Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اخراج یہود میں سیدنا عمرؓ کی موافقت

  حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒ

اخراج یہود میں سیدنا عمرؓ کی موافقت

سیدنا عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں نجران کے یہودیوں کو ارضِ حجاز سے جلا وطن کر دیا تھا آپؓ کا یہ عمل رسول اللہﷺ کے اس ارشاد کے تحت تھا کہ:

میں پورے جزیرہ عرب سے پہود و نصاریٰ کو نکال دوں گا اور اور اس میں مسلمان کے سواء کسی کو نہ رہنے دوں گا۔

(جامع ترمذی جلد 1 صحفہ 194 عن جابرؓ)۔

آپﷺ نے اس مرضِ وفات میں جو وصیتیں فرمائی تھیں ان میـں سے ایک یہ بھی تھی:

مشرکین کو جزیرہ عرب میـں نہ رہنے دینا۔

(صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 75 مصر)

سیدنا عمرؓ یہ عمل عین منشاء رسالت تھا یہی وجہ ہے کہ یہود و نصاریٰ اور ان کے پیرو کار (روافض) سیدنا عمرؓ سے خاص عدوات ہے رکھتے ہیں اور ان کی ساری کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح کو بدنام و بدکام بتلایا جائے۔ 

لیکن جب سیدنا علی المرتضیٰؓ کا دور مبارک آیا اور آپؓ مسندِ خلافت پر جلوہ افروز ہوئے تو آپ سے ان اعدائے اسلام نے درخواست کی کہ ہمیں واپس بلا لیا جائے سیدنا علی المرتضیٰؓ نے ان کی اس درخواست کو شدت سے مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ:

سیدنا عمرؓ کا فیصلہ صحیح تھا اور اس سے زیادہ صحیح الرائے کون ہو سکتا ہے؟۔

(بحوالہ رحماءُ بینہم کتاب الخروج صحفہ 74)۔

یعنی جو کام سیدنا عمرؓ نے کیا ہے چونکہ وہ عین منشائے رسالت مآبﷺ تھا اس لیے میری کیا مجال ہے کہ اس کو ختم کر دوں (اللہ اکبر) غور فرمائیے سیدنا علی المرتضیؓ نے روافض کے عقیدے کی کس قدر صراحت کے ساتھ تردید کر دی (فللہ الحمدللہ)۔

اسی طرح ایک ایک مرتبہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کوفہ تشریف لائے تو آپ نے ایک مسئلہ پر فرمایا:

جو گرہ سیدنا عمرؓ نے لگا دی ہے میں اس کو نہیں کھولوں گا۔

(کتاب الخراج یحییٰ بن آدم صحفہ 24 مصر)۔

مراد یہ کہ جو کام سیدنا عمرؓ نے شروع کر دیئے ہیں ان میں تبدیلی نہیں کروں گا۔ 

میں سیدنا عمرؓ کے طریقے پر خلافت قائم کروں گا

عبد خیر کہتا ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ: 

عمر بن الخطابؓ (کان موفقا) بہتر توفیق دیئے گئے تھے (رشیدا فی الامور) امورِ (خلافت) میں درست فیصلہ کرنے والے اور صحیح معاملہ فہم تھے اللہ کی قسم جو کام سیدنا عمرؓ نے کر دئیے ہیں ان کو میں تبدیل نہیں کروں گا۔ 

(تاریخِ کبیر بخاری جلد 2 صفحہ 145)۔

سیدنا علیؓ نے ہر کام میں سیدنا عمرؓ کی موافقت کی سیدنا حسنؓ کا اعلان

سیدنا حسنؓ بن علی المرتضیٰؓ بھی فرماتے ہیں کہ:

سیدنا علیؓ جب مدینہ سے کوفہ تشریف لائے تو مجھے معلوم نہیں کہ آپؓ نے سیدنا عمرؓ بن الخطاب کی مخالفت کی ہو یا ان کے کسی کام میں تغیر پیدا کر دیا ہو آپؓ نے ہر کام میں سیدنا عمرؓ بن الخطاب کی موافقت کی۔

