒ کی حدیث پاک کی تائید سے یہ بات واضح ہو گئی کہ:
1۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آسمان ہدایت کے ستارے سمجھتے تھے۔
2۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اقتداء ہی میں ہدایت کو مضمر جانتے تھے۔
3۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اس حدیث پاک کو بالکل صحیح خیال فرماتے تھے۔
نوٹ: شیخ صدوق نے معانی الاخبار میں علامہ طبرسی نے احتجاج میں اور ملا باقر مجلسی نے بحار الانوار میں ملا حیدر علی املی اثنا عشری نے جامع الاسرار میں اس حدیث کے مضمون کی صحت کا اقرار کیا ہے (آیاتِ بینات)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اکثریت قابلِ مدح ہے ( بعض شیعہ کا اقرار)
عمدة المحدثین حضرت شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلویؒ کی کتاب مستطاب تحفہ اثنا عشریہ کا جواب دیتے ہوئے صاحب نزہتہ اثنا عشریہ اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ:
اماميه جميع اصحاب را مقدوح و مجروح نمی دانند بلکه بیساری از صحابه عظام راجليل القدر و ممدوح بلکه از اولیاء و مستحق رہمت و رضوان ملک منان میں پندار ندرد صحيفه کامله که فرقه حقه آنراز بور آل محمدﷺ گویند دعائیکه از حضرت سید الساجدين عليه السلام ماثور است شاید عدل این دعوی است (بحوالہ آیاتِ بینات جلد 1 صفحہ 105)۔
ترجمہ: فرقہ امامیہ کے نزدیک تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ناقابلِ شہادت و کمزور و معیوب نہیں بلکہ اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جلیل القدر اور لائق مدح اور اولیاء کرام متصور کیے جاتے ہیں انہیں مستحق رحمت و پروردگار سے رضا مند کیا جاتا ہے فرقہ حقہ جنہیں زبور آلِ محمدﷺ کہتا ہے ان کی بابت صحیفہ کاملہ میں سید الساجدین (سیدنا زین العابدینؒ) کی دعائے ماثورہ ہمارے اس دعویٰ کی شاہد عدل ہے۔
1۔ صحابِ نزہتہ اثنا عشریہ نے اس عبارت میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اکثریت قابلِ مدح ہے یعنی ان کی تعریف کی جائے۔
2۔ صاحب نزہت کے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اولیاء اللہ تھے۔
3۔ صاحبِ نزہتہ کے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خدا کے رحمت و رضوان کے مستحق تھے اور خدا بھی ان سے راضی تھا۔
4۔ صاحبِ نزہتہ کے نزدیک سیدنا زین العابدینؒ کی دعا ثابت ہے اور امام موصوف نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعریف فرمائی ہے اور ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے لیکن کلینی مجلسی خمینی اور بعد کے شیعہ اس کے منکر ہیں۔
اس لیے ہم کہیں گے کہ نزھئہ اثنا عشریہ کے مصنف کا مدحِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اقرار تقیہ پر مبنی ہے شیعہ کے پانچویں امام سیدنا باقرؒ کا اعلان خلفاءِ ثلاثہؓ کی عیب جوئی سے میں بیزار ہوں
سیدنا باقرؒ کے بارے میں شیعہ مجتہد صاحب الفصول کہتا ہے کہ:
آپ کا گزر ایک جماعت پر ہوا جو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ کی عیب جوئی میں مصروف تھی۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم ان مہاجرین میں سے ہو جو خدا کے لیے اپنے گھروں سے نکالے لیے اور خدا کے لیے ان کا مال لوٹا گیا اور خدا و رسولﷺ کی مدد کی؟ کہنے لگے نہیں پھر آپ نے پوچھا کیا تم ان لوگوں سے ہو جنہوں نے مہاجرین کے آنے سے قبل ہی ایمان قبول کر کے ان کے لیے رہائش کا انتظام کر رکھا تھا اور مہاجرین سے محبت رکھتے تھے؟ انہوں نے کہا تھا نہیں تو سیدنا باقرؒ ؒنے فرمایا کہ تم خود اپنے اقرار سے ان دونوں (جماعتوں) سے بیزار ہوئے اور میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے بھی ہرگز نہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا وَ لِاِخۡوَانِنَا الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِیۡمَانِ وَ لَا تَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّکَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ (پارہ 28 سورۃ الحشر رکوع نمبر 1)۔
ترجمہ: اور ان لوگوں کا جو ان کے بعد آئے جو دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں میں حضراتِ خلفاءِ ثلاثہؓ کی محبت تھی۔
3۔ آپ کے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خدا کے لیے اپنا گھر چھوڑا اور خدا کے لیے ان کا مال کام آیا۔
4۔ آپ کے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خدا اور اس کو رسولﷺ کے دین کی نصرت کی۔
5۔ آپ کے نزدیک جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا کے آپ اس سے بیزار ہیں۔
سیدنا علیؓ کی طرف سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں ایمان افروز كلمات
ولوددت ان الله فرق بینی و بینکم و الحقنی بمن هو احق بی منكم قوم والله میامین الراى مراجيع العلم مقاويل بالحق متاريك للبغى مضوا قدما على الطريقه و اوجفو على المحجه فظفروا بالعقبی الدامه والكزامه البارده اما والله ليسلطن عليكم غلام ثقيف الذيال الميال ياكل خضرتكم ويذيب شحمتكم ايه انا ودخه (نہج البلاغه خطبہ 117 صفحہ 174 مطبوعہ بیروت)۔
اب تو میری دعا ہے اور میں اس بات کو پسند رکھتا ہوں کہ پروردگارِ عالم میرے اور تمہارے درمیان تفرقہ اندازی کر دے اور مجھے ان لوگوں کے ساتھ ملحق فرما دے جو تم سے زیادہ میرے لیے سزاوار ہوں وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایسے لوگ تھے قسم خدا کی ان کی رائیں اور تدبیریں مامون و مبارک تھیں وہ دانش مندانہ اور حکیمانہ بردباریوں کے مالک تھے وہ راست گفتار وہ بغاوت اور جور و ستم کے ختم کرنے والے تھے گزر گئے دراں حالیکہ ان کے پاؤں طریقہ اسلام پر مستقیم تھے وہ واضح پر چلے اور ہمیشہ رہنے والی سرائے عقبیٰ میں فتح و فیروزی حاصل کی نیک اور گوارا کرامتوں سے فیض یاب ہو گئے قسم خدا کی اب تم پر ایک درشت خو بلند قامت اور جور و ستم کرنے والے کا بیٹا مسلط ہوگا اور تمہارے سبزہ زاروں کو کھا جائے گا تمہاری چربیوں کو پگھلائے گا (ترجمه نیرنگ فصاحت مطبوعہ دہلی صفحہ 168)۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعریف میں تاریخ ساز کلمات
شرح ابنِ میثم
اس خطبہ کی شرح ابنِ میثم نے ان الفاظ کے ساتھ کی: ثم عقب ذلك بالتبرم منهم وطلب فراقهم وللحاق باخوانه من اولياء الله مبارك الارا ثقال الحلوم لا يستخفنهم جهل الجهال ملازمی الصدق و نصيحته الدين من شانهم ترك البغى على انفسهم و غيرهم مضوا على الطريقته الحميداه سالكين لمحجته الله غير ملتفتين عنها فوصلوا الى التواب الذائم والنعيم وسلم اذا مرهم رسول اللهﷺ ابتدروا امره و اذا توضا ثاروا ويقتتلون على وضوئه واذا تكلموا خفضوا اصواتهم عنده وما يحدون اليه انظر تعظيما له قال فرجع عروه الى اصحابه و قال ای قوم والله لقد و فدت على الملوك ووفدت على قيصر و كسرىٰ و النجاشی والله ان رايت ملكاق يعظمه اصحابه ما يعظم اصحابه محمد اذا امرهم ابتدروا امره و اذا توضا كادوا يفتتلون على وضوئه واذا تكلمو اخفضوا اصواتهو عنده وما يحدون اليه النظر تعظيما له (تفسیر مجمع البیان جلد 5 جزء 9 صفحہ 117۔118)۔
صلح حدیبیہ کے مقام پر "عروہ" یہ منظر چھپی نگاہوں سے دیکھتا رہا کہ رسول اللہﷺ جب اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کسی کام کا حکم دیتے وہ اس پر لپک جاتے اور جب وضو فرماتے تو وضو کے پانی کو حاصل کرنے کے لیے لڑائی تک نوبت پہنچ جاتی جب حضورﷺ سے گفتگو کرتے تو ان کی آوازیں انتہائی باادب اور پست ہوتیں اور آپﷺ کی تعظیم کے پیشِ نظر آنکھ بھر کر آپﷺ کو نہ دیکھتے "عروہ" جب اپنے ساتھیوں کی طرف واپس آیا تو کہنے لگا خدا کی قسم عجیب فرمانبردار لوگ ہیں میں وفد کی صورت میں مختلف بادشاہوں کے پاس گیا قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے دربار میں بھی گیا لیکن خدا کی قسم! میں نے آج تک ایسا کوئی بادشاہ نہ دیکھا جس کی تعظیم و عزت اس کے ساتھی ایسی کرتے ہوں جیسی محمد(ﷺ) کے ساتھی ان کی تعظیم کرتے ہیں وہ جب انہیں کسی کام کا کہتے ہیں اس پر عمل کے لیے فوراً آمادہ ہو جاتے ہیں اور وضو کے پانی کی حصول میں ایک دوسرے سے دھکم پیل ہو جاتے ہیں اور دورانِ گفتگو از روئے تعظیم اپنی آوازوں کو انتہائی پست رکھتے ہیں اور عظمت کی خاطر آپﷺ کی آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈال سکتے۔
نبی پاکﷺ کی تمام مہاجرین و انصار کے حق میں دعائے مستجاب
نبی پاکﷺ جب ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ پہنچے تو آپﷺ نے مسجد بنانے کا ارادہ فرمایا تو آپﷺ نے بمع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خود بھی اپنے دستِ مبارک سے کام کیا تو جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کام کر رہے تھے تو یہ اشعار پڑھ رہےتھے۔
"لئن قعدنا والنبتی يعمل
لذلك منا العمل المضلل"
یعنی اگر ہم کام کرنے سے بیٹھ جائیں اور نبی پاکﷺ یہ کام کرتےرہے۔
الحق این عمارؓ و این ابنِ النيهان و این ذو الشهادین و این نظراهم من اخوانهم الذين تعاقدوا على المنيه و ابرد بروسهم الى الفجره قال ثم ضرب يده على لحيته الشريفت فاطال البكاثم قال عليه السلام اوه على اخوانی الذين قراوا القرآن واحكموه وتديرو الفرض فاقاموه احيوالسنه و اماتو البدعه دعو للجهاد فاجابوا ووثقو بالقاعدفاتبعوه (نہج البلاغه خطبہ 182 صفحہ 264)۔
کہاں ہیں وہ میرے بھائی جو راہ خدا میں سوار ہوئے تھے اور اسی اعتقاد حقہ پر گزر گئے کہاں ہے سیدنا عمارؓ کدھر ہے ابنِ تہیان کس طرف ہے ذوالشہادتین (سیدناخزیمہؓ جنہیں رسول خداﷺ دو عادل گواہوں کے برابر سمجھتے تھے) کہاں ہیں ان کی مثالیں اور کس طرف ہیں ان کے دینی بھائی جو خدا کی راہ میں مرنے کی قسمیں کھائے ہوئے تھے اور جن کے سر فاسق و فاجر شامیوں کی طرف بھیجے گئے راوی کہتا ہے کہ یہ فرما کر حضرت نے ریش مبارک پر ہاتھ پھیرا ہے بہت دیر تک روئے پھر فرمایا آہ!وہ میرے دینی بھائی جو قرآن کی تلاوت کرتے تھے وہ امورِ واجبات میں تفکر سے کام لیتے ہوئے انہیں قائم کرتے تھے وہ سنتِ پیغمبر کو جلاتے تھے وہ بدعتوں کو دور کرتے تھے جب انہیں جہاد کی طرف بلایا جاتا تو نہایت خوشی سے قبول کرتے تھے اپنے پیشوا پر بھروسہ رکھتے تھے اور اس کے ادامر و نہی کی اطاعت کرتے تھے(نیرنگ فصاحت صفحہ 368)۔
نبیﷺ کا غسالہ حاصل کرنے کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جان دینے پر تیار ہو جاتے تھے:
ثم ان عروه جعل يرمق اصحاب النبیﷺ فقد صدقك فانصرف رسول اللهﷺ فلما دخل عثمانؓ اخبرته بزالک فاتی رسول الله (ﷺ) هو واصحابه فقال لهم رسول اللهﷺ الم انبكم انكم اتفتم على كذا و كذا قالو بلىٰ يا رسول اللهﷺ وما اردنا الا الخير فقال رسول اللهﷺ انی لم اومر بذالك ثم قال ان لانفسكم عليكم حقا فصومو وافطرو وقومو و نامو فانی اقوم و انام و اصوم و فطرو اكل اللحم الدسم واتى النسا و من رغب عن سنتی فلیس منی (تفسیر مجمع البیان جلد دوم جز سوم صفحہ 235۔236)۔
