Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

مذہب شیعہ کا آغاز و تعارف

  مولانا مہر محمد

شیعہ مذہب کا آغاز و تعارف

اسلام جب اپنے محسنین تلامذہ نبوت (شاگردانِ رسولﷺ)، خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی وجہ سے بام عروج (بلند مقام) پر پہنچا،معلوم کرّہِ ارضی کے چپہ چپہ پر چھا گیا۔ بڑی بڑی متمدن فارس و روم کی حکومتیں پیوندِ خاک ہو گئیں تو یہود و مجوس منافقانہ اسلام میں داخل ہوئے اور حسد و نفاق کی وجہ سے اسلام سے انتقام کی ٹھانی۔ ان کا سرغنہ صنعاء یمن کا یہودی عالم عبداللہ ابن سباء تھا۔ جو صحابہؓ دشمنی، تعلیمِ نبوتﷺ سے بیزاری، خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین فاتحینِ اسلام کی کردار کشی اور ملی منافرت پھیلانے میں ابنِ ابی رئیس المنافقین کا پورا وارث و جانشین تھا۔ اسی (عبداللہ ابن سباء یہودی) نے حب اہلِ بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پر فریب نعرے سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرایا۔ دورِ مرتضویؓ میں شدید خونریزیاں کرائیں۔ اسی کے پیروکار ابنِ ملجم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، اتحادِ ملت کے دشمن اسی کے حواریوں نے سبطِ پیغمبر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مصالحت و بیعت کر لینے کی وجہ سے”مذل المؤمنین مسود المسلمین“ مومنوں کو رو سیاہ کرنے والے اور ان کی ناک کٹوانے والے القابات سے نوازا۔ (جلاء العیون) 
(شیعہ کتاب رجال کشی: صفحہ،71 پر اسی عبداللہ ابنِ سباء کے حالات میں لکھا ہے کہ ”اہلِ علم کا بیان ہے کہ عبداللہ بن سباء یہودی تھا۔ پھر (منافقانہ طور پر) اسلام قبول کیا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا اظہار کیا۔ وہ یہودیت کے زمانے میں غلو کر کے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام کا وصی (جانشین) کہتا تھا تو مسلمان ہو کر اس نے رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وصی ہونے کا عقیدہ نکالا، یہ پہلا شخص ہے جس نے سیدنا علیؓ کی امامت کا فرض ہونا مشہور کیا، اور سب سے پہلے اس نے آپ کے دشمنوں سے تبراء کیا اور اسی نے ان کی مخالفت کی، اور ان (خلفاء ثلاثہؓ) کو کافر قرار دیا۔اسی لیے مخالفینِ شیعہ کہتے ہیں کہ مذہبِ شیعہ کی اصل یہودیت سے ماخوذ ہے“)
اسی بدبخت گروہ نے سیدہ ریحانہ بتولؓ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بلا کر غداری سے شہید کیا اور قافلہ اھل بیتؓ سے بد دعائیں لے کر رونا پیٹنا اپنا مذہب بنا لیا۔ عبداللہ ابن سباء اور اس کی پیروکار ذرّیت کے یہ اسلام سوز مسلم کش کارنامے تاریخ کی سب معتبر کتابوں کے علاوہ شیعہ کی علم اسماء الرجال کی کتابوں میں صراحت سے موجود ہیں۔
اس نے اپنی پُر تقیہ خفیہ تحریک سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین و اہلِ بیتؓ کے قتل کا ہی کام نہ لیا بلکہ اسلام کے اساسی عقائد پر تیشہ چلایا۔ سیدنا علی المرتضٰیؓ کو رب باور کروایا، یا علی مشکل کشاء اور یا علی مدد کے نعرے اسی کا نتیجہ ہیں۔ امامت کا عقیدہ ایجاد کر کے نبوتﷺ کا صفایا کیا قرآن میں تحریف اور کمی بیشی کا نظریہ ایجاد کر کے اسلام کی جڑ کاٹ دی۔ سرمایہ نبوت، تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معاذ اللہ منافق غاصب اور بے ایمان کہہ کر پیغمبر کی ناکامی اور اسلام کے جھٹلانے کا برملا اعلان کیا۔ امہات المؤمنین رضی اللہ عنھن ازواجِ پیغمبرﷺ اور بناتِ طاہرات رضی اللہ عنھن اور آپﷺ کے سب سسرالی اور خاندانی رشتوں کی عظمت کا انکار کر کے مقامِ اہلبیتؓ کے نظریے کو تہس نہس کر دیا۔ 
عالم اسلام کے مشہور مفکر مولانا منظور احمد نعمانیؒ ”اسلام میں شیعت کا آغاز“ کے عنوان میں عبداللہ ابن سباء کے تعارف میں فرماتے ہیں: 
اس خونی فضاء میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ چوتھے خلیفہ منتخب ہوئے آپؓ بلاشبہ خلیفہ برحق تھے اس وقت کوئی دوسری شخصیت نہیں تھی جو اس عظیم منصب کے لیے قابلِ ترجیح ہوتی لیکن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے نتیجہ میں امتِ مسلمہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی اور نوبت باہم جنگ و قتال کی بھی آئی۔ جمل اور صفین کی دو جنگیں ہوئی۔ عبداللہ ابن سباء کا پورا گروہ، جس کی اچھی خاصی تعداد ہو گئی تھی، سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ اس زمانہ اور اس فضا میں اس کو پورا موقع ملا کہ لشکر کے بے علم اور کم فہم عوام کو سیدنا علیؓ کی محبت اور عقیدت کے عنوان سے غلو کی گمراہی میں مبتلا کرے۔ یہاں تک کہ اس نے کچھ سادہ لوح کو وہی سبق پڑھایا جو پولوس نے عیسائیوں کو پڑھایا تھا اور ان کا یہ عقیدہ ہو گیا کہ حضرت علیؓ اس دنیا میں خدا کا روپ ہیں اور ان کے قلب میں خداوندی روح موجود ہے اور گویا وہی خدا ہیں۔ کچھ احمقوں کے کان میں یہ بھی پھونکا کہ اللہ نے نبوت اور رسالت کے لیے دراصل سیدنا علیؓ بن ابی طالب کو منتخب کیا تھا وہی اس کے اہل اور مستحق ہیں اور حاملِ وحی فرشتے نے جبرائیل امین علیہ السلام کو ان کے پاس بھیجا تھا لیکن ان کو اشتباہ (شبہ) ہو گیا وہ غلطی سے وحی لے کر محمدﷺ بن عبداللہ کے پاس پہنچ گئے۔ استغفر اللہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ 
(حاشیہ: یہ بات بلفظہ اور من و عن تو ہمیں معلوم نہیں کہ شیعہ کی کس کتاب میں ہے تاہم شیعہ قاضی نور اللہ شوستری نے اپنی کتاب "مجالس المؤمنین" میں بعض شیعوں کا یہ عقیدہ نقل کیا ہے۔ غلط الامین فجاوزھا عن حیدر کہ جبرائیل علیہ السلام نے غلطی کی کہ وحی و شریعت حیدر کے بجائے محمدﷺ تک پہنچا دی۔ بطورِ تقیہ اس کفریہ قول کو چھپا دیا گیا ہے، برملا کہتے اور لکھتے نہیں، ورنہ عقیدہ ہر امامی اثناء عشری شیعہ کا یہی ہے کیونکہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو منافق اور شیعانِ علی کو مؤمن کہتے ہیں، معجزہ رسولﷺ قرآن کو محرف (تبدیل شدہ) بلا امام ناقابلِ عمل اور بے حجت کہتے ہیں۔ کتاب نہج البلاغہ کو مقدس اور واجب العمل جانتے ہیں۔ خاص رسول اللہﷺ کی طرف منسوب تمام چیزوں سے نفرت و تبراء کرتے ہیں ۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نسبت سے تمام چیزوں سے محبت کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ کی تعلیم و ہدایت سے پانچ صحابہ کرامؓ کو بھی مومن و جنتی نہیں مانتے۔ سیدنا علیؓ کی نسبت سے لاتعداد لوگوں کو مؤمن و جنتی کہتے ہیں۔ یعنی نبوت کو حضور اکرمﷺ سے کاٹ کر سیدنا علیؓ کو نبی و ہادی ماننا چاہیے۔)
مؤرخین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ جب سیدنا علی المرتضٰیؓ کے علم میں کسی طرح یہ بات آئی کہ ان کے لشکر کے کچھ لوگ ان کے بارے میں اس طرح کی باتیں چلا رہے ہیں تو آپ نے ان شیاطین کو قتل کروانے اور لوگوں کی عبرت کے لیے آگ میں ڈلوانے کا ارادہ فرمایا لیکن اپنے چچا زاد بھائی اور خاص رفیق سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ان جیسے اور لوگوں کے مشورہ پر اس وقت کے خاص حالات میں اس کارروائی کو دوسرے مناسب وقت کے لیے ملتوی کر دیا۔
(صحیح بات یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان مشرک سبائیوں کو آگ میں جلا دیا تھا۔ جیسے بخاری میں اور علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کی کتاب "منہاج السنہ میں صراحت ہے۔ شیعہ کی رجال کشی میں سیدنا جعفر صادق رحمۃاللہ نے 70 آدمیوں کے جلانے کا ذکر فرمایا ہے۔ اور وہ کہتے تھے”کہ اے علی تیرے رب ہونے کا ہمیں یقین ہو گیا کہ آگ کا عذاب خدا کے سوا کوئی نہیں دیتا “خود ابنِ سباء مردود کو سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے مشورے سے جلایا نہیں، ورنہ سبائی لشکر آپ سے بغاوت کر دیتا۔ اسے بدعا دے کر جنگل میں ہانک دیا وہ بنی اسرائیل کے سامری کی طرح لا مساس۔ مجھے ہاتھ نا لگاؤ کہہ کر پاگل ہو گیا اور درندوں کا لقمہ بن گیا۔ لعنت اللہ علیہ وعلی شیعتہ واتباعہ اجمعین)
بہرحال جمل و صفین کی جنگوں میں عبداللہ ابن سباء اور اس کے چیلوں کو اس وقت کی خاص فضاء سے فائدہ اٹھا کر سیدنا علیؓ کے لشکر میں ان کے بارے میں غلو کی گمراہی پھیلانے کا پورا پورا موقع ملا اور اس کے بعد جب آپ نےعراق کے علاقہ میں کوفہ کو اپنا دارالحکومت بنا لیا تو یہ علاقہ اس گروہ کی سرگرمیوں کا خاص مرکز بن گیا اور چونکہ مختلف اسباب اور وجوہ کی بنا پر جن کو مؤرخین نے بیان کیا ہے اس علاقہ کے لوگوں میں ایسے غالیانہ اور گمراہانہ افکار و نظریات کے قبول کرنے کی زیادہ صلاحیت تھی اسی لیے یہاں اس گروہ کو اپنے مشن میں کامیابی ہوئی۔ (گویا یہ علاقہ شیعیت کا گڑھا بن گیا) (ایرانی انقلاب: صفحہ 108 ،109) 
گویا ابنِ سباء ختم ہو گیا لیکن حُب اہلِ بیتؓ کی آڑ میں اس کا سبائی گروہ اور کفریہ نظریات چلتے رہے۔ خارجی اور شیعہ کے نام سے دو گروہ بن گئے اور اسلام اور مسلمانوں کو زبردست نقصان پہنچایا۔ ان کا اصل مذہب تو سیاست اور امتِ مسلمہ کو تباہ کرنا تھا جسے ہم عنقریب بیان کریں گے۔ لیکن ایک روپ مذہب کا بھی دھارا اور عقائد، اعمال، اخلاقیات، میں افراط و غلو اختیار کیا۔ اصول اور فروعِ دین میں تشکیک پیدا کرنے کے لیے فضول مباحث اور کلامی مجادلات کا دروازہ کھول دیا اسی اختلاف و شقاق سے وہ اپنے مذہبی وجود کا بھرم باقی رکھے ہوئے ہیں۔
