خلفاءِ راشدینؓ کی خاندان نبوت سے رشتہ داریاں باہمی محبت کے اہم مظاہر
حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒخلفاءِ راشدینؓ کی خاندانِ نبوت سے رشتہ داریاں باہمی محبت کے اہم مظاہر
سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور خاندانِ نبوت
1- سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی بڑی صاحبزادی سیدہ اسماءؓ کی شادی آنحضرتﷺ کے پھوپھی زاد بھائی سیدنا زبیر بن عوامؓ سے ہوئی تھی جن سے مشہور صحابی سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ پیدا ہوئے۔
(رحماء بینھم جلد اول)۔
2- سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی ایک چہیتی بیٹی سیدہ عائشہؓ آنحضرتﷺ کے نکاح میں آئیں یہ نکاح براہِ راست خدا کے حکم سے ہوا۔
(بخاری شریف)۔
سیدہ عائشہؓ پر منافقینِ مدینہ نے تہمت لگائی تو قرآن عظیم کی 17 آیات (سورہ نور) سیدہ عائشہؓ کی شان میں نازل ہوئیں اس موقع پر قرآن نے سیدہ عائشہؓ کی صفائی پیش کر کے منافقین اور دشمنانِ سیدہ عائشہؓ کو جہنم کی خوشخبری دی۔
(القرآن پارہ 18)۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بڑے صاحبزادے سیدنا عبدالرحمنؓ کی لڑکی سیدہ اسماءؓ اور سیدنا ابوبکرؓ کے چھوٹے لڑکے سیدنا محمدؓ کے لڑکے سیدنا قاسم بن محمد بن ابوبکرؓ کا آپس میں نکاح ہوا ان دونوں میاں بیوی سے ایک لڑکی سیدہ ام فروہؒ پیدا ہوئیں یہ سیدہ ام فروہؒ سیدنا باقرؒ کے نکاح میں آئیں۔ انہی کے بطن سے سیدنا جعفرصادقؒ پیدا ہوئے اس رشتہ کی وجہ سے سیدنا جعفرؒ فرماتے تھے "ولدنی ابوبکرؓ مرتين“ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے مجھے دو دفعہ جنا۔
اس کی وجہ سے وہ میرے ننھیال بھی ہیں اور ددھیال بھی جس سیدنا جعفر صادقؒ کی نام پر فقہ جعفریہ کی بنیاد رکھی گئی وہ تو خود سیدنا ابوبکرؓ ہی کی اولاد سے ہیں پھر اسی سیدہ ام فروہؒ کی اولاد میں سیدنا جعفر صادقؒ کے بعد سیدنا موسیٰ کاظمؒ سیدنا رضا کاظمؒ سیدنا تقی علیؒ سیدنا نقی علیؒ سیدنا حسن عسکریؒ پیدا ہوئے۔
شہنشاہِ ایران کی دو لڑکیاں نفیسہ اور شاہ جہاں (شہربانو) جنگِ فارس میں قید ہو کر آئیں سیدنا عمرؓ نے ان میں نفیسہ کا نکاح سیدنا محمد بن ابوبکرؓ سے کیا اور شاہِ جہاں سیدنا حسینؓ کو دے دی اس طرح سیدنا محمد بن ابوبکرؓ کے صاحبزادے سیدنا قاسم محمد بن ابوبکرؓ اور سیدنا زین العابدینؒ بن حسینؓ بن علیؓ آپس میں خالہ زاد ہیں۔
3- سیدنا ابوبکرؓ کی چار بیویاں تھیں بیک وقت دو سے زیادہ کبھی موجود نہیں رہیں آخری بیوی سیدہ اسماء بنت عمیسؓ ہیں یہ سیدنا جعفر طیارؓ کے گھر میں تھیں جو سیدنا علیؓ کے بڑے بھائی اور جنگ موتہ کے شہید ہیں آپ کی شہادت کے بعد یہ بیوہ ہوئیں تو سیدنا علیؓ نے خود بیوہ بھابھی کا نکاح سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے کیا سیدنا جعفرؓ سے سیدہ اسماءؓ کے دو بیٹے محمد بن جعفرؓ اور عبد اللہ بن جعفرؓ تھے سیدنا ابوبکرؓ کے نکاح میں سیدہ اسماءؓ سے سیدنا محمد بن ابوبکرؓ اور ام کلثومؓ پیدا ہوئیں جب سیدنا ابوبکرؓ فوت ہوئے تو اسی بیوہ بھابھی سے خود سیدنا علیؓ نے نکاح کیا جن کے یہاں سیدنا زید اور بیٹی پیدا ہوئے ملاحظہ ہو کہ سیدہ اسماءؓ کی دیگر آٹھ بہنیں تھیں جن میں سیدہ ام الفضلؓ سیدنا عباسؓ سیدہ سلمی بن ممیسؓ سیدنا حمزهؓ سیدہ قربیتہ المغریٰؓ سیدنا معاویہؓ اور سوتیلی بہن سیدہ میمونہ بنت حارثؓ آنحضرتﷺ کے گھر میں تھیں ان تمام رشتوں میں سیدنا ابوبکرؓ پورے خاندان نبوت کے ہم زلف ٹھرے ہم زلف ہونا باہمی محبت کی علامت ہے۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ و سیدہ فاطمہؓ