مفسرین نے کہا ہے کہ ایک دن رسول اللہﷺ نے بیٹھ کر لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے جب قیامت کے واقعات بیان فرمائے تو حاضرین پر رقت طاری ہوگی اور سب نے رونا شروع کر دیا ان میں سے دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سیدنا عثمان بن مطعمون الجمعیؓ کے گھر جمع ہوئے جو یہ تھے سیدنا علیؓ سیدنا ابوبکرؓ سیدناعبدالله بن مسعودؓ سیدنا ابوذر غفاریؓ سیدنا سالمؓ ابوحذیفہ کے مولیٰ سیدناعبدالله بن عمرؓ سیدنا مقدادؓ بن اسود الکندی سیدنا سلمان فارسیؓ اور سیدنا معقل بن مقرنؓ ان تمام نے اس پر اتفاق کیا کہ اب ہم سب دن کو روز دار ہوں گے رات کو جاگ کر اللہ کی عبادت کیا کریں گے بستر پر نہیں سوئیں گے گوشت اور چربی نہیں کھائیں گے عورتوں کے قریب نہ جائیں گے خوشبو نہ لگائیں گے موٹے کپڑے پہنیں گے دنیا کو چھوڑ دیں گے زمین میں سفر کریں گے یہاں تک کہ بعض نے اپنے آلہ تناسل کٹوانے کا بھی ارادہ کر لیا حضورﷺ کو ان حالات کا علم ہوا تو آپ سیدنا عثمانؓ بن مطعون کے گھر تشریف لائے لیکن یہ نہ مل سکے تو آپﷺ نے ان کی بیوی سیدہ ام حکیمؓ بنت ابی امیہ جن کا نام حولاء تھا جو عطر فروشی کرتی تھیں کو فرمایا کیا تیرے خاوند اور اس کے ساتھیوں کے متعلق جو حالات پہنچے وہ درست ہیں تو اس نے حضورﷺ کے سامنے جھوٹ بولنا بھی اچھا نہ سمجھا اور اپنے خاوند کے بارے میں آگاہی دینا بھی اچھا نہ سمجھا تو عرض کی حضورﷺ! اگر سیدنا عثمانؓ نے آپﷺ کو اطلاع دی تو اس نے آپﷺ سے سچ کہا ہے حضورﷺ واپس چلے گئے جب سیدنا عثمانؓ گھر آئے ان کی بیوی نے سب کچھ بتایا توسیدنا عثمانؓ اور ان کے ساتھی حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپﷺ نے انہیں فرمایا کیا میں تمہیں یہ نہ بتادوں کہ تم نے فلاں فلاں باتوں پر اتفاق کر لیا ہے انہوں نے عرض کی یارسول اللہﷺ لیکن ہمارا ارادہ صرف بھلائی کا ہی ہے تو آپﷺ نے فرمایا مجھے اس طرح کرنے کا حکم نہیں دیا گیا پھر فرمایا تمہارے جسموں کا بھی تم پر حق ہے روزہ رکھو اور کبھی نہ رکھو کبھی رات جاگو اور کبھی نہ جاگو میں بھی رات جاگتا ہوں اور سوتا ہوں اور روزہ رکھتا ہوں اور کبھی نہیں رکھتا گوشت اور چربی کھاتا ہوں عورتوں کے پاس بھی جاتا ہوں جس نے میری سنت سے روگردانی کی وہ مجھ سے نہیں۔
سیدنا علیؓ یادِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اکثر داڑھی مبارک پکڑ کر رویا کرتے تھے
این اخوانی الذين ركبوا الطريق ومضوا على ايديهم به فكانو في منازلهم عنده على قدر فضائلهم فی الاسلام و كان افضلهم فى السلام كما زعمت و انصحهم لله و رسوله الخليفه الصديقؓ و خليفه الخليف الفاروع والعمری ان مكانهما في السلم العظيم وان المصاب بهما لجرح فی السلام شديد رحمهما الله و جزا هما باحسن ما عملا (ابنِ میثم شرح نهج البلاغه جلد صفحہ 4 صفحہ 361۔362)۔
(سیدنا علیؓ نےسیدنا امیرِ معادیہؓ کو خط کا جواب دیتے ہوئے لکھا)۔
تم نے جو یہ لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کے لیے مسلمانوں میں سے مدد گار منتخب فرما کر ان کے ذریعہ آپﷺ کو تقویت دی اور آپﷺ کی بارگاہ میں ان مراتب کے حساب سے تھے جو اسلام میں فضیلت کے اعتبار سے سب سے افضل اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خیرخواہی میں سب سے بہتر خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہیں اور پھر ان کےخلیفہ سیدنا فاروقِ اعظمؓ ہیں مجھے قسم ہے کہ ان دونوں صاحبوں کا اسلام میں ایک عظیم مرتبہ ہے اور ان کے وصال پر اسلام میں سخت مصائب کا دور آیا اللہ ان دونوں پر رحم فرمائےاور انہیں ان کے کیے کی بہترین جزا عطا فرمائے۔
علامہ بحرانی کی شرح
نہج البلاغہ کی شرح کرتے ہوئے علامہ بحرانی نے مذکورہ خطبہ میں چند امور خاص طور پر ثابت کیے جنہیں ہم من و عن نقل کر دیتے ہیں۔
ابنِ میثم
احدها: الشعت والاغبرار وهو اشاره الى قشفهم و تركهم زينه الدنيا ولذاتها۔
الثاني: بياتهم سجدا وقياما واشاربه الى احيائهم الليل باصلوه و هو كقوله تعالىٰ والذين يبيتون لربهم سجدا و قياما۔
الثالث: مراوحتهم بين جباههم و خدود هم وقد كان احدهم اذا تعبت جبهته من طول السجود رواح بينها وبين خديه۔
الرابع: وقوقهم على مثل الحمر من ذكر معادهم و اشاار به قلقهم ووجدهم من ذكر المعاد و اهوال يوم القيمه كما يقلق الراقف على الحمر مما يجده من حرارته۔
الخامس: كان بين اعينهم ركب المعزى من طول سجودهم ووجه المشابهه ان محال سجودهم من جياههم كانت قد اسودت وماتت جلودها وقست كما ان ركب المعزى کذلک۔
السادس: انهم كانوا اذا ذكروا الله هملت اعينهم حتىٰ تبل جيوبهم ومن روى جباههم فذلك فی حال سجودهم ممكن وما دوا كما تميدا شجر بالريح العاصف خوفا من عقاب ربهم ولجاء ثوابه فتاره يكون ميدا هم وقلقهم عن خوف الله وتاره يكون عن ارتباه واشتياق الى ما عنده من عظيم توابه وهو كقوله تعالىٰ الذين اذا ذكر الله وجلت قلوبهم
(شرح نهج البلاغه ابنِ میثم جلد دوم خطبه 94 صفحہ 308)۔
1۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بالوں کا پراگندہ ہونا اور غبار آلود ہونا بایں وجہ تھا کہ انہوں نے دنیا کی لذات اور زینت کو اچھا نہ سمجھتے ہوئے ترک کر دیا تھا۔
2۔ سجدہ اور قیام میں ان کا راتیں بسر کرنا قرآنِ کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا (سورة الفرقان آیت نمبر 64)۔
اللہ کے بندے رات قیام و سجود میں گزرا دیتے ہیں۔
3۔ کبھی پیشانی اور کبھی رخسار پر سجدہ کرنے کی وجہ یہ تھی جب پیشانی پر سجدہ کی طوالت سے تھک جاتے تو رخسار پہ سجدہ کر لیتے۔
4۔ آخرت کو یاد کرتے ہوئے انگاروں پر کھڑا ہونا اس سے مراد یہ ہے کہ وہ قیامت کی خطرناک حالت کو یاد کر کے بے قرار ہو جاتے جس طرح انگاروں کے پس کھڑا آدمی ان کی حرارت سے خوفزدہ ہو جاتا ہے۔
5۔ ان کی آنکھوں کے درمیان پیشانی پر طول سجدہ کی وجہ سے بکری کے گھٹنے کی طرح نشان سے یہ مراد ہے کہ ان کی پیشانی کا چمڑہ سجدہ کرتے کرتے اس قدر بے حس ہو گیا تھا کہ اس میں سختی اور سیاہی آچکی تھی۔
6۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتے وقت ان کی آنکھیں آنسووں میں ڈوب جاتیں یہاں تک کہ ان کے گریبان تر ہو جاتے اور جس آدمی نے جباههم کی روایت کی ہے تو یہ سجدہ کی حلت میں (رونا) ہی ممکن ہے خوفِ خدا اور امیدِ رحمت سے ایسے لرزتے جس طرح آندھی میں درخت اِدھر اُدھر جھکتا ہے پس کبھی ان کا لرزنا اللہ تعالیٰ کے خوف سے ہوتا اور کبھی اللہ تعالیٰ سے اجرِ عظیم کے اشتیاق میں ہوتا اس میں ایک آیت کی طرف اشارہ ہے ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ ٱللَّهُ وَجِلَتۡ قُلُوبُہُمۡ الخ (سورۃ الانفال آیت نمبر 2)۔
وه لوگ کہ جب اللہ کی یاد ہوتی ہے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔
خلاصهِ کلام
علامہ بحرانی شیعی نے جو امور ذکر کیے ثابت کیا ہے کہ یہ سب سیدنا علیؓ کے خطبہ سے حاصل ہوتے ہیں ان میں درحقیقت ان آیات کی طرف اشارہ ہے جو کامل الایمان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں نازل فرمائی ہیں جیسا کہ ہم نے "دلیل ہفتم" میں اس کو وضاحت سے بیان کر دیا ہے لہٰذا اس تشریح و تفسیر سے بھی معلوم ہوا کہ جملہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کامل الایمان تھے اور اللہ کے ہاں مغفور و مرحوم اور جنتی ہیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کاملِ الایمان اور جنتی ہونے پر ایک اور دلیل
آیت
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِيۡنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُهُمۡ وَاِذَا تُلِيَتۡ عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُهٗ زَادَتۡهُمۡ اِيۡمَانًا وَّعَلٰى رَبِّهِمۡ يَتَوَكَّلُوۡنَالَّذِيۡنَ يُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ يُنۡفِقُوۡنَؕ اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَهُمۡ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ وَمَغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌۚ (پارہ 9 رکوع 10 سورۃ الانفال رکوع نمبر 3 4 5)۔
کامل مومن تو صرف وہی ہیں کہ خدا کا نام لیا جاتا ہے تو ان کے دل (اس کی ہیبت اور جلال سے) ہل جاتے ہیں اور جب اس کی آیتیں ان پر پڑھی جاتی ہیں تو ان کے ایمان کو بڑھا دیتی ہیں اور وہ صرف اپنے پروردگار پر ہی بھروسہ کرتے ہیں جو (با قاعدہ) نماز میں پڑھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں وہی لوگ حقیقی مومن ہیں انہی کے لیے ان کے پروردگار کے پاس درجے ہیں اور بخشش ہے اور آبرو کی روزی۔
سیدنا علیؓ لقب صدیق و فاروق کے ساتھ سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کو موسوم فرماتے تھے
(سیدنا علی المرتضیٰؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو خط کا جواب دیتے ہوئے لکھا):
تم نے جو یہ لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کے لیے مسلمانوں میں سے مددگار منتخب فرما کر ان کے ذریعہ آپ کو تقویت دی اور آپ کی بارگاہ میں ان مراتب کے حساب سے تھے جو اسلام میں فضیلت کے اعتبار سے ان کو ملے تمہارے خیال کے مطابق ان میں سے اسلام کے اعتبار سے سب سے افضل اور اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی میں سب سے بہتر خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہیں اور پھر ان کے خلیفہ سیدنا فاروقِ اعظمؓ سیدنا علیؓ ہیں مجھے قسم ہے کہ ان دونوں صاحبوں کا اسلام میں ایک عظیم مرتبہ ہے اور ان کے وصال پر اسلام میں سخت مصائب کا دور آیا اللہ ان دونوں پر رحم فرمائے اور انہیں ان کے کیے کی بہترین جزا عطا فرمائے۔
خلاصه کلام
سیدنا علی المرتضیٰؓ کا ان دونوں حضراتؓ کو "صدیق و فاروق" کہنا اور پھر ان کے وصال پر اسلام کو نقصانِ عظیم پہنچنے کا ارشاد فرمانا اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا علیؓ ان کو خلیفہ برحق تسلیم کرتے تھے تبھی ان کے لیے دعائے رحم اور جزائے خیر کی دعا کی بالفرض اگر یہ حضراتؓ ناجائز خلیفہ اور غیر شرعی ہوتے تو ان کے وصال پر اسلام کو بجائے نقصان کے فائدہ پہنچتا اور سجدہ شکر ادا کیا جاتا نہ کہ دعائے خیر کی جاتی سیدنا علیؓ قسمیہ فرما رہے ہیں کہ ان کا اسلام میں عظیم مرتبہ تھا اور ان کا وصال اسلام کے لیے بہت نقصان دہ ہے خدا رحمت کند بر عاشقان پاک طینت را اگر سیدنا علیؓ کے نزدیک ان کا اسلام اور ان کی خلافت ناجائز اور فریب ہوتا تو بعد از وصال دعائے مغفرت نہ کی جاتی کیوں کہ یہ مسلمہ بات ہے کہ کافر کے لیے دعائے مغفرت بھی کفر ہے۔
قول سیدنا علیؓ: جب سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ خلافت کا حق ادا کر دیا توہم نے ان سے ناراضگی چھوڑ دی
واقعه صفین:
قال اما بعد فان الله بعث النبیﷺ فالقذبه من الضلاه والغش به من الهلكه وجمع به بعد الفرقه ثم قبضه الله اليه وقد ادى ما عليه ثم استخلف الناس ابابكرؓ ثم استخلف ابوبكرؓ عمرؓ و احسنا السيره وعدلا فى الامه وقد وجدنا عليهما ان توليا الامردوننا ونحن الى الرسول واحق بالأمرفغفرنا ذالك لهما (واقعہ صفین صفحہ 149 مطبوعہ عباسیہ بیروت)۔
حمد و صلوۃ کے بعد سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نےنبی کریمﷺ کو بھیج کر لوگوں کو گمراہی اور ضلالت سے نجات دی اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہلاکت سے بچایا۔ مختلف ٹکڑوں میں بٹے ہوئے لوگوں کو ایک جگہ جمع فرمایا۔ پھر اللہ نے آپﷺ کو اپنے پاس بلایا بلانے سے قبل آپﷺ نے اپنے ذمہ تمام امور ادا کر دیے تھے آپﷺ کے بعد لوگوں نےسیدنا ابوبکرؓ کو خلیفہ بنایا اور سیدنا ابوبکرؓ نے سیدناعمرؓ کو خلیفہ بنایا یہ دونوں سیرت و کردار میں اعلیٰ پایہ کے انسان تھے اور امت میں خوب عدل کیا ہمیں ان دونوں سے یہ شکایت تھی کہ ہم آلِ رسولﷺ جو خلافت کے زیادہ حق دار ہیں ہم سے بغیر پوچھے یہ لوگ خلیفہ بن گئے لیکن ہم نے ان کی اس غلطی کو معاف کر دیا (کیوں کہ امت میں عدل و انصاف کرنا ہی ہمارا مقصود تھا جو انہوں نے بخوبی انجام دیا۔
مذکورہ خطبہ سے ثابت ہوا کہ