مشہور تبرائی عبدالکریم مشتاق کا یہ رسالہ "فروعِ دین" ”میں نے سنی مذہب کیوں چھوڑا، مع مذہبِ سنیہ پر ہزار سوال“ اسی کفریہ پالیسی کا مظہر ہے جس کا تحقیقی الزامی تشیع کش کامیاب جواب ہم نے اپنی اس کتاب میں دے دیا ہے۔ 
ہم مناسب جانتے ہیں کہ اس گروہ کا سیاسی چہرہ بھی بے نقاب کر دیا جائے اور سادہ لوح مسلمانوں کو ان کے شر سے حتیٰ الامکان بچایا جائے۔ 
فخر الاسلام میں علامہ احمد امین مصری نے لکھا ہے کہ: پہلی اور دوسری صدی میں جو شخص یا گروہ اسلام پر حملہ آور ہوتا وہ اہلِ تشیع کے کیمپ میں آ جاتا اور تقیہ و حُبّ اہلِ بیتؓ کی آڑ میں اسلام کی جڑوں کو کاٹتا۔ 
اسی کی تائید پروفیسر محمد منور نے کی ہے:
(اقتباس: 23 باب ملاحظہ فرما لیں صفحہ 20)
شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہؒ نے "منہاج السنہ" میں لکھا ہے کہ "شیعہ روزِ اول سے مسلمانوں کے دشمن چلے آ رہے ہیں انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے دشمنوں کا ساتھ دے کر اہلِ اسلام سے جنگ لڑی ہے ان کی ساری تاریخ سیاہ اور ظلمتِ ظلم سے تموُر ہے"
نیز فرماتے ہیں شیعہ نقلی دلائل پیش کرنے میں اکذب الناس ہیں اور عقلی دلائل کے ذکر و بیان میں اجہل الناس یہی وجہ ہے کہ علماء انہیں اجہل الطوائف کہتے چلے آئے ہیں۔ ان کے ہاتھوں اسلام کو پہنچنے والے نقصان کا علم صرف رب العالمین کو ہے۔ اسماعیلیہ، باطنیہ اور نصیریہ ایسے گمراہ فرقے اسلام میں شیعہ کے دروازے سے داخل ہوئے۔ کفار و مرتدین بھی شیعہ کی راہ پر گامزن ہو کر اسلامی دیار و بلاد پر چھا گئے۔ مسلم خواتین کی آبرو ریزی کی اور ناحق خون بہایا، شیعہ خبثِ باطن اور ہوائے نفس میں یہود سے ملتے جلتے اور غلو و جہل میں نصاریٰ کے ہم نوا ہیں۔
( المنتقیٰ من المنہاج اردو: صفحہ 28) 
اس کی کی تازہ مثال پاکستان میں شریعت بل 1986ء کی مخالفت ہے۔ آل شیعہ پارٹیز فیڈریشن نے 6 اپریل اور 19 اپریل کے اخبارات جنگ وغیرہ میں پریس کانفرنس شائع کروائی ہے۔ اگر شریعت بل نافذ کیا گیا تو شیعہ اس کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔ قربانی دیں گے اور اسلام کے شیدائی سوشلزم اپنانے پر مجبور ہوں گے۔ یعنی قرآن و سنت اجماعِ اُمت اور قانونِ شرع پر مبنی مسلمانوں کا اپنا اسلامی نظام اپنانا ہرگز گوارا نہیں ہے۔ اس کے آنے پر مر مٹنا منظور ہے مگر تائید نہیں کریں گے۔ سوشلزم کا ،خدا اور مذہب کے انکار پر مبنی نظام قبول ہے۔ ایں چہ بوالعجبیت؟ انگریز کے قانون میں ایک صدی عیش و عشرت سے بسر کی نہ اس کے خلاف آواز اٹھائی نہ فقہ جعفریہ کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ جب 35 سال بعد پاکستان میں صدر محمد ضیاء الحق نے نفاذِ اسلام کی بات کی تو کھلے مخالف ہو گئے۔ اسلام آباد کا گھیراؤ کیا فقہ جعفریہ کا مطالبہ لے آئے عشر و زکوٰۃ کا انکار کیا، حدودِ شرعیہ سے خود کو مستثنیٰ (الگ، علیحدہ، خاص) کرا لیا۔ اب نفاذِ شریعت سے خائف ہیں؟ اور مسلم کش روسی نظام سوشلزم اور کمیونزم سے معانقہ کر رہے ہیں۔ کوئی کیسے باور کرے کہ یہ مسلمان ہیں؟ تو کیسے مسلمان ہیں؟

شیعہ کی سیاسی تاریخ

شیعہ کی اسلام سے غداری، مسلم کشی اور کفار سے دوستی اور موالات کو ملاحظہ فرمائیں:
1: ابو لؤلؤ مجوسی ایرانی نے شہزادہ ہرمزان کی سازش سے مرادِ نبوت، فاتحِ اسلام، خسرِ رسول اللہﷺ اور دامادِ علی رضی اللہ عنہ ،سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو شہید کیا شیعہ اس دن عید مناتے ہیں اور سیدنا عمر فاروقؓ کے قاتل فیروز مجوسی کو بابا شجاع کہہ کر فیروزہ نامی انگوٹھی کو متبرک جانتے ہیں۔        
2: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو جن سبائی بلوائیوں نے شہید کیا ان کو اپنا پہلا شیعی گروہ اور متقی و صالح جانتے ہیں حالانکہ اسلام کا بڑا حادثہ یہی ہے۔
3: جنگِ جمل و صفین میں طلحہ و زبیر اور ستر ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعینؒ کا قاتل بھی یہی گروہ ہے ان اہم حادثات پر خوش ہیں کبھی ماتمی مجلس قائم نہیں کی ہے۔
4: نہروان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنے والے خارجی اسی گروہ سے تھے جنہوں نے سیدنا علیؓ کے شرعی فیصلے کے برخلاف "ان الحکم الا للہ" (حکومت صرف خدا کے مقرر کرنے سے ملتی ہے) کا نعرہ لگایا، آج بھی شیعہ کا یہی نعرہ ہے کہ امامت و خلافت خدا کی نص اور مقرر کرنے سے ملتی ہے شوریٰ اور مسلمانوں کے انتخاب سے نہیں ملتی شیعہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تو خوب مذمت کرتے ہیں مگر ان محاربان علی (خارجیوں) کی نہیں کرتے آخر مذہبی برادری کے سوا اور کیا راز ہو سکتا ہے ؟
5: قاتل علی ابنِ ملجم کٹر شیعہ اور مصری بلوائی تھا، اس کے پہلے کسی عمل کی شیعہ مذمت نہیں کرتے اور نمازوں کے بعد اس پر لعنت نہیں کرتے جیسے معاذاللہ خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین و امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر کرتے ہیں۔ اس کا راز اس کا شیعہ بھائی ہونا نہیں تو اور کیا ہے؟ 
6: اہلِ بیتؓ پر مظالم: احتجاجِ طبرسی، منتہی الآمال، جلاءالعیون وغیرہ کتب شیعہ میں صراحت ہے کہ جب سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے نانا کی پیشین گوئی اور رضاء کے مطابق سیدنا معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت و مصالحت کر لی سب مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے وہ سال عام الجماعۃ کہلایا تو اتحادِ ملّی کے دشمن شیعہ سیدنا حسنؓ سے ناراض ہو گئے، آپ کو بہت کوسا اور مطعون کیا، اس کی صدائے باز گشت آج بھی شیعہ ایوانوں میں سے آ رہی ہے کہ حسن رضی اللہ عنہ صرف امامت در اولاد سے ہی محروم نہ ہوئے بلکہ ان کے کسی مخصوص کمال اور بزرگی پر نہ تو کوئی تقریب و مجلس منعقد ہوتی ہے نہ کوئی نام نہاد خطیب آلِ محمدﷺ اس عظیم کارنامہ اتحاد پر آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ بس بعد از وفات جنازہ پر ایک جھوٹا واقعہ مشہور کر کے غیروں کو خوب گالیاں دیتے ہیں، مگر جن شیعوں نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ کیا، ران کاٹی، مال و اسباب لوٹا، ان کی مذمت میں مجلسِ عزا قائم نہیں کرتے؟
7:  سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس سبائی ٹولے کا سلوک شہرہ آفاق ہے دہرانے کی حاجت نہیں۔
8: قتلِ حسینؓ کے بعد یہ لوگ نادم اور تائب ہوئے تاریخ میں ان کا لقب توابین مشہور ہے، قاضی نور اللہ شوستری لکھتا ہے (قاتلانِ حسین) شیعہ ایک مدت کے بعد بیدار ہوئے، افسوس کیا، اپنے اوپر لعنت کی کہ دنیا و آخرت کا گھاٹا ہمارے نصیب ہوا، کیونکہ ہم نے حسین کو بلایا پھر ان پر ہم نے تلوار کھینچی اور ہماری بے وفائی سے ہوا جو کچھ ہوا۔ 
اس جماعت کے سردار پانچ اشخاص تھے، سلیمان بن صرد خزاعی، مسیب بن نخبہ فزاری، عبداللہ بن سعد ازدی، عبداللہ بن دال تمیمی، رفاعہ بن شداد اور یہ پانچوں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خاص اور معروف شیعہ تھے۔(مجالس المؤمنین: صفحہ243، جلد 2)
9: ان توابین نے پھر جو ظلم و بربریت پھیلائی اور عامۃ الناس کا قتلِ عام کیا، ایک طویل بحث اسی مجالس المؤمنین میں موجود ہے۔
10: چند سالوں کے بعد انتقامِ حسین کے بہانے بد ترین ظالم مختار بن عبید ثقفی اٹھا، 70 ہزار مسلمانوں کا قتلِ عام کر کے کوفہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، شرح دیوان مرتضوی میں حسن عسکری کی روایت سے مقتولین کی تعداد 80301 ہے (مجالس المؤمنین: صفحہ251، جلد 2) آج بھی شیعہ اسے ناصر آلِ حسین کہ کر قومی ہیرو مانتے ہیں، حالانکہ یہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو گرفتار کر کے دشمنوں کے سپرد کرنا چاہتا تھا لیکن چچا نے اسے ڈانٹ دیا، سیدنا حسینؓ کے ساتھ غداری کی، پھر نبّوت کا دعوے دار ہوا، محمد بن الحنیفہ کو اپنا امام بتایا (حالانکہ مذہب شیعہ میں غیر امام کو امام کہنا بڑا کفر اور شرک ہے) ان کے نام سے دولت جمع کی سیدنا زین العابدینؒ اور محمد باقرؒ نے اس پر پھٹکار کی اور اسے بے دین بتایا (سب حوالہ جات "ہم سنّی کیوں ہیں" میں دیکھیے) لیکن شیعہ کو ہر سفاک سے پیار ہے خواہ وہ بد عقیدہ اور ملعون ہو یہ فتنہ سیدنا مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ختم کیا تھا۔
11: حضرت زید شہید بن علی زین العابدین رحمۃ اللہ جو فاضل سادات میں سے تھے، ظالم حکام کے خلاف اٹھے 40 ہزار کا لشکر تیار کیا، عین موقع پر ان کوفی شیعوں نے غداری کی اور کہا کہ تب ساتھ دیں گے جب سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما پر تبراء کرو گے حضرت زید رحمۃ اللہ نے فرمایا وہ تو میرے بزرگ آباء تھے میں ان پر کیسے تبراء کروں؟ وہ سب ساتھ چھوڑ گئے حضرت زید نے فرمایا! یٰقَوُمِ رفضتمونی "اے میری قوم تم نے میری بیعت کر کے مجھے چھوڑ دیا۔" اسی وجہ سے شیعوں کا لقب رافضی مشہور ہوا۔(مجالس المؤمنین: صفحہ256، جلد 2)حضرت زیدؒ چند افراد کے ساتھ تنہا لڑے اور شہید ہو گئے، اثناء عشری اور جعفری شیعوں کو آج بھی حضرت زیدؒ سے نفرت اور دشمنی ہے اور مختار سفاک سے محبت ہے، بے دینوں کا ساتھ دے کر قتلِ عام کرتے ہیں اور اہلِ بیتؒ کو بے یارو مددگار چھوڑ کر قتل کراتے ہیں اور خود صحابہ کرامؓ کے تبراء میں لعنتی بن جاتے ہیں، اس لیے یہ کہنا بالکل برحق ہے کہ شیعہ اسلام اور اہلِ بیتؓ کے غدار دشمن ہیں، مختار او خمینی جیسے ظالموں کے طرف دار ہیں۔ 
