Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

معوّذتین کی قرآنیت

  جعفر صادق

♦️معوّذتین کی قرآنیت♦️

⬅️ ان سورتوں کے قرآن کا جزو ہونے کی بحث اس لیے پیدا ہوئی کہ ہماری روایات کے ذخیرے میں ایسی روایات بھی موجود ہیں جن میں یہ مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ( رض) انھیں قرآن کی سورتیں شمار نہیں کرتے تھے۔ اور جو مصحف انھوں نے مرتب کیا تھا اس میں بھی یہ سورتیں موجود نہ تھیں۔
⬅️ الدرالمنثور میں علامہ سیوطی نے صراحت کی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ امام احمد، بزاز، طبرانی، ابن مردویہ نے صحیح طریقوں سے حضرت ابن مسعود ( رض) سے نقل کیا ہے کہ وہ معوّذتین کو مصحف سے محو کردیا کرتے تھے اور کہا کرتے کہ قرآن کے ساتھ ایسی چیزیں خلط ملط نہ کرو، جو اس میں سے نہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو ان دو سورتوں کے ساتھ فقط پناہ مانگنے کا حکم دیا تھا، نیز حضرت ابن مسعود ( رض) ان دو سورتوں کی تلاوت نماز میں نہیں کرتے تھے۔

⬅️ یہ اس طرح کی روایات ہیں جن سے یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا معوّذتین قرآن کا جزو ہیں یا نہیں۔؟؟   
⬅️ انہی روایات سے مخالفینِ اسلام کو قرآن کریم کے بارے میں طرح طرح کے شبہات ابھارنے کا موقع مل گیا۔ چنانچہ انھوں نے یہاں تک کہنے کی جرأت کی کہ جب یہ دو سورتیں ابن مسعود ( رض) جیسے صحابی کے بیان کے مطابق الحاقی ہیں تو نہ معلوم اور کیا کیا حذف و اضافے اس کے اندر ہوئے ہوں گے۔  