1۔ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے سیدنا ابوبکرصدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ کی حُسنِ سیرت اور امت میں عدالت کی برقراری کی تعریف وتحسین فرمائی۔
2۔ ابتدا سیدنا علیؓ کو ان سے مشورہ نہ کرنے کی وجہ سے کچھ ناراضگی تھی اور ان کا خیال تھا کہ آلِ رسولﷺ ہونے کی وجہ سے رسول اللہﷺ کی خلافت کا حق ہمیں پہنچتا ہے لیکن جب منشاء خلافت دیکھا کہ ان دونوں نے سیرت کا اعلیٰ معیار اپنایا اور امت میں عدالت فرمائی تو ناراضگی دور فرمادی اور صاف اعلان فرمایا کہ ہم نے انہیں معاف کر دیا۔
سیدنا علیؓ سیدنا ابوبکرؓ کی اقتداء میں نماز پڑھتے رہے
ثم قال و تهيا للصلوة و حضرت المساجد وصلیٰ خلف ابی بکرؓ۔
پھر سیدنا علیؓ اٹھے اور نماز کی تیاری کر کے مسجد میں تشریف لائے اور ابوبکر صدیقؓ کے پیچھے ان کی اقتداء میں نمازپڑھی ( تفسیرِ قمی صفحہ 503)۔
اگر مسئلہ خلافت "اصول دین" میں سے ہوتا اور یہ حق صرف اور صرف سیدنا علیؓ کا ہوتا تو سیدنا ابوبکرؓ اس کے غاصب بن کر اور اصول دین کے منکر ہو کر (معاذ اللہ) اسلام سے خارج ہو جاتے اور خارج از اسلام کی بیعت پھر اس کے پیچھے نماز جیسی اہم عبادت ایک عام مسلمان بھی نہیں سوچ سکتا چہ جائے کہ سیدنا علیؓ جیسی عظیم شخصیت ان دونوں باتوں کا ارتکاب کرتی۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ امرِ خلافت "اصولِ دین" میں سے نہیں پھر تقاضائے بشری کے مطابق اگر ابتدا سیدنا علیؓ کو بعض وجود کی بنا پر ناراضگی بھی تھی تو آپؓ نے اسے ختم فرما دیا تھا اور معاف کر دیا تھا اب میں شیعہ حضرات سے پوچھتا ہوں کہ سیدنا علیؓ نے معاف کر کے امرِ خلافت سیدنا ابوبکرؓ کو سپرد کر دیا تو تمہاری ناراضگی اب کیا کرسکتی ہے نہ تو تم سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے خلافت چھین سکتے ہو اور نہ تمہاری ناراضگی سے سیدنا علیؓ کو معافی میں کچھ رد و بدل ہو سکتا ہے۔ لہٰذا تم خود بتاؤ اس ناراضگی سے تم کیا چاہتے ہو جو تم چاہتے ہو وہ تو مل نہیں سکتا البتہ اس ناراضگی کا ثمرہ اللہ سے ضرور پاؤ گے اس کے لیے انتظار کرو
سیدنا علیؓ کے نزدیک حضرت شیخینؓ خلیفہ عادل تھے حق پر رہے اور حق پرہی ان کا وصال ہوا
امامان عادلان قاسطان كازا على الحق وماتا عليه فعليهما رحمه الله يوم اليمه (احقاق الحق صفحہ 16)۔
وہ دونوں (سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ) عادل اور مصنف امام تھے دونوں حق پر رہے اور حق پر ہی دونوں کا وصال ہوا قیامت کے دن ان دونوں پر اللہ کی رحمت ہو۔
مقامِ غور
سیدنا جعفر صادقؒ کا سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا فاروقِ اعظمؓ کی اس طرح شان بیان کرنا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ ان حضراتؓ کی تمام زندگی اور پھر وفات "حق" پر تھی لہٰذا کسی دور میں قبولِ اسلام کے بعد ان میں کفر داخل نہ ہوا دراصل امام موصوف کا یہ ارشاد ایک سائل کے جواب میں وارد ہوا جس کے ذریعہ حضرات شیخینؓ کی شان میں زبان طعن دراز کرنے والوں کا آپؓ نے رد فرمایا۔
سیدنا حسنؓ خلفائے ثلاثہؓ کو خلفائے راشدینؓ سمجھتے تھے
سیدنا حسنؓ کاخطبه
ومن كلامه عليه السلام ما كتبه فی كتاب الصلاح الذی استقربينه وبين معاويهؓ حيث رائی حقن الدماء واطفاء الفتنه وهو بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما صالح عليه الحسن بن علیؓ بن ابی طالب معاويه بن سفيانؓ صالحه على ان يسله اليه ولايه امر المسلمين على ان يعمل فيهم بكتاب الله تعالىٰ وسته رسول اللهﷺ وسيره الخلفاء الراشدين وليس لمعاويةؓ بن ابی سفيان ان يعهد الى احد من بعده عهدا بل يكون الأمر من بعده شوری بین المسلمين وعلى ان الناس امنون حيث كانوا من أرض الله شامهم وعراقهم وحجازهم ويمنهم (کشف الغمه فی معرفة الائمه جلد اول صفحہ 570 مطبوعہ تبریز تذکره سیدنا حسنؓ فی کلامه و مواقعه)۔
سیدنا حسنؓ اورسیدنا امیرِ معاویہؓ کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس میں سے یہ بھی تھا اور یہ تحریر اس کتاب الصلاح میں تھی جو ان دونوں کے درمیان تحریر ہوئی جب کہ آپ نے ضروری سمجھا کہ فتنہ فرد ہو جائے اور خون محفوظ ہو جائیں اور وہ مضمون یہ تھا:
بسم الله الرحمن الرحیم یہ وہ صلح نامہ ہے جو سیدنا حسن بن علیؓ بن ابو طالب اور سیدنا معاویہ بن ابو سفیانؓ کے درمیان طے پایا وہ صلح یہ تھی مسلمانوں کی ولایت میں تمہیں اس شرط پر سپرد کرتا ہوں کہ تم کتابُ اللہ اور سنتِ رسول اللہﷺ میں علم اور سیرتِ خلفائے راشدینؓ کے مطابق عمل کرو گے اور سیدنا معاویہ بن ابوسفیانؓ کو اس بات کی قطعاً اجازت نہ ہوگی کہ وہ اس کے کسی سے اس قسم کا معاہدہ کرے بلکہ پھر معاملہ مسلمانوں کی باہمی مشاورت سے ہوگا اور اس بات پر بھی کہ مسلمان شام عراق حجاز اور یمن میں جہاں کہیں ہوں امن سے ہوں گے۔
خلفائے ثلاثہؓ کی گستاخی کرنے والوں کے حق میں سیدنا زین العابدینؒ نے بددعا فرمائی
وقدم اليه نفر من العراق فقالوا فی ابی بكرؓ و عمرؓ و عثمانؓ رضی الله عنهم فلما فرغوا من كلامهم قال لهم الا تخبرونی انتم المهاجرون الأولون الذين اخرجوا من ديارهم واموالهم يبتغون فضلا من الله و رضواناً و ينصرون الله و رسوله اولئك هم الصادقون؟ قالوا لا قال فانتم الذين تبوئو الدار والايمان من قبلهم يحبون من هاجر اليهم ولا يجدون فی صدورهم حاجة مما اوتو و يوثرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصه قال لا قال اما انتم قد تبراتم ان تكونو من احد هذين الفريقين وانا اشهد انكم لستم من الذين قال الله فيهم والذين جاء وا من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا ولا خواننا الذين سبقونا بالايمان ولا تجعل في قلوبنا غلا للذين امنوا خرجوا عنى فعل الله بكم (کشف الغمہ فی معرفه الائمه جلد دوم صفحہ 78 مطبوعہ تبریز فی فضائل سیدنا زین العابدينؒ)۔
سیدنا زین العابدینؒ کے پاس عراقی وفد آیا اور
اس نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا عثمانِ غنیؓ کے بارے میں کچھ نازیبا الفاظ کہے جب وہ تبرہ بازی کر چکے تو سیدنا زین العابدینؒ نے انہیں کہا کیا تم مجھے اس کی خبر نہیں دیتے کہ بقول قرآن جو لوگ پہلے پہل مہاجرین جنہیں ان کے گھروں اور اموال سے دور کر دیا گیا وہ اللہ سے اس کا فضل اور رضامندی چاہتے ہیں اور اس کے رسولﷺ کی مدد کرتے ہیں وہی سچے ہیں کیا تم ان میں سے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں سیدنا زین العابدینؒ نے پھر فرمایا کیا تم ان لوگوں میں سے ہو جن کی شان یہ ہے کہ وہ لوگ جو ہجرت کرنے والوں سے پہلے دار الہجرت میں مقیم اور ایمان پر قائم ہیں اور اپنی طرف ہجرت کر کے آنے والوں کو دوست رکھتے ہیں اور جو کچھ ہجرت کرنے والوں کو دیا گیا اس کے متعلق اپنے دلوں میں خواہش نہیں رکھتے اور اپنی ذات پر مہاجرین کو ترجیح دیتے ہیں اگر چہ انہیں اس کی خود بھی شدید ضرورت ہوتی ہے (القرآن)۔
کہنے لگے ہم ان میں سے بھی نہیں پھر سیدنا زین العابدینؒ نے فرمایا کہ تم خود ہی ان دو فریقوں میں سے ہونے کا انکار کر بیٹھے اور میں تمہارے بارے میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ تم اس فریق میں بھی نہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا وہ لوگ جو ان کے بعد آئے کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں بخش اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش جو ہم سے ایمان میں سبقت لے گئے اور ہمارے دلوں میں ایمانداروں کے حق میں کھوٹ نہ رکھ۔ یہ فرما کر انہیں حکم دیا کہ میرے سامنے سےدور ہو جاؤ اور اللہ تمہاری بدکلامی کی تمہیں سزادے۔
خلفائے ثلاثہؓ حضورﷺ کے لیے بمنزلہ کان آنکھ اور دل ہیں
قال حدثنی على بن محمد بن علی الرضا عن ابيه عن ابائه عن الحسن بن على عينهم السلام قال قال رسول اللهﷺ ان ابابكرؓ منى بمنزله السمع وان عمرؓ منى بمنزله البصر وان عثمانؓ منی بمنزله الفو و قال فلما كان من الغدد خلت اليه و عنده امیر المؤمنين عليه السلام و ابوبکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ فقلت له يا ابه سمعتك تقول فی اصحابك هولاء قولا فما هو فقال عليه السلام نعم ثم اشار بيده اليهم فقال هم السمع والبصر والفواد وسيسالون عن ولايه وصى هذا و اشار الى على بن ابی طالب عليه السلام ثم قال ان الله عزوجل يقول ان السمع والبصرو النو اولئك كان عنه مسئولا ثم قالﷺ وعزه ربی ان جميع امتى لموقوفون يوم القيمه و مسئولون عن ولايه وذالك قول الله عزوجل وقفوهم انهم مسئولون (معانی الاخبار مصنفه شیخ صدوق صفحہ388۔387 مطبوعہ بیروت طبع جعید بات نوادر المعافی)۔
سیدناحسن بن علیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
سیدنا ابوبکرؓ بمنزلہ میرے کان کے اور سیدنا عمر فاروقؓ بمنزلہ میری آنکھ کے اور سیدنا عثمانِ غنیؓ بمنزلہ میرے دل کے ہیں پھر جب دوسرا دن آیا تو میں حضورﷺ کے پاس حاضر ہوا اس وقت ان کے پاس سیدنا علیؓ سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانِ غنیؓ بیٹھے تھے میں نے عرض کی ابا جان! کل آپؓ کی زبانِ اقدس سے خلفائے ثلاثہؓ کے بارے میں یوں کلام سنا تھا آپؓ نے فرمایا ہاں! پھر آپؓ نے ان کی طرف اشارہ فرما کر کہا وہ سمع بصر اور فواد ہیں اور عنقریب میرے اس وصی کے بارے میں ان سے سوال ہو گا اور سیدنا علیؓ کی طرف اشارہ کیا پھر فرمایا "اللہ تعالیٰ"
على عليه السلام قال قال رسول اللهﷺ كل نسب وصهم منقطع يوم القيمه الانسبی و سببی۔
1۔ (امالی شیخ طوسی جلد اول صفحہ 350 الجز الثانی عشر)۔
2۔ (شرح نہج البلاغه ابنِ حدید جلد سوم صفحہ 124 فی تزویج عمر بام کلثوم بنت علی طبع جدید مطبوعہ بیروت)۔
سیدناعلیؓ نے فرمایا بروزِ قیامت میرے نسب اور سرال کے علاوہ تمام کے انساب اور سسرال کی نسبت ختم ہو جائے گی۔
خلفائے ثلاثہؓ کو قیامت میں سیدنا حسینؓ پانی پلائیں گے
اعمشق وہ آدمی ہے جس کو سیدنا علیؓ کے دس ہزار فضائل زبانی یاد تھے یہ اپنا ایک واقعہ ذکر کرتا ہے کہ میں سویا ہوا تھا مجھے خلیفہ وقت منصور نے طلب کیا میں اٹھا اور خلیفہ کے پاس پہنچا اس نے سیدنا علیؓ کی فضیلت کا یہ واقعہ سنایا (جس کو سید ھاشم بحرانی شیعی نے خلیۃ الابرار میں نقل کیا ہے)۔
جب میں اموی حکومت کے خوف سے اپنی جان بچانے کے لیے شہر شہر مارا مارا پھر رہا تھا تو میں نے شام کے کسی شہر میں نماز صبح باجماعت ادا کی میرے ساتھ صف میں بائیں جانب ایک نوجوان پگڑی باندھے کھڑا تھا پگڑی سے اس نے اپنا چہرہ بھی ڈھانپ رکھا تھا جب اس نے رکوع کیا تو اس کا عمامہ گر گیا میں نے دیکھا کہ اس کا چہرہ اور سر خنزیر کے چہرہ اور سر جیسا تھا اسے دیکھ کر مجھے اتنا خوف آیا کہ میں نماز پڑھنا بھول گیا نماز سے فراغت کے بعد میں نے اس کے سر اور چہرہ کی حالت تبدیل ہونے کی وجہ پوچھی وہ اتنا رویا کہ مرنے کے قریب ہو گیا تھا پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھر لے گیا اور ایک جگہ دکھا کر ایک واقعہ سنانا شروع کیا کہ میں مسجد میں مؤذن تھا اور امامت بھی میں ہی کراتا تھا اور ہر اذان و اقامت کے درمیان ایک ہزار مرتبہ "سیدنا علیؓ" پر لعنت بھیجا کرتا تھا ایک مرتبہ جمعہ کے دن اذان و اقامت کے درمیان میں نے چار ہزار مرتبہ سیدنا علیؓ پر لعنت بھیجی نماز سے فراغت پر میں گھر آیا اور اس جگہ جو تمہیں دکھائی ہے آ کر سو گیا پھر مجھے خواب آیا (اس کے خواب کو علامہ بحرانی شیعی نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے):
