Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مرتد کی میراث سے متعلق حضرت مفتی صاحب کا ایک محققانہ فتویٰ


سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے کے بارے میں کہ سائل نو مسلم پنڈت کرم چند کا حقیقی فرزند ہے، اور پیر صاحب عبدالحکیم صاحبزادہ سکنہ پٹیالہ کے پاس جا کر مسلمان ہوا اور دین اسلام قبول کیا۔ اور جس کو تقریبا 30 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی زوجہ کے ساتھ۔

میرا والد کرم چند جو کہ پہلے مسلمان ہوا تھا، صاحبزادہ دین محمد کے پاس جا کر دین اسلام قبول کیا اور بعد کچھ مدت کے واپس ہندؤ ہو گیا۔ اس وقت میری عمر تقریبا 7 سال کے قریب ہو گی۔ یہ بات میری والدہ کی زبانی ہے، کہ آپ کی عمر اس وقت تقریبا 7 سال کی تھی آپ کا والد ابو سمند کے چوک پر صاحبزادہ دین محمد نے مسلمان کیا۔

اب عرض یہ ہے کہ حلقہ پٹیالہ میں میرے دادا باپ کی ملکیت ہیں۔ اور یہ ملکیت جدی ہے اور میرا والد ہندؤ مسلم فسادات میں ہندوستان جا کر فوت ہو گیا، اور جاتے وقت سب جائیداد ہم کو دے گیا تھا۔ اور اپنی زبانی لوگوں کو کہا کہ یہ میری وراثت کا مالک میرا لڑکا نو مسلم عبدالرحیم ہے۔ جو کہ پاکستان میں ہے اور لینے دینے سب کا مالک ہے۔ اس بات کرنے میں حاجی شیر خان وانڈ ہ بدنی خیر و حکیم خان منصور خیر موجود ہے۔ باپ میرا ہندوستان جا کر فوت ہو گیا۔ میرے رشتہ داروں نے کارڈ تحریر کیا کہ آپ کا والد پنڈت کرم چند 15 بساکھ سمت 2005 کو فوت ہو چکا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے، تو میں نے کارڈ عدالت میں پیش کیا۔ تو اس کے بعد حکومت پاکستان نے میری جدی جائیداد سب مہاجروں کو آلاٹ کر دی۔ اب کچھ جائیداد مہاجر کھا رہے ہیں، اور کچھ جائیداد غیر لوگ کھا رہے ہیں۔ سائل کو ابھی تک ایک تنکا بھی اپنی جدی جائیداد سے نہیں ملا۔ حلقہ ڈیرا اسماعیل خان میں شہریارک و شہر روڈی خیر ہیں اور شہر بھی بہت ہیں جن میں انتقال درج ہو چکے ہیں۔ جواب ہندؤ مسلم فسادات میں نو مسلم ہوئے ہیں۔ میں تو پہلے بھی اس جائداد میں سے کھایا کرتا تھا اور ہندوستان جاتے وقت باپ سب جائیداد کے کاغذات اور جائیداد میرے حوالے دے کر چلا گیا۔ اب جناب والا شان سے گزارش ہے کہ ہمارے حق کے واسطے پرچی عطا فرما دیں کہ میری جدی جائیداد کا انتقال ہو جائے اور جناب والا شان دستخط اور مہر کر دیں کہ تحصیلدار کو پرچی پیش کر سکیں۔

جواب: چند اصول بطورِ مقدمہ پیش ہونے ضروری ہیں تاکہ مسئلہ وضاحت سے معلوم ہو سکے. 

(1) مرتد کا وہ مال جو اس نے مرتد ہونے سے قبل کمایا، یا اس مال کا وہ مرتد ہونے سے قبل کسی وجہ سے جائز مالک تھا۔ اس کا وارث صرف اس کا مسلمان وارث ہو گا اس کی کافر اولاد یا وارثوں کو اس میں سے کچھ نہیں ملے گا۔

(2) مسلمان وارث وہ مراد ہو گا جو اس کے مرنے کے وقت مسلمان ہو۔ خواہ اس کے مرتد ہونے کے وقت میں کافر کیوں نہ ہو۔