♦️معوذتین پر حضرت عبداللہ ابن مسعود کے نظریے کی اصل حقیقت♦️

⬅️ اگر اس پوری صورتحال پر تدبر کی نگاہ ڈالی جاتی تو کبھی بھی اس طرح کا موقع پیدا نہ ہوتا۔
♦️ علامہ سیوطی نے الدرالمنثور میں جو باتیں حضرت ابن مسعود ( رض) کے بارے میں روایت کی ہیں ان کی تردید خود حضرت عبداللہ ابن مسعود کی اپنی بیان کردہ ایک حدیث سے ہوجاتی ہے جسے انھوں نے طبرانی سے روایت کیا ہے۔
♦️ ” طبرانی نے اوسط میں سندِحَسن سے حضرت ابن مسعود ( رض) سے یہ ارشاد رسالت نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھ پر ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں جن کی مثل مجھ پر نازل نہیں ہوئی اور وہ معوّذتین ہیں۔ “
♦️ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن مسعود ( رض) ان دونوں سورتوں کے قرآن ہونے سے آگاہ تھے۔
⬅️ اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ان کی طرف جو باتیں منسوب کی گئی ہیں وہ کہاں تک صحیح ہوں گی ؟   
♦️حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابن مسعود ( رض) سے جن روایات میں معوّذتین کے جزوِ قرآن نہ ہونے کو بیان کیا گیا ہے وہ سب اخباراحاد ہیں۔
⬅️ علماء اصول حدیث نے یہ قاعدہ بیان کیا ہے کہ اخباراحاد کی صحت کے لیے صرف راویوں کی عدالت اور قوت حافظہ ہی کافی نہیں بلکہ اخبار احاد کو قبول کرنے کے لیے چند شرائط بھی ضروری ہیں۔
⬅️ ان شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ خبر واحد کسی ایسی بات کو بیان نہ کر رہی ہو جو بداہت عقل کے خلاف ہو۔
⬅️ اگر اس قاعدے کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ حضرت ابن مسعود ( رض) وہ صحابی ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شاید سب سے زیادہ رہے ہیں۔
♦️حضرت ابن مسعود (رض) کا شمار اصحاب صفہ میں تھا اور جو آٹھوں پہر مسجدِ نبوی میں پڑے رہتے۔ اور آپ کو ہر وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضری کی اجازت تھی۔
♦️ حضرت ابن مسعود (رض) کی زندگی کے مشاغل آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت، حاضری، آپ کے ارشادات کو سننا اور یاد رکھنا اور قرآن کریم کی جو آیتیں نازل ہوں ان کو حفظ کرنا، ان کے سوا کوئی نہ تھے۔
⬅️ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ جو پانچوں وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے اور نمازوں میں آپ کی تلاوت سنتے تھے اور جن کی زندگی کی ساری سرگرمیاں ان ہی باتوں میں سمٹ کر رہ گئی تھیں ان کو یہ تک معلوم نہ ہوسکا کہ معوّذتین قرآن کا حصہ ہیں یا نہیں۔
⬅️ یہ بھی ذہن میں رہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بارہا نماز میں ان کو تلاوت فرمایا۔ سینکڑوں صحابہ نے اپنے کانوں سے اسے سنا۔ اور حضرت ابن مسعود جو ہر وقت کے حاضر باش تھے آپ ان کو نہ سن سکے۔
⬅️ یہی وجہ ہے کہ امام نووی، امام ابن حزم اور امام فخرالدین رازی نے سرے سے اس بات ہی کو جھوٹ اور باطل قرار دیا کہ ابن مسعود ( رض) نے ایسی کوئی بات کہی ہو۔
اور یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ ویسے بھی قرآن کریم کے بارے میں اس قسم کے اشتباہات کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ قرآن کریم کی تعریف یہ ہے کہ وہ، وہ کتاب ہے جسے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحابہ کرام ( رض) نے سنا، پھر بذریعہ تواتر نقل کیا۔
⬅️ صحابہ سے تابعین نے اسی تواتر سے سنا اور یوں ہی سلسلہ وار نسلاً بعد نسل ہم تک منقول ہوتا چلا آیا ہے۔
⬅️ حضرت صدیق اکبر ( رض) کے زمانے میں تمام صحابہ کی تائید سے ایک مصحف لکھا گیا۔
⬅️ پھر حضرت عثمان غنی ( رض) کے زمانے میں قرآن کریم کے نسخے تیار کروا کے دنیائے اسلام کے مراکز میں سرکاری طور پر بھجوائے گئے۔
⬅️ آج تک تمام دنیائے اسلام کا اسی مصحف پر اجماع ہے۔ اور اس میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکی۔ اور سب جانتے ہیں کہ اس مصحف میں دونوں سورتیں درج تھیں اور درج ہیں۔
♦️ ابن حزم (رح) نے کتاب القدح المعلی میں بیان کیا ہے کہ یہ ابن مسعود پر بہتان اور اتہام ہے کیونکہ ابن مسعود کی جو صحیح قرات زر کے واسطہ سے عاصم نے کی ہے اس میں معوذتین شامل قرآن ہیں۔
خبر احاد ہے جو صرف مفید ظن ہے اور یقین کے مقابل ظنی امر قابل التفات ہو ہی نہیں سکتا۔
جب ان سورتون کا قرآن ہونا متواتر اور منقول ہے تو ابن مسعود (رض) کا قول ظنی ہے اور اجماع صحابہ کے مقابل خبر احاد ہے
⬅️ قرآن حکیم مجموعی طور پر تواتر کے ساتھ منقول ہے اور تمام مجموعہ مصحف پر صحابہ علیہم الرضوان کا اجماع ہے جو یقین کو مفید ہے اور اس سے ظن خود بخود محو ہوجاتا ہے۔


بحث اول : کیا یہ دونوں سورتیں قرآن کریم کا جزو ہیں اور قرآن کریم کی دوسری سورتوں کی طرح ان کا جزو قرآن ہونا قطعی الثبوت ہے ؟
یہ سوال اس لیے پیدا ہوا کہ بعض ایسی روایات موجود ہیں جن میں یہ مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) انہیں قرآن کی سورتیں شمار نہیں کیا کرتے تھے اور جو مصحف انہوں نے مرتب کیا تھا۔ اس میں بھی یہ سورتیں موجود نہ تھیں۔ علامہ سیوطی (رح) نے صراحۃ لکھا ہے۔

اخرج احمد والبزاز والطبرانی وابن مردویہ من طرق صھیحۃ عن ابن مسعود انہ کان یحک المعوذتین من المصحف ویقول لا تخلطوا القرآن بما لیس منہ انھما لیستا من کتاب اللہ انما امر النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان یتعوذ بھما وکان ابن مسعود لا قرء بھما ( الدر المنثور)