راسی راس خنزیرو وجھی وجه خنزیر علی ما تری (حلیہ الابرار جلد اول باب 16 صفحہ 302 فی حدیث الاعمیق مع المنصور مطبوعہ قم ایران)۔
میں خواب میں گویا جنت کے دروازے پر پہنچا ہوں میں نے اس میں سبز زمرد کا ایک گنبد دیکھا جو استبرق اور دیباج سے آراستہ کیا گیا تھا اس گنبد کے قریب موتی سے جڑی ہوئی کرسی پر سیدنا علیؓ کو بیٹھے دیکھا۔
اور پھر سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ کو اکٹھے بیٹھے گفتگو کرتے دیکھا یہ سب بڑے خوش تھے اور ایک دوسرے کو مبارک بادیاں دے رہے تھے پھر میں نے دوسری طرف دیکھا تو مجھے رسول اللہﷺ آتے دکھائی دیے آپ کی دائیں جانب سیدنا حسینؓ چاندی کا پیالہ لیے ہوئے اور بائیں جانب سیدنا حسینؓ ہاتھ میں چاندی کا پیالہ تھامے تشریف لا رہے تھے حضورﷺ نے سیدنا حسینؓ سے پانی پلوانے کو کہا انہوں نے آپﷺ کو پانی پلایا پھر آپﷺ نے سیدنا حسینؓ کو فرمایا اس جماعت کو بھی پلاؤ تو انہوں نے سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانِ غنیؓ کو پلایا اور سیدنا علیؓ کو بھی پلایا پھر حضورﷺ نے سیدنا حسینؓ کو فرمایا اس اونچی جگہ پر تکیہ لگا کر بیٹھنے والو کو پلاؤ تو سیدنا حسینؓ نے عرض کی ابا جان! آپ اس کو پلانے کا حکم دے رہے ہیں اور وہ میرے والد سیدنا علیؓ پر روزانہ ایک ہزار مرتبہ لعنت کرتا ہے اور آج جمعہ کے دن اس نے چار ہزار مرتبہ لعنت بھیجی ہے تو حضورﷺ نے مجھے غصہ میں کہا تو سیدنا علیؓ پر کیوں لعنت کرتا ہے اللہ تجھ پر لعنت کرے آپ نے یہ الفاظ تین مرتبہ کہے تجھ پر افسوس ہے کہ تو سیدنا علیؓ کو برا بھلا کہتا ہے اور وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں تجھ پر اللہ کا غضب آپ نے یہ الفاظ تین مرتبہ کہے اور کہا اللہ تیری نعمتوں کو تبدیل کردے تیرے منہ کو سیاہ کردے تیری خلقت تبدیل کر دے یہاں تک کہ دوسروں کے لیے عبرت بن جائے یہ خواب دیکھ کر میں بیدار ہوا تو اس وقت میرا سر خنزیر کا سر اور میرا چہرہ خنزیر کے چہرہ کی مانند ہو گیا جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔
خلفائے ثلاثہؓ کے ناموں پر 12 اماموں کی اولاد کے نام
سیدنا علیؓ ور انکی اولاد کا خلفائے ثلاثہؓ سے محبت کا ایک اور مظاہرہ (بحوالہ شیعہ کتب):
سیدنا علی المرتضیٰؓ اور آپؓ کی اولاد نے اپنے اپنے بچوں کے نام حضراتِ خلفائے ثلاثہؓ (سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ) کے نام نامی پر رکھے تھے محبت و مودت عقیدت و عظمت کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے؟ کیا کبھی کسی نے یہ دیکھا ہے کہ لوگوں نے اپنے دشمنوں اور کافروں کے نام پر اپنے محبوب بچوں کے نام رکھے ہوں؟ کیا کسی نے اپنے بچوں کے نام ابلیس فرعون ہامان نمرود شداد ابوجہل اور ابولہب رکھے ہیں؟ کیوں؟ اس لیے کہ وہ خدا کے دشمن اور اس کے پیغمبر علیھم السلام کے دشمن تھے ان کا نام رکھنا تو در کنار سننا بھی گوارا نہیں اور اگر کسی نے کہہ بھی دیا تو پھر دیکھیئے کتنی صلواتیں سناتے ہیں؟ اسی طرح معاذ اللہ ثم معاذ اللہ حضراتِ خلفائے ثلاثہؓ و ازواجِ مطہراتؓ خدا اور اس کے رسولﷺ کے دشمن ہوتے تو کیا خاندانِ نبوت کے یہ اکابرین کبھی ان کے ناموں پر اپنے بچوں کا نام نامی رکھتے؟ سوچئے اور تقیہ کی نقاب الٹا کر دیکھئے آپ کو حقیقت کا چہرہ نہایت روشن نظر آئے گا اور تمام شکوک و شبہات یکدم رفع ہو جائیں گے۔
کوئی صاحب یہ نہ سوچیں کہ یہ سب فرضی قصے ہیں نام کہیں نہیں تو لیجیئے شیعہ حضرات کی مشہور اور معتبر کتابوں سے ان کے نام سلسلہ وار تحریر ہیں۔
1۔ اولادِ سیدنا علی المرتضیٰؓ
سیدنا حسنؓ سیدنا حسینؓ سیدنا عباسؒ سیدنا محمدؒ سیدنا ابوبکرؒ سیدنا عمرؒ سیدنا عثمانؒ سیدنا بلالؒ سیدہ عائشہؓ سیدہ حفصہؓ سیدہ میمونہؓ وغیرہ (تاریخ الائمہ صفحہ 43 کشف الغمہ اربلی (687ھ) صفحہ 122 جلاء العیون (علامہ مجلسی 1111ھ) صفحہ 193 منتہی الامال (قمی 1359ھ) صفحہ 136)
2۔ فرزندانِ سیدنا حسنؓ
سیدنا قاسمؒ سیدنا عبداللہؒ سیدنا حسن مثنیٰؒ سیدنا زیدؒ سیدنا عبدالرحمٰنؒ سیدنا ابوبکرؒ سیدنا عمرؒ سیدنا اسمٰعیلؒ وغیرہ (تاریخ الائمہ صفحہ 63 کشف الغمہ صفحہ 171 جلاء العیون صفحہ 302)
3۔ فرزندانِ سیدنا حسینؓ
سیدنا عابدؒ سیدنا علی اکبرؒ سیدنا علی اصغرؒ سیدنا زیدؒ سیدنا ابراہیمؒ سیدنا محمدؒ سیدنا حمزہؒ سیدنا ابوبکرؒ سیدنا جعفرؒ سیدنا عمرؒ وغیرہ یہ کربلا میں شہید ہوئے
(تاریخ الائمہ صفحہ 83)۔
4۔ سیدنا زین العابدینؒ
سیدنا زین العابدینؒ نے بھی اپنے صاحب زادے کا نام سیدنا عمر رکھا (کشف الغمہ صفحہ 200 جلاء العیون صفحہ 107 تاریخ الائمہ صفحہ 99)
5۔ سیدنا موسیٰ کاظمؒ
انہوں نے بھی اپنے بیٹے کا نام سیدنا عمر اور سیدنا ابوبکر رکھا تھا اور اپنی بیٹی کا نام سیدہ عائشہ رکھا (کشف الغمہ جلد 3 صفحہ 10 تاریخ الائمہ صفحہ 153 کتاب الارشاد و للشیخ محمد بن نعمان مفید صفحہ 283)۔
6۔ سیدنا علی رضاؒ
انہوں نے بھی اپنی لڑکی کا نام سیدہ عائشہ رکھا (کتاب الارشاد و کشف الغمہ جلد 3 صفحہ 86)۔
یہ وہ حوالے ہیں جو کتب شیعہ میں درج ہیں جن کا انکار ممکن نہیں یہاں تو تقیہ کی سیاہ چادر سے بھی تاریکی نہیں آ سکتی جس سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ ان حضراتِ گرامی قدر کے مابین عداوت و نفرت کے جو جو قصے اور حکایتیں وضع کی گئی ہیں وہ سب غلط اور جھوٹی ہیں حق یہ ہے کہ یہ حضرات آپس میں ایک دوسرے کے رفیق و شفیق محب و ناصح دوست و یار ہمدرد و غمگسار اور قرآنی ارشاد ”رحماء بینہم“ کے کامل مصداق تھے (از کتاب رحماء بینہم مؤلفہ محقق زمان مولانا محمد نافع)۔
سیدنا علیؓ نے خلفائے ثلاثہؓ سے محبت کی وجہ سے اپنے بیٹوں کے نام سیدنا ابوبکر سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رکھے:
قال المفيد رحمه الله اولاد امير المؤمنين عليه السلام سبعه وعشرون ولدا ذكرا وانثىٰ الحسنؓ والحسينؓ وزينب الكبرىٰؓ وزينب الصغرىٰؓ المكناه ام كلثوم امهم فاطمه البتولؓ سيده نساء العالمين بنت سيد المرسلين محمد خاتم النبيينﷺ ومحمد المكنی اباالقاسم امه خوله بنت جعفر بن قيس الحنفيه وعمر ورقيه كانتا توامين وامهما ام حبيبه بنت ربيعه والعباس وجعفر وعثمان وعبدالله الشهداء مع اخيهم الحسين صلوات الله عليه وعليهم اسلام بطف كربلا امهم ام البنين بنت حزام بن خالد بن عارم ومحمد الاصغر المكنی ابابكر وعبيدالله الشهيد ان مع اخيهما الحسين عليه السلام بالطف امهما ليلىٰ بنت مسعود الدارميه ويحيىٰ وعون امهما اسماء بنت عميس الخثعميه رضی الله عنها وام الحسن والرمله امها ام مسعود بن غزوه بن مسعود الثقفی ونفيسه وزينب الصغرىٰ ورقيه الصغرىٰ وام هانی وام الكرام وجمانه المكناه بام جعفر وامامه وام سلمىٰ وميمونه وفديده وفاطمه رحمه الله عليهن لامهات اولاد شتي (کشف الغمہ فی مغرفۃ الائمہ جلد 1 صفحہ 440 پی ذکر اولاد علیہ السلام)۔
شیخ مفید نے کہا کہ سیدنا علیؓ کے بچے بچیاں کل ستائیس تھے سیدنا حسنؓ سیدنا حسینؓ سیدہ زینب کبریٰ سیدہ زینب صغریٰ کنیت ام کلثوم ان کی والدہ سیدہ فاطمہؓ بنتِ رسولﷺ تھیں محمد کنیت ابوقاسم ان کی والدہ خولہ بنت جعفر تھیں سیدنا عمر سیدہ رقیہ یہ دونوں جڑواں تھے ان کی والدہ ام حبیبہ بنت ربیعہ تھیں سیدنا عباس سیدنا جعفر سیدنا عثمان سیدنا عبداللہ یہ اپنے بھائی سیدنا حسینؓ کے ساتھ میدانِِ کربلا میں شہید ہو گئے تھے ان کی ماں سیدہ ام البنین بنتِ حزم تھیں سیدنا محمد اصغر کنیت ابوبکر سیدنا عبیداللہ یہ دونوں بھی سیدنا حسینؓ کے ساتھ کربلا میں شہید ہو گئے تھے ان کی والدہ سیدہ لیلیٰ بنتِ مسعود تھیں سیدنا یحییٰ و سیدنا عون ان کی والدہ سیدہ اسماء بنتِ عمیس تھیں سیدہ ام الحسن رملہ ان کی والدہ سیدہ ام مسعود بن عروہ تھیں سیدہ نفیسہ سیدہ زینب صغریٰ سیدہ رقیہ صغریٰ سیدہ ام ہانی سیدہ ام کرام جمانہ کنیت ام جعفر سیدہ امامہ سیدہ ام سلمہ سیدہ میمونہ سیدہ خدیجہ سیدہ فاطمہ رحمہ اللہ علیھن مختلف ماؤں کی اولاد تھیں (کشف الغمہ جلد اول صفحہ 441 پر یوں بھی مذکور ہے۔ )
الذكور الحسنؓ والحسينؓ ومحمد الاكبر و عبدالله وابوبكر العباس وعثمان وجعفر وعبدالله ومحمد الاصغر ويحيىٰ وعون وعمر ومحمد الاوسط عليهم السلام۔
مشترکہ فضیلت کے اعلان کے بعد ائمہ اہلِ بیتؓ کی طرف سے علیحدہ علیحدہ خلفاء کی عظمت کا اعتراف
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں ائمہ کے ارشادات:
آیت: إِذۡ أَخۡرَجَهُ ٱلَّذِينَ ڪَفَرُواْ ثَانِىَ ٱثۡنَيۡنِ إِذۡ هُمَا فِى ٱلۡغَارِ إِذۡ يَقُولُ لِصَـٰحِبِهِ لَا تَحۡزَنۡ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَنَا الخ ( پارہ 10 رکوع 11 آیت نمبر 40)۔
جب کفار نے انہیں مکہ سے نکال دیا تو وہ اس وقت دو میں کا دوسرا تھا جس وقت وہ دونوں غار میں تھے جب ایک (رسول اللہﷺ) دوسرے کو فرما رہا تھا غم نہ کریں یقینا اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔
حضورﷺ نے غارِ ثور میں سیدنا ابوبکرؓ کے حجابات کو اٹھا کر لقب "صدیق" عطا فرمایا
فانه حدثنی ابی عن بعض رجاله رفعه الى ابی عبدالله قال لما كان رسول اللهﷺ فی الغار قال لابی بكر كانی انظر الى سفينه جعفر فی اصحابه يا قوم فی البحر وانظر الى الانصار محبين فی افنيتهم فقال ابوبكر وتراهم يا رسول اللهﷺ قال نعم قال فارنيهم فمسح على عينه فراهم فقال له رسول الله(ﷺ) انت الصديق (تفسیر قمی صفحہ 265۔266 مطبوعہ ایران طبع قدیم)۔
سیدنا باقرؓ کہتے ہیں جب حضورﷺ ہجرت کی رات غار میں تھے تو آپﷺ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو فرمایا میں سیدنا جعفر طیارؓ اور ان کے ساتھیوں کو اس کشتی میں بیٹھے دیکھ رہا ہوں جو دریا میں کھڑی ہے اور میں انصار کو بھی اپنے گھروں کے صحنوں میں بیٹھے دیکھ رہا ہوں یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے ازراہ تعجب عرض کی کیا آپ واقعی دیکھ رہے ہیں؟ فرمایا ہاں عرض کی مجھے بھی دکھلا دیجیے تو آپﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا پھر انہیں بھی یہ سب کچھ نظر آگیا اس کے بعد حضورﷺ نے فرمایا تو "صدیق" ہے۔
"غارِ ثور میں گھرانہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی بے مثال خدمات اور قربانیاں:*
پس پیغمبر(ﷺ) شب پنج شنبه در شر مکه امیر المومنین (ع) رابر جائے خود بخوا بانید وخود را از خانه ابوبکرؓ برفاقت اد بیروں آمدہ بداں غار توجه نمود و شب آنجا بیتوته فرمود مجاہد گوید که رسول(ﷺ) سه شبانه روز در غار بود واز عروہ روایت است که ابوبکرؓ راگو سفندی چند بود نماز شام عامر بن فہیرہ آں گو سفنداں رابر در غار راندی وایشاں از شیر گو سفنداں خورد ندی وقتادہ گوید که عبدالرحمٰن در خفیه بامداد وشبان گاہ آمدی وبراے ایشاں طعام آوردی (تفسیر منہج الصادقین جلد چہارم صفحہ 370)۔
شبِ جمعرات کو حضورﷺ نے سیدنا علیؓ کو اپنے بستر پر سلایا اور خود سیدنا ابوبکرصدیقؓ کی رفاقت میں ان کے گھر سے "غار ثور" کی طرف روانہ ہوئے اور رات وہیں آرام فرمایا (آگے چل کر اسی تفسیر میں لکھا ہے) مجاہد کہتا ہے کہ رسول اللہﷺ تین رات دن وہاں غار میں قیام پذیر رہے عروہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکرصدیقؓ کی چند بھیڑ بکریاں تھیں نماز مغرب کے بعد سیدنا ابوبکرؓ کے غلام "عامر بن فہیرہ" ان بکریوں کو غار کے دہانے پر لے آتے اور یہ دونوں حضرات ان کا دودھ نوش فرماتے قتادہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بیٹے سیدنا عبدالرحمٰنؓ خفیہ طور سے صبح و شام انہیں کھانا پہنچاتے رہے۔
حضور ﷺکی بشارت ہے کہ ہر حال میں سیدنا صدیقؓ کے لیے فتح
سیدنا علیؓ کا ارشاد