(ریاض النضرة المحب الطبری جلد 2 صفحہ 85 بحوالہ رحماء بینہم حصہ فاروقی صحفہ 141)۔

اس قسم کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اپنے دور میں بھی سیدنا عمرؓ کے کیے ہوئے فصیلوں کو توثیق و تائید کی اور انہیں اسی مقام پر بحال رکھا جس مقام پر سیدنا عمرؓ نے رکھا تھا اگر بالفرض سیدنا عمرؓ کے سارے کام غلط در غلط تھے تو کیا سیدنا علی المرتضیٰؓ اپنے دورِ خلافت میں ان کو بحال رکھتے؟ سوچیں اور فیصلہ کریں۔

سیدنا عمرؓ اور سیدنا علیؓ میں باہمی مشاورت:

مشورے دیتے وقت سیدنا عمرؓ کے پورے دورِ خلافت میں سیدنا علی المرتضیٰؓ نے مشیر خاص کی حثیت سے اپنے فرائض میں کبھی کوتاہی نہیں فرمائی اور سیدنا عمرؓ بھی آپ کے مشوروں کو اکثر بیشتر ترجیح دیا کرتے تھے 

مشہور مورخ بلا ذری (7:2ھ) لکھتے ہیں کہ:

'سیدنا علیؓ اور آپ کے خاندان کے دیگر اکابر سیدنا عمرؓ کے مشیرانِ خاص تھے۔

(فتوح البدان)۔

مشہور شیعی مجتہد طوسی (460ھ) نے بھی اس کی توثیق کی ہے۔ 

(امالی شیخ طوسی جلد 2 صفحہ 256)

معلوم ہوا کہ یہ دونوں اکابر یک جان دو قالب تھے اور ان کے تعلقات بہت ہی بہتر تھے اور ہر ہر موڑ پر ایک دوسرے کے رفیق و معاون تھے کعبة اللہ کے زیورات کا مسئلہ آیا تو بھی آپ نے مشورہ دیا مشہور شیعہ مجتہد آئمہ جزائری مولف ''ابو تراب'' لکھتے ہیں کہ:

سیدنا عمرؓ کی خلافت کے زمانہ میں کعبہ کے زیورات اور ان کی کثرت کا ذکر آیا لوگوں نے مشورہ دیا کہ ان کو اتار کر مجاہدین کے انتظام پر صرف کیا جائے تو ثواب ہوگا بھلا کعبہ کو زیورات کی کیا ضرورت؟ لیکن سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ جس وقت قرآن محمد مصطفیٰﷺ پر نازل ہوا تھا تو اس میں اموال کی چار قسمیں تھیں ان زیورات کعبہ کا ذکر نہیں یہ اس زمانہ میں بھی تھے اور اللہ نے ان کو وہیں رکھا اللہ کا ان زیورات کو چھوڑ دینا نہ سہو نسیان کی وجہ سے تھا اور نہ یہ اس وقت اس کی نظر سے پوشیدہ تھے لہٰذا ان کو اسی جگہ پر رہنے دیا جائے جہاں اللہ و رسولﷺ نے ان کو رکھا یہ سن کر خیلفہ (یعنی سیدنا عمرؓ) نے زیورات کو وہیں رہنے دیا۔

خلفائے ثلاثہؓ کے دور میں سیدنا علیؓ کی خدمات 

سیدنا علی المرتضیٰؓ خلفاءِ ثلاثہؓ کے دورِ خلافت میں ان کے ساتھ محبت سے پیش آتے تھے ان کی طرف سے دیئے گئے عہدہ کو فرماتے تھے ان کی تعریف فرماتے تھے اور ان ادوار مبارکہ میں ہمیشہ آپ نے اہلِ اسلام کی ہر ممکن خدمت فرمائی خلفاءِ ثلاثہؓ بھی ان کے ساتھ ویسا ہی محبانہ سلوک فرماتے تھے سیدنا باقرؒ (114ھ) کی شہادت ملا حظہ فرمائیں:

بےشک سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ نے حدود کے فیصلے سیدنا علیؓ کے سپرد کر رکھے تھے۔ 