ترجمہ : امام احمد بزاز، طبرانی، ابن مردویہ نے صحیح طریقوں سے حضرت ابن مسعود سے نقل کیا ہے کہ وہ معوذتین کو مصحف سے محو کردیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے قرآن کے ستھ ایسی چیزیں خلط ملط نہ کرو جو اس میں سے نہیں ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو ان دو سورتوں کے ساتھ فقط پناہ مانگنے کا حکم دیا تھا نیز حضرت ابن مسعود ان دو سورتوں کی تلاوت نماز میں نہ کیا کرتے۔ (الدر المنثور)
یہ روایت جو ابن قتیبہ نے نقل کی ہے کہ عبداللہ ابن مسعود اپنے مصحف میں معوذتین کو نہ لکھا کرتے تھے۔ کیونکہ یہ سنا کرتے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دو سورتیں پڑھ کر سیدنا حسن اور سیدنا حسین (رض) کو دم فرماتے ہیں اور یہ دوسرے دموں کی طرح ایک دم ہی ہے۔ یہ بات بھی کسی طرح قابل تسلیم نہیں، کیونکہ قرآن کریم سراپا اعجاز ہے۔ جس کی مثال لانا کسی ایک فرد۔ کسی انسانی جماعت بلکہ فصحاء وبلغاء کے کسی مجمع علمی سے بھی ممکن نہیں۔ اس میں اور دوسرے دموں میں کیوں کر التباس پیدا ہوسکتا ہے۔ خصوصا ابن مسعود جیسی شخصیت کو جو فصیح اللسان، لغت عربی کے ماہر اسالیب کلام اور انداز گفتگو کے عارف تھے مزید برآن جسے افصح العرب والعجم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیضان صحب نے کندن بنادیا تھا ان کا اس اشتباہ میں مبتلا ہونا ناممکن ہے۔ خود علامہ سیوطی (رح) نے طبرانی سے ایک حدیث بیان ہے :

اخرج الطبرانی فی الاوسط بسند حسن عن ابن مسود عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال لقد انزل علی آیات لم ینزل علی مثلھن المعوذتین۔ (الدر المثور)

ترجمہ : طبرانی نے اوسط میں سدن حسن سے حضرت ابن مسعود سے یہ ارشاد رسالت نقل کیا ہے کہ حضور نے فرمایا کہ مجھ پر ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں لیکن حضور کا یہ ارشاد سننے کے بعد اگر ان کے بارے میں انہیں کوئی شک تھا بھی تو وہ دور ہوگیا اور آپ نے اپنے پہلے قول سے رجوع کرلیا۔
♦️ علامہ سیوطی (رح) نے طبرانی سے ایک حدیث بیان ہے :

اخرج الطبرانی فی الاوسط بسند حسن عن ابن مسود عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال لقد انزل علی آیات لم ینزل علی مثلھن المعوذتین۔ (الدر المثور)