12: بنو امیّہ کے خلاف جو ایرانیوں نے بنو عباس کے ساتھ مل کر تحریک چلائی اور پھر خونی انقلاب آیا لاکھوں مسلمان تَہ تیغ ہوئے اور بعض عباسی بادشاہوں کا لقب بھی سفاح "بہت خون ریز" پڑ گیا، ان سب کا مشیر و وزیر اور درپردہ قاتل ابو مسلم خراسانی تھا جو کٹر شیعہ تھا اور بنو عباس سے اسی نے سب ظلم کرائے، شیعہ آج بھی اس سے محبت کرتے ہیں، شوستری نے اسے سلاطین کی فہرست میں شمار کیا ہے۔ 
13: مفاد کی دوستی اور وقتی انتخابی اتفاق و اتحاد کبھی پائیدار نہیں ہوتا، بنو امیہ دشمنی میں تو یہ علوی عباسی اتحاد رہا مگر جب بنو عباس کو اقتدار مل گیا اور علویہ محروم رہے تو یہی مفسدانہ کاروائیاں علویوں نے بنو عباس کے ساتھ شروع کر دیں، شیعہ عالم شوستری لکھتا ہے علویوں نے کوفہ میں عباسیوں کے تمام گھروں کو لوٹ لیا۔ ان کا تمام مال و اسباب اور مکانات تباہ کر دیے اور بہت سے بچے کھچے (جو بھاگ نہ سکے) عباسیوں کو علویوں نے مار ڈالا خانہ کعبہ کے خزانہ کو بنو عباس اور ان کے طرف داروں کے مالوں سمیت اپنے قبضے میں لیا اور لشکر میں تقسیم کر دیا، سیدنا جعفر صادق رحمۃ اللہ کے پوتے موسیٰ کاظم کے بیٹے زید نے عباسیوں اور بصریوں کے گھروں کو اتنی آگ لگائی کہ اس کا لقب "زید نار" پڑ گیا(مجالس المؤمنین: صفحہ404، جلد 2)
ذرا دیانت سے غور فرمائیں سادات کے سے یہ مظالم کسی اموی حاکم نے بھی کیے؟ 
14: بنو بویہ کے مظالم: ابو مسلم خراسانی عباسی دورمیں تقریباً سیاہ و سفید کا مالک ہو گیا، عباسی حکمران کٹھ پتلی بن کر رہ گئے اور بنو بویھہ کا شیعی خاندان عملاً برسرِ اقتدار آ گیا، بحیرہ اخزر کے ساحل پر مچھیرے تھے بویھہ کے تین بیٹے فوجی تربیت پاکر عباسیہ کے دشمن ہوگئے غنڈہ گردی اور قتل و غارت سے جنوبی ایران، شیراز پھر سب ایران پر قبضہ کر کےبغداد پر حملہ کر دیا، خلیفہ مستکفی باللہ نے دب کر اسے بغداد کا گورنر بنا دیا اور معزالدولہ کا لقب دیا، انہوں نے بغداد میں اپنا راج اتنا چلایا کہ خلیفہ کو برسرِ عام ڈنڈے مار مار کر قید کر لیا، 7 سال بعد وہ قید میں مر گیا اور پھر برائے نام ایک شہزادے مطیع الدین اللہ کو خلیفہ بنا دیا اپنی من مانی کاروائیوں پر اس سے دستخط کرا لیتے اور قتلِ عام کرتے، ان کا احمد معزالدولہ ظلم و سفاکی میں سب کو مات دے گیا، اس نے جبراً عاشورہ محرم کی چھٹی کرائی جو پہلے کھبی نہ ہوتی تھی، اہلِ سنت کی دکانیں بند کروا کر تمام شیعہ مردوں اور عورتوں کو حکم دیا کہ وہ سیاہ لباس پہن کر روئیں، پیٹیں اور ماتم کریں، بغداد کے تمام مساجد کے دروازوں پر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، سیدنا ابوبکر صدیقؓ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ،سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر لعنتیں کی اور تبرے لکھوا دیئے، اہلِ سنت مٹا دیتے تھے شیعہ پھر لکھ لیتے تھے، چناچہ سنی شیعہ فسادات کی آگ بھڑک اٹھی، ہزاروں مسلمانانِ اہلِ سنت شہید ہوگئے یہ واقعہ 352ھ کا ہے شیعہ عالم شوستری لکھتا ہے: کہ یہ فتنہ اتنا بڑھ گیا کہ معزالدولہ دارالاسلام بغداد کے تمام سنی مسلمانوں کو قتل کرنے پر آمادہ ہو گیا تو محمد بن مہلبی وزیر نے درخواست کی کہ سیدنا معاویہؓ کے سواء لعنت کسی پر نہ کریں اور شخصی لعنتوں کے بجائے یہ کلمات لکھیں: "لعن اللہ الظالمین لاٰل محمد رسول الله" 21 سال معزالدولہ خلیفۃ الخلفاء بنا رہا اور عباسی خلیفہ معزالدولہ کا تابعدار بنا رہا۔ (مجالس المؤمنین: صفحہ326) 
15: آلِ حمدان:  سے ایک شیعہ بادشاہ سیف الدولہ ہوا ہے اس نے بھی تشیع کے نشہ میں شام کے شہر حلب میں یہی ظالمانہ کاروائی کی (ایضاً:صفحہ337، جلد 2) جو اب حافظ الاسد رافضی( شیعہ)کر رہا ہے۔
16: اسماعیلیوں کے مظالم: سیدنا جعفر صادق رحمۃ اللہ کے دو بیٹے تھے اسماعیل اور موسیٰ کاظم، صادق نے امامت کی نص اسماعیل کی طرف کر دی مگر قضائے الٰہی سے وہ باپ کے عہدِ حیات میں فوت ہو گیا تو شیعوں کا ایک گروہ اسماعیل اور ان کی اولاد میں امامت کا قائل ہو گیا، یہ آغا خانی اور اسماعیلیہ کہلاتے ہیں جن کا 51 امام عبد الکریم موجودہ آغا خان ہے، ان کا مذہب اسلام سے مکمل طور پر مختلف ہے، حتٰی کہ اثناء عشری شیعہ بھی انکو کافر مانتے ہیں، باقی شیعوں نے موسیٰ کاظم کو امام مانا اور اثناء عشری جعفری کہلائے، تاریخ گواہ ہے کہ بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ، اسماعیلیوں نے بھی جب ذرا کچھ اقتدار پایا مسلم کشی میں کوئی کوتاہی نہیں کی، ان کا ملحد لیڈر حسن بن صباح ظلم و بربریت میں شہرہ آفاق ہے۔ شیعہ شوستری لکھتا ہے: کہ اس شخص کے دور میں اس کی فدائی نامی جماعت کے ہاتھوں بہت اہلِ سنت والجماعت شہید کیے گئے،کِیّا بزرگ جو ایک اسماعیلی سردار تھا کے دور میں فدائیوں نے اہل سنت کی ایک بڑی جماعت کو شہید کیا، مقتولوں میں قاضی القضاۃ ابو سعید بھی تھے ایک دوسرے اسماعیلی سردار دولت شاہ رئیس اصفہان نے مراغہ کے حاکم سنتور کو خلیفہ عباسی مسترشد کو تبریز کے رئیس کو، قزدین کے مفتی کو اور سنی قوم کے خاص اکابر کی اکثریت کو فدائیوں کے ہاتھوں مروا ڈالا اور کِیّا محمد پسر کِیّا بزرگ کے دور میں خلیفہ عباسی کا بیٹا راشد مارا گیا اور بہت سے خاص خاص اہلِ سنت کے علماء، افسران، قاضی حضرات قتل کیے گئے، مقتولوں کے ناموں کی تفصیل بعض تواریخ میں مسطور ہے، مؤلف ( شیعہ شوستری) کہتا ہے کہ اہلِ سنت کے ساتھ ان مظالم کا نتیجہ یہ ہے کہ سنی اسماعیلیوں کو ملحد و زندیق کہتے ہیں۔ 
17: شیعوں کا ایک دور اقتدار: فاطمینِ مصر کی حکومت ہے، یہ لوگ اصل میں غلام تھے مگر ان کے مورث عبید اللہ مہدی مجوسی نے خود کو امام اسماعیل بن جعفر کا پڑپوتا ظاہر کر کے افریقہ کی یربری قوموں کو اپنا ہم نوا بنا لیا اور بالآخر مصر کی حکومت پر قابض ہو گئے ان کا اقتدار دو سو برس تک رہا بظاہر علم دوست تھے، جامعہ الازہر ان کی یاد گار ہے لیکن عام اسماعیلی باطنیہ اور ملاحدہ تھے، شیعوں کا یہ گروہ فدائیوں کے نام سے مسلمان امراء کو قتل کرتا تھا اور عالمِ اسلام میں ایک تہلکہ عظیم برپا کر رکھا تھا، ان فدائیوں سے لوگ بہت خائف و ترساں تھے، ان ظالموں نے مسلمانوں کے عظیم فاتح و عادل سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کو بھی قتل کرنے کی سازش کی مگر وہ خدا کے فضل و کرم سے بچ گئے۔
(تاریخِ اسلام نجیب آبادی: صفحہ 436، جلد 3) 
18: ہلاکو خان کا بغداد پر حملہ: شیعی مظالم کا سب سے بڑا خونچکاں حادثہ ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی ہے جسے ہر مؤرخ روتے ہوئے قلم بند کرتا ہے، 
جب مغل تاتاری ہلاکو خان 654 ہجری میں ممالکِ شرقیہ کی فتوحات کے لیے بڑھا تو شیعہ عالم نصیر الدین طوسی ملاحدہ (اسماعیلیہ) کی قید سے آزاد ہو کر ہلاکو خان سے مل گیا، بغداد کے شیعہ وزیر ابنِ علقمی نے موقع غنیمت جان کر ہلاکو کو بغداد پر حملہ کی دعوت دی چنانچہ اس نے 656 ہجری میں بغداد پر زبردست حملہ کیا، عباسی خلیفہ مستعصم کو اور اسکے صاحبزادوں ابوبکر و عبد الرحمٰن کو قتل کر دیا، خواجہ نصیر الدین کے مشورے سے خلیفہ عباسی کو اتنی بے دردی سے شہید کیا کہ اس کے ایک ایک عضو کو الگ الگ کاٹا، شیعہ عالم شوستری کہتا ہے کہ شیعانِ علی ائمہ معصومین کے بدلہ لینے سے خوب خوش ہو گئے۔ (مجالس المؤمنین: صفحہ442) لاکھوں مسلمان قتل ہوئے، دریائے دجلہ خونی موجیں مارنے لگا، سارے بازار لاشوں سے اٹے پڑے تھے، گھوڑے خون میں دھنس کر چل نہیں سکتے تھے، بڑے بڑے کتب خانے دریا برد ہو گئے کہ ان کی سیاہی سے دریا پھر ایک مرتبہ سیاہ ہو گیا، یہ تباہی سقوطِ ڈھاکہ اور سقوطِ غرناطہ سے بہت بڑی تھی لیکن شیعہ وزیر اور طوسی عالم خوش ہیں کہ ائمہ معصومین کے خون کا بدلہ ہو گیا، غور کیجئے اماموں میں سے شہید تو 88 مخالفوں کو مقابلے میں مار کر 72 ساتھیوں کے ہمراہ سیدنا حسینؓ تھے، خود قاتلوں (توابین و مختار ثقفی) نے ایک لاکھ مسلمان اسی بہانے سے 70 ہجری تک مار ڈالے تھے۔
اب ساتویں صدی میں عباسیوں سے کون سا بدلۂ امام لینا باقی تھا کہ کافروں سے عالمِ اسلام کو تباہ کرا دیا؟ "عذرِ لنگ بد تر از گناہ" کا مصداق شیعہ شوستری نے اس حملہ اور تباہی کی وجہ یہ لکھی ہے کہ کرخ کے محلہ سے خلیفہ نے سحری کے وقت تبراء پر مشتمل ایک دعا سنی، خلیفہ مشتعل ہو گیا اور محلہ کو تباہ کرا دیا، پس ابنِ علقمی نے خلیفہ عباسی کو مروانے اور بغداد تباہ کرنے کی قسم کھا لی۔ ذرا غور فرمائیں! یہ محلہ سازشوں اور تبرائی مجلسوں کا گڑھ تھا، حتٰی کہ سحری کے وقت خلیفہ خود جا کر یہ تبرّے سنتا ہے تو انتہائی قدم اٹھاتا ہے، اگر کوئی شیعہ حاکم کسی گھر یا محلہ سے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ و اہلِ بیتؓ پر کسی دشمن خارجی سے تبرائیہ کلمات سنے اور انتہائی قدم اٹھائے کیا شیعی دار الافتاء اس کے خلاف ایسی کارروائی کی اجازت دے گا؟ اگر نہیں تو کیا ابنِ علقمی، طوسی کے اور آج اس کے مداحوں کے دشمنِ اسلام ہونے کی یہ کھلی دلیل نہیں ہے؟ بالفرض مان لیا جائے کہ خلیفہ کے ایکشن سے سو پچاس شیعہ گھرانے متاثر ہوئے، مگر کیا دنیا کا کوئی قانون یہ اجازت دیتا ہے کہ غیر ملکی کافر طاقت سے ساز باز کر کے اپنے ملک اور مسلمان قوم کو تباہ و برباد کرا دیا جائے۔
