Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا امیرِ معاویہؓ کے بارے میں سیدنا علیؓ اور ائمہ اہلِ بیتؓ کی تعلیمات

  حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒ

سیدنا امیرِ معاویہؓ کے بارے میں سیدنا علیؓ اور ائمہ اہلِ بیتؓ کی تعلیمات

 تاریخ کی خامہ فرسائیوں اور ناہنجاریوں میں یہ بات سب سے نمایاں ہے کہ بنو عباس اور بنو امیہ کے دو خاندانی تنازعات کی روشنی میں مرتب کی جانے والی تاریخ میں ایسے ایسے رطب و یابس کو سجایا گیا ہے کہ انسانی عقل ایسی باتوں کا تصور بھی نہیں کر سکتی قرآن و حدیث کے ذخائر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خاندانِ نبوت کی باہمی محبت کے واقعات بھی ان الزامات کے برعکس زیبِ قرطاس رہے بنو عباس کی طرف سے تیار کیے جانے والے تاریخی صحیفوں میں سیدنا امیرِ معاویہؓ سیدنا عثمانؓ اور بنو امیہ کے کئی دوسرے بزرگوں کی طرف ایسی ایسی باتوں کو منسوب کیا گیا جو آج کے عہد میں کسی بد معاش اور بد ترین شخص سے بھی ممکن نہیں۔ 

دوسری طرف بنو امیہ کے بعض حامیوں نے سیدنا علیؓ اور سیدنا حسینؓ اور آپ کے خاندان کو دنیا پرست اقتدار اور جاہِ طلبی کے سزا وار بنا کر پیش کیا۔ 

قرآن و حدیث کی روشنی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت و ثقاہت اور نیک نیتی کا عقیدہ رکھنے والا دنیا کا کوئی مسلمان تاریخ کے کسی ایسے جھیڑے کی تائید نہیں کر سکتا جو خدا اور رسولﷺ‎ کی تصریحات و ارشادات سے متصادم ہو ایک مسلمان کو ابنِ خقب کلبی لوط بن یحییٰ جیسے کذاب راویوں کا سہارا لینے کی بجائے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خاندانِ نبوت کے بارے میں آنے والی قرآنی آیت:

 رُحَمَآءُ بَيۡنَہُمۡ‌۔ (سورۃ الفتح آیت نمبر 29)۔

 أُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُمُ ٱلرَّٲشِدُونَ۔ (سورۃ الحجرات آیت نمبر 7)۔

 جو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عمومی عظمت اور رفعت پر شاہد عدل ہے ہمیں ایمان رکھنا چاہیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان مرتبت کو تعصب صیہینوں سے آلودہ تاریخ کے ترازو میں تولنے کی بجائے قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے۔

 تاریخ میں ایک جگہ کہا گیا ہے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے دور میں ممبروں پر سیدنا علیؓ اور خاندانِ نبوت کو گالیاں دی جاتی تھیں دوسری جگہ سیدنا علیؓ کو بھی ایسی ہی شطخیات و تنقید کا سزاوار قرار دیا گیا ہے جب کہ حقائق کی روشنی میں یہ تمام روایات من گھڑت اور بے بنیاد ہیں۔ 

اس کے لیے ہم نے اپنی کتاب "اسلام میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی آئینی حیثیت" میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے وہاں سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے ذیل میں ہم شیعہ کی بعض معتبر کتابوں سے سیدنا امیرِ معاویہؓ کے بارے میں خاندانِ نبوت کی تصریحات پیش کر کے تصویر کا ایک نیا رخ پیش کر رہے ہیں۔