ترجمہ : طبرانی نے اوسط میں سدن حسن سے حضرت ابن مسعود سے یہ ارشاد رسالت نقل کیا ہے کہ حضور نے فرمایا کہ مجھ پر ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں لیکن حضور کا یہ ارشاد سننے کے بعد اگر ان کے بارے میں انہیں کوئی شک تھا بھی تو وہ دور ہوگیا اور آپ نے اپنے پہلے قول سے رجوع کرلیا۔
⬅️ یہ الگ بات ہے کہ کسی کے دل میں صحابہ کو غلط کار ثابت کرنے کا اتنا زیادہ شوق ہو کہ وہ ان تمام واضح حقائق کو بآسانی نظر انداز کرنے کے لیے تیار ہو ۔
⬅️ اگر مان بھی لیا جائے کہ حضرت ابن مسعود کے مصحف میں یہ سورتی مرقوم نہ تھیں، اس لیے وہ ان کو قرآن کا جزو نہیں سمجھتے تھے۔ تو عرض ہے کہ ان کے مصحف میں تو سورة فاتحہ بھی مرقوم نہ تھی۔ کیا اس کا آپ یہ مطلب لیں گے کہ وہ اسے بھی قرآن کی سورت شمار نہ کرتے تھے۔ جس کو وہ ہر نماز کی ہر رکعت میں حضور علیہ الصلوہ والسلام کو قرأت فرماتے ہوئے اپنے کانوں سے سنا کرتے تھے۔
⬅️ ان سورتوں کے نہ لکھنے کی معقول وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ وہ بکثرت تلاوت کی جاتی تھیں، اس لیے انہیں نوک بر زبان تھیں۔ انہیں قطعا یہ وہم بھی نہ تھا کہ وہ انہیں فراموش ہوجائیں گی۔
♦️ حضرت ابن مسعود نے یہ مصحف اپنی سہولت کے لیے مرتب کیا تھا۔ ان سورتوں کے لکھنے کی انہوں نے ضرورت محسوس نہ کی اس لیے نہ لکھیں۔
♦️ قرآن کریم وہ ہے جو حضور علیہ الصلوہ والسلام سے صحابہ کرام (رض) نے سنا اور پھر بذریعہ تواتر نقل کیا۔ صحابہ سے تابعین نے اسی تواتر سے سنا۔ یوں ہی سلسلہ وار وہ ہم تک منقول ہوتا چلا آیا ہے۔
سیدنا عثمان (رض) کے عہد میں صحابۂ کرام نے بالاتفاق حضرت زید ابن ثابت کے مدون کردہ نسخہ کے مطابق ایک نسخہ تیار کیا اور اس کی متعدد نقول اپنی نگرانی میں تیار کر کے مملکت اسلامیہ کے مختلف امراء کی طرف روانہ کیں تاکہ عرب وعجم میں اسی کے مطابق تلاوت کی جائے اور عمل کیا جائے۔ اس لیے قرآن کریم صرف اسی مصحف مبارک کا نام ہے۔ اس کے خلاف آپ کو جو روایت نظر آئے یا وہ سند کی وجہ سے ساقط الاعتبار ہوگی یا وہ خبر واحد ہوگی یا کسی کا اپنا ذاتی قول ہوگا۔ الغرض کلام اللہ وہی ہے۔ جو اس مصحف عثمانی کے مطابق ہے جس پر تمام صحابہ کرام (رض) کا اجماع ہے اور اس وقت سے لے کر آج تک اس میں نہ کسی لفظ کی کمی بیشی ہوئی نہ کسی آیت میں تقدیم و تاخیر رونما ہوئی نہ کلمات کی ترتیب میں کوئی تغیر روپذیر ہوا۔
♦️ معوذتین یعنی سورة فلق اور سورة الناس قرآن کریم کی دو سورتیں ہیں اور اس پر تمام صحابہ اور ائمہ مفسرین کا اتفاق ہے اور عہد صحابہ سے لے کر آج تک تواتر کے ساتھ ان دونوں کا قرآن کی سورتیں پر ہونا ثابت ہے اور احادیث صحیحہ سے ان دونوں کا فرض نمازوں میں پڑھنے کا بھی ثبوت ہے۔ اس میں کسی بھی تردود کی گنجائش نہیں۔