اگر مسلمان حاکموں میں ذرہ بھر قومی یا دینی غیرت ہوتی تو وہ اس حادثہ کے بعد ان مارِ آستین لوگوں سے ہوشیار رہتے نہ دخیل حکومت کرتے نہ کلیدی آسامیوں پر فائز کرتے، لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ سقوطِ بغداد سے لے کر سقوطِ ڈھاکہ تک مسلمانوں نے ہمیشہ ان پر اعتماد کر کے تباہی کا ڈنگ کھایا ہے۔ اور پاکستان انہی تجربات سے گزر رہا ہے لیکن ہر بے ضمیر صحافی اور لا مذہب سیاست دان 95 فیصد اہلِ سنت کے مفادات کو داؤ پر لگا کر 4ـ5 فیصد کو راضی کرنے پر ہی تلا ہوا ہے، ایرانی انقلاب کے دوران اور بعد میں ہونے والے 12-14 لاکھ مسلمانوں کے قتلِ عام سے انہوں نے کچھ سبق حاصل نہیں کیا۔
19: شاہ تیمور لنگ کے مظالم: سقوط بغداد کی طرح خون کے آنسو رلانے والا، بارہ لاکھ مسلمانوں کے قاتل تیمور لنگ رافضی ( شیعہ) کا یہ ظلم و بربریت ہے جو اس نے بلاوجہ یورپ کے فاتح سلطان بایزید یلدرم عثمانی کے ساتھ کیا اور ایشیائے کو چک میں مسلمانوں کی سب سے بڑی سلطنت عثمانیہ کو تباہ کرنے کی ملعون کاروائی کی اور مفتوحہ یورپ پھر مسلمانوں کے قبضے سے نکل گیا، قیصر کے کہنے پر تیمور اگر درپردہ انگریزوں کی حمایت میں یہ مسلم کش جنگ انگورہ نہ لڑتا اور سلطان المسلمین کو شیر کی طرح لوہے کے جنگلے میں قید کر کے جگہ جگہ نمائش و تذلیل کی، اگر وہ یہ انسانیت سوز حرکت نہ کرتا تو تمام یورپ پر آج اسلام کا جھنڈا لہرا رہا ہوتا، 
تاریخ کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
  1. سلطان بایزید خان نے نکوپولس کے میدان میں عیسائیوں کے ایک ایسے زبردست اور ہر ایک اعتبار سے مکمل و مضبوط لشکر کو شکست فاش دی کہ اس سے پہلے کسی میدان میں عیسائیوں کی اتنی زبردست طاقت جمع نہ ہو سکی تھی، سجمنڈ شاہ ہنگری اپنی جان بچا کر لے گیا لیکن فرانس و آسٹریا و اٹلی و ہنگری وغیرہ کے بڑے بڑے شہزادے نواب اور سپہ سالار قید ہوئے اور بعض میدان میں مارے گئے۔ 
  2. اس کے بعد وہ اپنی فوج لے کر یورپ میں پہنچا، ہنگری، آسٹریا، فرانس، جرمنی، اور اٹلی فتح کرنے کے عزم کے ساتھ یونان کا رخ کیا، پھر تھرموپلی کے درے میں سے فاتحانہ گزرتا ہوا اتھنس کی دیواروں کے نیچے جا پہنچا اور 800 ہجری میں اتھنس کو فتح کر کے تین ہزار یونانیوں کو ایشیائے کوچک میں آباد ہونے کے لیے روانہ کیا اور اپنے سپہ سالاروں کو آسٹریا اور ہنگری کی طرف فوجیں دے کر روانہ کر دیا تھا جنہوں نے ان ملکوں کے اکثر حصوں کو فتح کر لیا تھا۔ 
  3.  سلطان بایزید خان یلدرم جب یونان اور اتھنس وغیرہ کو فتح کر چکا اور قیصر روم کا حال بہت پتلا ہونے لگا تو اس نے اپنی امداد کے لیے فوراً قاصد کو خط دے کر تیمور کی خدمت میں روانہ کیا، خط کے مضمون نے اس کے دل پر ایسا اثر کیا کہ اس کا دل ہندوستان سے اچاٹ ہو گیا اور وہ اس نو مفتوحہ ملک کو بلا کسی معقول انتظام کے ویسے ہی چھوڑ کے ہردوار سے پنجاب اور پھر سمر قند کی جانب روانہ ہوا۔ ہندوستان کے ایک لاکھ قیدی گراں بار سمجھ کر راستے میں قتل کرا دیے پھر سمر قند سے روانہ ہو کر اور ایشیائے کوچک کی مغربی سرحد پر پہنچ کر آذر بائیجان اور آرمینیا میں قتل عام کے ذریعے خون کے دریا بہائے اور اس علاقے پر اپنی ہیبت کے سکے بٹھائے اور خوب تیاری کر کے اس پر آمادہ ہو گیا کہ عثمانی سلطان سے اول دو دو ہاتھ کر کے اس بات کا فیصلہ کر دیا جائے کہ ہم دونوں میں سے کس کو دنیا کا فاتح بننا چاہیے؟
  4. سلطان بایزید یلدرم، تیمور سے جنگ کرنا یعنی خود اس پر حملہ آور ہونا ضروری نہ جانتا تھا، کیونکہ وہ مسلمان بادشاہوں سے لڑنے کا شوق نہ رکھتا تھا اسکو تو ابھی یورپ کے رہے ہوئے ملکوں کے فتح کرنے کا خیال تھا، مگر تیمور کئی سال سے نہایت سر گرمی کے ساتھ بایزید سے لڑنے اور اس کو شکست دینے کی کوششوں میں مصروف تھا، دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ بایزید یلدرم عیسائی طاقت کو دنیا سے نابود کرنے پر تلا ہوا تھا اور تیمور بایزید کو نابود کرنے اور عیسائیوں کو بچانے پر آمادہ تھا، تیمور نے اپنے تمام سامانوں کو مکمل کر لینے کے بعد بایزید کے سرحدی شہر سیواس پر حملہ کر دیا، جہاں بایزید کا بیٹا قلعہ دار تھا، ایک خاص چال سے قلعہ کی چار دیواری کو آگ لگا کر زمین میں دھنسا دیا اور چار ہزار فوجیوں کی مشکیں کسوا کر ایک بڑی خندق میں زندہ درگور کر دیا، زندہ در گور کرنے کے اس ظالمانہ فعل سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
  5. شاہ یلدرم بیٹے کی مقتل گاہ دیکھ کر غصہ سے بے تاب ہو گیا، مگر تیمور لنگ جنگی چال سے یہاں سے فوراً اندرون ملک شہر انگورہ پر پانچ لاکھ سے زائد مسلح لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوا، سلطان نے اسکے تعاقب میں جا کر ایک لاکھ تھکے ماندے لشکر سے حملہ کیا، زبردست کشت و خوں کے بعد سلطان نے شکست کھائی اور تیمور نے اسے لڑتے ہوئے ذلت کے ساتھ قید کیا، اور شہر بہ شہر تشہیر کرائی، تیمور رافضی(شیعہ) تعزیہ ساز نے اس ظلم سے اسلام کے غلبہ اور وقار کا خاتمہ کر دیا، تیمور کی تمام تزک و ساز اور فتح مندیاں مسلمان سلاطین کو زیر کرنے اور مسلمانوں کے شہروں میں (موجودہ خمینی کی طرح) قتل عام کرانے میں محدود رہیں اور اس کو یہ توفیق میسر نہ آ سکی کہ غیر مسلموں پر جہاد کرتا یا غیر مسلم علاقوں میں اسلام پھیلاتا، (اقتباسات از تاریخ اسلام اکبر شاہ نجیب آبادی: صفحہ478،481،491) 
تزکِ تیموری سے پتہ چلتا ہے کہ تیمور عالم اسلام کی اس تباہی سے پچھتایا، عامۃ المسلمین نے اسے حقیر جانا، اس نے تلافی میں پہلی مرتبہ غیر مسلم ملک چین پر چڑھائی کی مگر راستے میں ہی مر گیا، آرزو فنا ہو گئی، مفتوحہ ممالک بیٹوں کی خانہ جنگی کی وجہ سے خود مختار ریاستوں میں تبدیل ہو گئے، اب صرف تیمور کا نام اسکے ظالم آباء چنگیز و ہلاکو خان کے ساتھ یادگار ہے اور رہے گا، تعجب ہے کہ تعزیہ پرست اس موجد تعزیہ ظالم کو قومی ہیرو مانتے اور صاحب سیف و قرآن امیر تیمور باور کراتے ہیں، معاذ اللہ
20: اسماعیل صفوی کے مظالم: تباہ شدہ سلطنت عثمانیہ کو اللہ نے پھر زندہ کیا اور سلطان محمد خان اول، سلطان مراد خان ثانی فاتح قسطنطنیہ، سلطان محمد خان ثانی اور سلطان بایزید ثانی اور سلطان سلیم عثمانی جیسے کامیاب و مدبر حکمران کے ذریعے پھر عالمِ اسلام کی متحدہ قوت بنا دیا اور یورپ میں فتوحات زور و شور سے شروع ہو گئیں، لیکن دسویں صدی کے آغاز میں شاہ اسماعیل صفوی شیعہ حکمران بر سرِ اقتدار آ گیا، اس نے تمام ایرانی سنی اکثریت کے مسلمانوں کی مساجد اور مقابر شہید کرا دیے، بڑے بڑے علماء اور معززین کو سولی چڑھا دیا گیا، خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تبراء جمعہ کے خطبہ میں لازم کر دیا گیا جگہ جگہ سنی شیعہ فسادات کرائے، ایک محتاط اندازے کے مطابق چالیس لاکھ سنی مسلمان شہید کرائے اور باقی ماندہ کو شیعہ بننے پر مجبور کر دیا۔ کلیاتِ نفسی مؤلفہ سید نفیسی پروفیسر تہران یونیورسٹی میں لکھا ہے کہ ان سے سوال کیا گیا ایران جو سنی اکثریت کا ملک تھا وہ شیعہ اکثریت (60-65 فیصد) میں کیسے تبدیل ہوا؟ 
تو پروفیسر مذکور نے جواب دیا: عہدِ صفوی میں سنیوں کا قتل عام کر کے ان کو جبراً شیعہ بنایا گیا، اسماعیل (صفوی) بن حیدر بن جنید بن ابراہیم بن خواجہ علی بن صدر الدین بن شیخ صفی الدین بن جبرئیل کے آباء واجداد سب سنی المذہب تھے، پیری مریدی کرتے تھے، شیخ صدر الدین نے سفارش کر کے تیمور کے ہاتھوں وہ تمام ترک قیدی آزاد کرا دیے جو اس نے سلطان یلدرم سے جنگ انگورہ میں پکڑے تھے وہ ہزاروں قیدی شیخ کے باصفا مرید بن کر یہیں رہ گئے اور شاہ اسماعیل تک اس کی سب اولاد سے وفا دار رہے اور اسماعیل کو اقتدار دلانے میں ان کی بڑی قربانیاں ہیں، اسماعیل نے حُب اہلِ بیتؓ کے نعرے سے سنی و شیعہ عوام کو ساتھ ملا کر اقتدار پا لیا تو علانیہ شیعہ اور رافضی بن گیا، پھر اپنے ترک مریدوں کی قوم سے جنگ کا منصوبہ بنایا اور پڑوسی ملک ترکی سلطنت عثمانیہ میں اپنے داعی، جاسوس اور ایجنٹ بھیج دیے تاکہ اندرونی و بیرونی حملہ سے اس ملک کو ختم کر کے شیعہ سٹیٹ بنا لیا جائے مگر شاہ سلیم عثمانی کو اس سازش کا پتہ چل گیا اس نے اسماعیل صفوی کے سب ایجنٹوں کو ختم کر کے ایران پر دفاعی حملہ کیا، اسماعیل بھاگ گیا، سلطان نے اندرون ملک اس کا تعاقب کر کے خالدران کے مقام پر کامیاب جنگ لڑی اور نصف علاقوں پر اپنی حکومت قائم کر لی، شاہ سلیم اگر دوبارہ ایران جاتا پھر باقاعدہ شاہ صفوی جنگ لڑتا تو اس کا اقتدار ختم ہو جاتا، مگر شام و مصر کے سرحدی کشیدہ حالات کی وجہ سے شاہ دوبارہ ایران نہ جا سکا اور اسماعیل صفوی کے اس سازشی جال کی وجہ سے یورپ میں بھی شاہ سلیم اپنی فتوحات آگے نہ بڑھا سکا، 
اگر اسماعیل صفوی یہ حملے اور اندرون ملک سازشیں نہ کراتا تو شاہ سلیم کی مساعی سے آج براعظم یورپ اسلام کے زیرنگین ہوتا لیکن،
"اے بسا آرزو کہ خاک شدہ"