(جعفریات مطبوعہ تہران صحفہ 133)۔

شیعہ مصنفین کی کتابوں میں حقیقت بھی موجود ہے کہ سیدنا علیؓ نے سیدنا عمرؓ کے دورِ خلافت میں یہ اعلان کر رکھا تھا کہ:

کوئی شخص مسجد میں سیدنا علیؓ کی موجودگی میں فتویٰ و فیصلہ نہ دے۔ 

(حق الیقین جلد 1 صحفہ 174)۔

بتلانا یہ ہے کہ ان حضرات کے درمیان کسی قسم کی کوئی چپقلش نہ تھی نہ ہی ایک دوسرے کے دشمن تھے نہ ہی آپس میں نفرت و عدوات بغض موجود تھا بلکہ کُتبِ اہلِ سنّت ہوں یا کُتبِ شیعہ اس کے شاہد ہیں کہ ان کے ادوار مبارکہ میں محبت و مودت اخوت و الفت کے چہار سو پھول ہی پھول کھلے ہوئے تھے اور پوری دنیا ان پھولوں کی خوشبوؤں سے معطر ہو رہی تھی۔

سیدنا حسینؓ کی شادی اور سیدنا فاروقِ اعظمؓ

غور کیجئے! اگر ان حضرات کے درمیان ذرہ بھر نفرت ہوتی تو سیدنا حسینؓ کو شادی کے لیے جو خاتون عطیہ میں ملی کیا وہ حاصل کرتے؟ کیا مال غنیمت قبول کرتے؟ 

سیدنا علیؓ اور سیدنا فاروقِ اعظمؓ کی باہمی رشتہ داری
سیدنا حضرت علیؓ سیدنا عمرؓ کے خسر تھے

پھر اس حقیقت سے بھی ہر کوئی آگاہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمرؓ رسول اللہﷺ کے خسر تھے اور سیدنا عثمانؓ رسول پاکﷺ کے داماد۔

اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ جب سیدنا ابوبکرؓ کی وفات ہو گئی تو آپؓ کی زوجہ محترمہ سیدہ اسماء بنت عمیسؓ سے سیدنا علیؓ نے نکاح فرما لیا سیدنا محمد بن ابی بکر(جو سیدنا صدیق اکبرؓ کے فرزند تھے) کی کفالت سیدنا علی المرتضیٰؓ کے ہاں ہی ہوئی۔

نکاح ام کلثومؓ پر اہلِ سنّت اور کتبِ شیعہ کے دلائل

1۔ اس طرح یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اپنی ایک دختر جو سیدہ فاطمہؓ کے بطنِ مبارک سے تھیں کا نکاح سیدنا عمرؓ کے ساتھ فرما دیا تھا کُتبِ اہلِ سنّت سے قطع نظر شیعوں کے مشہور و معروف عالم قاضی نور اللہ شوستری (1019ھ) لکھتے ہیں: 

نبی دختر عثمانؓ داد 

وعلیؓ دختر بہ عمرؓ فرستاد۔

(مجالس المومنین صحفہ 89 طبع ایران)

نبیﷺ نے اپنی بیٹی سیدنا عثمانؓ کو دی اور سیدنا علیؓ نے اپنی بیٹی سیدنا عمرؓ کو دی۔

(الف) شیعہ جماعت کا جو عقیدہ و نظریہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی صرف اور صرف ایک ہی بیٹی تھیں جس کا نام سیدہ فاطمہؓ تھا اس کے علاوہ کوئی بیٹی نہ تھی یہ عقیدہ باطل ہو جاتا ہے اس عبارت نے یہ بات کھول کر رکھ دی ہے کہ آپﷺ کی سیدہ فاطمہؓ کے سواء بھی بیٹیاں تھیں جو سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں بھی آئی تھی آج کل کے شیعی مجتہدوں کا غوغا کرنا اور قولِ مقبول فی اثبات وحدۃ بنتِ رسولﷺ'' نامی کتاب لکھ کر شائع کرنا نہ صرف حقائق کا منہ چڑانا ہے بلکہ قاضی نور اللہ اور اس جیسے کئی شیعی مجتہدوں پر ایک زنانے دار طمانچہ بھی رسید کرنا ہے مذہبی خود کشی کی اس سے زیادہ عبرت ناک مثال اور کیا ہو گی؟ فاعتبرو یا اولی الابصار۔