♦️ عقبہ بن عامر (رض) کی روایت میں ہے کہ میں ایک سفر میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری کی زمام پکڑے اسکو پکڑے لے کر چل رہا تھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی انتہائی شفقت کے باعث مجھ کو کہا اے عقبہ کیا تو سوار نہیں ہوگا اس ڈر کی وجہ سے کہ آپ کے فرمان کی تعمیل نہ کرنا کہیں معصیت نہ ہوجائے میں سواری پر سوار ہوگیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیچے اتر کر پیدل چلنے لگے تھوڑی دیر تعمیل حکم کی خاطر میں بیٹھ کر پھر نیچے اتر آیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (میرے عرض کرنے پر) سوار ہوگئے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اے عقبہ کیا میں تجھ کو ایسی دو بہترین سورتیں نہ سکھا دوں جو قرآن کریم میں پڑھی جاتی ہوں میں نے عرض کیا بیشک یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ کو یہ دونوں سورتیں پڑھائیں اس کے بعد نماز کی اقامت ہوئی تو آپ نے نماز پڑھائی اور نماز کی دونوں رکعتوں میں ان دونوں سورتوں کو تلاوت فرمایا اسکے بعد فرمایا (جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے سے سامنے گذر رہے تھے) اے عقبہ کیسا پایا تو نے ان دو سورتوں کو یعنی تو نے دیکھ لیا کہ یہ دو سورتیں ایسی ہیں کہ نماز میں انکی تلاوت کی گئی (ایک روایت میں ہے کہ یہ نماز فجر تھی) اور آپ نے فرمایا ان سورتوں کو پڑھا کرو جب بھی تم سویا کرو اور جب بھی نیند سے بیدار ہوا کرو۔
♦️ حضرت عثمان غنی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مصحف قرآنی کے جو نسخے تمام بلاد اسلامیہ کو بھیجے تھے ان سب میں یہ موجود تھیں اوراقطار عالم میں صحابہ (رض) اور تابعین (رح) اور پوری امت انکی تلاوت کرتی رہی اور تواتر سے یہ امر ثابت ہے کہ اس بارے میں کسی نے اختلاف نہیں کیا صرف عبداللہ بن مسعود (رض) سے اختلاف نقل کیا گیا کہ انہوں نے اپنے مصحف (نسخہ قرآن) میں معوذتین کو نہیں لکھا تھا (جس سے یہ بات سمجھی گئی کہ وہ ان کے قرآن ہونے کے قائل نہیں ہیں) قطعی طور پر تو یہ متعین و معلوم نہیں ہوسکا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) کی کیا مراد تھی اور کس وجہ سے انہوں نے اپنے مصحف میں انکو نہیں لکھا تھا یا ان کو کیا خیال یا شبہ پیش آیا کہ اس کے باعث یہ صورت واقع ہوئی۔
♦️ بعض حضرات مفسرین جیسے صاحب روح المعانی (رح) کا اس وجہ سے کہ ابن مسعود (رض) کے مصحف میں معوذتین لکھی ہوئی نہیں تھیں یہ سمجھنا ” کہ ابن مسعود (رض) ان کے قرآن ہونے کے منکر تھے “ صحیح نہیں ہے قاضی ابوبکر باقلانی (رح) نے تصریح کی ہے۔