مرزا تقی شیعہ کے بقول سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے جب جنگ روم کا آغاز کیا اور آپؓ ہی کے دور میں رومی فتوحات کی ابتدا ہوئی رومیوں سے جنگ کی ابتدا کرنے سے قبل سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کیا آگے مرزا تقی کی عبارت سنیں۔
ابوبكر روۓ بعلی علیه السلام کرد و گفت یا ابا الحسنؓ تا توچه فرمانی علی فرمود چه تو خود راه بر گیری و چه سپاه بتازی ظفر تر است ابوبکر گفت بشرک الله يا ابا الحسنؓ از کجا گونی؟ فرمود از رسول خدا یمن آمده (تاریخ التواریخ تاریخِ خلفاءِ صفحہ 295 جلد اول طبع جدید تہران تصمیم ابوبکرؓ منتج بلا در روم)۔
سیدنا ابوبکرؓ نے سیدنا علیؓ کی طرف رخ کیا اور پوچھا کہ اس بارے میں آپؓ کیا فرماتے ہیں؟ سیدنا علیؓ نے کہا خواہ آپؓ خود جنگ کے لیے جائیں خواہ لشکر بھیجیں کامیابی آپؓ کے لیے ہے سیدنا ابوبکرؓ نے کہا سیدنا ابو الحسنؓ! اللہ آپں کو بشارت دے یہ آپؓ کہاں سے (کس دلیل سے) کہہ رہے ہیں کہا یہ بات رسول خداﷺ سے مجھے ملی ہے۔
روم کے معرکے کے لیے سیدنا علیؓ سے مشورہ
وقد شاوره عمر بن الخطابؓ في الخروج الى غزوه الروم وقد توكل الله لاهل هذا الدین باعزاز الحوره وستر الحوره والذی نصرهم وهم قليل لا ينتصرون ومنعهم وهم قليل لا يمتنعون حی لا يموت انك متىٰ نسر الى هذا العدو بنفسك فتلقهم فتنكب لا تكن للمسلمين كائفه دون اقصیٰ بلادهم ليس بعدك مرجع يرجعون اليه فابعث اليهم رجلا محربا واحفر معه اهل البلاء والنصيحه فان اظهر الله فذاك ما تحب وان تكن الأخرى كنت ردا للناس ومشابه للمسلمين (نہج البلاغه خطبہ نمبر 134 صفحہ 139 مطبوعہ بیروت)۔
جب خلیفہ ثانی نے روم پر چڑھائی کا ارادہ کیا اور آپ سے بھی مشورہ لیا تو آپ نے فرمایا نواحی اسلام کو غلبہ دشمن سے بچانے اور مسلمانوں کی شرم رکھنے کا اللہ ہی ضامن اور کفیل ہے وہ ایسا خدا ہے جس نے انہیں اس وقت فتح دی ہے جب ان کی مقدار نہایت قلیل تھی اور کسی طرح فتح نہیں پا سکتے تھے انہیں اس وقت مغلوب ہونے سے روکا ہے جب یہ کسی طرح رو کے نہ جا سکتے تھے اور وہ خداوندِ عالم "حی لا یموت" ہے (جیسے اس وقت موجود تھا ویسے ہی اب بھی قائم ہے) اب اگر تو خود دشمن کی طرف کوچ کرے اور منکوب و مخذول یعنی مغلوب ہو جائے تو یہ سمجھ لے کہ پھر مسلمانوں کو ان کے اقصائے بلاد تک پناہ نہ ملے گی اور تیرے بعد ایسا کوئی مرجع نہ ہو گا جس کی طرف وہ رجوع کریں لہٰذا آپ دشمنوں کی طرف اس شخص کو بھیج دو جو آزمودہ کار ہو اور اس کے ماتحت ان لوگوں کو روانہ کر جو جنگ کی سختیوں کے متحمل ہوں اپنے سردار کی نصیحت کو قبول کریں اب اگر خدا نے غلبہ نصیب کیا تب تو یہ وہی چیز ہے جسے آپ دوست رکھتے ہیں اور اگر اس کے خلاف ظہور میں آیا تو آپ ان لوگوں کے مددگار اور مسلمانوں کے مرجع تو بن ہی جائیں گے۔
غزوہِ احد میں نبیﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہنے والوں میں سیدنا ابو بکرؓ سرِ فہرست ہیں
(ولقد عفا الله عنهم) اعاد تعالىٰ ذكر العفو تاكيدا لطمع المذنبين فی العفو ومنعا لهم عن الياس وتحسينا لظنون المومنين ان الله غفور حليم) قد مر معناه وذكر ابو القاسم البلخی انه لم يبق مع النبی(ﷺ) يوم احد الا ثلثه عشر نفسا خمسه من المهاجرين وثمانيه من الانصار فاما المهاجرون فعلى (ع) وابوبكرؓ و طلحهؓ وعبدالرحمنؓ بن عوف وسعدؓ بن ابی وقاص (مجمع البیان جلد اول جز دوم صفحہ 524 سورة آل عمران)۔
اللہ تعالیٰ نے یقینا انہیں معاف فرما دیا اللہ تعالیٰ نے معافی کا دوبارہ تذکرہ اس لیے فرمایا تاکہ گناہ گاروں کو اپنی معافی کی خواہش پوری طرح پختہ ہو جائے اور ناامیدی ختم ہو جائے اور مومنین کے حسنِ ظن کو تقویت ملے اللہ تعالیٰ یقیناً بخشنے والا علم والا ہے اس کا معنیٰ گزر چکا ہے ابو القاسم بلخی نے ذکر کیا کہ نبی کریمﷺ کے ساتھ احد کے دن صرف تیرہ آدمی باقی رہے پانچ کا تعلق مہاجرین سے اور آٹھ کا انصار سے تھا مہاجرین کے پانچ یہ تھے سیدنا علیؓ سیدنا ابوبکرؓ طلحہؓ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی علیم اجمعین۔
سیدنا ابوبکرؓ کو "صدیق" نہ کہنے والے کے حق میں سیدنا باقرؒ کی بددعا
وعن عروه بن عبد الله قال سئلت ابا جعفر محمد ابن على عليه السلام عن حليه السيوف فقال لا باس به وقد حلى ابوبكر الصديق رضى الله عنه سيفه قلت فتقول الصديقؓ قال فوتب وثبه واستقبل القبله وقال نعم الصديقؓ نعم الصديقؓ نعم الصديقؓ فمن لم يقل له الصديقؓ فلا صدق الله له قولا فی الدنيا والاخره (کشف الغمہ فی معرفه الائمہ فی معاجز الامام ابی جعفر الباقرؒ جلد دوم مطبوعہ تبریز صفحہ 147)۔
عروہ بن عبداللہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے ابوجعفر محمد بن علی ان سے تلوار کے جڑاؤ کرنے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا اس میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنی تلوار کو زیورات سے آراستہ کیا تھا میں نے پوچھا آپ بھی سیدنا ابوبکرؓ کو " الصدیق" کہتے ہیں میری یہ بات سن کر سیدنا ابوجعفرؒ محمد بن علی نے ایک دم جذبات سے اٹھے اور کہنے لگے ہاں وہ صدیقؓ ہیں یقیناً وہ صدیقؓ ہیں اور وہ بلاشک صدیقؓ ہیں اور سنو جو شخص انہیں صدیقؓ نہیں کہتا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی بات کو ہرگز سچا نہیں کرے گا۔
سیدنا تقیؒ فضیلت شیخینؓ کے منکر نہیں تھے
لست بمنكر فضل عمرؓ ولكن ابابكرؓ افضل من عمرؓ (احتجاجِ طبری صفحہ 248 مطبی نجف اشرف)۔
میں (سیدنا تقیؒ) سیدنا عمر بن خطابؓ ان کی فضیلت کا منکر نہیں ہوں لیکن سیدنا ابوبکر صدیقؓ فضیلت میں سیدنا عمر بن خطابؓ سے بڑھ کر ہیں۔
سیدنا تقیؒ کے اس کلام سے ثابت ہوا کہ وہ شیخینؓ کی فضیلت کے قائل بھی تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے نزدیک دونوں میں سے سیدنا ابوبکرؓ افضل تھے اور میں اہلِ سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے جس کی تائید امام موصوف کر گئے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سیدنا ابوبکرؓ عزت اور فضل والے تھے۔
ولا ياتل اولو الفضل منكم والسعه ان يوتوا اولى القربىٰ والمساكين والمهاجرين ان قوله لا ياتل اولو الفضل منكم الايه نزلت فی ابی بکرؓ و مسطحؓ بن اثاثه (تفسیر مجمع البیان جز نمبر 7 جلد 4 صفحہ 133)۔
تم میں سے فضیلت والے اور مالی وسعت کے مالک لوگ اس بات کی قسم نہ اٹھا ئیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں مسکینوں اور مہاجرین کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔
یہ آیت کریمہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں نازل ہوئی جب انہوں نے اپنے خالہ زاد بھائی جناب مسطحؓ بن اثاثہ کی امداد "واقعہ افک" کے سلسلہ میں بند کر دی تھی۔
نبی پاکﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ کو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا امام بنایا
فلما اشتد به المرض امرا بابکرؓ ان یصلی بالناس وقد اختلف فی صلوته بهم فالشيعه تزعم انه لم يصل بهم الصلوه واحده وهی الصلوه التی خرج رسول اللهﷺ منها يتهاذی بين على والفضل فقام فى المحراب مقامه وتاخر ابوبكرؓ والصحيح عندى وهو الأكثر الأشهر انها لم تكن اخر الصلوه فی حيوتهﷺ بالناس جماعه وان ابابكرؓ صلی بالناس بعد ذلك يومين ثم مات (الدرة النجفيه شرح نہج البلاغه صفحہ 225 مطبوعه تہران)۔
جب حضورﷺ کا مرض بڑھ گیا تو آپﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کو نماز پڑھاؤ سیدنا ابوبکرؓ نے کتنی نمازیں پڑھائیں اس میں اختلاف ہے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ صرف ایک نماز پڑھائی اور وہ بھی وہ جس میں شرکت کے لیے حضور ﷺ سیدنا علیؓ اور سیدنا الفضلؓ کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر مسجد میں تشریف لائے حضورﷺ محراب میں اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے اور سیدنا ابوبکرؓ وہاں سے پیچھے ہٹ گئے لیکن میرے نزدیک صحیح یہ ہے اور یہی اکثر کا قول اور مشہور ہے کہ مذکورہ نماز حضورﷺ کی زندگی کی آخری نماز نہ تھی اور یقینا سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے اس کے بعد دو دن کی نمازیں لوگوں کو پڑھائیں پھر حضورﷺ کا انتقال ہو گیا۔
یہ اعزاز جسے خدا دے
"نہج البلاغہ" کی شرح سے جو اِقتباس پیش کیا گیا اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابوبکرصدیقؓ ان کو خود حضورﷺ نے مصلیٰ امامت پر کھڑا ہونے کا حکم دیا اور سیدنا ابوبکرؓ کا انتخاب کرتے وقت سیدنا علیؓ اور سیدنا عباسؓ وغیرہ بھی موجود تھے اور نماز ایسا اہم رکنِ اسلام ہے کہ اس کے تارک سے کتا اور خنزیر بھی پناہ مانگتا ہے تو اس سے ہر ذی عقل اور صاحبِ انصاف یہ سمجھ سکتا ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ کا مقام حضورﷺ کی نگاہ پاک میں کتنا بلند تھا آپﷺ کا مصلیٰ امامت کے لیے سیدنا ابوبکرؓ کا انتخاب اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ آپ کی جانشینی بھی انہی کو زیب دیتی ہے۔
سیدنا جعفرؒ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے قول کو متقی اور عالمِ قرآن ہونے کی وجہ سے قابلِ حجت سمجھتے تھے
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں تاریخ ساز کلمات
هذه احاديث رسول اللهﷺ يصدقها الكتب والكتب يصدقه اهله من المومنين وقال ابوبكرؓ عند موته حيث قيل له اوص فقال أوصى بالخمس وقد جعل الله له الثلثه عند موته ولو علم ان الثلث خير له اوصى به ثم من علمتم بعده فی فضله و زهده رضی الله عنه وهو ابو ذر رضی الله عنه فاما سلمان فكان اذا احد اعطاه دفع منه قوته لسنه حتى يحضر عطاءه من قابل فقيل له يا ابا عبدالله انت فی زهد که تصنع هذا وانت لا تدرى لعلك تموت اليوم فكان جوابه ان قال مالكم لا ترجون لی البقاء كما خفتم على الفناء اما علمتم يا جهله ان النفس قل تلثاث على صاحبها اذا لم يكن من العيش ما تعتمد عليه فاذا هی اجرزت معيشتها اطمانت و اما ابوذرؓ فكان له لويقات وشويهات يحلبها ويذبه منها اذا اشتهى اهله اللحم او نزل به ضيف او رای باهله الذى معه خصاصه نحر لهم الجزور أو من الشياه على قدر ما يذهب عنهم يقرم اللحم وياخذ هو نصيب واحد منهم لا يتفضل عليهم و من ازهد من هؤولاء وقد قال فيهم رسول اللهﷺ لهم ما قال (فروع کافی کاب المعیشہ جلد دوم مطبوعہ نولکشور صفحہ 14 فروعِ کافی جلد 5 كتاب المعیشه صفحہ 68 مطبوعه ایران)۔
یہ احادیث رسول اللہﷺ ہیں جن کی تصدیق کتاب الله کرتی ہے اور کتاب اللہ کی تصدیق ایمان والے کرتے ہیں جو اس کے سمجھنے کے اہل ہوں سیدنا ابوبکرؓ کو جب بوقتِ وفات وصیت کرنے کو کہا گیا تو فرمایا میں مال کے پانچویں حصہ کی وصیت کرتا ہوں حالانکہ خدا نے انہیں تیسرے حصہ کی وصیت کرنے کی اجازت دی تھی آپ اگر نہ جانتے کہ تیسرے حصہ کی وصیت کرنے میں ثواب زیادہ ہو گا تو تیسرا حصہ وصیت کر دیتے سیدنا ابوبکرؓ ان کے بعد زہد و فضل میں تم سیدنا ابوذرؓ اور سیدنا سلمان فارسیؓ کو سمجھتے ہو سیدنا سلمان فارسیؓ کو کوئی عطیہ دیتا تو وہ پورے سال کی خوراک کا ذخیرہ کر لیتے حتیٰ کہ آئندہ سال کے لیے بھی لوگوں نے پوچھا آپؓ زاہد ہو کر ایسا کیوں کرتے ہو کیا آپؓ کو معلوم نہیں کہ اگر آج ہی فوت ہو جاؤ جواب دیا تمہیں میرے زندہ رہنے کی امید نہیں ہے؟ جیسا کہ میرے مرنے کا اندیشہ ہے اے جاہلو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نفس آدمی پر اس وقت سرکشی کرتا ہے جب تک آدمی اتنی قدرِ معیشت حاصل نہ کرلے جس پر اسے بھروسہ ہو اور جب اس قدر معیشت مل جاتی ہے تو نفس مطمئن ہو جاتا ہے سیدنا ابوذرؓ کے پاس اونٹنیاں اور بکریاں ہوتی تھیں جو دودھ بھی دیتی تھیں اور اگر انہیں گھر والوں کے لیے یا مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے گوشت درکار ہوتا یا اپنے متعلقین کو ضرورت مند دیکھتے تو ان میں سے بکری یا اونٹ ذبح کر لیتے اور سب میں تقسیم فرما دیتے اور اپنے لیے ایک آدمی کی خوراک رکھ لیتے جو دو سروں سے زائد نہ ہو تم جانتے ہو کہ ان تین زاہدوں سے بڑھ کر اور کون زاہد ہو سکتا ہے حالانکہ حضورﷺ نے ان کے بارے فرمایا جو کچھ فرمایا (یعنی سیدنا ابوبکرؓ)۔
