سیدنا علیؓ کے بارے میں سیدہ عائشہؓ کے ارشادات
حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒسیدنا علیؓ کے بارے میں سیدہ عائشہؓ کے ارشادات
وعن العوام ابنِ حوشب عن ابنِ دم له قال دخلت مع ابى على ام المومنين عائشه صديقةؓ فسالتها عن على فقالت تسالنی عن رجل كان احب الناس الى رسول اللهﷺ وكانت ابنته تحته رایت رسول اللهﷺ دعا علياؓ وفاطمةؓ و حسناؓ و حسيناؓ فالقى عليهم ثوباً فقال اللهم هولاء اهل بيتی فاذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا قالت فدنوت منهم فقلت يا رسول اللهﷺ وانا من اهل بيتك فقال تنحی انک علی خیر۔
(الامام الصادق صفحہ 88 زیرِ آیتِ التطہیر مطبوعہ بیروت طبع جدید)۔
ترجمہ: عوام ابنِ حوشب اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ میں (ان کا چچا) اپنے والد کے ہمراہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے پاس حاضر ہوئے میں نے مائی صاحبہؓ سے سیدنا علی المرتضیؓ کے بارے میں پوچھا فرمانے لگیں تو نے ایسے شخص کے متعلق پوچھا ہے جو حضورﷺ کا محبوب ترین شخص ہے آپﷺ کی بیٹی ان کے عقد میں تھی میں نے حضورﷺ کو ایک مرتبہ دیکھا آپﷺ نے سیدنا علیؓ سیدہ فاطمہؓ سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کو بلا کر ایک چادر کے نیچے سب کو لیا اور اللہ سے دعا کی اے اللہ یہ میرے اہلِ بیتؓ ہیں تو ان سے ہر قسم کی نجاست دور فرما دے اور انہیں خوب ستھرا اور پاکیزہ کر دے مائی صاحبہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ان کے قریب جا کر حضورﷺ سے عرض کی یا رسول اللہﷺ! میں بھی تو آپﷺ کی اہلِ بیتؓ ہوں فرمایا ہٹ جاؤ تم تو بھلائی پر ہو۔
سیدہ عائشہؓ کی سیدہ فاطمہؓ کے بارے میں روایات
شیعہ مجتھدین ابنِِ ابی الحدید کے حوالہ سے اس بات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ تعزیت کے لیے سیدہ فاطمہؓ کے گھر اس لیے نہیں گئی تھیں کہ یہ ان سے ناراض تھیں اور اس بات پر اور حاشیہ آرائی کرتے ہوئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیدہ عائشہؓ کبھی بھی سیدہ فاطمہؓ کا ذکرِ خیر اپنی زبان پر نہیں لائیں بلکہ ان کے نام سے تیوری چڑھا لیا کرتی تھیں یہ اور اس قسم کی بہت سی باتیں لغویات اور واہیات کے ضمن میں آتی ہیں ہم گزشتہ اوراق میں ایک سو چالیس تولہ چاندی وصیت کرنے کی روایت ذکر کر چکے ہیں اگر ناراضگی تھی تو اس قدر خطیر رقم کوئی دشمنوں کو دینے کی وصیت کرتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ سیدہ فاطمہؓ کو سیدہ عائشہؓ سے بے حد عقیدت تھی وہ انہیں روحانی ماں سمجھتی تھیں ادھر جب بھی موقعہ ملا سیدہ صدیقہؓ نے بھی ان کی تعریف کی چند حوالہ جات کتب شیعہ سے ملاحظہ ہوں:
کتبِ شیعہ کہتی ہیں کہ سیدنا حسینؓ اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کے درمیان خوشگوار تعلقات تھے
سیدنا حسنؓ کے سیدنا امیرِ معاویہؓ سے باہم خوشگوار تعلقات تھے سیدنا حسنؓ سے کیے گئے تمام وعده جات سیدنا امیرِ معاویہؓ نے پورے کیے ان میں کسی وقت بھی دھوکہ نہ دیا گیا جس کی بنا پر کشیدگی کا ماحول پیدا ہوتا ملاحظہ ہو:
الاخبار الطوال:
لم ير الحسنؓ و الحسينؓ طول حياه معاويهؓ سوء فی انفسهما ولا مكروها ولا قطع عنهما شيئا مما كان شره لهما ولا تفير لهما عن بر۔
(الاخبار الطوال صفحہ 225 امیرِ معاویہ و عمرو بن العاصؓ مطبوعہ بیروت طبع جدید)۔
ترجمہ: سیدنا امیرِ معاویہؓ سے زندگی بھر سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ نے برائی اپنے بارے میں نہ پائی اور نہ ہی انہیں سیدنا امیرِ معاویہؓ کی طرف سے کسی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا اور نہ ہی سیدنا امیرِ معاویہؓ نے ان دونوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں میں سے کسی وعدہ کو توڑا اور ان سے کسی بہتری اور بھلائی کو کبھی روکا۔