(ب) دوسری حقیقت یہ واضح ہو جاتی ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اپنی ایک دخترِ نیک اختر سیدہ ام کلثومؓ کا نکاح سیدنا عمرؓ بن الخطاب سے فرمایا تھا اگر آپ مسلمان ہی نہ تھے (بقولِ خمینی) یا آپ ہامان کی طرح تھے (بقول ملا باقر مجلسی حقُ الیقین) تو سیدنا علی المرتضیٰؓ اپنی لختِ جگر کا ان کے ساتھ نکاح فرماتے؟ ع اس گھر کو آگ لگ گی گھر کے چراغ سے۔

2۔ شیعہ کی مشہور معتبر و مستند مجموعہ حدیث ''فروع کافی'' از علامہ محمد بن یعقوب کلینی (329ھ) نے تو اس موضوع پر ایک مستقل باب باندھا ہے عنوان یہ ہے: ''باب فی ترویج ام کلثومؓ'' (یہ باب سیدہ أمِ کلثومؓ کے نکاح کے بیان میں ہے) اس باب کے تحت ملا کلینی نے سیدنا جعفر صادقؒ سے دو روایتیں نقل کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کا نکاح سیدنا عمرؓ سے ہوا تھا۔ (دیکھئے فروع کافی جلد 2 صفحہ 141 لکھنؤ)۔

ان دونوں روایتوں کے بارے میں شیعہ حضرات کا کہنا ہے کہ یہ دونوں روایتیں حسن ہیں یعنی ضعیف نہیں۔ (دیکھئے مراۃ العقول صحفہ 448)۔

علاوہ ازیں اسی فروع کافی میں صحفہ 311 کے تحت بھی دو روایتیں درج ہیں جن سے بھی اس امر کا اثبات ہو جاتا ہے۔

3۔ شیعہ کی مشہور کتاب ''الاستبصار'' مصنفہ شیخ ابو جعفر محمد بن حسن الطوسی (460ھ) کے جزء ثالث صحفہ 185۔186 ''ابواب العدۃ'' میں بھی دو روایت سے اقرار ہے۔ 

4۔ شیعہ گروہ کی مشہور کتاب ''تہذیبُ الاحکام'' مصنفہ شیخ طوسی (460) طبع ایران کے صحفہ 238 کتاب اطلاق باب عدۃ النساء اور صحفہ 380 کتابُ المیراث میں بھی اس کا اقرار ہے۔ 

5۔ شیعوں کے مشہور مجتہد سید مرتضیٰ علم الہدی (406ھ) نے بھی کتاب الشافی صحفہ 116 طبع ایران اور کتاب تنزیہ الانبياء صحفہ 138۔141 طبع ایران میں اس کا اقرار موجود ہے۔ 

6۔ شارح نہج البلاغہ ابنِ ابی الحدید معتزلی شبعی (456ھ) نے بھی شرح جلد 4 صحفہ 876 طبع بیروت میں ایک واقعہ کے ذریعہ اس کا اثبات کیا ہے۔ 

7۔ شیعہ کے مشہور محقق الحلی (676ھ) نے بھی اپنی کتاب ''شرح السلام'' میں ایک مسئلہ بیان کیا کہ آیا ہاشمی عورت کا غیر ہاشمی مرد کے ساتھ نکاح جائز ہے یا نہیں؟ اس عبارت میں گو انہوں نے کھل جاتا ہے بہر حال اس کتاب کی شیعوں کے دوسرے بزرگ زین العابدین احمد العاملی المعروف الشہید (964ھ) نے شرح لکھی جس میں اس عبارت کے تحت موصوف نے شرح کی ہے جس سے اصل عبارت کا مقصد متعین ہو جاتا ہے انہوں نے کھل کر اس کا اقرار کیا کہ نکاح ہوا تھا۔ 