سیدنا امیرِ معاویہؓ سیدنا علیؓ کے فضائل سن کر رونے لگے

 حجر بن عدی وغیرہ کو ان کی موت سے قبل یہ کہا گیا کہ اگر اب بھی تم سیدنا علی المرتضیٰؓ پر لعن طعن کر دو تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے انہوں نے موت تو قبول کر لی لیکن یہ تسلیم نہ کیا اس طعن کے بارے میں اول تو ہم یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ البدایہ و النہایہ اور ابنِ اثیر میں یہ روایت موجود ہے لیکن دونوں کتابوں میں اس کی کوئی سند بیان نہیں کی گئی ہاں طبری میں اس کی سند موجود ہے اور یہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ صاحبِِ طبری کے تشیع ہونے کی وجہ سے اس کی ایسی روایات نا مقبول ہیں دوسری بات یہ کہ اس کے راویوں میں ابو محنف اور نذر بن صالح عبسی ایسے شخص بھی ہیں جن میں سے اول الذکر کٹر شیعہ امامی اور دوسرا مجہول ہے لوط بن یحییٰ ابو مخنف کے امامی شیعی ہونے کی بحث گزشتہ اوراق میں گزر چکی ہے اور نذر بن صالح کے بارے میں میزان الاعتدال کے یہ الفاظ ہیں "نذر بن صالح مجہول اور یہ بھی امر واقعی ہے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ جب سیدنا علی المرتضیٰؓ کی تعریف سنا کرتے تو رویا کرتے تھے اور آپؓ کے فضائل کی تصدیق کیا کرتے تھے ایسے شخص سے یہ توقع کیونکر کی جا سکتی ہے کہ وہ کسی کی معافی کو سیدنا علی المرتضیٰؓ پر سبِّ وشتم کرنے سے مشروط کر دے آئیے شیخ صدوق سے اس کی تصدیق کیجئے۔ 

امالی شیخ صدوق:

 قال دخل ضرار بن حمزه النهشلى على معاویهؓ بن ابی سفیان فقال له صف علياؓ قال او تعفينی فقال لا بل صفه لی فقال ضرار رحم الله علياؓ كان والله فينا كاحدنا يدنينا اذا تيناه و يحينا اذا سالنا و يقربنا اذ زرناه لا يغلق دوننا باب ولا يحجبنا عنه صاحب و نحن والله مع تقريبه لنا وقربه منا لا نكلمه لهيبته ولا نبتديه لعظمته فاذا تبسم فعن مثل اللولو والمنظرم فقال معاویه زدنی من صفته فقال ضرار رحم الله علياؓ كان والله طويل السهاد قليل الرقاد يتلو كتاب الله آناء الليل سدوله و غارت نجومه و هو قابض على لحيته يتململ تململ السليم و يبكى بكاء الحرين و هو يتول يادنيا الى تعرضت أم الى تشوقت هيهات هيهات لاحاجه لی فيك ابنتك ثلاثا لارجعه لی عليك ثم يقول واه واه لبعد السفر وقله الزاد و خشونه الطريق قال فبكى معاويه وقال حسبک یاضرار كذالك كان والله على رحم الله ابالحسنؓ۔

 (امالی الصدوق صفحہ 371 مجلس 91 مطبوعہ قم طبع قدیم)۔

 ترجمہ: ضرار بن حمزہ جب سیدنا امیر معاویہؓ کے پاس گیا تو انہوں نے کہا سیدنا علی المرتضیٰؓ کی شان میں کچھ کہو کہنے لگا کیا آپ مجھے معاف نہیں کر سکتے فرمایا نہیں کچھ نہ کچھ ضرور کہو اس پر ضرار بولا اللہ تعالیٰ سیدنا علیؓ پر رحم فرمائے وہ ہم میں ایسے تھے کہ جب بھی ہم میں سے کوئی ان کے پاس جاتا وہ اسے قریب بٹھاتے اور اگر کوئی سوال کرتا تو اس کا جواب عطا فرماتے بوقتِ زیارت قرب عطا فرماتے اور ان کے دروازے ہمارے لیے ہر وقت کھلے رہتے کوئی پہرے دار ہمارے اور ان کے درمیان آڑے نہ آتا اور خدا کی قسم ہم باوجود اس کے کہ ان سے بہت قریب ہوتے ہمیں پھر بھی ان کی ہیبت سے گفتگو کرنے کی ہمت نہ پڑتی اور ان کی عظمت کے پیشِ نظر ہمیں گفتگو میں ابتداء کرنے کی جرات نہ ہوتی وہ تبسم فرماتے تو یوں لگتا کہ موتیوں کا ہار نظر آتا ہے یہ سن کر سیدنا امیرِ معاویہؓ نے فرمایا ذرا اور فضائل بیان کرو پھر ضرار بولا اللہ ان پر رحم کرے وہ بہت زیادہ جاگنے والے اور بہت کم سونے والے تھے دن رات میں بکثرت قرآن کریم پڑھتے اللہ کی محبت میں وارفتہ تھے اور اگر بوقتِ شب کوئی انہیں دیکھ پاتا تو اسے اس حالت میں نظر آتے کہ اپنی ریش مبارک ہاتھ میں پکڑی ہوئی زار و قطار رو رہے ہیں اور وہ کہا کرتے تھے کہ اے دنیا! تو اگر میری طرف آئے یا مجھ سے منہ پھیر لے صد افسوس مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں ہے میں نے تجھے تین طلاقیں دے کر ہمیشہ کے لیے اپنے سے جدا کر دیا پھر فرماتے ہائے افسوس! سفر طویل ہے زادِ راہ قلیل ہے راستہ پُر خطر ہے یہ سن کر سیدنا امیرِ معاویہؓ رو پڑے اور فرمانے لگے اے ضرارا رک جاؤ خدا کی قسم! سیدنا علی المرتضیٰؓ ایسے ہی تھے اللہ تعالیٰ سیدنا ابو الحسنؓ پر رحم فرمائے۔