جناب ابو ذر غفاری نوائے وقت میں لکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ اگر ایران کے صفوی شیعہ اور ترکی کے عثمانی سنی آپس میں لڑ کر خون کے دریا نہ بہاتے تو آج سارا یورپ مسلمان ہوتا، مزید برآں اگر مغلیہ دور میں ہندوستان کے مسلمان سنی شیعہ جھگڑوں کی نذر نہ ہوتے تو آج سارے ہندوستان پر مسلمانوں کا غلبہ ہوتا۔اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ہر نازک موقع پر شیعوں نے اہلِ اسلام کو خنجر گھونپ کر کافروں کو بچایا ہے، موجودہ خمینی انقلاب اور ایران و عراق جنگ ٹھیک اسی پالیسی کے تحت ہے جو شاہ اسماعیل صفوی نے وضع کی تھی اس وقت ترکوں کو مار کر عیسائیوں کو بچانا مقصود تھا اب خاص معاہدے کے تحت امریکی اسلحہ اسرائیل جیسے دشمن اسلام سے لے کر عربوں کو ختم کرنا اور سامراجی طاقتوں کی مدد کرنا مقصود ہے، اسلام کا نعرہ لا شیعہ ولا سنیہ، مرگ بر اسرائیل، مرگ بر امریکہ، تو صرف ہاتھی کے دانت دکھانے کے ہیں جن سے بدھو صحافیوں کو الو بنانا ہےاور اقتدار کے بھوکے مستقبل سے اندھے سیاستدانوں کو اور سادہ لوح مسلمانوں کو تقیہ اور ڈپلومیسی کے ذریعے اپنا ہم نوا بنانا مقصود ہے، اللہ اندھوں کو بینائی عطا فرمائے۔
21) ایران کا عہد صفوی، ہند میں عہد مغلیہ کا معاصر ہے، سب سے پہلے ہمایوں کے دور میں شیعہ کو ہند میں برآمد کیا گیا خاص معاہدہ سے قاضی نور اللہ شوستری جیسے غالی شیعہ کو قاضی القضاۃ بنایا گیا، جس نے تشیع کی اشاعت میں ہر حربہ استعمال کیا، سلطان اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ نے اپنی خداداد ایمانی فراست اور دیانت سے اسے محدود کرنے کی کوشش کی اور کامیاب بھی ہوا تبھی تو شیعہ اور ان کے بے دین ہمنواء عالمگیر کی شکایت کرتے ہیں، مگر شیعوں نے ایک اور چال چلی عالمگیر کے بیٹوں کو رشتے دے کر بعض کو مائل بہ تشیع کر لیا، پھر وہ اقتدار کی رسہ کشی اور خانہ جنگی کا شکار ہو گئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنت مغلیہ قریب الزوال ہو گئی، ادھر ہندو اور مرہٹے زور پکڑ گئے، جن کو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ کی دعوت پر احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کے میدان میں آ کر 20 ہزار افغانی سپاہ کی کمک سے ختم کیا، ادھر اودھ، لکھنؤ، دکن وغیرہ میں شیعہ راجوں نے آزاد ریاستیں قائم کر لیں، انگریزوں نے ایسے پاؤں پھیلائے کہ مسلمانوں کا اقتدار دہلی کے گرد و نواح تک محدود ہو کر رہ گیا۔ 
22) نادر شاہ درانی کا دہلی پر حملہ: اس کمزوری کی وجہ سے نا جائز فائدہ اٹھانے اور مسلمانوں کو ختم کرنے کی نیت سے ہمارے ہمدرد پڑوسی ایران کا نادر شاہ درانی بڑے لشکر کے ساتھ آیا، ایک مدبر امیر الامراء محمد امین خاں کے مشورے سے بہت سا خراج اور کروڑوں روپے نقد دینے پر صلح ہو گئی مگر اس کے شہید ہونے کے بعد ایک دوسرے غدار برھان الملک سعادت علی خاں رافضی(شیعہ) نے محض عہدہ بدلنے سے نادر شاہ کو غدر کرنے اور بادشاہ کو قتل کر کے دہلی کا خزانہ لوٹنے اور قتلِ عام کرنے کا پروگرام دے دیا، چنانچہ نادر شاہ نے لاکھوں مسلمانوں کو دہلی جامع مسجد میں شہید کیا، بادشاہ اور اسکے لڑکوں کی لاشوں پر تخت بچھا کر ناشتہ کیا اور دہلی کا سب خزانہ لوٹ کر لے گیا، اسی موقع پر ایک بزرگ نے کہا:شامتِ اعمال ماصورت نادر گرفت، نادر کے حملہ کو خراجِ تحسین شیعہ عورتیں تک پیش کرتی ہیں، نادر شاہ کو شاہی خزانے سے ساڑھے تین کروڑ چاندی کی نقدی، ڈیڑھ کروڑ کی سونے کی تختیاں، پندرہ کروڑ کے جواہرات، گیارہ کروڑ کا تخت ہاؤس، پانچ سو ہاتھی، ہزار اعلیٰ نسل کے گھوڑے اور شاہی خیمے قناتیں وغیرہ حاصل ہوئیں۔ 
آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے گرد بھی شیعہ جمع ہو گئے، جو درپردہ انگریز سے ملے ہوئے تھے اور اصل حالات کو شاہ سے مخفی رکھ کر سلطنت مغلیہ کا چراغ گل کرا دیا، مغلیہ دور میں سید برادران کا فتنہ مضمون میں محمد اسحاق قلبی آخری قسط میں لکھتے ہیں، بارھ کے بادشاہ پر رافضیوں نے اپنی آٹھ دس برس کی سازشوں، ریشہ دوانیوں سے ایک عظیم الشان مغلیہ سلطنت کو نیم جان کر دیا اور ان کے بعد تیسرے رافضی برہان الملک سعادت علی خاں نے اپنی غداری اور نمک حرامی سے اس نیم جان مغلیہ سلطنت کی پشت میں (نادر شاہ کے ہاتھوں) ایسا بھر پور خنجر مارا کہ وہ اٹھنے کے قابل ہی نہ رہی لیکن یہودیوں، نصرانیوں، زرتشتیوں، مجوسیوں اور عجمیوں نے تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے ابوالفتح ناصر الدین محمد شاہ شہنشاہ کو محمد شاہ رنگیلا بنا دیا، 
انہوں نے لکھا کہ وہ عیاش تھا وہ ہنوز دلی دور است کہتا تھا، اس لیے سلطنت مغلیہ برباد ہوئی، سبھی نے ان مکاروں بددیانتوں کی پھیلائی ہوئی خرافات پر یقین کر لیا اور اپنے اکابر کی برائی پر تل گئے، اور یہ بھول گئے کہ یہ سب دشمن کی کارروائی ہے(ماہنامہ شمس الاسلام بھیرہ: اپریل 1986ء بحوالہ، تاریخ فرشتہ) 
23) نادر شاہ کے حملے کے بعد مسلمان انتہائی کمزور ہو گئے تو شیعہ و بے دین راجوں نے انگریز کی بالا دستی تسلیم کر کے اپنی ریاستوں کو ان سے اپنے نام الاٹ کروا لیا، آج بہت سے جاگیریں، نوابوں، خانوں، اور مَلکوں کے پاس انگریزی عطیات ہیں، لیکن غیور اور مسلمان نوابوں اور سلاطین نے انگریزی سے ٹکر بھی لی، ان میں سرِ فہرست میسور کا راجہ سلطان ٹیپو شہید بن حیدر علی ہے جو شاہ ولی اللہ خاندان کا معتقد، اہلِ توحید و سنت سے وابستہ اور انگریزوں کا کٹر دشمن تھا، یہ جب انگریزوں سے خود جنگ لڑ رہا تھا تو شیعہ کماندار نے غداری کر کے سلطان کو شہید کر دیا جیسے اسی طرح بنگال میں میر جعفر نے غداری کر کے انگریزوں کو اقتدار دلا دیا اسی لیے یہ شعر زبان زدِ عام ہے:
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ دنیا ننگ دین ننگ وطن
جسٹس کیانی شیعہ کے خاص دوست پروفیسر محمد منور روزنامہ جنگ 22 مارچ 1983ء کی اشاعت میں سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
1: شیعہ سنی فسادات کی تاریخ قدیم ہے، مگر ہمیشہ یاد رہے کہ ان میں مخلص سنی اور شیعہ ہمیشہ فسادیوں کی نشاندہی نہ ہونے کے باعث نقصان یاب ہوئے اگر ٹیپو اور حیدر علی کی سلطنت کسی شیعہ گروہ سے تعلق رکھنے والوں نے بیچ دی تو یہ ان افراد کی ذاتی بے ایمانی تھی۔
2: فسادی عنصر شیعوں میں بھی گھس آتے ہیں اور سنیوں میں بھی جب ابو مسلم خراسانی نے کالے جھنڈے اٹھائے تھے تو اس کے ساتھ محض بنو ہاشم نہ تھے، موقع کا فائدہ اٹھا کر مجوسی اور مزوکی (اپنے زمانے کے کمیونسٹ) اس کے لشکر میں ( شیعہ بن کر) گھس گئے، بنو ہاشم نے تو بنو امیہ کے اکابر پر ہاتھ صاف کیا، مگر مجوسیوں نے کہا جو عرب نظر آئے اسے اڑا دو مزکیوں، کمیونسٹوں نے ہر کلمہ گو مارا خواہ وہ ایرانی تھا خواہ عرب اور وہی مزوکی اور مجوسی دوسری جانب بنو امیہ کے آدمیوں کو ابھار کر مخبری کرا کے بنو ہاشم اور ان کے ساتھیوں کو قتل کراتے رہے، مزکیوں کمیونسٹوں نے (شیعہ) روپ بدل کر مختلف اسلامی فرقوں کو جنم دیا، نظام الملک طوسی کا سیاست نامہ اس پر گواہ عادل ہے( پھر ان کا خانہ کعبہ میں قتلِ حجاج، حجرہ اسود کو اکھیڑ کر بیت الخلاء میں لگانا، جو قرامطی شیعوں کے سیاہ کام ہیں نقل کیے ہیں)
3: ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور ہم ایران کا احترام کرتے ہیں، موجودہ انقلابی حکومت کو سب سے اول پاکستان نے تسلیم کیا، اسی طرح ایران کے حل و عقد کو بھی اس امر پر نظر رکھنی چاہیے کے بعض شیعہ عناصر(جو خدا جانے شیعہ ہیں بھی یا نہیں) اس خواہش کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ انہیں پاکستان کو شیعہ ریاست میں تبدیل کرنا ہے اور جلد از جلد ہماری دعا ہے کہ ایران ایک اثناء عشری اسلامی رنگ میں ترقی کرے، اہلِ ایران کو اور ایران کے جو شیلے (پاکستانی) پرستاروں کو بھی دعا کرنی چاہیے کہ خدا پاکستان کو استحکام اور اسلام میں سنی رنگ میں استحکام عطا کرے، اکثریت کی قوت ہی استحکام عطاء کرتی ہے، اقلیت کو مخلوص خاطر تعاون کرنا چاہیے۔
24) انگریز اور شیعہ جناب ابو ذر غفاری صاحب "نوائے وقت" میں رقم طراز ہیں:
انگریز تو مسلمانوں کی اس کمزوری کاخوب فائدہ اٹھاتا تھا، 1799ء میں شاہ افغانستان نے سلطان ٹیپو کی مدد کا ارادہ کیا تو انگریز نے افغانستان پر ایران سے حملہ کروا دیا اور اس نے انیسویں صدی میں یہ منصوبہ بنایا تھا کہ وہ ایران کو مضبوط بنائے گا تاکہ وہ اپنے سنی ہمسایوں کے خلاف برسرِ پیکار رہے ( گویا میر صادق کی ٹیپو سے غداری ایران کی سازش تھی)
25) انگریز شر انگیز جب جنگِ آزادی 1857ء کے بعد پورے برصغیر پر چھا گیا اور مسلمانوں نے اس کے خلاف تحریکِ آزادی جاری رکھی اور قتل، قید و بند اور جلا وطنی کی سزائیں مجاہدین کو ملتی رہیں، تاریخ سے ہمیں پتا نہیں چلتا کہ کسی شیعہ عالم لیڈر یا نواب نے انگریز کے خلاف کام کیا ہو یا کوئی تکلیف پائی ہو بلکہ یہ لوگ قادیانیوں کی طرح انگریزوں کو اپنے لیے رحمت کا سایہ سمجھتے تھے کیونکہ مذہبی آزادی کی آڑ میں انہوں نے جس بدعت اور شرکیہ کام کو چاہا اس کے لیے باقاعدہ لائسنس اور اجازت نامہ حاصل کر لیا تا کہ ٹوکنے والے علماء دین کا بھی منہ بند ہو جائے اور وہ ان شر سے بھر پور رسوم سے اپنے جعلی مذہب کو پھیلا سکیں۔ یہ تعزیے، ذوالجناح، دلدل وغیرہ کے جلوس انگریزی دور کی پیداوار ہیں جو "لڑاؤ اور حکومت کرو" کی پالیسی کے تحت اس نے اپنے وفاداروں کو عنایت کیے، چنانچہ لاہور کا شیعہ مجتہد علامہ حائری اپنے کتابی سائز کے رسالہ کے صفحہ 123 پر یہ لکھتا ہے "انگریزی حکومت ہمارے لیے سایہ رحمت ہے کہ اس کی پناہ میں ہم اپنی مذہبی رسوم آزادی سے بجا لاتے ہیں" ابھی 1986ء میں شریعت بل کے خلاف شیعہ نے ایک دلیل یہ بھی دی کہ اس کے نفاذ سے ہماری وہ رسوم اور حقوق ختم ہو جائیں گے جو انگریز نے دیے تھے، جو اعمال و رسوم قرآن و سنت نبوی، فتویٰ اہلِ بیتؓ سے ثابت نہ ہوں بلکہ خود ساختہ ہوں بدعت اور شرعاً ممنوعہ ہوں ان کے جواز کی سند غیر مسلموں سے لینا اور پھر ان پر مسلمانوں سے لڑنا جھگڑنا یہ کفر کی حمایت نہیں تو کیا مسلمانوں سے وفاداری ہے؟