سیدنا جعفر صادقؒ کی نظر میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا مقام و مرتبه
اہلِ بیتؓ کے سرتاج سیدنا جعفر صادقؒ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو اس قدر کامل الایمان سمجھتے تھے کہ ان کے عمل کو بطورِ حجت پیش فرمایا اور یہی سیدنا جعفر صادقؒ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو ان حضرات میں سے گردانتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائی اور مزید یہ کہ سیدنا ابوبکرؓ کا صرف عمل ہی نہیں بلکہ حضورﷺ کا ان کے بارے تعریفی کلمات ادا فرمانا بھی امام موصوف کی نظر میں بہت اہمیت رکھتا تھا۔
ذكر اسلام ابوبکر صدیقؓ در مبداء حال این خجسته مال که آفتاب عنایت ازلی بر باطن اوپر تو افگند اقوال متعدده بنظر رسیده از آنجمله یکی آنست که این محمد آن در تاریخ خویش آورده که بعد از اسلام زيد بن حارثؓ صديقؓ در راه پیش رسول اللهﷺ آمده پرسید که آیا راستست آنچه از شمار سانیده اند که نفی اله ما کرده و عقلاء مارا از سفهاء شعر وه و به تكفير أباء واجداد ما اشتغال نموده حضرت مقدس نبوی فرمود که یا ابا بكرؓ من رسول خدانم و نبی او امر افرستاده تا تبلیغ رسالت کنم من ترا میخوانم بخدائی که بیست و شریک ندار دو بخدا سوگند که این سخن حق است انگاه آیت چند از فرقان بزبان معجز بیان گزرانیده صدیقؓ ایمان آورد دور مستقصی از قاسم بن محمد نقل کرده اند که قال رسول اللهﷺ ما عرضت الاسلام على احد الا كانت له عنده کسیت فرمود که عمرؓ (تاریخ روضته الصفاء جلد دوم صفحہ 380)۔
بیان کرتے ہیں کہ اس سفر میں جب سیدنا عمرو بن العاصؓ ایک جماعت کے سپہ سالار تھے جس میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا فاروقِ اعظمؓ بھی شامل تھے سیدنا عمرو بن عاصؓ کے دل میں یہ خیال آیا کہ حضورﷺ مجھ سے ان دونوں برگزیدہ بندوں کو زیادہ دوست سمجھتے ہیں پھر اس خیال سے کہ حضورﷺ نے صاف صاف الفاظ میں اس خیال کی تصدیق فرما دیں پوچھا یا رسول اللہﷺ! آپﷺ کس کو سب سے زیادہ محبوب سمجھتے ہیں فرمایا سیدہ عائشہؓ کو میں نے پوچھا نہیں مردوں میں سے آپﷺ کا محبوب ترین کون ہے؟ فرمایا اس کا باپ (سیدنا صدیق اکبرؓ) پھر پوچھا اس کے بعد درجہ کس کا ہے؟ فرمایا سیدنا عمر بن خطابؓ کا۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ ان کے گستاخوں پر خدا کی لعنت ہے:
دخل عبدالله بن العباس على معاويهؓ وعنده وجوه قريش فلما سلم وجلس قال له معاويهؓ انی اريد ان اسئلك عن مسائل قال سل عما بدالك وصف ابی بكرؓ قال ما تقول في ابی بكرؓ قال رحم الله ابابكرؓ كان والله للقرآن تاليا و عن المنكرات ناهياً وبذنبه عارفاً و من الله خائفاً وعن الشبهات زاجراً وبالمعروف المراً وبااليل قائماً و بالنهار صائماً فاق اصحابهؓ ورعا وكفافا وسادهم زهدا وعفافا فغضب الله على من ابغضه وطعن عليه (مروج الذہب للمسعودی جلد سوم صفحہ 55 مطبوعہ بیروت)۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ ایک مرتبہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے پاس گئے اس وقت قریش کے چیدہ چیدہ لوگ وہاں موجود تھے سلام کہنے کے بعد بیٹھے سیدنا امیرِ معاویہؓ نے کہا کہ میں تم سے اے سیدنا عبداللہؓ کچھ مسائل دریافت کرنا چاہتا ہوں فرمایا جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو پوچھو پوچھا سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے وہ کیسے تھے؟ فرمایا اللہ رحم کرے سیدنا ابوبکرؓ پر خدا کی قسم وہ قرآن پڑھنے والے منکرات سے منع کرنے والے اپنے گناہوں سے واقف اللہ سے ڈرنے والے شبہات سے ڈانٹنے والے معروف کا حکم کرنے والے شب بیدار اور دن کو روزہ رکھنے والے تھے تقویٰ پاکدامنی میں اپنے ساتھیوں سے فوقیت کے لیے زہد و عفت میں ان کے سردار تھے اللہ اس پر غضب نازل کرے جو سیدنا ابوبکرؓ سے ناراض ہو۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ حضورﷺ اور سیدنا علیؓ کے چچا زاد بھائی تھے اہلِ بیتؓ میں سیدنا علیؓ کے بعد سب سے بلند مرتبہ والے تھے۔
سیدنا عمرؓ کے بارے میں سیدنا علیؓ اور ائمہ اہلِ بیتؓ کی تعلیمات
سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدنا عمرؓ کو ہمیشہ "امیر المومنین" کہہ کر مخاطب ہوتے تھے تاکہ بعد میں آنے والے کو کسی طرح کی بھی بدگمانی پھیلانے کا موقع نہ ملے ادب و احترام کی اس کیفیت کو شارح نہج البلاغہ ابنِ ابی الحدید (256ھ) کی زبانی سنئے:
سیدنا علیؓ سیدنا عمرؓ کو اس وقت سے جب وہ خلیفہ
ہوئے ان کی کنیت سے مخاطب نہیں کرتے تھے بلکہ امیر المومنین کہہ کر خطاب کرتے تھے اور یہ بات اسی طرح کتبِ حدیث و کتب سیر و تاریخ میں بیان ہوئی ہے (شرح نہج البلاغہ جلد 2 صفحہ 234)۔
سیدنا علیؓ کی طرف سیدنا عمرؓ کی بیعت
سیدنا ابوبکر صدیقؓ ان کے انتقال کا وقت قریب ہوا تو آپ نے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
"میں نے ایک عہد کیا ہے کیا تم اس پر رضامند ہوتے ہو؟
لوگوں نے جواب دیا کہ اے خلیفہ رسولﷺ ہم اس بات پر راضی ہیں سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ سیدنا عمر بن الخطابؓ کے بغیر ہم کسی دوسرے شخص کے حق میں راضی نہیں ہوں گے (اسد الغابہ جلد 3 صفحہ صواعقِ محرقہ صفحہ 54 ریاض النفره صفحہ 882) چنانچہ ایسا ہی ہوا اور سیدنا عمرؓ خلیفتہ المسلمین ہوئے آپ
کی سب اصحاب بشمول سیدنا علیؓ نے بھی بیعت فرمائی سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرماتے ہیں کہ:
پس مسلمانوں نے سیدنا ابوبکرؓ کی بیعت کی تو میں نے بھی مسلمانوں کے ساتھ ان کی بیعت کی پس جب وہ جہاد کے لیے مجھ سے کہتے تو میں جہاد میں شریک ہوتا جب وہ مجھے عطایا و ہدایا دیتے تو میں قبول کرتا پس سیدنا ابوبکرؓ نے (آخری وقت میں سیدنا عمرؓ کے حق میں اشارہ کیا اور اس معاملہ میں انہوں نے کوئی کوتاہی نہیں کی پس مسلمانوں نے سیدنا عمرؓ سے بیعت کی میں نے بھی مسلمانوں کے ساتھ سیدنا عمرؓ کی بیعت کی جب وہ غزوات میں مجھے طلب کرتے تو میں ان کا شریک کار ہوتا اور عطایات و غنائم وغیرہ جب وہ مجھے عنایت کرتے تو میں ان کو قبول کرتا (کنز العمال جلد 6 صفحہ 82)۔
علمائے اہلِ سنت کی ان کتابوں اور ان حقائق سے شیعہ ناظرین متفق نہ ہوں تو ان کی تسلی کے لیے شیعہ محمد شیخ ابی جعفر محمد بن الحسن الطوسی (240ھ) کا قول درج کیا جاتا ہے ملاحظہ فرمائیے:
فبايعت ابابكرؓ كما بايعتموه فبايعت عمرؓ كما بايعتموه فوقيت له ببيعته حتىٰ لما قتل جعلنی سادس سته فدخلت حيث ادخلنی۔
"جس طرح تم نے سیدنا ابو بکرؓ کی بیعت کی اسی طرح میں نے بھی ان سے بیعت کی پھر جس طرح تم نے سیدنا عمرؓ کی بیعت کی میں نے بھی اسی طرح سیدنا عمرؓ کی بیعت کی اور بیعت کے حقوق کو میں نے پورا کیا حتیٰ کہ جب سیدنا عمرؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو سیدنا عمرؓ نے مجھے چھ آدمیوں (کی کمیٹی) میں ایک ممبر قرار دے کر شامل کیا اور میں نے شامل ہونا قبول کیا (رحماء بینھم، حصہ دوم صفحہ 57)۔
شیعہ مصنفین کی اس روایت کے پیش نظر یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے سیدنا عمرؓ کی بیعت کی تھی اور آپ کو امیر المومنینؓ بدل و جان تسلیم کیا تھا یہ اور بات ہے کہ شیعہ مجتہدین اس پر تقیہ کی سیاہ چادر اوڑھا دیں۔
سیدنا عمر فاروقؓ نے شاہ ایران کی لڑکی نواسۂ رسولﷺ کو دی
عن ابی جعفرؒ قال لما اقدمت بنت یزد جرد علی عمرؓ اشرف لھا عذاری المدینہ واشرق المسجد بوضوءھا لما دخلتہ فلما نظر الیھا عمرؓ غطت وجھھا و قالت اف بیروج باداء ھرمز فقال عمرؓ اتشتمنی ھذہ وھم بھا فقال لہ امیر المومنین لیس ذالک لک خیرھا رجلا من المسلمین واحسبھا ببنیسئہ فخیرھا فجائت حتیٰ وضعت یدھا علی راس حسینؓ فقال لھا امیر المومنین مااسمک فقالت جھان شاہ فقال لھا امیر المومنین شھر بانو فقال للحسینؓ یا اباعبداللہ لیلدن لک خیرا منھا اھل الارض فولدت علی ابن الحسینؓ ابن الخیرتین فخیرہ اللہ من العرب ھاشم ومن المعجم فارس وروی ان ابا الاسود الدئلی قال فیہ۔
"ان غلاما بین کسری وھاشم
لاکرم من نبطت علیہ التمائم"۔
(اصولِ کافی ترجمہ جلد اول صفحہ 579 مطبوعہ کراچی اصولِ کافی کتاب الحجہ باب مولد علی ابنِ حسین صفحہ 479 طبع جدید تہران)۔
سیدنا محمد باقرؒ نے فرمایا جب بنتِ یزد جرد سیدنا عمر فاروقؓ کے پاس آئی تو مدینہ کی لڑکیاں انکا حسن و جمال دیکھنے بالائے بام آئیں جب مسجد میں داخل ہوئیں تو چہرہ کی تابندگی سے مسجد روشن ہو گئی سیدنا عمر فاروقؓ نے جب انکی طرف دیکھا تو انہوں نے اپنا چہرہ چھپا لیا اور کہا برا ہو ہرمز کا اسکے سوئے تدبیر سے یہ روز بد نصیب ہوا سیدنا عمر فاروقؓ نے کہا کہ یہ مجھے گالی دیتی ہے (کہ میرے دیکھنے کو روز بد کہا) اور انکی اذیت کا ارادہ کیا امیر المومنین نے کہا ایسا نہیں ہےاسکو اختیار دو کہ یہ مسلمانوں میں سے کسی کو اپنے لیے منتخب کرے اسکے حصہ غنیمت میں سے اسکو سمجھ لیا جائے جب اختیار دیا گیا تو وہ لوگوں کو دیکھتی ہوئیں چلی اور سیدناحسینؓ کے سر پر اپنا ہاتھ رکھ دیا امیر المومنین نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ کہا جہان شاہ حضرت نے کہا نہیں بلکہ شہر بانو پھر سیدنا حسینؓ سے فرمایا اے سیدنا ابو عبداللہؓ تمہارا ایک بیٹا اسکے بطن سے پیدا ہوگا جو اہلِ زمین میں سب سے بہتر ہوگا چنانچہ علی ابن الحسین پیدا ہوئے پس وہ بہترین عرب ہاشمی ہونے کی وجہ سےاور بہترین عجم تھے ایرانی ہونے کی وجہ سےاور مروی ہے کہ ابو الاسود وئلی شاعر نے سیدنا زین العابدینؒ کی شان میں یہ شعر کہا وہ ایسے لڑکے ہیں جنکا تعلق کسریٰ اور ہاشم دونوں سے ہے جن بچوں کے گلے میں تعویذ ڈالے جاتے ہیں ان میں وہ سب سے بہتر ہیں
انتہائی قابلِ غور
سیدنا عمر فاروقؓ کو سیدنا علیؓ سے اتنی محبت تھی کہ انکے فرزند ارجمند کو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو چھوڑ کر ایک شاہی خاندان کی حسین وجمیل خاتون شہر بانو بخش دی اس خاتون کے ساتھ وہ تمام زیورات اورشاہانہ پوشاک بھی تھی جو "باغ فدک" سے کہیں زیادہ قیمتی تھی یہی شہر بانو سلسلہ سادات کی جدہ عالیہ بنیں یہ اہلِ بیتؓ کے ساتھ سیدنا فاروق اعظمؓ کی بے پناہ محبت کی جیتی جاگتی تصویر ہے کیونکہ اگر سیدنا عمر فاروقؓ کے دل میں کچھ رنج ہوتا تواس صورت میں سیدنا علیؓ کی سفارش کوئی اثر نہ دکھاتی
سیدنا عمر فاروقؓ حسنین کریمینؓ کو اپنی اولاد سے زیادو عزیز اور افضل سمجھتے تھے