(مسالک الافہام شرح شرائع الاسلام کتاب النکاح باب لواحق العقد جلد1 طبع ایران)۔

8۔ قاضی نور اللہ شوستری کا ایک حوالہ پیچھے گزر چکا ہے علاوہ ازیں اس نے اسی کتاب میں کئی مقامات پر اس کا اقرار کیا ہے دیکھئے صحفہ 76 تذکرہ سیدنا عباسؓ بن عبدالمطلب صحفہ 85 تذکرہ مقداد بن اسود موصوف کی دوسری کتاب مصائب النواصب ہے اس کا ترجمہ فارسی میں ہوا ہے اس کے صحفہ 165 پر بھی اس کا اقرار موجود ہے۔

9۔ تیرہویں صدی کے مشہور شیعہ مورخ مرزا عباس علی قمی خان نے اپنی تصنیف تاریخ طراز مذہب میں ایک مستقل باب (حکایت ترویج سیدی ام کلثومؓ با عمرؓ بن الخطاب) تحریر کیا ہے۔ 

10۔ چودھویں صدی کے مشہور شیعہ مجتہد شیخ عباس قمی (1359ھ) نے بھی اپنی تصنیف منتہی الامال کی جلد اول فضل ششم صحفہ 186 در ذکر اولادِ امیر المومنینؓ میں اس کا ذکر کیا ہے اور صاف صاف لکھا ہے کہ:

یعنی سیدہ ام کلثومؓ کا سیدنا عمرؓ کے ساتھ نکاح ہماری کتابوں میں لکھا ہے۔

ان روایات کی روشنی میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اپنی دخترِ نک اختر کا نکاح سیدنا عمرؓ سے فرمایا تھا اور آپ کی اولاد بھی ہوئی تھی یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدنا عمرؓ کو اعلیٰ درجے کا مسلمان نیک متقی اور بہتر سمجھتے ہوں کیا شیر خدا اسد الله الغالب کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جا سکتا ہے کہ معاذ اللہ ان کی اخلاقی حالت اس قدر گر چکی تھی یا وہ اس قدر بزدل بن گئے تھے کہ اپنی بیٹی کو کافر و ظالم (معاذ اللہ) کو دے دی اور ان کی آنکھوں میں غیرت کی جھلک کوئی دکھائی نہ دی!انا للہ وانا الیہ راجعون۔

(رحماء بینہم جلد 3)۔

بعض شیعوں کی مضحکہ خیز افسوس ناک تاویلات:

مندرجہ بالا روایات کُتبِ اہلِ سنّت سے نہیں بلکہ شیعوں کی مشہور و معروف کتابوں میں موجود ہیں جن میں نکاح کا اقرار کیا گیا ہے مگر افسوس ان چند شیعی مجتہدوں پر جنہوں نے روایات کی موجودگی کے باوجود! نکاح شادی اور اولاد کے اعتراف کے باوجود! اس نکاح کے بارے میں من گھڑت تاویلات کیں اس کی وجہ کیوں پیش آئی؟۔

جواب ظاہر ہے کہ اگر یہ نکاح تسلیم کر لیا جائے تو سیدنا عمرؓ کے مرتبہ و عظمت کا اقرار کرنا پڑتا ہے اس لیے انہوں نے گرگٹ کی طرح ہزاروں رنگ بدلے اور ہر مرتبہ نکاح کو ماننے کے باوجود اپنے سابق مجتہدوں کی مختلف تاویلات سے غیر مطمئن ہو کر نئی تاویلات کا سہارا لیا مگر افسوس کہ بات جہاں تھی وہیں رہی تفصیل میں جائے بغیر ان کی مضحکہ خیز افسوس ناک تاویلات نمبروار ملاحظہ فرمائیے:

1۔ ایسا واقعہ کبھی رونما ہوا تھا نہ ہی کبھی اس قسم کی باتیں ہوئیں۔

2۔ نکاح تو ہوا تھا مگر سیدہ ام کلثومؓ بنتِ علیؓ کے ساتھ نہیں بلکہ بنتِ ابی بکرؓ کے ساتھ۔

3۔ نکاح تو سیدہ ام کلثومؓ بنتِ علیؓ کے ساتھ ہوا مگر ان سے متمع نہ ہو سکا۔

4۔ نکاح ضرور ہوا مگر سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اپنے زورِ کرامت سے سیدہ ام کلثومؓ کے بجائے ایک جنسیہ کو بھیج دیا۔