26) تاریخ پاکستان: انگریز کے خلاف صدی بھر سے صرف سنی مسلمانوں کی جنگِ آزادی جب کامیابی سے ہمکنار ہونے لگی اور انگریز نے وطن چھوڑنا چاہا تو مسلمانوں کی غالب اکثریت نے نعرۂ پاکستان کا ساتھ دیا اور اپنی رواداری اور بے تعصبی سے یہ سوال ہرگز نہیں اٹھایا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کس خاندان اور مذہب سے وابستہ ہیں، چنانچہ معمارِ پاکستان مفسرِِ قرآن، خطیبِ ہند مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ اور ہزار کتابوں کے مصنف حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ دیوبندی نے اہلِ سنت کے سٹیج سے اپنے لاکھوں شاگردوں اور مریدوں کے ساتھ پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا۔ چاٹگام سے پشاور تک طوفانی دوروں سے مسلم رائے عامہ کو پاکستان کے حق میں قائل کیا، تبھی تو 1946ء کے الیکشن میں مسلم لیگ کو کامیابی ہوئی پھر بریلوی مکتبہ فکر نے بھی بنارس کانفرنس کر کے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا، اگر علمائے دیوبند اور مذہبی گروہ کی تائید نہ ہوتی تو پاکستان کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوتا، عام پرو پگینڈہ یہ ہے کہ پاکستان کا تصور سب سے پہلے علامہ اقبال مرحوم المتوفی 1938ء نے پیش کیا اور 1940ء میں قرار دادِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ نے مطالبہ اور تحریک شروع کی، لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ تصور انگریز سے صد سالہ جنگ لڑنے والے گروہ کے بوریا نشین نے پیش کیا۔ 
تعمیرِ پاکستان اور علماء ربانی صفحہ 41 پر منشی عبدالرحمٰن لکھتے ہیں: جون 1928ء میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ اور مولانا عبد الماجد دریا آبادی رحمۃ اللہ تھانہ بھون میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ نے یہ فرمایا "دل یوں چاہتا ہے کہ ایک خطہ پر اسلامی حکومت ہو سارے قوانین وغیرہ کا اجراء احکامِ شریعت کے مطابق ہوں" پھر 1938ء میں فرمایا! میاں شبیر علی ہوا کا رخ بتا رہا ہے کہ لیگ والے کامیاب ہو جائیں گے، ان شاءاللہ
میں نے جو اعلان کیا ہے اس میں مںسلم لیگ کی حمایت کی ہے اور مسلم لیگ کا حامی ہوں۔
(اسعد الابرار صفحہ 120: از مولانا ابرار الحق حقی، بحوالہ اظہار العیب صفحہ 203،204 مولانا سرفراز خان صفدر) 
انہی خدمات کے صلہ میں کراچی میں مولا عثمانی رحمۃ اللہ کو اور ڈھاکہ میں مولانا اختر سلہٹی رحمۃ اللہ کو پاکستان کی پرچم کشائی کا اعزاز بخشا گیا اور یہ دونوں دار العلوم دیوبند کے مایہ ناز سپوت تھے اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خاص ساتھی اور معتقد تھے، اس لیے کسی بھی گروہ کا بار بار یہ طعنہ دینا کہ دیوبندی مخالف پاکستان یا کانگرسی ہیں ایک بد دیانتی اور غلیظ جھوٹ ہے جو طبقہ مخالف تھا وہ مسلمانوں یا پاکستان کا مخالف ہرگز نہ تھا وہ سب ملک ہند کو اپنا وطن جانتا تھا وہ چاہتا تھا تقسیم ملک نہ ہو کہ دہلی ہی حسبِ سابق مسلمانوں کا دارالسلطنت ہو جن سے انگریز غاصب نے اقتدار چھینا تھا اور اب انہوں نے ہی غاصب کو جنگ کر کے نکالا تھا، یہ جذبہ ملک سے محبت کی دلیل تھی جسے اب ہم تقسیم پاکستان کا تصور نہیں کر سکتے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر افسوس کرتے ہیں، اس منفی تصور نے 17 کروڑ انڈین مسلمانوں کو وہاں تحفظ دیا ہے اور لوک سبھاء میں وہی علماء ان مسلمانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں ورنہ ان کو وہاں کون رہنے دیتا؟ پاکستان تو ان کا تحفظ نہ کرسکا تھا، اب اس فضول بحث کہ فلاں مخالف تھا فلاں موافق کو ختم کرنا چاہیے، یہاں کے بھی باشندے پاکستان کے وفادار شہری ہیں سب کو امن سے زندگی گزارنے کا حق ہے ورنہ ایک کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ شیعہ تاریخ گواہ ہے انہوں نے کفر و اسلام کی ٹکر میں کبھی مسلمانوں کاساتھ نہ دیا برصغیر میں بھی انگریز کے خلاف جنگِ آزادی، تحریکِ خلافت، تحریکِ ترک موالات اور تحریک ریشمی رومال وغیرہ میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر کوئی قربانی نہ دی بلکہ تقیہ و جاسوسی کا کردار ادا کرتے رہے، تحریکِ پاکستان میں بعض شیعہ وکیلوں اور علماء نے اس لیے شرکت کی کہ حسن اتفاق سے وہ قائد کو اپنا ہم پیشہ اور ہم مذہب سمجھتے تھے کامیابی پر انتظامی کلیدی آسامیوں پر پہنچنا مقصود تھا، پاکستان بننے پر ان کو وہ حاصل ہو گیا،
لیکن سنی مسلمانوں کا مقصد صرف اسلامی حکومت کا قیام اور نفاذِ شریعت محمدی تھا، قائد اعظم گو شیعہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن وہ کٹر مذہبی اور فرقہ پرست نہ تھے سیکولر ذہن رکھتے تھے، مولانا شبیر عثمانیؒ نے ترجمہ قرآن پڑھا کر ان کا ذہن اسلامی بنا دیا تھا پھر وہ برابر مسلمانوں کو تقریروں میں قرآن و سنت اور خلافتِ راشدہ کے نظام کا حوالہ دے کر اپنی طرف کھینچتے تھے، اب علماء اہلِ سنت اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرتے ہیں یہ ان کا قانونی حق ہے۔ شیعہ کی مخالفت غیر قانونی اور نظریہ پاکستان کو ختم کرنے والی نا جائز حرکت ہے، وہ شریعت کا قانون نافذ ہونے دیں اور پبلک لاء تمام بین الاقوامی دساتیر کے مطابق اکثریت کی فقہ کو بننے دیں، ہاں اپنے مذہبی حقوق کے تحفظ کی بات ضرور کریں مگر اپنی ساخت اور بھگوڑے انگریز کی نسبت سے نہیں بلکہ خالص قرآن و سنت اور سیدنا علیؒ و جعفر صادقؒ کی تعلیمات کے حوالہ سے ہم علماء اہل سنت دیوبند ضمانت دیتے ہیں کہ شیعوں کو تعلیم اہلِ بیتؓ پر مبنی حقوق یقیناً مل کر رہیں گے۔
27) میں اپنی ملکی بات میں دور چلا گیا مناسب نہیں جانتا کہ پاکستان میں شیعی کردار پر روشنی ڈالوں ورنہ ہر کسی کو پتہ ہے کہ سکندر مرزا رافضی اپنی ایرانی بیوی کی ایماء پر بلوچستان کی داد سخاوت کہاں کر رہا تھا کہ صدر ایوب خان مرحوم نے بروقت ملک سنبھال لیا۔ 1971ء کے انتخابات کے بعد "ادھر ہم اُدھر تم" کا نعرہ لگا کر مشرقی پاکستان کو کس نے الگ کیا؟ پھر مے نوش یحییٰ خاں رافضی نے فوجی ایکشن کے ذریعے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کرا کر اسے ہمیشہ کے لیے ہم سے الگ کر کے بنگلہ دیش کیسے بنا دیا؟ اور اب زکوٰۃ و عشر کا انکار کر کے نفاذِ اسلام و شریعت بل کی ڈٹ کر مخالفت کون کر رہا ہے؟ روسی کمیونسٹ نظام اپنانے اور خون کی ندیاں بہانے کی دھمکیاں کون دے رہا ہے؟ یہ صرف سبائی فرقہ ہے جو اپنے اس طویل تاریخی سفر میں ہر منزل پر مسلمانوں کا راہزن ثابت ہوا ہے، ہمدرد اور حامی کبھی نہیں رہا، اس لیے ہمیں حالیہ ایرانی شیعی انقلاب اور شدید کشت و خون پر اور اسے دیگر مسلم ممالک میں برآمد کرنے کے عزائم پر کچھ تعجب نہیں، ہلاکو خان اور تیمور کو اپنا ہیرو ماننے والے خمینی پرست مسلمانوں کی یہی خدمت کر سکتے ہیں، کاش ہماری بھولی بھالی بھیڑ چال چلنے والی مسلم قوم کو سمجھ ہوتی۔
ایرانی انقلاب پر ایک نظر:
ایرانی کا انقلابِ تاریخ کا حیران کن واقعہ ہے ایک بوریہ نشین نے ایک شہنشاہ کا تختہ الٹ دیا اس لحاظ سے ایرانی عوام کی جدو جہد اور آیت اللہ خمینی اپنے تاریخ ساز کردار کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اس پر اہلِ قلم نے مثبت و منفی بہت کچھ لکھا ہے اور جب تک ظلم سے خون کی ندیاں بہتی رہیں گی انکی روشنائی سے یہ داستان کشت و خون مؤرخ لکھتا جائے گا، خمینی ایک قد آور عالم تھا بے دین اور مغرب پرست شاہ ایران کی مخالفت کی وجہ سے 17 سالہ جلا وطنی اور قوم سے بذریعہ کیسٹز پیام اور رابطہ کی وجہ سے اس کی شخصیت اہم سیاسی بن گئی دہلیزِ اقتدار پر لانے کے لیے سنی شیعہ سب ایرانی مسلمانوں نے زبردست قربانی دی بظاہر ان میں مذہب سے لگاؤ پیدا ہوا مغربیت، بے پردگی اور لادینی کا سیلاب تھم گیا اسی وجہ سے دیندار مسلمان اس کی نشریاتی چکا چوند سے مرعوب ہو گیا اور اسلامی انقلاب کے عنوان سے دنیا کے ذرائع ابلاغ نے خوب تشہیر کی حالانکہ یہ خالص شیعی آمرانہ در پرده روسی مسلم کش ظالمانہ انقلاب ہے، ایران جا کر مشاہدہ کرنے والوں کے تاثرات اور عام اخباری بیانات کی روشنی میں مشتے نمونہ ازخر وارے چند نقائص ہم عرض کرتے ہیں:
1) خمینی انتہاء پسند اور جابر ہے اقتدار پا کر اپنے ہم سفروں کو بھی تختہ دار پر لٹکا دیا، بنی صدر جلا وطنی پر مجبور ہوئے، صادق قلب زادہ قتل ہوئے، آیت اللہ شریعت مدار کاظم کو کردار کشی کر کے نظر بند کر دیا وہ سات سال بعد 1986ء قید ہی میں وفات پا گیا عوام الناس کو ان کا جنازہ پڑھنے کی اجازت نہ ملی حالانکہ وہ خمینی سے بڑھ کر شیعہ کا مذہبی راہنما تھا اسی طرح شیعہ خاقانی عہد شاہی کے 14 سالہ قیدی، امام قمی 7 سالہ قیدی، امام زنجانی بھی قید ہیں، حالانکہ یہ شاہ کے خلاف خمینی تحریک کے ہراول دستے تھے مگر اب خمینی کے مقہور و مظلوم ہیں، ذرا سا خمینی سے اختلاف رکھنے والے لا تعداد علماء جیلوں میں قید اور درگور ہو گئے جس سے وہ ڈکٹیٹر بادشاہ ظالم بن چکے ہیں۔