لم ینکر ابن مسعود کو نھما من القرآن وانما ان کر اثباتھما فی المصحف فانہ کان یری ان لایکتب فی المصحف شیء الا ان کان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذن فی کتابتہ وکانہ لم یبلغہ الاذن۔

کہ ابن مسعود (رض) انکے قرآن میں سے ہونے کے منکر نہیں تھے بلکہ مصحف قرآنی میں لکھنے کے منکر تھے اور ان کا خیال تھا کہ مصحف میں صرف ان ہی آیات کو لکھا جائے جن کی کتابت کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دی ہو یا قلانی کہتے ہیں گویا ابن مسعود (رض) کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت کا علم نہیں ہوا تھا۔
♦️ حافظ (رح) نے فتح الباری ج ٨ میں بعض ائمہ سے یہ نقل کیا کہ ابن مسعود (رض) کو انکے قرآن ہونے میں کوئی اختلاف نہیں تھا بلکہ انکی صفت میں اختلاف تھا یعنی یہ سمجھتے تھے کہ یہ تلاوت کے لئے نازل نہیں ہوئیں بلکہ تعوذ اور دم کرنے کے لئے نازل ہوئی ہیں تاکہ بلاؤں اور آفات سے محفوظ رہنے کیلئے پڑھ جائے۔
⬅️ لیکن روایات ونقول اور صحابہ کے تعامل سے یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی یہ اپنی ایک رائے تھی جس کے ساتھ حضرات صحابہ (رض) میں سے کسی نے بھی اتفاق نہیں کیا بعض حضرات سلف کا خیال ہے کہ ابن مسعود (رض) نے اپنے مصحف میں ان سورتوں کو لکھا تھا جن کو یاد کرنے اور حفظ کرنے یا محفوظ رکھنے کی ضرورت ہو اور چونکہ یہ سورتیں ایسی تھیں کہ انکے لئے اس امر کی حاجت نہ تھی اور انکا حفظ ایسا قطعی تھا کہ اس میں کبھی بھی شبہ نہیں ہوسکتا تھا تو اس وجہ سے انکو اپنے مصحف میں نہیں لکھا جیسا کہ بعض روایات سے یہ معلوم ہوا کہ انکے مصحف میں سورة الحمد بھی لکھی ہوئی نہیں تھی حالانکہ سورة فاتحہ کا قرآن ہونا ایسا قطعی اور یقینی امر ہے کہ اس میں کسی کو بھی تردد نہیں ہوسکتا۔
♦️ زر بن جیش (رض) سے بھی اسی طرح نقل کیا گیا اور ابن قتیبہ (رح) کا قول ہے کہ ابن مسعود (رض) انکو نماز میں تلاوت کے لئے نہیں بلکہ صرف تعوذ یعنی سحر اور دیگر مہلکات سے حفاظت کیلئے بطور تعویذ سمجھتے تھے علامہ ابوبکر بن الانباری (رح) نے اس بات پر تنقید کی اور فرمایا ابن قتیبہ (رح) کا یہ قول درست نہیں انکا کلام اللہ ہونا اور قرآن کریم کی سورتیں ہونا تمام دنیا کے نزدیک مسلم ہے اور قیامت تک اس میں کوئی شبہ نہیں کرسکتا اور ان کی قرآنیت تواتر سے ثابت ہے اور بکثرت احادیث سے انکا نماز میں پڑھنا بھی خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہوچکا ہے۔
♦️ حافظ ابن کثیر (رح) کی رائے یہ ہے کہ ابتداء میں کسی وجہ سے ابن مسعود (رض) نے انکو اپنے مصحف میں نہیں لکھا تھا لیکن بعد میں اپنے قول سے رجوع کرکے جمہور صحابہ (رض) کا قول اختیار کیا ہوسکتا ہے انہوں نے اس بارے میں کچھ نہ سنا ہو لیکن جب دیکھا کہ قرآن کریم کے وہ صحیفے جو تمام بلاد اسلامیہ میں بھیجے گئے ان سب میں معوذتین مکتوب ہیں اور جملہ صحابہ انکو پڑھتے ہیں اور کسی نے بھی اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کیا تو پھر اپنے قول سے رجوع کیا۔
♦️ علامہ آلوسی (رض) صاحب تفسیر ورح المعانی اور حافظ عینی (رح) کا بھی یہی خیال ہے حافظ عماد الدین ابن کثیر (رح) نے اپنی تفسیر میں ان روایات کو تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے جن میں معوذتین کا نماز میں پڑھنا ثابت ہے
⬅️ حضرات اہل علم ان حوالوں کی مراجعت فرمالیں بالخصوص جب کہ یہ ثابت ہے کہ زید بن ثابت (رض) جو کاتب وحی تھے اور عرضہ اخیرہ کے (یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ آخری سال رمضان میں جب جبریل امین (علیہ السلام) نے دو مرتبہ آپ کے قرآن کریم کا دورہ کیا تھا تو اسی کے مطابق زید بن ثابت (رض) کاتب وحی کا مرتب کردہ مصحف تھا)