آنحضرتﷺ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کی حکومت کی پیش گوئی فرمائی

 اس سلسلہ میں رسول اللہﷺ کے یہ دعائیہ جملے نا قابلِ فراموش ہیں:

 اللهم عليه الكتاب ومكن له فی البلاد وقه العذاب۔

ترجمہ: "اے اللہ سیدنا معاویہؓ کو کتاب کا علم دے اور شہروں میں حکومت عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا"۔ 

(جامع ترمذی)۔

سیدنا امیرِ معاویہؓ آنحضرتﷺ کی پیشن گوئی کی وجہ سے جنتی ہیں

اسلام کی بحری لڑائیوں کے موجد اول کے لیے جنت کی خوشخبری کا شیعہ کتب میں ذکر

 پہلی بحری لڑائی میں سیدنا امیرِ معاویہؓ اپنے خاندان کے ہمراہ بطورِ سپہ سالار شریک ہوئے

شیعہ کی معتبر کتاب " ناسخ التواریخ سے طویل روایت کا انتخاب:

ناسخ التواريخ:

سی و یکم انس بن مالکؓ گوید ام حرام بنت ملحانؓ زوجه عباده بن ثابتؓ خاله رضاعی پیغمبر بود و آں حضرتﷺ در خانه او قیلوله میکرد یک روزانہ بهر مهمانی طعامی بساخت و رسول خدائےﷺ بخورد و بخفت چون بیدار شد نجندید ام حرامؓ سبب خنده پرسید فرمود مرا نمودند که جماعتی از امت من از بہر جنگ کفار در بحر و کشتی چنان باشند که پادشایان بر تخت خویش ام حرامؓ گفت دعا کن تا من از ایشان باشم فرمود تو از ایشانی و دیگر باره نجفت و از خواب انگیخته گشت و بم بخندید و با ام حرام پاسخ نخستین بداد عرض کرد دعا کن من از ایشاں باش فرمود تو از گروه نخستین خوابی بود در حکومت معاویهؓ چون لشکر بجنگ روم می شدام حرام بان لشکر بکشتی در رفت و چون از بحر بكفار آمد پر شتر خویش سوار شد و در راه از شتر بیفتاد و بمرد و هم در آں جا بخاکش سپردند۔