سیدنا ابوبکرؓ سیدنا حسینؓ سے بے حد محبت کرتے تھے بچپن میں ایک مرتبہ جب سیدنا حسینؓ آپ کے سامنے لائے گئے تو آپؓ نے فرمایا:
”بیٹا سیدنا علیؓ کا ہے چہرہ نبیﷺ کا ہے۔“
سیدنا ابوبکرؓ جب خلیفہ ہوئے تو حیرہ کی فتح کے بعد جو سیدنا خالد بن ولیدؓ کے ہاتھوں فتح ہوا تھا مالِ غنیمت میں سے ایک نہایت بیش قیمت چادر سیدنا حسینؓ کو ہدیہ بھیجی تو آپ نے اسے بخوشی قبول فرمایا۔
(فتوح البلدان صفحہ 254 بلاذری)۔
سیدہ فاطمہؓ کی نمازِ جنازہ اور تجہیز و تکفین
آنحضرتﷺ کے چھ ماہ بعد سیدہ فاطمہؓ مرض الموت میں مبتلا ہوئیں آپؓ کی بیماری میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی بیوی سیدہ اسماءؓ آپؓ کی تیمارداری میں شریک رہیں سات روز تک آپؓ سیدہ فاطمہؓ کے پاس رہیں جب سیدہ فاطمہؓ کا انتقال ہوا تو سیدہ اسماءؓ اور سیّدنا عباسؓ کی بیوی سیدہ ام الفضلؓ نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا سیدہ فاطمہؓ کا جنازہ جب مسجد میں لایا گیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر بڑی پریشان کا عالم تھا سیدنا علیؓ سمیت کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبا رہی تھیں سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: سیدنا علیؓ سیدہ فاطمہؓ کا جنازہ پڑھاؤ کیونکہ ہر خاوند کو اپنی بیوی کا جنازہ پڑھانے کا زیادہ حق ہے سیدنا علیؓ نے فرمایا جنازہ آپؓ پڑھائیں کیونکہ میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے کسی قوم سے یہ لائق نہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ موجود ہوں اور ان کے علاوہ کوئی دوسرا امامت کرائے
(ترمذی شریف و کشف الغمہ ابنِ ماجہ وغیرہ بحوالہ چار مینم)
سیدنا علیؓ سیدنا حسنؓ سیدنا عباسؓ سمیت پورے خاندانِ نبوت نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی اقتداء میں سیدہ فاطمہؓ کی نمازِ جنازہ ادا کی۔
آپ نے دیکھا کہ اپنے بیٹوں بیٹیوں اور بیویوں کے ناتے کے طور پر سیدنا ابوبکرؓ آنحضرتﷺ کے خاندان میں کس قدر قریب ہیں شیعہ اور اہلِ سنت کی معتبر کتابوں سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہی کی تحریک پر سیدنا علیؓ سے سیدہ فاطمہؓ کا نکاح ہوا پھر نکاح کے گواہوں میں سب سے پہلا نام بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا ہے
اگر خدا نخواستہ صدیق اکبرؓ مسلمان نہ تھے یا بقول خمینی قرآن کے مخالف تھے تو کیا آنحضرتﷺ اور سیدنا علیؓ اس قدر قرابت داری رکھ سکتے تھے اگر شیعہ نقطہ نظر کو تسلیم کر لیا جائے تو ان تمام رشتہ داروں کے نکاح اور نماز جنازہ وغیرہ میں سیدنا علیؓ اور آنحضرتﷺ میں یہ کی خود اپنی پوزیشن اور کیا ہوگی۔
