مروان اور خاندانِ نبوت
حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒمروان اور خاندانِ نبوت
سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ نے مروان کے پیچھے نماز کی اقتدا کی:
بحار الانوار:
عن موسى بن جعفر عن ابيه عليهما السلام قال كان الحسن والحسين عليهما السلام يصليان خلف مروان بن الحكم فقالوا لاحدهما ما كان ابوك يصلى اذا رجع الى البيت فقال لا والله ما كان يزيد على صلوه۔
(1۔ بحار الانوار جلد 44 صفحہ 123 مطبوعہ تہران طبع جدید حیات السبطین)۔
(2 بحار الانوار جلد 44 صفحہ 140 مطبوعہ ایران طبع قدیم ابواب تاریخ ما يختص بالحسن بن علیؓ)۔
موسیٰ بن جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ دونوں مروان بن الحکم کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے لوگوں نے ان میں سے ایک سے پوچھا آپؓ کے والد گرامی سیدنا علی المرتضیٰؓ جب مسجد میں نماز باجماعت پڑھ کر گھر واپس تشریف لاتے تو کیا وہ دوبارہ نماز لوٹایا کرتے تھے؟ فرمایا خدا کی قسم! وہ فرض نماز ایک سے زیادہ بار نہیں پڑھا کرتے تھے (یعنی گھر واپس آکر نماز لوٹایا نہیں کرتے تھے بلکہ اسے ہی کافی سمجھتے جو سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا عثمانِ غنیؓ کی اقتداء میں پڑھتے۔
سیدہ ام کلثومؓ بنتِ سیدنا علیؓ کا جنازہ مروان نے پڑھایا:
اخبرنا عبدالله بن محمد قال اخبرنا محمد بن محمد قال حدثنی موسىٰ بن اسماعيل قال حدثنا ابی عن ابيه عن جده جعفر بن محمد عن ابيه لما توقيت ام كلثوم بنت امير المومنين عليه السلام خرج مروان بن الحكم وهو امير يومئذ على المدينه فقال الحسين بن علىؓ لولا السنه ما تركته يصلى عليها۔
(قرب الاسناد صفحہ 210 باب من احق بالصلوه علی المیت مطبوعه تہران طبع جدید)۔
(يحذف الاسناد) سیدنا باقرؒ سے روایت ہے کہ جب سیده ام كلثومؓ بنتِ علی المرتضیٰؓ کا انتقال ہوا تو مروان بن الحکم بھی جنازہ کے ساتھ نکلا وہ ان دنوں مدینہ منورہ کا گورنر تھا تو سیدنا حسینؓ نے فرمایا اگر رسول اللہﷺ کی یہ سنت نہ ہوتی (یعنی میت کی نماز جنازہ پڑھانے کا سب سے زیادہ حق دار وقت کا گورنر و خلیفہ ہے) تو سیدہ ام کلثومؓ کی نماز جنازہ اسے نہ پڑھانے دیتا۔
ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ سیدنا حسنین کریمینؓ کے نزدیک مذکور مروان بن الحکم مسلمان تھا اگر کافر یا فاسق و فاجر ہوتا تو یزید کی بیعت نہ کرنے والے اور حق پر ڈٹے رہنے پر شہادت کی موت پانے والے کبھی اس کے پیچھے نمازیں نہ پڑھتے اور نہ ہی نماز جنازہ کا امام بناتے لیکن خود کتبِ شیعہ یہ بات ثابت کر رہی ہیں لہٰذا معلوم ہوا کہ مروان بن الحکم حضراتِ ائمہ اہلِ بیتؓ کے نزدیک صاحب کردار اور مسلمان گورنر تھا۔
سیدنا حسنؓ کی اولاد کی مروان سے رشتہ داری اس کے صحیح مسلمان ہونے کی شہادت ہے:
اہلِ سنت و اہلِ تشیع دونوں کی معتبر کتب میں مروان بن الحکم اور سیدنا حسنؓ کی اولاد کے درمیان رشتہ ناتا کے متعدد واقعات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مردان بن الحکم صرف سیدنا حسنین کریمینؓ کا پسندیدہ نہ تھا بلکہ ان کی اولاد بھی اس کو انہی نظروں سے دیکھتی تھی جن نظروں سے سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ اسے دیکھا کرتے تھے چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں:
عمدة الطالب میں ہے:
وكان لزيد ابنه اسمها نفیسه خرجت الى الوليد بن عبد الملك بن مروان فولدت منه وماتت بمصر ولها هناك قبر يزار وهی التی تسميها اهل مصر (الست نفیسه) ويعظمون شانه ويتسمون بها وقد قيل انها خرجت الى عبد الملك بن مروان وانها ماتت حاملا منه والاصح الأول وكان زيد يفد على الوليد بن عبدالملك ويقعده على سريره ويكرمه لمكان ابنته ووهب له ثلاث بن الف دينار رفعه واحده۔
(1۔ عمدة الطالب صفحہ 70 مطبوعہ قم ایران)۔
(2۔ ناسخ التواریخ جلد دوم حالات سیدنا حسن مجتبیٰؓ صفحہ 279 مطبوعہ تہران)۔
(3۔ طبقات ابنِ سعد جلد 5 صفحہ 244 نجف اشرف)۔