عن ابنِ عبّاس لما فتح اللہ المدائن علی اصحاب رسولِ اللہ ﷺ فی ایام عمر امر عمرؓ بالاقطاع فبسط فی المسجد فاول من بدء الیہ حسینؓ فقال یا امیر المومنین اعطی حقی مما افاء اللہ علی المسلمین فقال عمرؓ بالحب والکرامت فامر لہ بالف درھم ثم النصرف فبدء الیہ عبداللہ بن عمرؓ فامر لہ خمس مائة درھم فقال لہ یا امیر المومنین انا رجل مشتد الضرب بالسیف بین یدی رسول اللہﷺ والحسنؓ والحسینؓ طفلان یدرجان فی سک المدینة تعطیہم الف الف درھم وتعطینی خمس ماة فقال عمرؓ نعم اذھب فاتی باب کابیھما وام کامھما وجد کجدھما وجدة کجدتھما وعم کعمھما وعمة کعمتھماوخالة کخالتھما وخال کخالھما فانک لا تاتینی بھم اما ابوھما فعلی المرتضیؓ وامھما فاطمتہ الزھراؓ وجدھما محمد مصطفیٰﷺ وجدتھما خدیجتہ الکبریٰؓ وعمھما جعفرؓ ابن ابی طالب وخالتھما رقیہؓ وام کلثومؓ بنتا رسول اللہﷺ و خالھما ابراھیم ابنِ رسول اللہﷺ (ذبح عظیم صفحہ 57۔58 مصنفہ سید اولاد حیدر فوق بلگرامی مطبوعہ کتب خانہ اثنا عشری لاہور)۔
سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مدائن کی فتح عطا کی تو سیدنا عمر فاروقؓ نے مالِ غنیمت کے تقسیم کرنے کا حکم دیا مال مسجد میں بکھیر دیا گیا سب سے پہلے سیدنا حسینؓ تشریف لائے اور کہا امیر المؤمنین اللہ نے مسلمانوں کو مالِ غنیمت عطا کیا اسمیں سے مجھے میرا حق عطا کیجئے سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا بڑی محبت اور عزت سے عطا کرتا ہوں تو ایک ہزار درہم دینے کا حکم فرمایا پھر یہ تشریف لے گئے انکے بعد سیدنا عمر فاروقؓ کے بیٹے سیدنا عبداللہؓ تشریف لائے انکو پانچ سو درہم دینے کو کہا تو انہوں نے عرض کی امیر المومنینؓ میں تلوار کا بہت ماہر بہادر مجاہد ہوں اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے میں تلوار بازی کی خدمات انجام دے چکا ہوں حالانکہ اسوقت سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ بچے تھے اور مدینہ کی گلیوں میں کھیلا کرتے تھے آ پؓ نے انہیں تو ایک ہزار درہم عطا فرمائے اور مجھے صرف پانچ سو سیدنا عمرؓ نے فرمایا ٹھیک کہتے ہو جائو ان دونوں کے باپ جیسا کہیں سے باپ ماں جیسی ماں نانا جیسا نانا نانی جیسی نانی چاچا جیسا چاچا پھوپھی جیسی پھوپھی خالہ جیسی خالہ اور ماموں جیسا ماموں تو لاکر دکھاؤ تم یہ ہرگز نہیں لاسکتے دیکھو انکا باپ سیدنا علی المرتضیٰؓ انکی ماں سیدہ فاطمہں انکے نانا محمد مصطفیٰﷺ انکی نانی سیدہ خدیجتہ الکبریٰؓ انکے چاچا سیدنا جعفرؓ بن ابو طالب انکی پھوپھی سیدہ ام ہانیؓ بنت ابو طالب انکی خالہ سیدہ رقیہؓ اور سیدہ ام کلثومؓ اور انکے ماموں سیدنا ابراہیم بن محمد رسول اللہﷺ ہیں۔
عن عبيد ابن حنين قال حدثنی الحسينؓ قال اتيت عمرؓ وهو يخطب على المنبر فصعدت اليه فقلت انزل على منبر ابی واذهب على منبر ابيك فقال عمرؓ لم يكن لابک منبر فاخذنی فجلسنی معه اقلب الحصى بيدی فلما نزل انطلق بی الى المنزل فقال من علمك فقلت والله ما علمنی احد قال فاتيته وهو خال بمعاويةؓ وابن عمرؓ فى الباب فرجع فرجعت معه فلقينی بعد ذالك فقال لم اراك قلت يا امير المؤمنين انی جئت وانت خال بمعاويةؓ فرجعت مع ابن عمرؓ فقال انت احق من ابن عمرؓ (ذبح عظیم صفحہ 57)۔
عبید بن حنین سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں مجھے سیدنا حسینؓ نے یہ بات سنائی کہ میں(سیدنا حسینؓ) ایک دفعہ سیدنا عمر فاروقؓ کے پاس گیا اسوقت وہ منبر پر بیٹھے خطبہ دے رہے تھے میں منبر پر چڑھ گیا اور کہا میرے باپ کے منبر سے اتر جائو اور جائو اپنے باپ کے منبر پر چڑھ کر خطبہ دو سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا میرے باپ کا تو کوئی منبر نہیں تو اسکے بعد مجھے پکڑ کر منبر کے اوپر بٹھا دیا میں انکے ساتھ منبر پر بیٹھا کنکریوں سے کھیل رہا جب خطبہ دینے سے فارغ ہوئے تو مجھے لے کر اپنے گھر چلے اور مجھ سے پوچھا تمہیں یہ باتیں کس نے سکھائی ہیں میں نے کہا خدا کی قسم کسی نے نہیں سکھائیں پھر سیدنا حسینؓ نے فرمایا میں ایک مرتبہ پھر گیا تو اسوقت سیدنا عمر فاروقؓ سیدنا امیرِ معاویہؓ سے تنہائی میں گفتگو فرما رہے تھے اور انکے بیٹے سیدنا عبداللہؓ دروازے پر تھےجب سیدنا ابن عمرؓ لوٹے تو میں بھی آ گیا پھر ایک مرتبہ اسکے بعد سیدنا عمر فاروقؓ مجھ سے ملےتو کہنے لگے بہت عرصہ ہوا تمہیں دیکھا نہیں میں نے کہا آ پؓ کے پاس آ یا تھا لیکن اس وقت آ پؓ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے ساتھ تنہائی میں گفتگو فرما رہے تھےتو میں آ پ کے بیٹے سیدنا عبداللہ کے ساتھ واپس آ گیا تو سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا تم میرے نزدیک میرے بیٹے سے زیادہ حقدار تھے۔
سیدنا علیؓ سیدنا عمر فاروقؓ کو منبر رسولﷺ پر بیٹھنے کا مستحق سمجھتے تھے
سیدنا زید بن علیؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا حسین بن علیؓ ایک مرتبہ جمعہ کے دن سیدنا عمر بن خطابؓ کے پاس آ ئے سیدنا عمر فاروقؓ اسوقت منبر پر (خطبہ دے رہے تھے)سیدنا حسینؓ نے کہا میرے باپ کے منبر سے اتر جائو یہ سن کر سیدنا عمر فاروقؓ رو پڑے اور فرمایا کہ بیٹا تو نے ٹھیک کہا کہ یہ تیرے باپ کا منبر ہے میرے باپ کا نہیں ہےاس پر سیدنا علیؓ بولے خدا کی قسم سیدنا حسینؓ نے میری رائے سے نہیں کہا سیدنا عمر فاروقؓ نے کہا آ پؓ نے سچ فرمایا اللہ کی قسم ابو الحسن آپ کو تہمت نہیں دیتا اس کے بعد سیدنا عمر فاروقؓ نے سیدنا حسینؓ کا ہاتھ پکڑا اور اپنے برابر منبر پر بیٹھا لیا اور عوام سے خطاب کیا جبکہ سیدنا حسینؓ آپ کے ساتھ منبر پر رونق افروز تھے اس کے بعد فرمایا لوگو میں نے پیغمبرﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا تم میری اور میری خاطر میری اولاد کی عزت کرو اور جس نے میری خاطر انکی حفاظت کی اللہ اس کی حفاظت کرے خبردار میری اولاد کے بارے میں جس نے مجھے اذیت پہنچائی اس پر اللہ کی لعنت یہ جملہ آ پ نے تین مرتبہ فرمایا۔
رسول اللہﷺ کی پیشن گوئی سیدنا عمر فاروقؓ کے حق میں پوری ہوئی
و بروايت دیگر مشت خاک از برائے آنحضرت فرستادہ حضرت فرمود کہ امت بزودی مالک زمین او خواہشد چنانچہ خاک ازبرائےمن فرستادہ (حیات القلوب جلد دوم صفحہ 789 نو لکشور طبع قدیم باب چہارم در بیان نوشتن نامہ ہابیاد شاہ وسائر وقائع)۔
ایک دوسری روایت کے مطابق کسریٰ شاہِ ایران نے خاک کی ایک مٹھی رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں بھیجی رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری امت بہت جلد اس زمین(ملک) کی مالک بن جائے گی جیساکہ اس نے خود اپنی زمین کی مٹی مجھے بھیج دی ہے۔
سیدنا عمر فاروقؓ کے اسلام کے لیے رسول اللہﷺ نے دعا فرمائی
ثم قال هذا عمرؓ اللهم اعز الاسلام بعمرؓ فقال اشهد ان لا اله الله فكبر اهل الدار ومن كان على الباب تكبيره سمعها من كان فى المسجد من المشركين (شرح نہج البلاغہ ابنِ حدید جلد سوم صفحہ 143فی کیفیہ الاسلام)۔
جب سیدنا عمر فاروقؓ برہنہ تلوار لیے بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے دیکھ کر فرمایا یہ عمر ہے اے اللہ عمر کے ذریعے اسلام کو عزت بخش تو سیدنا عمر فاروقؓ نے کہا میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں تو اس پر گھر میں موجودد تمام لوگوں نے اور دروازے پر کھڑے لوگوں نے بلند آواز سے تکبیر کہی جس کو مسجد میں موجود مشرکین نے بھی سنا۔
سیدنا علیؓ نے فرمایا میں شاہد ہوں کہ رسول اللہﷺ سیدنا عمر فاروقؓ پر راضی ہو گیا
قال حدثنا يوسف عن ابيه عن ابی خنيفة عن الهيثم قال دخل ابن عباسؓ على عمرؓ حين اصيب فقال البشر فو الله لقد كان اسلامك عزا ولقد كان هجرتك فتحاو ولايتك عدلا ولقد صحبت رسول اللهﷺ حتىٰ توفىٰ وهو عنك راض ثم صحبت ابابكرؓ فتوفى وهو عنك راض ولقد لبثت فما اختلف فى ولايتك اثنان قال عمرؓ اتشهد بذالك؟ قال فكعی ابنِ عباس فقال علیؓ نعم نشهد بذالك (شرح نہج البلاغہ ابنِ حدید جلد سوم صفحہ 146 مطبوعہ بیروت بحث فی الآثار التی وردت فی موت عمرؓ والکلام الذی مالک عند ذالک)۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سیدنا عمر فاروقؓ کے پاس ان پر قاتلانہ حملہ ہونے کے بعد حاضر ہوئے اور کہنے لگے اللہ کی قسم تمہارا اسلام عزت والا تمہاری ہجرت فتح کی پیش خیمہ اور تمہاری ولایت سراسر عدل تھی رسولﷺ کے وصال مبارک تک تمہیں آپﷺ کی صحبت نصیب رہی اور آپﷺ دنیا سے رخصت ہوتے وقت تم سے راضی ہو گئے پھر تم سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی صحبت میں رہے وہ بھی خوشی راضی تم سے الوداع ہوئے تم جب خلیفہ بنے تو پوری خلافت میں دو آدمی بھی آپ سے ناراض نہ ہوئے یہ سن کر سیدنا عمرؓ نے کہا کیا تم اسکی گواہی دیتے ہو سیدنا ابنِ عباسؓ نے کچھ خاموشی اختیار کی لیکن سیدنا علیؓ نے فرمایا ہاں ہم اسکی گواہی دیتے ہیں
آگے چل کر علامہ ابنِ حدید لکھتا ہے:
وفی رواية اخرى لم تجزع يا اميرالمؤمنين فوالله لقد كان اسلامك عزاوامارتك فتحاولقد ملات الارض عدلا فقال اتشهد لی بذالك يا ابنِ عباسؓ قال فكانه كره الشهادة فتوقف فقال له علىؓ قل نعم وانا معك فقال نعم۔
دوسری روایت میں ہے سیدنا ابنِ عباسؓ نے فرمایا اے امیر المؤمنین آپؓ نہ روئیں آپؓ کا اسلام عزت والا حکومت فتح کی علامت تھی آ پؓ نے اسکو عدل سے بھر دیا سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا اے سیدنا ابنِ عباس کیا تو اپنی اس بات کی گواہی دیتا ہے اس پر انہوں نے توقف کیا گویا گواہی دینا بہتر نہ سمجھا تو سیدنا علیؓ نے سیدنا ابنِ عباسؓ سے کہا کہ کہو میں گواہی دیتا ہوں اور میں بھی تمہارے ساتھ ہوں گواہی دینے میں اسوقت سیدنا ابنِ عباسؓ نے کہا ہاں میں گواہی دیتا ہوں۔
سیدنا ابنِ عباسؓ نے گستاخانِ سیدنا عمر فاروقؓ پر خدا کی لعنت کی
قال معاویهؓ ایها یا ابن عباسؓ فما تقول فی عمرؓ ابن الخطاب قال رحم الله ابا حفص عمرؓ كان والله حليف الاسلام ومساوى الايتام ومنتهى الاحسان ومخل الايمان وكهف الضعفاء ومعقل الحنفاء قام بحق الله عزوجل صابرا محتسبا حتى اوضح الدين وفتح البلاد وامن العباد فاعقب الله على من تنقصه اللعنه الى يوم الدين۔
(مروج الذہب للمسعودی جلد 3 صفحہ 51 مطبوعہ بیروت)۔
"سیدنا معاویہؓ نے کہا اے سیدنا ابنِ عباسؓ سیدنا عمر بن خطابؓ کے بارے میں تو کیا کہتا ہے فرمایا سیدنا ابو حفص عمرؓ پر خدا کی رحمت ہو اللہ کی قسم! وہ اسلام کے سچے خیر خواہ یتیموں کے ماویٰ ایمان کے محل ضعیفوں کی جائے پناہ اور سچے لوگوں کی پناہ گاہ تھے اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطر صبر اور استقامت سے قائم رہے یہاں تک کہ دین واضح ہوا شہر فتح کیے بندوں کو چین نصیب ہوا اس شخص پر اللہ کی تاقیامت لعنت جو سیدنا فاروقِ اعظمؓ میں نقص و خرابی لگائے"۔
سیدنا فاروقِ اعظمؓ سادگی اور عجز و انکساری میں بے مثال تھے
اخبار الطوال صفحہ 123 میں احمد بن داؤد دینوری شیعی نے سیدنا فاروقِ اعظمؓ کی سیرت کا ایک واقعہ نقل کیا ہے ملاحظہ ہو:
وكتب سعد الى عمرؓ بالفتح وكان عمرؓ يخرج فی كل يوم ماشيئا وحده لا بدع احدا يخرج معه فيمشی على طريق العراق ميلين او ثلاثه فلا يطلع عليه راكب من جهه العراق الاساله عن الخبر مبين هو ذالك يوما طلع عليه البشير بالفتح فلما راه عمرؓ ناداه من بعيد ما الخبر قال فتح الله على المسلمين وانهزمت العجم وجعل الرسول يحب ناقته و عمرؓ يعد و معه ويساله ويستحبره والرسول لا يعرفه حتىٰ دخل المدينه كذالك فاسقبل الناس عمرؓ يسلمون عليه بالخلافه وامير المومنين فقال الرسول وقد تحير سبحان الله یا امیر المومنينؓ الا اعلمتنی فقال عمرؓ لا علیک ثم اخذ الكتاب فقراءه على الناس۔
(الاخبار الطوال صفحہ 123۔124 مصنفہ احمد بن داؤد الدینوری مطبوعہ بیروت)۔