(ناسخ التواریخ جلد پنجم صفحہ 94 در سیرت رسول کریمﷺ مطبوعه تہران طبع جدید)۔

ترجمہ: اکتیسواں معجزہ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ سیدہ ام حرامؓ حضورﷺ کی رضائی خالہ تھیں اور سیدنا عبادہ بن ثابتؓ کے عقد میں تھیں حضورﷺ سیدہ ام حرامؓ کے گھر میں قیلولہ فرمایا کرتے تھے ایک دن سیدہ ام حرامؓ نے آپﷺ کی مہمانی کے لیے کچھ پکایا حضورﷺ نے وہ تناول فرمایا اور سو گئے جب نیند سے اٹھے تو ہنس دیے سیدہ ام حرامؓ نے پوچھا حضورﷺ ہنسی کس وجہ سے آتی ہے؟ فرمایا مجھے دکھایا گیا کہ میری امت کی ایک جماعت کفار کے ساتھ جنگ کے لیے دریا و سمندر میں کشتیوں کے اندر ایسے بیٹھی ہوئی ہے جیسا کہ بادشاہ تخت پر بیٹھے ہوئے ہوں سیدہ ام حرامؓ نے عرض کیا حضورﷺ دعا فرمائیے کہ میں بھی اس جماعت میں ہو جاؤں فرمایا ہاں تو بھی ان میں ہو گی دوبارہ آپ پھر سو گئے جب بیدار ہوئے تو اب بھی ہنس رہے تھے اور سیدہ ام حرامؓ کو پہلے والا جواب دیا انہوں نے عرض کی میرے لیے بھی دعا فرمائیں کہ میں بھی ان میں سے ہو جاؤں فرمایا تو پہلے گروہ کے اندر ہو گی پھر سیدنا امیر معاويهؓ کے دورِِ گورنری میں جب مسلمان لشکر جنگِ روم کے لیے جانے لگا تو سیدہ ام حرامؓ بھی ان کے ساتھ ہولیں اور کشتی میں سوار ہو گئیں جب پانی سے باہر نکلیں تو اپنے اونٹ پر سوار ہوئیں راستہ میں اونٹ سے گر کر انتقال کر گئیں اور وہیں لوگوں نے انہیں دفن کر دیا۔

واقعہ کی مزید تفصیل:

حضورﷺ نے سیدہ ام حرامؓ کے گھر قیلولہ کے دوران جو واقعہ ملاحظہ فرمایا اس میں بخاری شریف کی روایت کے مطابق یہ الفاظ ہیں اول جيش من امتى يغزون البحر قد اوجبوا میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو دریائی لڑائی لڑے گا ان کے لیے جنت واجب ہو گئی ہے پھر قد أوجبوا کی تشریح کرتے ہوئے صاحب فتح الباری رقم طراز ہیں:

ای فعلوا فعلا وجبت لهم به الجنه۔

ترجمہ: یعنی ان لوگوں نے ایسا کام کر دکھایا جس کی وجہ سے وہ یقیناً جنت میں چلے گئے۔

یہ واقعہ اٹھائیس ہجری کا ہے اس لیے صاحب ناسخ التواریخ کا اس کے متعلق یوں کہنا دورِ حکومت سیدنا امیرِ معاویہؓ اس سے اگر یہ مراد ہے کہ یہ واقعہ سیدنا امیر معاویہؓ کے دورِ خلافت میں ہوا تو درست نہیں ہاں سیدنا امیر معاویہؓ کی سرکردگی میں ہوا کیونکہ یہ لشکر دمشق سے روانہ ہوا تھا اور اس صوبہ کے سیدنا امیر معاویہؓ گورنر تھے لیکن صاحب ناسخ التواریخ نے سیدنا امیر معاویہؓ کے دور کا یہ واقعہ تو لکھا لیکن یہ نہیں لکھا کہ خود سیدنا امیر معاویہؓ اس میں شریک تھے یا نہ اگر سیدنا امیر معاویہؓ اس میں شریک نہ تھے تو قد اوجبوا کا مصداق وہ ہرگز نہ بنیں گے یا دوسرے الفاظ میں اس واقعہ سے سیدنا امیر معاویہؓ کا جنتی ہونا اس وقت تک ثابت نہیں ہو سکتا جب تک آپ کی اس میں شمولیت ثابت نہ کی جائے آئیے اس کا ثبوت ملاحظہ کریں:

ناسخ التواريخ

معاویه بن ابی سفیانؓ بسوانی عثمانؓ نامه کرد که ولایات روم باشام چنان نزدیک است که بامدادان از دو سو بانگ خروسان و آواز مرغان شنوده شود و اینک آب دریا از موج سینماک باز نشسته و از جنبش پانل ساکن گشته اگر رخصت اور بجانب جزیره قبرص رکفتی کنم و آن محال را که از مال و مواشی آگنده است فرو گیرم عثمانؓ در پاسخ نوشست که عمر بن الخطابؓ برگز اجازت نمی کرد که مسلمانان آب دریا عبره کنند مرا نیز کرایت می آید اگر تو را این کار موافق افتاده و بسلامت این سفر واثق میباشی زن و فرزند خود را نیز با خویش در کشتی حمل میده تا صدق عقیدت تو مرا مکشوف افتد چون معاویهؓ این پاسخ بشنید فتح قبرص را تصمیم عزم داد و عبدالله بن قيسؓ را باگر و ہے از لشکر فرمان کرد تا ازپیش کشتی در آب راندند و بفرمود کشتیها در عکه فراهم آوردند و لشکر را وحبيبه بداد و بازن و فرزند بعکه آمد در روز در آنجا ببود اور سیم بعد از نماز جمعه بکشتی در افتند اما عبدالله بن قیسؓ که از پیش در آب رانده بود از کشتی بساحل دریا بیرون شد تا مگر از اراضی روم خبری بازداند زنی را گریست با دریوزگی روز گزار اور ادر مے چند عطا کرد آن زن برفت بمیان دیه و مردم آگهی برد که این مرد که بالشكر دریا می نورد اینک بکفار بحر ایستاده گروپی بشتاب تاختن کردند عبداللهؓ را مجال بدست نشه که بکشتی گریز داورا بگرفتند و بکشتند این خبر را بمسلمانان بردند معاویهؓ بدان نگریست هم چنان بازن و فرزند و تمامت سپاه با دویست و بیست کشتی ر الختی نگاه دار که مراتاب و طاقت و زرق طے طریق می کرد ناگاه باد مخالفجنبش کرد و ایا مضطرب شد زور قها و کشتیا از یکدیگر بدوا افتاد زن معاویهؓ سخت ترسید و کلیا بلاج را بخواند و گفت اے کلیا کشتی را لختی نگاه دار که مرا تاب و طاقت رفته است کلیا بلاح را گفت ای زن دریا فرماں کس نبرد و خبر خدانی را بدین کار دست نباشد صبر می کن که خبر دل بصبوری نما دن چاره نیست بالجمله بادبالیست و موج بنشت و مسلمانان بسلامت شدند و این بنگام زور نے چند پدیدار شد که فرمان گزار جزیره قبرس بقسطنطين بديه میفرستاد معاویهؓ فرمود تا جمله را بگرفتند و در آن زورقا کنیز کان پری چهره و جامهانی دیبا و نفائس اشياء فراوان یافتند و از آنجا بجزیره قبرس در آمدند و بی توانی دست به نهب و غارت کشودند و بسیار از قریه بانی و آبادی این بارا بزیر ہے سپردند و غلامان و کنیزان فراوان اسیر گرفتند و اموال و اثقال از نفانس اشیاء بر هم نهادند و ایی جمله را بكفار بحر آورده کشتیارابيا کندیر فرمانگزار جزیره را چنان پول و ہراسی فرو گرفته که خیال مدافعته در خاطرس عبور نداشت تیغی نکشیه و خدنگی نکشاد و کس بنزدیک معاویهؓ فرستاد و خواستگار مصالحت گشت بشرط که بر سال هفت بزار و دوسیت دینار از می فرستد معاویهؓ مسئول او را با جابت مقرون داشت و بر این جمله وثیقی نوشت و مراجعت نمود چون از دریا بیرون شد بفرمود قاغنانم را فراهم آوردند و طریف تلید بر زبریم نهادند کنیزان و غلامان را بحساب گرفتند از ده بزار افزون بشمار آمد از جمله بفتصد تن دختر آن دوشیزه بود معاويهؓ خمس غنائم را بیرون کردد بانامه فتح بسوئے عثمانؓ فرستاد و دیگر را بر لشکر بخش نمود۔

(ناسخ التواری تاریخ الخلفاء جلد سوم صفحہ 139 141 تذکره فتح جزیره قبرس الخ مطبوعه تہران طبع جدید)۔