تاریخی حقائق اور احادیثِ رسول کا ذخیرہ نہایت واشگاف انداز میں مسلمانوں کے اجماعی نقطہ نظر کی تائید کر رہا ہے یہاں شیعہ افکار کو کوئی اختیار نہیں یہ جھوٹ اور بے بنیاد نظریہ اسلام کی جڑیں کاٹنے کے لیے وضع کیا گیا ہے 1400 سال سے امت مسلمہ کے تمام گروہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خاندان نبوت کی باہمی محبت و الفت و پیار کا عقیدہ رکھتے ہیں اس میں مسلمانوں کے کسی فرقہ یا جماعت کا کوئی اختلاف نہیں شیعہ چونکہ اسلام کے متوازی ایک الگ جماعت ہے اس لیے اس کے نظریات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں محمد بن یعقوب کلینی ملا باقر مجلسی اور خمینی کی طرف سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خاندانِ نبوت کے درمیان باہمی دشمنی اور بغض ثابت کرنے کے لیے جو ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا ہے وہ ہٹ دھرمی اور ضد پر مبنی ہے کوئی صاحبِ انصاف ان حقائق کے بعد شیعہ نقطہ نظر کی تائید نہیں کر سکتا بلکہ ان نظریات کو ائمہ اصلیت کی تعلیمات سے یکسر جدا قرار دے کر مسترد کر دے گا۔
سیدنا علیؓ کی طرف سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے القاب
رجل مبارک بابرکت شخص۔
( تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 156)۔
نجیب امت شریف مخلص۔
(مسند احمد جلد 1 صفحہ 132 ترندی صفحہ 541)۔
فاروق حق و باطل میں فرق کرنے والے۔
(ریاض التفره جلد 1 صفحہ 246)۔
خلیل و صدیق سچے اور پیارے دوست۔
(ابنِ ابی شیبہ جلد 2 صفحہ 179)۔
القوى الامين زبردست امانت دار۔
(تاریخ طبری جلد5 صفحہ 18)۔
امام ہدایت و راشد صحیح الرائے۔
(تاریخ کبیر جلد 2 صفحہ 180)۔
(بحوالہ رحماءُ بینہم، جلد 2 صفحہ 23)۔
سیدنا عمرؓ اور خاندانِ نبوت
سیدنا عمرؓ کی ہجرت پر سیدنا علیؓ کا ارشاد:
(آنحضرتﷺ کے ہمراہ مکہ سے مدینہ کی طرف سفر)
سیدنا علیؓ فرماتے ہیں: "ہر شخص نے خفیہ طور پر ہجرت کی لیکن سیدنا عمرؓ نے ہجرت کا قصد کیا تو ایک ہاتھ میں تلوار لی اور دوسرے میں تیر اور پشت پر کمان کو لگا کر خانہ کعبہ میں تشریف لائے سات مرتبہ طواف کیا دو رکعتیں مقامِ ابراہیم پر کھڑے ہو کر ادا کیں پھر سردارانِ قریش کے حلقہ میں تشریف لائے اور ایک ایک سے کہا جو شخص اپنی اولاد کو یتیم بیوی کو بیوہ کرانا چاہتا ہے وہ پہاڑ کے اس پار آکر میرا راستہ روک کر دکھائے لیکن کسی میں جرات نہ ہوئی۔
(از تاریخِ اسلام اکبر نجیب آبادی)۔
دوستانہ ذمہ داری
ادب و احترام کے ساتھ ساتھ سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدنا عمرؓ کی ہمیشہ بھلائی چاہتے تھے آپ کی دنیوی اور آخروی زندگی کو بہتر اور اچھی دیکھنے کے آرزو مند رہتے تھے حضرت امام ابویوسفؒ (126ھ) حضرت امام ابوحنیفهؒ (150ھ) سے نقل فرماتے ہیں کہ:
جب سیدنا عمرؓ خلیفہ بنائے گئے تو اس وقت سیدنا علیؓ نے از راهِ ترغیب و تلقین سیدنا عمرؓ سے کہا کہ اگر آپ اپنے سابق خلفاء کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں تو اپنی قمیص کو پیوند لگائیے اپنے جوتے و موزے کو پیوند لگائیے دنیاوی امیدیں کم کر دیجئے اور سیر ہو کر نہ کھائیے۔
(کنز العمال جلد 8 صفحہ 219 کتاب الخراج صفحہ 15 مصر)۔
یہ ایک دوستانہ احساس تھا آپ اس امر کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے کہ اپنے دوستوں کی آخرت کو بہتر اور عمدہ بنانے کے لیے جو تجاویز ہوں وہ پیش کر دی جائیں اگر دوستوں کی بھلائی نہ چاہے تو گویا اس نے حقِ دوستی ہی ادا نہ کیا اس لیے آپ نے ہمیشہ اس کا اہتمام کیا تھا تاریخِ یعقوبی کا مصنف احمد بن ابی يعقوب بن جعفر الكاتب العباسی شیعی (206ھ) بھی اسی قسم کا ایک واقعہ لکھتا ہے کہ:
"سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ یہ تین چیزیں اگر آپ محفوظ کر لیں اور ان پر عمل درآمد کرلیں تو یہ آپ کے لیے دیگر اشیاء سے کفایت کریں گی اور چیزوں کی حاجت نہ رہے گی اور اگر آپ آپ ان کو ترک کر دیں گے تو ان کے سوا آپ کو کوئی چیز نفع نہ دے گی اس وقت سیدنا عمر بن الخطابؓ نے فرمایا بیان کیجئے:
سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا کہ ایک تو قریب و بعید سب لوگوں پر اللہ کے حدود و قوانین جاری کیجئے دوسرا یہ کہ کتابُ اللہ کے موافق رضا مندی اور ناراضگی دونوں حالتوں میں یکساں حکم لگائیے تیسرا یہ کہ وہ سیاہ و سفید ہر قسم کے آدمیوں میں حق و انصاف کے ساتھ تقسیم کیجئے یہ کلام سننے کے بعد سیدنا عمرؓ نے فرمایا کہ مجھے اپنی زندگی کی قسم ہے کہ آپ نے مختصر کلام کیا مگر ابلاغِ تبلیغ کا حق ادا کر دیا ہے۔
(تاریخِ یعقوبی شیعی جلد 2 صفحہ 208 رحماءُ بینہم حصہ دوم صفحہ 126)۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا علی المرتضیٰؓ کے مابین بے پناہ محبت و مودت تھی اور ایک دوسرے کی آخرت کو اچھی دیکھنے کے خواہش مند رہتے تھے ایک دوسرے کو نصیحت کیا کرتے تھے اگر خدانخواستہ ان کے درمیان وہ بات ہوتی جو شیعہ مصنفوں نے پھیلا رکھی ہیں تو بتلائیے کہ سیدنا علیؓ کبھی ایسے کلمات ارشاد فرماتے سیدنا علیؓ کی طرف سے نصیحت کرنا اور بھلائی چاہنا اس امر کا شاہد ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے گہری محبت کرتے تھے۔
بے تکلفانہ روابط
دوستی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ایک دوسرے سے کندھا ملا کر چلیں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں ایک دوسرے کو محبت کی نظر سے دیکھیں ایک دوسرے کی بھلائی چاہیں ایک دوسرے کی خوشی میں غمی میں شامل ہوں سیدنا عمرؓ اور سیدنا علیؓ کے بے تکلفانہ روابط کی ایک روایت ملاحظہ فرمائیے:
ایک مرتبہ سیدنا قیس بن عبادہؓ حصول علم و اخلاق کے لیے مدینہ منورہ پہنچے ایک شخص کو دیکھا کہ دو چادروں میں ملبوس ہے سر پر زلفیں ہیں (دوستوں کی طرح) سیدنا عمرؓ کے کندھا مبارک پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ سیدنا علیؓ بن ابی طالب ہیں۔
(بحوالہ رحماء بينہم تذکرة الحفاظ للذ ہبی جلد 1 صفحہ 21)۔
اگر شیعہ مصنفوں کی اس روایت سے کہ وہ ایک دوسرے کے پکے دشمن اور ان کے درمیان گہری عداوت تھی (معاذ اللہ) سے اتفاق کر لیا جائے تو بتلائیے کہ یہ محبانہ ادائیں ہوتیں؟ ان اداؤں کا ہونا اس امر کا واضح قرینہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے گہرے دوست تھے۔
اور یہ حضرات ان تمام باتوں سے قطعاً بری ہیں جو شیعہ مجتھدوں نے ان کی جانب منسوب کر رکھی ہیں شیعہ کی نئی نسل کو اس تفاوت پر خصوصی طور پر غور کرنا چاہیے۔
سیدنا علیؓ سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے مشیر کی حیثیت سے سیدنا عمرؓ کی اقتداء