2) سیاسی مخالفت میں فوج کے بڑے بڑے افسروں انتظامیہ کے عہدیداروں کو سینکڑوں کی تعداد میں شاہ نوازی کے الزام میں تہ تیغ کرنا زبردستی قومی و ملکی نقصان سفاکانہ قدم ہے ازروئے معاہدہ سرکاری ملازم وقتی حکومت کے وفادار ہوتے ہیں، انٹرنیشنل قانون یہی ہے، بعد کی انقلابی حکومت سب سرکاری ملازمین کو قتل و غارت کی سزا دے یہ کسی اسلامی جمہوری شخصی حکومتوں کے ہاں بھی جائز نہیں، یہی وجہ ہے کہ ایران کو اس کا زبردست خمیازہ بھگتنا پڑا، اپنے سے ہر لحاظ سے 4/3 حصہ کم عراق سے طویل جنگ میں ایران نہ غالب آ سکا نہ پورے علاقے واپس لے نہ سکا حالانکہ اسرائیل بھی پشت پناہ ہے۔ 
3) سفاکی اور بے رحمی کی یہ بھی انتہاء ہے کہ عورتوں اور بچوں کے جلوسوں پر اندھا دھند فائرنگ سے سینکڑوں ہنس مکھ چہرے لاشوں میں تبدیل کر دیے جائیں خمینی کے قدیم قید و جلا وطنی کے ساتھی ڈاکٹر موسیٰ موسوی اصفہانی الثورة البائسہ: صفحہ182 پر لکھتے ہیں" ان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ خمینی رحم و کرم سے بہت دور اور شر سے نزدیک ہیں اور قتل و غارت میں انہیں مزہ آتا ہے کہ نو عمر جوانوں کو بھی ان کی تلوار نہیں بخشتی چنانچہ 3 ماہ کے اندر 3 ہزار مسلمان نوجوان مرد و عورت مرگ بر خمینی کہنے کے جرم میں تہ تیغ کیے گئے"
4) تین لاکھ پاسدارانِ انقلاب کو کرفیو آرڈر کی طرح یہ اجازت دینا کہ جو کوئی انقلاب پر ذرا تنقید کرے اسے وہیں ڈھیر کر دو اس طرح سینکڑوں علماء، طلبہ، مزدور، مجاہدین، خلق اور اہلِ سنت مسلمان لاکھوں کی تعداد میں تڑپائے گئے یہ لینن اور ہٹلر کا شیوہ ہے، فاتح مکہ سیدنا حسینؓ کے نانا کی سنت ہر گز نہیں ہے،
ڈاکٹر موسیٰ مذکور بدترین انقلاب 190 پر لکھتے ہیں خمینی نے تحریک کے دوران برسرِ اقتدار شاہ کے متعلق کہا خود قتل کرنے والے سے قصاص لیا جاتا ہے قتل کا حکم دینے والے سے نہیں سخت تعجب ہے کہ یہ بات کہنے والا اپنی حکومت کے چار سالوں میں 40 ہزار انسانوں کا قتل کرتا ہے جن میں بوڑھے، نوجوان، عورتیں سبھی ہیں جرم صرف یہ نعرہ ہے حریت زندہ باد استبدادیت مردہ باد، اس نے ہزاروں کردوں، عربوں، بلوچوں اور ترکمانوں کو اس پر قتل کرایا کہ وہ شاہ کے زمانے سے مغصوبہ حقوق چاہتے ہیں۔
5) اختر کاشمیری کے سفرنامہ ایران کے مطابق اپنے کاسہ لیس مذہبی طبقہ کو عوام پر ایسے مسلط کرنا کہ وہ کارڈ کے ذریعے لمبی لائنوں میں لگ کر اشیائے خوردنی حاصل کریں اور کارڈ صرف وفاداری کی سند اور جان بچانے کی ضمانت سمجھا جائے اور غیر موافق محروم رہیں سوشلسٹ نظام کا چربہ ہے۔
6) ایران عراق جنگ کو صرف ضد اور انا کی وجہ سے طول دینا، لاکھوں افراد کو آگ میں جھونکنا، اسلامی امہ کمیٹی، اسلامی ممالک غیر جانبدار ممالک سلامتی کونسل کسی کی بھی بات نہ ماننا اور صلح پر آماده نہ ہونا بلکہ ہر 15 سے 20 دن بعد تازه خونزیر عراق پر حملہ کرنا حالانکہ وہ صلح کی بارہا اپیل کر چکا ہے، سفاکی اور درندگی ہے قرآن کے قطعی خلاف ہے، قرآن کہتا ہے کہ: "صلح بہتر ہے"(سورۃ النساء) "مومن بھائی بھائی ہیں بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو" (سورۃ الحجرات) "دشمن صلح چاہے تو تم بھی جھک جاؤ اور اللہ پر بھروسہ رکھو" (سورۃ الانفال) "کسی قوم سے دشمنی تمہیں بے انصافی پر آمادہ نہ کرے تم عدل کرو یہی تقویٰ کی بات ہے"( سورۃ المائدہ)
7) ایرانی آئین میں مذہب شیعہ کو سرکاری مذہب قرار دینے پر ہمیں اعتراض نہیں لیکن ہم 40 فیصد اہلِ سنت کے بالکل مذہبی حقوق چھین لینا بے انصافی ہے، تہران میں 10 لاکھ سنیوں کو مسجد بنانے کی اجازت تک نہ ہو، شیعہ امام ہی دوسرے صوبوں میں زبردستی امام بن جائے، بلوچستان وغیرہ اکثریتی صوبوں میں اکثر شیعہ ٹیچر مقرر کر کے بچوں کو مذہب سے برگشتہ کیا جائے، سرکاری ملازمتوں میں سنی تھانیدار و کپتان تک نہ ہو، پارلیمنٹ میں ان کا وجود نہ ہونے کے برابر ہو وہ اپنا مذہبی لٹریچر نہ خود چھاپ سکیں نہ پاکستان و ممالک عربیہ سے منگوا سکیں، خلفا راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح اور مذہبی تبلیغ میں آزاد نہ ہوں یہ اسلامی حکومت کا کام نہیں۔
8) جو سنی مسلمان اپنے مذہبی حقوق کی بحالی کے لیے احتجاج کریں ان کو بغاوت کے بہانے کچلا جائے جیسے 20 ہزار کے قریب کردوں کو مارا گیا، ایرانی بلوچستان اور زہدان میں رمضان شریف تک میں بمباری ہوئی، ایران کے ایک عالم دین راقم کو لاہور جولائی 1985ء میں ملے تو بتایا کہ ہمارے جوان یا قتل ہو چکے ہیں یا قید میں ہیں، صرف بوڑھے اور عورتیں گھروں میں ہیں، میں نے کہا پتہ دیجیے میں اپنی تصانیف کاسٹ بھیجوں گا فارسی میں ترجمہ کروا کر اپنے صوبے میں پھیلا دینا، وہ بھرائی آواز میں کہنے لگے ایسا ہرگز نہ کریں، میری شامت آ جائے گی، ہم مذہبی کتاب نہ خود چھاپ سکتے ہیں نہ باہر سے منگوا سکتے ہیں۔
9) یہ خاص شیعہ انقلاب ہے، خمینی کٹر متعصب اور غالی شیعہ عالم ہے، اس نے اپنی کتاب کشف الاسرار میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خصوصاً خلفائے راشدینؓ پر جگہ جگہ زہر اگلا ہے اور ان پر تبراء کر کے مخالفت قرآن کے جعلی اتہامات (الزامات) لگائے ہیں، وہ حوالہ جات نقل کر کے قارئین کو پریشان نہیں کرنا چاہتے مختصر یہ کہ وہ صفوی دور کے انتہائی بد زبان مصنف ملا باقر مجلسی کے مقلد ہے اس کی تبراء صحابہؓ پر مشتمل کتابوں کو پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں جن کے فحش حوالے راقم نے اپنے رسالہ فقہ جعفریہ اور مسلمان اور تحفہ امامیہ اور عقائد الشیعہ وغیرہ میں دیے ہیں۔ 
خمینی کے ایسے اقوال تسلیم کرنے سے بقول مولانا منظور احمد نعمانی رحمۃ اللہ قرآنی آیات اور متواتر احادیث کی تکذیب ہوتی ہے، رسول پاکﷺ پر نا اہلیت کا الزام آتا ہے، قرآن مجید قابلِ اعتبار نہیں رہتا، اس پر ایمان نا ممکن ہو جاتا ہے سب سے سنگین ترین بات یہ کہ خمینی کی یہ باتیں اسلام اور رسول خدا کی صداقت کو مشتبہ اور مشکوک بنا دیتی ہیں، بلکہ خمینی نے رسول اللہﷺ کی بعثت کی نا کامی کا صاف اعلان کیا ہے۔
امام مہدی کی ولادت کے موقع پر یہ کہا ہے کہ امامِ زمان معاشرتی انصاف کے لیے اس پیغام کے حامل ہوں گے جو تمام دنیا کو بدل دے گا یہ وہ فریضہ ہے جس میں پیغمبرِ اسلام محمدﷺ بھی پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے تھے اگر ہمارے نبی کے لیے جشن مسلمانان عالم کے پُر عظمت ہے تو جشن امامِ زمان تمام انسانیت کے لیے عظیم ہے میں ان کو لیڈر نہیں کہ سکتا کیونکہ وہ اس سے ماورا ہیں میں ان کا اول نہیں کر سکتا کیونکہ ان کا ثانی نہیں ہے(ترجمہ تہران ٹائمز: صفحہ1 مؤرخہ 29 جون 1980ء)حالانکہ یہ کھلا ہوا کفر ہے۔ایک بیان میں یہ کہا کہ میرے جانباز صحابۂ رسول سے زیادہ قربانیاں دیتے ہیں، صحابۂ رسول تو جنگوں میں بھاگ جاتے تھے اور میرے جاں نثار ساتھی ہزاروں کی تعداد میں جانیں قربان کر رہے ہیں۔(معاذ اللہ)
خمینی اپنے ائمہ کو تمام انبیاء و رسل اور ملائکہ مقربین سے افضل بتاتے ہیں
ومن ضروریات مذھبنا ان لائمتنا مقاما لایبلغہ ملک مقرب ولا نبی مرسل (الحکومۃ الاسلامیہ: صفحہ52)
ترجمہ: ہمارے مذہب شیعہ کا یہ بنیادی اور ضروری عقیدہ ہے، کہ ہمارے ائمہ کا درجہ اتنا بڑا ہے کہ اس تک کوئی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل(رسول اللہﷺ بھی) نہیں پہنچ سکتا۔
ان تمام باتوں سے شیعہ اور خمینی کا اپنا ایمان و اسلام ثابت نہیں رہتا تو انکا انقلاب اور نظامِ حکومت کیسے اسلامی کہلائے۔ بغیر ولی اور گواہوں کے مقررہ وقت کیلیۓ کسی عورت سے جنسی معاہدہ متعہ کہلاتا ہے جو شیعہ مذہب کا سب سے بڑا کار ثواب عمل ہے، لیکن یہ اتنا حیا سوز اور قاتلِ غیرت ہے کہ مذہب شیعہ پر بدنما داغ ہے اسی لیے بعض شیعہ اسے جزو مذہب ماننے سے ہچکچا رہے ہیں (انوار نجف) لیکن خمینی تحریر الوسیلہ میں متعہ کے متعلق چار صفحات سیاہ کرنے کے بعد ایرانیوں کے کردار کو یوں سیاہ کرتا ہے:
یجوز التمتع بالزانیۃ علی کراھۃ خصوصاً لو کانت من العواھر المشھورات بالزنا (تحریر الوسیلہ:صحفہ 292، جلد 2)
ترجمہ: بدکار عورت سے متعہ کرنا جائز ہے مگر کراہت کے ساتھ خصوصاََ جبکہ وہ مشہور پیشہ ور طوائف ہو۔اور سیدنا عمرؓ کے متعلق خمینی کہتا ہے، عمر نے متعہ کے حرام ہونے کا جو اعلان فرمایا وہ انکی طرف سے قرآن کی صریح مخالفت اور انکا کافرانہ کردار و عمل تھا معاذاللہ
تبصرہ : سیدنا عمرؓ نے تو قرآن و سنت سے حرمت متعہ والا آرڈیننس جاری فرمایا تھا لیکن کیا کریں، متعہ باز کو شیعہ جب اپنے ائمہ و رسولﷺ کے برابر درجہ دیتے ہیں، تو وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو گالیاں کیوں نہ دیں، شیعہ کی قدیم مستند تفسیر منہج الصادقین (پ 5 صفحہ176، جلد 1) میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا جو ایک مرتبہ متعہ کرے وہ امام حسین کا درجہ پائیگا اور جو شخص چار مرتبہ متعہ کرے وہ میرا درجہ پائے گا معاذاللہ، اور جو پانچ دفعہ کرے یا ہمیشہ کرے تو ؟؟
10) خمینی کو چاہیے تھا کہ وہ انقلاب برپا کرنے کے بعد عالمِ اسلام سے دوستانہ تعلقات بڑھاتے اور اپنے وقار اور حدود انقلاب میں اضافہ کرتے لیکن شدید شیعی تعصب کی بناء پر اپنا جذباتی توازن برقرار نہ رکھ سکے، ہر اسلامی ملک کی کردار کشی اپنے ذرائع ابلاغ سے شروع کر دی، جن جن علماء اور مندوبین کو انقلاب کی سالگرہوں پر بلایا سب کو اپنے اپنے ملک میں بغاوت پھیلانے اور ایرانی انقلاب برپا کرنے کا وعظ کیا، تیل کی آمدنی کا ساتواں حصہ اس غنڈہ گردی اور سازشی کاروائیوں کے لیے وقف کر دیا۔پاکستان کے خلاف خوب زہر اگلا، انڈیا کی حمایت کی، سعودی عرب اور دیگر ممالک عربیہ کے خلاف وہ تیز و تند پروپیگنڈا کیا اور مسلمانوں کو انکے خلاف ابھارا، گویا سب سے بڑے یہودی اور کافر معاذ اللہ یہی ہیں،