ترجمہ: سیدنا معاویہؓ نے سیدنا عثمان غنیؓ کی طرف رقعہ لکھا کہ ولایت روم شام سے اس قدر نزدیک ہے کہ صبح کے وقت ایک دوسرے پرندوں کی آوازیں اور مرغ کی اذانیں سنائی دیتی ہیں اور اس وقت دریا کا پانی خطرناک موجوں سے خالی ہے اور خطرناک سیلاب کا نام و نشان تک نہیں ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں جزیرہ قبرص کی طرف چڑھائی کر دوں اور ان مقامات کو جو کہ مال و مویشیوں سے بھرے پڑے ہیں ان پر قبضہ کر لوں سیدنا عثمانِ غنیؓ نے اس کے جواب میں لکھا کہ سیدنا عمر بن الخطابؓ نے اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی کہ مسلمانوں کی کوئی جماعت دریا کا پانی عبور کرے اور مجھے بھی ایسا کرنا اچھا نہیں لگتا اگر تم اس کام کو آسانی سے انجام دیتا اور اپنے لیے موافق سمجھتے ہو اور اس مہم کو سلامت طے کرنے کا یقین رکھتے ہو تو پھر اپنے بال بچوں کو اپنے ساتھ کشتی میں سوار کر لو تا کہ تمہاری کچی عقیدت سامنے آسکے جب سیدنا امیر معاویہؓ نے یہ جواب ملاحظہ کیا تو آپؓ نے قبرص کے فتح کرنے کے لیے پختہ ارادہ کر لیا اور سیدنا عبداللہ بن قیسؓ کو ایک لشکر دے کر فرمایا کہ وہ پہلے کشتی کو پانی میں اتارے اور حکم دیا کہ بقیہ کشتیوں کو ساحل پر اکٹھا کیا جائے اور فوج کو ضروری احکام دیے خود اپنے اہل و عیال کے ہمراہ ساحل پر آئے دو دن وہاں قیام کرنے کے بعد تیسرے دن نماز جمعہ سے فارغ ہو کر کشتی میں سوار ہو گئے ادھر سیدنا عبد اللہ بن قیسؓ جو پہلے ہی دریا میں اتر گیا تھا وہ اپنی کشتی دریا سے ساحل پر لے آیا تاکہ روم کی سرزمین کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ دن بھر مانگ کر گزارہ کرتی ہے اسے چند درہم دیے وہ عورت گاؤں میں گئی اور لوگوں کو خبردار کیا کہ جس آدمی نے دریا کے ساحل پر ڈیرا لگایا ہے یہ ایک لشکر کے ہمراہ عنقریب تم پر حملہ کرنے والا ہے سیدنا عبداللہ بن قیسؓ کو جلدی میں ان لوگوں نے پکڑ کر قتل کر دیا بھاگنے تک کا وقت نہ ملا جب یہ خبر مسلمانوں تک پہنچی سیدنا امیر معاویہؓ نے اس کے متعلق غور و فکر کیا پھر بال بچوں اور تمام سپاہیوں کو بائیس بڑی کشتیوں اور چھوٹی کشتیوں پر سوار کر کے سفر پر روانہ ہو گئے اتفاقاً دورانِ سفر مخالف ہوا چلنا شروع ہوئی دریا میں ہلچل مچی چھوٹی اور بڑی کشتیاں ایک دوسرے سے دور ہو گئیں سیدنا امیرِ معاویہؓ کی بیوی سخت گھبرائی اور کلیا نامی ملاح کو بلا کر کہا اے کلیا کچھ دیر کے لیے کشتی کو ٹھراؤ کیونکہ اب مجھ میں قوت برداشت نہیں رہی کلیا ہنس دیا اور کہنے لگا بی بی دریا کسی کا حکم نہیں مانا کرتا اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی کو اس کام کا اختیار و قوت نہیں صبر کرو کیونکہ اس کے بغیر اور کوئی چارہ نہیں مختصر یہ کہ ہوا کچھ دیر بعد ٹھر گئی اور موجوں کو سکون آ گیا مسلمان سلامتی کے ساتھ کشتیوں میں بیٹھ گئے اتنے میں دور سے چند چھوٹی کشتیاں آتی دکھائی دیں ان میں قبرص کے حکمرانوں کی طرف سے قسطنطنیہ کے حاکم کے لیے تحفہ تحائف لدے ہوئے تھے سیدنا امیر معاویہؓ نے حکم دیا کہ ان تمام کشتیوں کو پکڑ لیا جائے ان کشتیوں میں چاند کی صورت والی کنیزیں ریشمی کپڑے اور عمدہ اشیاء موجود تھیں بھاری تعداد میں یہ چیزیں ہاتھ آئیں اس کے بعد مسلمانوں کا یہ لشکر جزیرہ قبرص آیا اور مسلمان بے تحاشا تباہی اور بربادی کا منظر پیش کر رہے تھے اس طرف کے علاقہ جات سے کثیر تعداد میں غلام اور لونڈیاں ان کے ہاتھ آئیں بہت سی قیمتی اشیاء بھی ان کے ہاتھ لگیں ان تمام چیزوں کو دریا کے کنارے پر لا کر کشتیوں میں ڈال دیا جزیرہ قبرص کے حاکم کو اس سے ایسی دہشت ہوئی کہ اسے دفاع اور مقابلہ کرنے کا تصور تک نہ آیا نہ تلوار اٹھائی نہ تیر کمان پر چڑھایا پھر ایک آدمی کو سیدنا امیرِ معاویہؓ کے پاس امن کی بھیک کے لیے بھیجا سیدنا امیرِ معاویہؓ نے اسے قبول کر لیا شرط یہ قرار پائی که جزیره قبرص کا حاکم ہر سال ستر ہزار اور دو سو دینار دیا کرے گا۔