(3) مرتد ہونے کے بعد جو مال اس نے کمایا یا حاصل کیا امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک حکم یہ ہے کہ یہ مال اس کا مملوک نہیں ہے۔ اس لئے اس کے مرنے کے بعد اس کے مسلمان یا کافر کسی وارث کو نہ دیا جائے بلکہ بیت المال اسلامی میں رکھا جائے امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک مرتد کے جملہ تصرفات مثل بیع و شراء جب وہ اعتداد کی حالت میں مرا ہے غیر صحیح اور غیر معتبر ہیں۔ اس لئے وہ ان اموال کا مالک قرار نہیں دیا گیا، اور وارث بھی محروم رہا۔ امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک وہ ارتداد کے زمانے میں تصرفات بیع و شراء وغیرہ کرنے کا مجاز ہے اور وہ تصرفات شرعاً صحیح نہیں اور جو اموال اس کے پاس اس زمانہ میں آئے ہیں وہ اس کے مملوک ہیں اس لئے زمانہ ارتداد کے حاصل کردہ اموال بھی اس کے مسلمان وارث کو ملیں گے۔

(4) مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو سکتا اور کافر مسلمان کا۔ یہ ایک حدیث کا مضمون ہے۔ جس کا مطلب حنفی مذہب کے مطابق یہ ہے کہ مسلمان اس کافر کا وارث نہیں ہوتا جو اصلی کافر ہو اور کسی وقت بھی اسلام کو قبول نہ کر چکا ہو لیکن مرتد کا وارث مسلمان ہو سکتا ہے۔

(5) جب تک بیت المال اسلامی اصولوں پر منظم نہ ہوں اس وقت تک بیت المال میں اموال اس قسم کے داخل نہیں کئے جا سکتے۔ حتیٰ کہ فقہا کرامؒ نے بعض مواضع میں غیر وارث کو بھی بالاتفاق بوجہ جزئی قرابت کے بیت المال کے منظم نہ ہونے کی صورت میں سارا مال دینے پر فتویٰ دیا ہے۔

جب متفق علیہ غیر وارث کو بھی بوجہ بیت المال کے غیر منظم ہونے کے مستحق قرار دے کر سارا مال اس کو دینے کا فتویٰ دیا گیا ہے تو جو وارث مسلم زمانہ اقتداد کے حاصل کردہ اموال کا امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک باقاعدہ وارث ہے۔

صرف امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک نہیں اور وہ بھی اس وقت جبکہ بیت المال اسلامی اصولوں پر منظم ہو تو اس صورت میں لامحالہ بالاتفاق وارث مسلم کو مال دئیے جانے کا قول مفتی به ہو گا۔ بالخصوص اس وقت جبکہ امام ابو حنیفہؒ کے مسلک پر خود حکومت وقت نے بھی عمل نہ کرتے ہوئے اس کے زمانہ اقتداد کا جملہ اموال کو جائزہ مملوک کا سمجھ کر بیت المال میں داخل کرنے یا سابق ملکوں کو واپس کرنے کی بجائے مہاجرین کو آلاٹ کر دئیے جیسے دوسرے ہندوؤں کی جائز ملکیتوں کو، اور حکومت نے اس کے زمانہ ارتداد کے جملہ تصرفات کو برقرار رکھا۔

اگر حکومت خود امام ابو حنیفہؒ کے مسلک پر عمل کرتی تو زمانہ ارتداد کے جملہ خرید و فروخت تو املاک حاصل شدہ کو منسوخ کرتی اور مہاجرین کو آلاٹ نہ کرتی بلکہ زمینوں وغیرہ اموال کو سابق مالکوں کو واپس کر دیتی یا بیت المال میں داخل کرتی۔

لہٰذا بنا بریں مقدماتِ مذکورہ صورتِ مسئولہ میں شیخ عبدالرحیم نو مسلم جو باپ کرم چند کے مرنے سے قبل مسلمان ہو چکا تھا کرم چند مرتد کے جملہ اموال کا وارث ہو گا۔ خواہ وہ زمانہ ارتداد سے پہلے کہ ہوں یا بعد کے۔ غرض یہ کہ پنڈت کرم چند کے تمام متروکہ کا واحد وارث صرف عبدالرحیم ہے اس کے ہندو لڑکے جو ہندوستان میں ہیں وہ اس کے وارث قطعاً نہیں ہو سکتے۔ اس لئے ان زمینوں کو مہاجرین کے نام آلاٹ کرنا شرعاً صحیح نہ ہو گا۔

(فتاویٰ مفتی محمودؒ: جلد، 13 صفحہ، 427)