سیدنا سعدؓ نے سیدنا فاروقِ اعظمؓ کو فتح کا پیغام تحریر کیا ادھر سیدنا عمرؓ کا معمول تھا کہ روزانہ بلاناغہ اکیلے ہی عراق کی طرف جاتے راستہ پر دو دو تین تین میل نکل جاتے اور عراق کی طرف سے جب کوئی سوار آتا نظر پڑتا تو اس سے جنگ کے بارے میں پوچھتے اتفاقاً ایک دن عراق کی جانب سے فتح کی خوشخبری دینے والا بھی آیا سیدنا عمرؓ نے دور سے اسے آواز دی کوئی خبر لائے ہو؟ کہنے لگا اللہ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور کفار (نجم) شکست کھا گئے یہ کہا اور اس پیغامبر نے اونٹنی دوڑائی سیدنا عمرؓ نے بھی پیدل اس کے ساتھ دوڑتے چلے آ رہے تھے اور جنگ کے واقعات پوچھ رہے تھے لیکن اس ایلچی کو اس بات کا قطعاً علم نہ تھا کہ یہی خلیفہ وقت ہیں یہاں تک کہ مدینہ میں داخل ہوئے لوگ سیدنا عمرؓ کو بڑھ کر سلام کرنے لگے کیونکہ آپ خلیفہ تھے ایلچی نے حیران ہوتے ہوئے کہا سبحان اللہ! امیر المومنینؓ! آپ نے مجھے اپنے متعلق بتایا ہی نہیں تو سیدنا عمرؓ نے فرمایا تمہیں کوئی سزا نہیں یہ کہہ کر رقعہ لیا اور مسلمانوں کو پڑھ کر سنایا۔
محجوبانِ رسولﷺ سیدنا عمرؓ کے نزدیک اپنی اولاد سے بھی افضل و عزیز تھے
روایت نموده اند که عمر ابن خطابؓ بجهت اسامه بن زیدؓ پنچ هزار دینار از بیت المال مقرر کرده و از برائی پسر خود عبداللهؓ دو هزار دينار عبداللهؓ گفت اسامهؓ را بر من ترجیح دادی و حال آنکه من از غزوات حضرت پیغمبر دیده ام آنچه را که او نديده عمرؓ گفت بجهت آن که پیغمبرﷺ اور از پدر تو پیشتر دوست میداشت۔
(المنتخب التواریخ مطبوعه تہران فصل ہفتم صفحہ 96)۔
روایت ہے کہ سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے سیدنا اسامہ بن زیدؓ کے لیے پانچ ہزار دینار بیت المال سے مقرر فرمائے اور اپنے بیٹے سیدنا عبد اللہؓ کے لیے صرف دو ہزار دینار سیدنا عبداللہؓ نے کہا ابا جان! آپ نے سیدنا اسامہؓ کو مجھ پر فوقیت دی حالانکہ مجھے حضورﷺ کے ساتھ غزوات میں شرکت کا موقعہ ملا اور میں نے وہ کچھ دیکھا جو سیدنا اسامہؓ نے نہیں دیکھا سیدنا عمر بن خطابؓ نے فرمایا وجہ یہ ہے کہ حضورﷺ سیدنا اسامہ بن زیدؓ کو تمہارے باپ سے زیادہ دوست رکھتے تھے"۔
سیدنا عمرؓ کی طرف سیدنا علیؓ سے گہری محبت کی روایت
وفی روايه يحيىٰ بن عقيل ان عمرؓ قال لا ابقانی الله بعدک یا علیؓ۔
(مناقب ابنِ شہر آشوب جلد دوم صفحہ 360 مطبوعہ قم طبع جدید باب فی قضاياه علیه السلام فی عہدِ الثانی)۔
یحییٰ بن عقیل کی روایت میں ہے کہ سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا اے سیدنا علی المرتضیٰؓ اللہ تعالیٰ تمہارے بعد مجھے زندہ نہ رکھے"۔
سیدنا علیؓ سیدنا عمر فاروقؓ کے عمل کو مشعلِ راہ سمجھتے تھے
قالوا وكان مقدمه الكوفه يوم الاثنين لاثنتی عشره لیله خلت من تجب سنه ست و ثلاثين فقيل له يا امير المومنينؓ اتنزل القصر قال لاحاجه لی فی نزوله لان عمر بن الخطابؓ كان يبغضه ولكنى نازل الراحبه ثم اقبل حتىٰ دخل المسجد الاعظم فصلى ركعتين ثم نزل الرحبه۔
(اخبار الطوال صفحہ 152 مصنفہ احمد بن داؤد الدینوری مطبوعه بغداد طبع جدید)۔
انہوں نے کہا کہ سیدنا علیؓ کا کوفہ میں تشریف لانا بارہ رجب بروز پیر 36ھ کو ہوا تو آپ سے عرض کی گئی کہ قصر امارت میں قیام فرمائیں گے فرمایا نہیں کیوں کہ ایسی جگہ میں سیدنا عمرؓ ٹھہرنا پسند نہیں فرمایا کرتے تھے اس لیے عام مکان میں قیام کروں گا پھر آپ نے جامع مسجد کوفہ میں تشریف لا کر دو گانہ پڑھا پھر ایک عام مکان میں قیام فرمایا"۔
وروى المسور بن مخرمه ان عمرؓ لما طعن اغمى عليه طويلا فقيل انكم لم توقظوه بشی مثل الصلوه ان كانت به حياه فقالوا الصلوه يا امير المومنينؓ الصلوه قد صليت فانتبه فقال الصلوه لا والله لا اتركها لاحظ فی الاسلام لمن ترك الصلوه فصلى وان جرحه لينبعث دما۔
(ابنِ حدید شرح نہج البلاغه جلد نمبر 3 صفحہ 146 مطبوعہ بیروت طبع جدید)۔
مسور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ جب سیدنا فاروقِ اعظمؓ زخمی ہوئے تو انہیں طویل غشی آئی تو کہا گیا کہ تم لوگ سیدنا فاروقِ اعظمؓ کو نماز کے علاوہ کسی اور چیز سے ہوش میں نہیں لا سکتے بشرطیکہ آپ زندہ ہوں تو لوگوں نے کہا "الصلوہ یا امیر المومنینؓ" یہ سن کر آپ کو ہوش آیا اور نماز پڑھی پھر فرمایا اللہ کی قسم میں نماز کو ہرگز نہیں چھوڑ
سکتا کیونکہ جس نے نماز کو چھوڑ دیا اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں آپ نے نماز پڑھی اور زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔
سیدنا علیؓ نے سیدنا عمر فاروقؓ کے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں پیش ہونے کی تمنا کی
عن محمد بن سبنان عن مفضل بن عمر قال سالت ابا عبداللهؓ عن معنی قول امیر المومنينؓ صلوات الله عليه لما نظر الى الثانی وهو مسجى بثوبه ما احد احب الى ان القى الله بصحيفه من هذا المسجى۔
(معافی الاخيار للشيخ الصدوق صفحہ 413 طبع جدید بیروت)۔
شیخ صدوق نے باسند ایک حدیث ذکر کی جس میں ذکر کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ فضل بن عمر نے سیدنا جعفر صادقؓ سے پوچھا کہ جب سیدنا عمر بن خطابؓ کو کفن دیا جا چکا تھا اس وقت سیدنا علیؓ نے ارشاد فرمایا تھا اس کا کیا مطلب تھا تو آپ نے فرمایا کہ سیدنا علیؓ کا یہ مطلب تھا کہ میرے نزدیک کوئی عمل اس سے زیادہ پسندیدہ نہیں کہ جب میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروں تو اس کفن پہنے ہوئے یعنی سیدنا عمر بن خطابؓ کے اعمال نامے کے ساتھ ملاقات کروں"۔
سیدنا عمرؓ سیدنا علیؓ کے ساتھ ہی زندگی گزارنے کو پسند کرتے تھے
فقال عمرؓ لا عشت فی امه لست فيها يا ابا الحسن۔
(امالی طوسی جلد دوم صفحہ 92 مطبوعه قم طبع جدید الجز السابع عشر)۔
سیدنا عمر بن خطابؓ نے سیدنا علیؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا اے ان ابو الحسنؓ! مجھے ایسی قوم میں رہنا اور زندگی گزارنا ہرگز پسند نہیں جس میں تم نہ ہو"۔
وقوله عليه السلام السلمانؓ ان سيوضع علی راسک تاج کسری فوضع التاج على راسه عند الفتح.۔
(مناقب ابنِ شہر آشوب جلد اول صفحہ 109 فی معجزات اقوالہﷺ قم طبع جدید)۔
سیدنا سلمان فارسیؓ نے کو نبی پاکﷺ نے فرمایا کہ جب فارس فتح ہو گا تو تیرے سر پر کسریٰ کا تاج رکھا جائے گا چنانچہ جب فارس فتح ہوا تو سیدنا عمر فاروقؓ نے آپ کے سر پر (کسریٰ کا) تاج رکھ دیا"۔
نہایت متقی تھے اور بقول سیدنا علیؓ ان کی فتوحات اللہ کی فتوح ہیں
لله بلاد فلان فلقد قوم الاود و داوى العمد وامام السنة وخلف الفتنه ذهب نقى الثوب قليل العيب اصاب خيرها و سبق شترها ادی الى الله طاعته واتقاه بحقه۔
(نہج البلاغہ خطبہ نمبر 228 صفحہ 350 مطبوعہ بیروت طبع جدید)۔
"اللہ تعالیٰ سیدنا عمر فاروقؓ کے شہروں میں برکت دے انہوں نے ٹیڑھی راہ کو سیدھا کیا اور بیماری کا علاج کیا (مختلف شہروں کے باشندوں کو دینِ اسلام کی طرف پھیرا) سنت کو قائم کیا (حضورﷺ کے احکام کو جاری کیا) اور فتنے کو پس پشت ڈالا (آپ کا زمانہ فتنہ و فساد سے پاک رہا) اور دنیا سے کم عیب اور پاک جامہ لے کر رخصت ہوئے اور خلافت کی بھلائیوں کو پایا اور اس کے شر سے پہلے چلے گئے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حق ادا کیا اور اس کی نافرمانی سے پرہیز کیا"۔
سیدنا عثمانؓ کے بارے میں آئمہ اہلِ بیت کی تصریحات
سیدہ فاطمہؓ کے حق مہر اور جہیز کا انتظام سیدنا عثمانؓ نے کیا
قال علىؓ فاقبل رسول اللهﷺ فقال يا ابا الحسنؓ انطلق الآن فبع درعك واتنی بثمنه حتىٰ اهی لك ولا بنتی فاطمهؓ ما يصلحكما قال علىؓ فانطلقت وبعثه باربع مائه درهم سود هجريه من عثمان بن عفانؓ فلما قبضت الدراهم منه وقبض الدرع منى قال يا ابا الحسنؓ لست اولى بالدرع منك وانت اولى بالدراهم منی؟ فقلت بلىٰ قال فان الدرع هديه منى اليك فاخذت الدرع والدراهم واقبلت الى رسول اللهﷺ فطرحت الدرع والدراهم بين يديه واخـبـرتـه بـمـا كـان مـن امـر عثمانؓ فدعا له بخير وقبض رسول اللهﷺ قبضه من الدراهم و دعا بابی بكرؓ فدفعها اليه وقال يا ابابكرؓ اشتر بهذه الدراهم لابنتی ما يصلح لها فی بيتها و بعث معه سلمان الفارسیؓ وبلالاؓ ليعينياه على حمد ما يشتريه۔
(کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ جلد اول صفحہ 359 مطبوعہ تبریز طبع جدید باب تزویج فاطمہؓ)۔
سیدنا علی المرتضىٰؓ نے فرمایا حضورﷺ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا اے سیدنا ابو الحسنؓ! ابھی جاؤ اور اپنی زرہ بیچ کر جو قیمت ملے میرے پاس لے آؤ تاکہ میں اس سے تمہارے لیے اور اپنی بیٹی کے لیے شادی کا ضروری سامان تیار کروں میں گیا اور چار سو درہم کے بدلے وہ زرہ سیدنا عثمانؓ کے ہاتھ فروخت کر دی جب میں نے قیمت وصول کر لی اور سیدنا عثمانؓ نے زرہ پر قبضہ کر لیا تو سیدنا عثمانؓ نے کہا اے سیدنا ابو الحسنؓ! میں اس زرہ کا تم سے زیادہ مستحق نہیں اور تم ان دراہم کے مجھ سے زیادہ مستحق ہو تو میں نے کہا ہاں ٹھیک کہتے ہو تو سیدنا عثمانِ غنیؓ نے کہا میں یہ زرہ تمہیں بطورِ ہدیہ دیتا ہوں میں نے درہم اور زرہ دونوں لے کر حضورﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا درہم اور زرہ آپ کے سامنے رکھ کر سیدنا عثمانؓ کا سارا واقعہ بیان کر دیا آپﷺ نے ان کے لیے دعائے خیر فرمائی پھر آپﷺ نے مٹھی بھر درہم لے کر سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو بلا کر انہیں دے دیئے اور فرمایا اے سیدنا ابوبکرؓ! ان دراہم سے میری بیٹی کے لیے گھر کا ضروری سامان خرید لاؤ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ حضورﷺ نے سیدنا سلمان فارسیؓ اور سیدنا بلالؓ کو بھی بھیجا تاکہ اس سامان کے اٹھانے میں یہ دونوں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی مدد کریں"۔
سیدنا عثمانؓ پر لعنت کرنے والے پر خدا کی تا قیامت لعنت ہے
قال ابنِ عباسؓ رحم الله ابا عمروؓ وكان والله اكرم الحفده وافضل البرره هجاداً بالاسحار كثيرا الدموع عند ذكر النار نهاضا عند كل مكرمه سباقا الى كل منحه حييا ابيا وفيا صاحب جيش العسره ختن رسول اللهﷺ فاعقب الله على من يلعنه لعنه اللاعنين الى يوم الدين۔
(1۔ تاریخِ مسعودی جلد سوم صفحہ 51 مطبوعہ بیروت ذکر الصحابہؓ ومدہم)
(2۔ ناسخُ التواریخ از مرزا محمد تقی لسان الملک کتاب نمبر 2 جلد 5 صفحہ 144 مطبوعہ تہران)۔
"سیدنا ابنِ عباسؓ نے جواب دیا کہ سیدنا عثمانؓ (ابو عمروؓ) پر اللہ رحمت نازل فرمائے آپؓ اپنے خادموں اور غلاموں پر مہربان تھے نیکی کرنے والوں میں افضل شب خیز و شب زندہ دار تھے دوزخ کے ذکر پر نہایت گریہ کرنے والے عزت و وقار کے امور میں اٹھ کھڑے ہونے والے اور نبی کریمﷺ کے داماد تھے جو شخص سیدنا عثمانِ غنیؓ کے بارے میں زبان لعن و طعن دراز کرے اللہ تعالیٰ اس پر قیامت تک لعنت کرے سب لعنت کرنے والوں کی لعنت کے برابر"۔
كشف الغمہ
فقال ابنِ عباسؓ على علمنی فكان علمه من رسول اللهﷺ وعلمه من الله من فوق عرشه فعلم النبیﷺ من الله وعلم على من النبىﷺ و علمى من علم على۔
(1۔ کشف الغمہ فی معرفتہ الائمہ جلد اول صفحہ 507 بمعہ ترجمہ فارسی المناقب طبع جدید طہران)۔
(2۔ امالی شیخ طوسی جلد اول صفحہ 11 جز اول مطبوعہ نجف اشرف عراق طبع جدید)۔
سیدنا ابنِ عباسؓ نے فرمایا مجھے سیدنا علیؓ نے علم سکھایا اور سیدنا علیؓ کا علم حضورﷺ سے حاصل کردہ تھا اور حضورﷺ کا علم عرش کے اوپر سے اللہ کی طرف سے تو علمِ نبی اللہ سے اور علمِ علی علم نبی سے اور میرا (سیدنا ابنِ عباسؓ کا) علم علم سیدنا علیؓ سے ہے"۔
خلاصہ کلام
سیدنا ابنِ عباسؓ نے وہ تمام اوصاف جو ایک کامل مومن کے ہو سکتے ہیں وہ سب سیدنا عثمانِ غنیؓ کے وصف میں ذکر فرمائے بلکہ یہاں تک فرما دیا کہ وہ دامادِ پیغمبرﷺ ہیں اور ان پر لعنت کرنے والا اللہ تعالیٰ کی لعنت دائمی کا سزا وار ہے۔