سیدنا امیرِ معاویہؓ نے ان شرائط کو تحریر میں لایا اور واپس لوٹ آئے جب دریا سے باہر کنارے پر اترے تو فرمایا تمام مالِ غنیمت کو اکٹھا کیا جائے سپاہیوں نے اکٹھا کیا اس وقت غلاموں اور لونڈیوں کی سرسری گنتی کی گئی تو دو ہزار سے بھی زائد نکلے ان تمام قیدیوں میں تقریباً سات سو ایسی لڑکیاں تھیں جو ابھی کنواری تھیں سیدنا امیرِ معاویہؓ نے مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ علیحدہ کر دیا اور فتح کی خوشخبری کا خط لکھ کر سیدنا عثمانِ غنیؓ کی خدمت میں ایک آدمی بھیج دیا پانچواں حصہ بھی ان کے ہمراہ سیدنا عثمانؓ کی خدمت میں بھیج دیا اور بقیہ کو مجاہدین میں تقسیم کر دیا۔

محقق عصر مولانا محمد علی کا تبصرہ:

اس طویل حوالہ سے ہم نہیں بلکہ ایک شیعہ مورخ کہہ رہا ہے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ اس بحری لڑائی میں اپنے اہل و عیال سمیت شریک ہوئے تھے اور کشتیوں پر سوار ہو کر دریائے سفر طے کیا اور دشمنوں پر فتح حاصل کی چونکہ اس سفر میں سیدہ ام حرامؓ کا انتقال ہوتا ہے اب ان دونوں کڑیوں کو ملائیں تو بات یوں بنے گی کہ نبی کریمﷺ‎ نے اپنی امت کے ایک لشکر کو جنت کی بشارت دی جو کشتیوں پر سوار ہو کر دشمن سے لڑنے جائے گا اور اس جنتی لشکر میں سیدہ ام حرامؓ نے شریک ہونے کے لیے حضورﷺ‎ سے دعا کرائی جو منظور و قبول ہوئی سیدہ ام حرامؓ بموجب دعائے حضور اور یہ تمنائے جنت کشتی میں سوار ہوئیں اس لشکر میں سیدنا امیرِ معاویہؓ ایک سپہ سالار کی صورت میں موجود تھے لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ حضورﷺ کی پیش گوئی کے مطابق جنتی ہوئے اس حقیقت کو مد نظر رکھ کر کوئی بد نصیب ہی ایسا ہو گا جو سیدنا امیرِ معاویہؓ کے جنتی ہونے کا اقرار نہ کرے اور پھر اگر اس ضمن میں یہ دیکھا جائے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کو جنتی نہ ماننے والا دراصل حضورﷺ کی بات کو ٹھکرا رہا ہے تو ایسے کم بخت کا سرے سے ایمان ہی جاتا رہے گا۔