نبی کریمﷺ کی رحلت سے قبل سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے نماز کی امامت کرائی تھی ظاہر ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ ان نمازوں میں برابر نماز ادا کرتے رہے اسی طرح سیدنا عمرؓ نے اور سیدنا علیؓ کے دورِ خلافت میں بھی آپؓ انہی اکابر اور دوستوں کی اقتداء کرتے رہے آپؓ نے کبھی ناراضگی کا اظہار کیا نہ کوئی احتجاج کیا نہ نمازوں کا اعادہ ضروری سمجھا شیعہ گروہ کے مشہور شاعر مرزا بازل ایرانی نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔
(دیکھئے حملہ حیدری جلد 2 صفحہ 256)۔
مگر شیعہ مجتھدوں نے اس بارے میں بھی یہ ہی فتویٰ دیا کہ آپ یہ سارے کام از راہ تقیہ کرتے تھے اور اپنی نمازوں میں (خدا کی طرف متوجہ ہو کر) ان پر لعنت کیا کرتے تھے (نعوذ باللہ من ذالک)۔
سیدنا عمرؓ کی نیابت
سیدنا عمر فاروقؓ نے جب کبھی کسی ضرورت کی بناء پر مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے جاتے تو سیدنا علی المرتضیٰؓ کو مسندِ خلافت پر بٹھا کر جایا کرتے تھے مثلاً:
1۔ یکم محرم 14ھ میں جب سیدنا عمرؓ نے مدینہ سے باہر پانی کے چشمہ حراء پر تشریف لائے اور تمام احباب کو لے کر بہ نفس نفیس غزوہ عراق کی طرف جانے کا عزم کیا تو اپنا نائب اور قائم مقام سیدنا على المرتضیٰؓ کو مقرر کرنے کا فیصلہ فرمایا۔
(البدایہ جلد 7 صفحہ 30 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 83)۔
2۔ 15ھ میں فتح بیتُ المقدس کے لیے جب تشریف لے گئے تو مدینہ طیبہ میں سیدنا علی المرتضیٰؓ کو اپنا نائب مقرر فرمادیا۔
(البدایہ جلد7 صفحہ 55)۔
3۔ 17ھ میں جب سیدنا عمرؓ سفر پر تشریف لے گئے تو اس وقت سیدنا علی المرتضیٰؓ کو اپنا نائب مقرر فرمایا۔
(البدایہ جلد7 صفحہ 55)۔
غور فرمائیے اگر سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدنا عمرؓ کی خلافت کو برحق نہ سمجھتے اور ظلم و غضب سے بھر پور حکومت نہ خیال کرتے تو کیا آپ کی نیابت اختیار کرتے جس سے معلوم ہوا کہ آپ کے نزدیک سیدنا عمرؓ کی خلافت برحق تھی اور آپ کی تائید و حمایت ان کے شامل حال رہتی تھی۔
سیدنا عمرؓ کی سفارت
سیدنا عمرؓ نے جب سیدنا علیؓ کو نجران کا والی اور حاکم بنا کر بھیجا تو ساتھ ہی یہ خط بھی تحریر فرما دیا کہ:
میں سیدنا علی ابنِ ابی طالبؓ کو آپ لوگوں کی طرف خاص وصیت کرتا ہوں (اور حکم دیتا ہوں کہ) جو شخص تم میں سے اسلام لائے اس کے ساتھ بہتر و خوش تر معاملہ کیا جائے الخ"۔
(کنز العمال جلد 2 صفحہ 313)۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدنا عمرؓ کی خلافت کو برحق سمجھتے تھے اور آپ کی طرف سے مختلف مقامات پر بھی تشریف لے جاتے تھے غور کیجئے دنیا میں اگر کوئی کسی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا تو نہ اس کی مدد و نصرت کرتا ہے نہ اس کی طرف سے والی اور حاکم کا عہدہ قبول کرتا ہے اس لیے کہ وہ اس حکومت کو ہی برحق نہیں سمجھتا جب ایک عام شخص کا یہ حال ہے تو کیا شیرِ خدا اسد اللہ الجبار کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے غصب کی ہوئی خلافت کو ہی برحق سمجھ لیا تھا؟ جب یہ نہیں ہو سکتا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہی ہو گا کہ آپ کے نزدیک سیدنا عمرؓ خلیفہ برحق عادل اور آپ کی خلافتِ راشدہ اور علی منہاج النبوۃ تھی اس لیے تو آپ نے نجران کا والی اور حاکم بنا قبول کیا تھا۔