5۔ سیدنا علی المرتضیٰؓ اس نکاح پر ہرگز راضی نہ تھے مگر سیدنا عمرؓ نے ڈرا دھمکا کر یہ نکاح کر لیا۔

6۔ اس نکاح پر بہت جھگڑا ہوا تھا آخرش مجبور ہو کر سیدنا علی المرتضیٰؓ کو زیر ہونا پڑا۔ 

7۔ چونکہ سیدنا عمرؓ ظاہری طور پر کلمہ پڑھتے تھے اس لیے سیدنا علی المرتضیٰؓ نے نکاح کر دیا۔

8۔ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے نکاح کر دیا اس میں ان کی پالیسی یہ تھی کہ سیدنا عمرؓ کی اصلاح کی جائے۔

9۔ اس نکاح کا انکار نہیں مگر اصل جواب یہ ہے کہ بطورِ تقیہ اور لاچاری کے کیا گیا ہے۔

10۔ اہلِ بیتؓ کی یہ پہلی شرمگاہ تھی جو ہم سے سیدنا عمرؓ نے چھینی ہے۔ (استغفراللّٰه معاذاللّٰه)۔

مندرجہ بالا تاویلات آپ کے سامنے ہیں اگر ان تاویلات کو تھوڑی دیر کے لیے بھی تسلیم کر لیا جائے تو بتلائیے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی ذات عفتِ ماب پر کتنا بڑا حملہ ہوگا؟ شیعوں کی ساری روایات بالکل جھوٹ کا پلندہ بن جائیں گی۔

(رحماءُ بینہم جلد 2)۔

سو شیعہ مصنفوں پر لازم ہے کہ خواہ مخواہ تاویلات کا سہارا لینے کے بجائے اس نکاح کا اعتراف کر لیں اور سیدنا عمرؓ کی عزت و عظمت کا اعتراف کریں اس لیے کہ وہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کے داماد تھے۔ 

سیدنا عمرؓ کے بارے میں سیدنا علیؓ کی نصحیت

جب صالحین کا ذکر ہو تو سیدنا عمرؓ کو بھول نہ جانا۔

(صواعقِ محرقہ صحفہ 98 بحوالہ رحماءُ بینہم جلد 2)

خمینی صاحب نے اپنی کتاب "کشف اسرار" میں سیدنا عمرؓ کو کافر لکھ ڈالا آہ کہ انہیں کم از کم سیدنا علیؓ ہی کی اس نصحیت کا خیال ہوتا۔

سیدنا عمرؓ کی طرف سے ہدایا کی تقسیم:

اس سلسلے میں بھی ہم پاکستان کے مشہور محقق اور نامور صاحب قلم حضرت مولانا محمد نافع صاحب کی کتاب "رحماءُ بینہم" جلد دوم سے چند اقتباس نقل کرتے ہیں: 

سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا حسنؓ سیدنا حسینؓ

1۔ سیدنا عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ سے 50۔50 ہزار درہم ان کے والد اور بدری صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے برابر مقرر کیا۔ 

(شرح معانی الاثار صحفہ 181 جلد 2)۔

2۔ سیدنا عمرؓ نے فتوحاتِ مدائن میں شہنشاءِ ایران کی ایک لڑکی شاہ جہاں جو بعد میں شہربانو کہلائی سیدنا حسنؓ کو عطیہ میں دی اور ان سے بعد میں سیدنا زین العابدینؒ پیدا ہوئے۔

3۔ اسلامی فتوحات میں ایک مرتبہ کپڑا آیا تو اس میں سیدنا حسینؓ کے موافق کوئی پوشاک نہ ملی تو آپؓ نے خصوصی طور پر علاقہ یمن کی طرف دو آدمی روانہ فرمائے وہاں سے مناسب لباس آیا سیدنا حسینؓ نے اسے زیب تن کیا تو سیدنا عمرؓ نے فرمایا اب میری طبیعت خوش ہوئی ہے۔ 

(کنز العمال صحفہ 610 جلد7)۔