عراق میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بغاوت کرائی، نتیجتاً عالمِ اسلام پر جنگ مسلط ہوگئی، پاکستان کے شیعوں کو تھپکی دی کہ ضیاء الحق کی حکومت کا تختہ الٹ کر شیعہ انقلاب برپا کرو، چنانچہ ان وطن فروش بزر جمہر نے 1980ء میں اسلام آباد کا گھیراؤ کر کے اور زکوٰۃ و عشر اور شرعی حدود کا انکار کرکے اسلام اور پاکستان کی خوب رسوائی کی مگر خمینی کے منظورِ نظر بن گئے، اور اب تک ایرانی تیل اور کمک کی بناء پر فقہ جعفریہ کے مطالبات کی آڑ میں بڑے بڑے جلسے جلوس نکال کر، دھمکیوں اور خفیہ کاروائیوں میں مصروف ہیں، غضب یہ ہے کہ 6 مئی 1985ء میں پاکستان کے مرکزی چار شہروں میں شیعی احتجاج کا پروگرام بنا، کوئٹہ میں ایران کی مسلح مداخلت اور اسلحہ سے بھرے ہوئے ٹرکوں کی گرفتاری، طشت ازبام ہوگئی، پولیس پر بے پناہ ظلم ہوا، لا تعداد سر کاٹ کر درختوں پر لٹکائے گئے، فوج آئی سات دن بعد حالات قابو میں آئے، 230 ایرانی غنڈوں کو مقدمہ چلائے بغیر ایرانی حکومت کے حوالے کیا گیا اور مقامی مجرموں کو زندان میں ڈالا گیا، وزیر داخلہ نے سب کچھ بتایا تھا لیکن انتظامیہ نے اس بغاوت کا کچھ نوٹس نہ لیا بلکہ ملوث ہزارہ قبیلے کے ایک اہم فرد کو بلوچستان کا گورنر بنایا گیا، مقدمات داخل دفتر ہوگئے، پولیس کی گردنیں کاٹنے والوں کو سولی کی سزا کیا ملتی وہ تو سرکاری مہمان تھے، اب اپریل 1986ء میں شیعوں کے احتجاج یا دباؤ سے باعزت بری کردیے گئے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
11) یہ انقلاب اسلام سوز اور مسلم کش صیہونی انقلاب ہے، ایک عمامہ بردار ایرانی بزرگ فرماتے ہیں ایران کے قائد انقلاب کے کام کو تمام انبیاء کے کام پر ترجیح دینا خدا کے نام کے بعد صرف انکے نام لینے کی تعلیم دینا، اقوال رسول اور اقوال امیر علیہ السلام کی جگہ قائد انقلاب کے اقوال لکھنا، پڑھنا، بولنا، سننا، اور سنانا، کلمۂ اسلام کے دوسرے جز کو مٹا کر پیغمبر اسلام کے نامِ نامی اسم گرامی کی جگہ قائد انقلاب کا نام لینا اور اس طرح ایک نیا کلمہ وضع کرنا (لا الہ الااللہ الامام الخمینی حجۃاللہ) اپنے سوا تمام دنیا کے مسلمانوں کو کافر سمجھنا عالمِ اسلام کے موجودہ نقشےکو بدلنے کیلیے جدو جہد کرنا، کعبۃ اللہ پر قبضہ کیلیے لوگوں کو تیار کرنا اور اس عمل کو جہاد کا نام دینا مسلم سربراہانِ حکومت کو کافر قرار دے کر انکی حکومت کا تختہ الٹنے اور انکی حکومتوں کو ختم کرنے کیلیے قوم کو آمادہ کرنا، مسجدوں میں کیمرے نصب کرنا، تصویریں اتارنا اور اتروانا مسجد میں جوتوں سمیت جانا اور محرابِ مسجد میں تصویریں بنانا یا چسپاں کرنا، مسجدوں میں بیٹھ کر سگریٹ نوشی کرنا، اپنے مخالفوں کو کافر کہہ کر انکی قبریں اکھاڑنا اور لاشوں کو غیر مسلموں کے قبرستانوں میں ڈالنا، اختلاف رائے کا اظہار کرنے والوں کو مقدمہ چلائے بغیر گولی ماردینا، شہریوں کا رزق درباری مولویوں کے ہاتھ میں دے دینا، اشیائے ضرورت کی راشن بندی کر کے عورتوں، بچوں، اور بوڑھوں کو بازاروں میں لانا اور قطاروں میں کھڑا کرنا، زنا جیسی قبیح بیماری کو مذہبی تحفظ دینا، ولدیت کی جگہ اسم مادر کو لازم قرار دینا، کمسن اور معصوم بچوں کو قتل کرنا، جھوٹے الزامات اور تہمتیں تراش کر انسانوں کو زندگی سے محروم کرنا، نمازیوں کی جماعت پر صرف اس لیے گولی چلانا کہ وہ سرکاری مولویوں کی اقتداء میں کیوں نہیں کھڑے ہوئے، آیت اللہ شریعت مدار جیسے امام بر حق کو منافق کہہ کر نظر بند کرنا قائد انقلاب کی تصویر کی پوجا کرنا،(حرمین شریفین میں اس بت کی نمائش کرنا) انکے سامنے انکے نام کا کلمہ پڑھنا، اگر یہ اسلام ہے تو بتاؤ ضد اسلام کیا ہے؟؟ 
یہ اسلامی انقلاب ہے تو بتاؤ صیہونی انقلاب کیا ہوتا ہے؟؟(بروایت اختر کاشمیری از آتش کدہ ایران: صفحہ102٫103)
12) ایران اسرائیل سے اسلحہ لیکر عالم اسلام کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے، چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں:
  1. اسرائیلی وزیر اعظم نے اعتراف کیا کہ اسرائیل نے عرب دشمنی کی بناء پر ایران کو اسلحہ فراہم کرنے کا سمجھوتہ کیا ہے مگر اسرائیلی قانون انہیں اس سمجھوتے کی تفصیلات ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتا اسی لیے وہ کسی خبر کی تردید یا تائید کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
  2.  ایران کے سابق صدر نے کہا کہ انہوں نے حکومت ایران کو اس معاہدہ سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ ایران کو اسرائیل اس قسم کے معاہدہ کرنے کے بجائے عربوں سے تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے لیکن خمینی نے انکی بات نہ مانی اور انکے حکم پر حکومت ایران نے اسرائیل سے معاہدہ کرلیا۔ 
  3.  اکیس اکتوبر 1980ء کو پیرس کے ایک جزیرے کے نزدیک نے اپنے نمائندۂ خصوصی مقیمِ تہران کا جو مکتوب شائع کیا اس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ اسرائیل کے سِوِل اور فوجی ماہرین کا ایک وفد تین دن کے دورے پر تہران آیا، اس وفد کا مقصد ایران کی دفاعی ضروریات کا اندازہ لگانا تھا تاکہ ایران کو اسکی ضرورت کے مطابق امریکی اور اسرائیلی ساخت کے پرزے اور دوسرا سامانِ جنگ فراہم کیا جاسکے ۔ 
  4.  نومبر کو برطانیہ کے اخبار آبزرور میں تہران کے مکتوب نگار نے لکھا ہے کہ عراق سے جنگ کیلیے اسرائیل نے ایران کی بندر گاہوں کے ذریعے بھاری مقدار میں اسلحہ فراہم کیا ہے۔
  5. تین نومبر مغربی جرمنی کے اخبار ڈائی ولٹ میں جو تفصیلی خبر شائع ہوئی اسکے آخر میں یہ ہے کہ اسرائیل نے یہ سامان بحری راستے سے ایران کو پہنچایا، نیز اسرائیل ایران کو سامانِ جنگ مہیاء کرنے کا یہ سلسلہ جاری رکھے گا۔ 
  6.  ایران اسرائیلی معاہدے کی خبر جب دنیا بھر میں پھیل گئی تو 21 جولائی 1981 کو اسرائیل کے رسالہ معارف نے لکھا کہ ایرانی حکومت نے اسرائیل سے براہِ راست اور مختلف ایجنسیوں کی وساطت سے مختلف النوع اسلحہ فراہم کرنے کی درخواست کی ہے، اور بڑی مقدار میں فاضل پرزے بھی منگوائے ہیں (بحوالہ آتش کدہ ایران: صفحہ98٫99 از اختر کاشمیری)
حقیقت یہ ہے کہ انقلاب پر صرف اسلام کا نام اور لیبل ہے ورنہ آغاز و انجام میں کہیں اسلام پر عمل نہیں، ڈاکٹر موسیٰ اصفہانی نے کیا خوب تبصرہ فرمایا ہے:
"صلی وصام لامر کان یطلبہ، لما قضی الامر ماصلی ولا صاما"
حصولِ مطلب تک تو نماز روزے کی پابندی کی اور مطلب پورا ہو چکنے کے بعد سب کچھ فراموش کر دیا۔
13: ایرانی انقلاب امریکہ کے خلاف روس کی ایماء (اشارے) پر ہوا حقائق ملاحظہ ہوں:
  1.  انقلاب ایران کا انداز نظم طریق ضبط، طرزِ رفتار کمیونسٹ انقلاب کے مشابہ ہے، خمینی کے اقوال کی تشہیر، تصویروں کا پھیلاؤ، مخالف قوتوں کا گھیراؤ، کتابوں اور کیسٹوں کی بھرمار اور خود خمینی کا سیاہ و سفید کا مالک ہونا، کمیونسٹ انقلاب کی علامت ہے یہ منصوبہ بندی کمیونسٹ دماغ کی ہے اور وہی یہ گاڑی چلا رہا ہے۔  
  2.  انقلابی حکومت نے روس نواز پارٹی سے اتحاد کر رکھا ہے یہ مخلوط حکومت روس سے خفیہ رشتہ کی علامت ہے۔
  3.  شاہ کے خلاف عوامی تحریک زوروں پر تھی اور انقلاب ایران کے دروازے پر آچکا تھا اس وقت روسی افواج ایران کی رگ حیات سے زیادہ قریب تھیں، چناچہ تاشقند کے ایک مبصر مسٹر والیم اے شمٹ اپنی کتاب "یہودی جنگ سے پہلے" میں لکھتے ہیں ایران میں جب شاہ کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی تو روس نے ایران سے ملنے والے مسلم علاقوں میں اتنی فوج جمع کر رکھی تھی کہ ان مسلم علاقوں میں مارشل لاء کے نفاذ کا گمان ہوتا تھا۔
  4. حسنین ہیکل کے بقول جب شاہ نے روسی سفیر سے پوچھا تم میرے لیے کیا کر سکتے ہو؟ سفیر نے کوئی جواب نہ دیا، شاہ رات کی تاریکی میں ملک چھوڑ گیا جب خمینی ایران میں داخل ہوا تو استقبالیہ ہجوم میں، لینن اور ٹراٹسکی کی کتابیں مارکسی تعلیمات کی گائیڈ بکس اور کمیونسٹ لیڈروں کی رنگا رنگ تصویریں تقسیم ہوئیں، خیمنی نے اس سرخا شاہی استقبال کے متعلق ایک لفظ بھی نہ کہا ہاں جب خیمنی نے ایران کا انتظام سنبھال لیا 19 نومبر 1979ء کو جناب برژنیف کا یہ انتباہ نشر ہوا "اگر امریکہ نے ایران میں کوئی مداخلت کی تو روس اس کاروائی کو اپنی سلامتی کے خلاف سمجھے گا"
افغانستان میں روسی فوج کا بڑا حصہ آج بھی ایرانی سرحد پر موجود ہے یہ خاموش رابطے فوجوں کا اجتماع خیمنی کا استقبال تو وہ پارٹی سے سیاسی اختلاط، ایران کے خلاف کاروائی کو روس کا اپنے خلاف سمجھنا۔  
 " کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے"
قارئین کرام ! تاریخ شیعہ ہماری اس کتاب کا موضوع نہ تھا لیکن موجودہ حالات میں اپنی قوم و ملک کے تحفظ کے لیے اس فرقہ کی قدیم و جدید تاریخ مرتب کی ہے ان لوگوں نے ہمیشہ غیر مسلم کیمپ سے، مسلم کیمپ پر حملے کیے ہیں یا جاسوسی کی ہے، براہِ کرم ایم-آر-ڈی یا پی-پی-پی کے رہنماؤں اور حکمرانوں کو واضح کر دیں کہ ان لوگوں کا تحفظ ضرور کریں لیکن ان پر اعتماد کر کے سیاست اور کلیدی آسامیاں ان کے حوالے نہ کریں نہ ان کے پروپگینڈے اور مطالبات، ایجی ٹیشن سے متاثر ہوں، نہ ایرانی انقلاب کو پسند کریں، سوائے اس کے کہ شیعوں کو وہی حقوق پاکستان میں دیں جو ایران میں سنیوں کو دیے ہیں۔