کے مطابق انہوں نے جو مصحف مرتب کیا تھا اس میں معوذتین موجود تھیں اور اس مصحف کو تمام صحابہ بالاتفاق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرأت وتلاوت کے مطابق تسلیم کرتے تھے اور اسی کے مطابق جامع القرآن حضرت عثمان (رض) کا مصحف تھا۔
آیا حضرت ابن مسعود (رض) المعوذتین کے قرآن ہونے کا انکار کرتے تھے یا نہیں ؟
عبدالرحمٰن بن یزید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) المعوذتین کو مصاحف سے کھرچ دیتے تھے اور کہتے تھے : یہ دونوں سورتیں کتاب اللہ سے نہیں ہیں۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (مسند احمد ج ٥ ص 130 طبع قدیم، مسند احمد ج ٣٥ ص 117 رقم الحدیث :21188 مئوسستہ الرسالتہ، بیروت، 1420 ھ المعجم الکبیر للطبرانی رقم الحدیث :9150 مسند البزار رقم الحدیث :1586)
حضرت زربن جیش (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب (رض) سیپ وچا کہ حضرت ابن مسعود (رض) المعوذتین کو اپنے مصحف میں نہیں لکھتے تھے ؟ انہوں نے کہا، میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے خبر دی ہے کہ حضرت جبریل نے آپ سے کہا، آپ پڑھیے : ” قل اعوذ برب الفلق “ تو میں نے اس کو پڑھا، پھر انہوں نے کہا : آپ پڑھیے ” قل اعوذ برب الناس ‘ تو میں نے اس کو پڑھا، حضرت ابی بن کعب نے کہا : ہم وہی پڑھتے ہیں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑھا ہے۔ (مسند احمد ج ٥ ص 129 طبع قدیم، مسند احمد ج ٣٥ ص 116 مئوسستہ الرسالتہ بیروت، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 797 شعیب الارو وط نے کہا : اس حدیث کی سند صحیح ہے، حاشیہ مسند احمد ج ٣٥ ص 116)
زربن جیش بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب رضیا للہ عنہ سے کہا کہ آپ کے بھائی المعوذتین کو مصحف سے کھرچ دیتے ہیں، سفیان بن مسعود سے کہا گیا تو انہوں نے اس واقعہ کا انکار نہیں کیا حضرت ابی نے کہا، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا : مجھ سے ان کو پڑھنے کے لئے کہا گیا تو میں نے ان کو پڑھا، حضرت ابی نے کہا : ہم اسی طرح پڑھتے ہیں، جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑھا ہے، سفیان نے کہا : حضرت ابن مسعود (رض) المعوذتین کو کھرچ دیتے تھے اور وہ حضرت ابن مسعود کے مصحف میں نہیں ہیں اور ان کا یہ گمان تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) پر یہ پڑھ کر دم کرتے تھے اور ان کا یہ گمان تھا کہ یہ دونوں اطلبہ کی پناہ طلب کرنے کے لئے ہیں اور انہوں نے اپنے گمان پر اصرار کیا اور باقی صحا بہ کی یہ تحقیق تھی کہ یہ دونوں سورتیں قرآن سے ہیں، انہوں نے دونوں سورتوں کو قرآن مجید میں رکھا۔
شعیب الارنووط نے کہا : اس حدیث کی سند شیخین کی شرط کے موافق صحیح ہے۔
(مسند احمد ج ٥ ص 130 طبع قدیم، مسند احمد ج 35 ص 118 رقم الحدیث :21189 مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٣٧٤ سنن البیہقی ج ٢ ص 394 صحیح البخاری رقم الحدیث :4946 صحیح بخاری میں اس حدیث کا خلاصہ ہے)
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان دونوں سورتوں کے متعلق سوال کیا، آپ نے فرمایا : مجھ سے ان کو پڑھنے کے لئے کہا گیا تو میں نے پڑھا، سو تم بھی اسی طرح پڑھو جس طرح میں نے پڑھا ہے۔ المعجم الاوسط للطبرانی رقم الحدیث : ٣٥١٥ مکتبتہ المعارف، ریاض، 1415 ھ)