قارئین کرام ! سیدنا امیرِ معاویہؓ کے بارے میں ہم اہلِ سنت کا یہ عقیدہ نہیں کہ آپ ہر خطاء سے معصوم ہیں ہاں حضورﷺ کے جلیل القدر صحابی مانتے ہیں سیدہ ام حبیبہؓ کا بھائی ہونے کی وجہ سے آپﷺ کا سالا مانتے ہیں مذکورہ پیش گوئی اور دیگر شواہد کی بنا پر ہم انہیں جنتی سمجھتے ہیں سیدنا حسنین کریمینؓ نے ان کی بیعت کر لی تھی اس لیے ہم آپ کو باغی کہنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں ان دونوں نے سیدنا امیرِ معاویہؓ سے وظائف قبول کیے اس لیے ہم سیدنا امیرِ معاویہؓ کو حسنین کا محسن بھی کہتے ہیں اس لیے ان لوگوں سے ہماری گزارش ہے کہ جو ان کے بارے میں باغی اور کافر تک کے الفاظ کی رٹ لگاتے ہیں وہ اپنے رویہ پر نظر ثانی کریں اور اللہ و رسول کے غضب سے بچنے کے لیے اس عقیدہ سے توبہ کریں۔

(بحواللہ شیعہ مذہب تحفہ جعفریہ)

سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کی طرف سے سیدنا امیرِ معاویہؓ کی بیعت:

قيس بن سعد بن عباده جبرائیل ابن احمد وابو اسحق حمدويه و ابراهيم ابنا نفير قالوا حدثنا محمد بن عبد الحميد العطار الكوفى عن يونس بن يعقوب عن فضل غلام محمد بن راشد قال سمعت ابا عبدالله عليه السلام يقول ان معاويهؓ كتب الى الحسن بن علىؓ صلوات الله عليهما ان اقدم انت والحسينؓ واصحاب على فخرج معهم قيس بن سعد بن عباده الانصاري وقدم الشام فاذن لهم معاويهؓ واعد لهم الخطباء و قال يا حسنؓ قم فبايع فقام فبايع ثم قال للحسين عليه السلام قم فبايع فقام فبايع ثم قال يا قيس قم فبايع فالتفت الى الحسين عليه السلام ينظر ما با مره فقال يا قيس انه اما می یعنی الحسن عليه السلام۔

(1۔ رجال کشی صفحہ 102 مطبوعہ کربلا ذکر قیس بن سعد طبع جدید)۔

(2۔ بحار الانوار جلد 44 صفحہ 61 ذکر مصالحت الحسن طبع جدید ایران)۔

(3۔ بحار الانوار جلد 11 صفحه 134 طبع قدیم)۔

ترجمه: (محذف اسناد) راوی کہتا ہے کہ میں نے سیدنا جعفر صادقؒ سے یہ فرماتے سنا کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے سیدنا حسنؓ کی طرف رقعہ لکھا کہ آپ خود اور سیدنا حسینؓ و دیگر اصحاب علی کو لے کر میرے ہاں تشریف لائیں ان کے ساتھ قیس بن سعد بن عباده الانصاری بھی تھے جب یہ شام پہنچ تو سیدنا امیرِ معاویہؓ نے انہیں اپنے ہاں اندر آنے کی اجازت دی اور ان کے لیے خطیب مقرر کیے اور کہا اے سیدنا حسنؓ اٹھے اور بیعت کیجئے یہ اٹھے اور بیعت کی پھر سیدنا حسینؓ کو کہا انہوں نے بھی بیعت کرلی ان کے بعد جب قیس بن سعد کو بیعت کرنے کو کہا تو انہوں نے سیدنا حسینؓ کی طرف اس غرض سے دیکھا کہ اس بارے میں امام کی کیا رائے ہے سیدنا حسینؓ نے فرمایا اے قیس سیدنا حسنؓ ہمارے امام ہیں۔

(لہٰذا جو کچھ انہوں نے کیا تم بھی ویسے ہی کرو اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کی بیعت کرو)۔