حضرت ابن مسعود کے انکار معوذتین کے متعلق فقہاء اسلام کی عبارات

1️⃣ شیخ علی بن امد بن سعید بن حزم اندلسی متوفی 486 ھ لکھتے ہیں :
وہ قرآن جو اس وقت شرقاً غرباً تمام مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے، اس میں سورة فاتحہ سے لے کر معوذتین تک جو مصاحف میں بیان کیا گیا ہے، وہ سب اللہ عزوجل کا کلام اور اس کی وحی ہے، جو اس نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب پر نازل فرمایا ہے، جس شخص نے اس میں سے ایک حرف کا بھی انکار کیا وہ کافر ہے اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے جو مروی ہے کہ ان کے مصحف میں سورة الفاتحہ اور سورة المعوذتین نہیں تھیں، سو وہ جھوٹ ہے، موضوع ہے، صحیح نہیں ہے، صحیح یہ ہے کہ زر بن جیش، حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے مصحف میں سورة الفاتحہ اور معوذتین تھیں۔ (المحلی بالآثارج ١ ص ٣٢ مسئلہ : ٢١ دارالکتب العلمیہ، بیروت 1424 ھ)
2️⃣ امام فخر الدین محمد بن عمر رازی شافعی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
کتب قدیمہ میں یہ منقول ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) سورة فاتحہ اور معوذتین کے قرآن ہونے کا انکار کرتے تھے اور اس مسئلہ میں بہت قوی اشکال ہے کیونکہ اگر ہم یہ کہیں کہ صحابہ کے زمانہ میں سورة فاتحہ کے قرآن ہونے پر نقل متواتر حاصل تھی اور حضرت ابن مسعود کو اس کا علم تھا اور پھر انہوں نے اس کے قرآن ہونے کا انکار کیا تو یہ انکار ان کے کفر کو یا ان کی عقل کی کمی کو واجب کرے گا، اور اگر ہم یہ کہیں کہ اس زمانہ میں ان کے قرآن ہونے پر نقل متواتر نہیں تھی تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ اصل میں قرآن مجید نقل متواتر سے ثابت نہیں ہے اور اسے قرآن مجید حجت یقینی نہیں رہے گا۔ ظن غالب یہ ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) سے جو یہ قول منقول ہے، یہ نقل کاذب اور باطل ہے اور اسی بات سے اس اشکال کا حل نکل سکتا ہے۔ (تفسیر کبیرج ١ ص 190 داراحیاء التراث العربی، بیروت، 1415 ھ)
3️⃣ علامہ یحییٰ بن شرف نواوی متوفی 676 ھ لکھتے ہیں :
صحیح مسلم کی حدیث :814 میں اس پر واضح دلیل ہے کہ معوذتین قرآن ہیں اور حضر ابن مسعود سے جو اس کے خلاف منقول ہے، وہ مردود ہے۔ (صحیح مسلم بشرح النواوی ج ٤ ص 2344 مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، 1417 ھ)
4️⃣ علامہ محمد بن خلیفہ وشتانی ابی مالکی متوفی 828 ھ لکھتے ہیں :
المعوذتین قرآن مجید سے ہیں اور جس شخص نے حضرت ابن مسعود کی طرف اس کے خلاف منسوب کیا، اس کا قول مردود ہے۔ (اکمال اکمال المعلم ج ٣ ص 160 دارالکتب العلمیہ، بیروت 1415 ھ)
5️⃣ حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی 852 ھ لکھتے ہیں ،
روایات صحیحہ سے ثابت ہے کہ حضرت ابن مسعود معوذتین کے قرآن ہونے کا انکار کرتے تھے اور روایات صحیحہ کا انکار کرنا درست نہیں ہے، البتہ حضرت ابن مسعود کے قول کی تاویل کرنا ضروری ہے، قاضی ابوبکر باقلانی نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ حضرت ابن مسعود معوذتین کے قرآن ہونے کا انکار نہیں کرتے تھے بلکہ ان کو مصحف میں لکھنے کا انکار کرتے تھے، ان کے نزدیک اسی صورت کو قرآن میں لکھا جائے، جس کو لکھنے کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دی ہو اور ان تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت نہیں پہنچی تھی، یہ عمدہ تاویل ہے لیکن اس پر یہ اعتراض ہے کہ حضرت ابن مسعود نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ دونوں کتاب اللہ میں سے نہیں ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے اس قول میں کتاب اللہ سے مراد مصحف ہے، لہٰذا تاویل صحیح ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت ابن مسعود کے زمانہ میں بھی معوذتین متواتر تھیں لیکن حضرت ابن مسعود کے نزدیک ان کا تواتر ثابت نہ تھا، اس لئے ان کا انکار کفر نہیں ہے، البتہ معوذتین کا تواتر معروف ہوچکا ہے، لہٰذا اب جو ان کا انکار رکے گا، وہ کفر ہوگا، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اس پر اجماع ہو چکا ہے کہ زکوٰۃ کا انکار کفر ہے لیکن حضرت ابوبکر (رض) کے زمانہ میں اجماع واضح نہیں تھا، اس لئے آپ نے منکرین زکوٰۃ کو کافر نہیں قرار دیا۔ (فتح الباری ج ٦ ص 151 ملحضاً دارالمعرفہ، بیروت، 1426 ھ)
6️⃣ علامہ سید محمود الٓوسی حنفی متوفی 1270 ھ لکھتے ہیں :
معوذتین کے قرآن ہونے میں حضرت ابن مسعود (رض) کا جو اختلاف منقول ہے، اس سے بعض ملحدین نے قرآن مجید کے اعجاز میں طعن کیا ہے انہوں نے کہا، اگر قرآن مجید کی بلاغت حد اعجاز کو پہنچی ہوئی ہوتی تو قرآن مجید غیر قرآن سے ممتاز ہوتا، پھر اس میں یہ اختلاف نہ ہوتا کہ یہ قرآن ہے یا نہیں اور تم کو معلوم ہے کہ معوذتین کے قرآن ہونے پر اجماع ہے اور فقہاء اسلام نے کہا ہے کہ اب معوذتین کے قرآن ہونے کا انکار کرنا کفر ہے اور شاید کہ حضرت ابن مسعود نے اپنے انکار سے رجوع کرلیا تھا۔ (روح المعانی جز 30 ص 499، دارالفکر، بیروت، 1417 ھ)
♦️ امام طبرانی نے خود حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان دونوں سورتوں کے متعق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : مجھ سے ان کو پڑھنے کے لئے کہا گیا تو میں نے پڑھا، سو تم بھی اس طرح پڑھو جس طرح میں نے پڑھا ہے۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث :3515)