سیدنا زید بن حسنؓ کی نفیسہ نامی ایک لڑکی تھی جس کا ولید بن عبد الملک بن مروان سے نکاح ہوا اس کے بطن سے ولید کی اولاد ہوئی اور مصر میں انتقال کر گئی وہاں اس صاحبزادی کی قبر ہے اہلِ مصر اس کو "الست نفیسہ" کہتے ہیں اس کی بڑی تعظیم و تکریم کرتے ہیں ان کے نام کی قسمیں اٹھاتے ہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عبد الملک بن مروان سے ان کی شادی ہوئی بوقتِ مرگ یہ حاملہ تھیں لیکن زیادہ صحیح پہلا قول ہےسیدنا زید بن حسنؓ ولید بن عبد الملک کے پاس آیا کرتے تھے وہ انہیں اپنے تخت پر بٹھایا کرتا تھا کیونکہ ان کی بیٹی اس کے گھر میں تھی ایک مرتبہ انہیں ولید نے تیس ہزار درہم یکبارگی دے دیئے۔
سیدنا حسن مثنیٰ کی صاحبزادے کا نکاح عبد الملک بن مروان سے ہوا:
اما محمد بن مثنیٰ بسرائے جاودانی انتقال نمودو اور افرزندے نبود اما دختران حسن مثنیٰ نخستیں زینب اور عبدالملک بن مروان بحباله نکاح در آورد۔
(ناسخ التواریخ جلد دوم حالاتِ سیدنا حسنؓ صفحہ 336 ذکر احوال ابراہیم ابنِ حسن مثنی مطبوعہ تہران طبع جدید)۔
بہرحال محمد بن مثنیٰ اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے ان کی کوئی اولادِ نرینہ نہ تھی لیکن حسن مثنیٰ کی صاحبزادیاں ان میں سے پہلی بیٹی کا نام زینب تھا عبد الملک بن مروان سے ان کا نکاح ہوا تھا۔
ولید بن عبد الملک کا نکاح سیدنا حسنؓ کی پوتی سے ہوا:
وكان للحسن بن الحسنؓ من البنات زينب شقيقه عبدالله و ابراهيم والحسن ترزوجها الوليد بن عبد الملک بن مروان۔
(1۔ جمہرة النساب العرب لابنِ حزم صفحہ 43 ہولاء ولد الحسن بن حسن مطبوعہ بیروت طبع جدید)۔
(2۔ کتاب نسب قريش المصعب زبیری صفحہ 52 تحت اولاد حسن مثنیٰ)۔
ترجمہ: حسن بن حسن کی صاحبزادیوں میں سے ایک کا نام سیدہ زینب تھا یہ سیدنا عبداللہ ابراہیم اور حسن کی ہمشیرہ تھیں ولید بن عبد الملک بن مروان نے ان سے شادی کی تھی۔
مقامِ غور:
مذکورہ رشتہ داریوں کو پڑھنے کے بعد ہر قاری یہ سمجھ جاتا ہے کہ مروان اور اس کی اولاد سے سیدنا زید بن حسنؓ اور حسن بن حسن مثنیٰ کی اولاد کی باہم رشتہ داری اسلام اور ایمان کے اتحاد کی بنا پر تھی اگر مروان اور اس کی اولاد فاسق و فاجر یا کافر ہوتی جیسا کہ اہلِ تشیع کا عقیدہ ہے تو یہ رشتہ داریاں ہرگز نہ ہوتیں کتبِ شیعہ میں کسی فاسق و منافق کو رشتہ دینا یا اس کا رشتہ لینے کی سخت ممانعت ہے ملاحظہ ہو:
شیعہ کے نزدیک فاسق سے نکاح جائز نہیں:
وقال عليه السلام من زوج كريمته لفاسق نزل عليه كل يوم الف لعنه۔
(ارشاد القلوب صفحہ 174 الباب الحادی والخمسون فی اخبار عن النبیﷺ الخ مطبوعہ بیروت طبع جدید)۔
ترجمہ: حضور سرورِ کائناتﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے اپنی بچی کی شادی کسی فاسق سے کی ہر دن بلاناغہ اس پر ایک ہزار لعنتیں اترتی ہیں۔
رسول کریمﷺ کے اس واضح ارشاد کے ہوتے ہوئے کیا سیدنا حسن بن مثنیٰؓ اور سیدنا زید بن حسنؓ کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حضورﷺ کے ارشاد کو کوئی اہمیت نہ دی حضورﷺ کا ایک اور قول سماعت فرمائیے۔
جو عورت فاسق مرد پر راضی ہو منافقہ ہے بقول شیعہ:
وقال رسول اللهﷺ ايما امراة رضيت بتزويج فاسق هی منافقه دخلت فی النار واذا ماتت فتح فی قبرها سبعون بابا من العذاب وان قالت لا اله الا الله لعنها كل ملك بين السماء والارض وغضب الله عليها فی الدنيا والاخره و كتب الله عليها فی كل يوم و ليله سبعين خطيئه۔
(ارشاد القلوب صفحہ 174 الباب الحادی والخمسون فی اخبار عن النبیﷺ)۔
ترجمہ: رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا جو بھی عورت کسی فاسق کے ساتھ شادی پر رضامند ہوتی ہے وہ منافقہ ہے آگ میں ڈالی جائے گی جب مرے گی اس کی قبر میں ستر دروازے عذاب کے کھول دیئے جائیں گے اگرچہ وه لا اله الا اللہ ہی پڑھنے والی کیوں نہ ہو آسمان و زمین کے تمام فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں اس پر اللہ کا غضب دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں روزانہ ستر گناہ کا اضافہ کر دیتا ہے۔
قارئین کرام! سیدہ نفیسہ طاہرہ جو کہ سیدنا حسنؓ کی پوتی ہیں ان کی شادی ولید بن عبد الملک بن مروان سے ہوئی (یعنی سیدنا حسنؓ کی پوتی کی شادی مروان کے پوتے کے ساتھ ہوتی ہے اگر مروان اور اس کی اولاد واقعی فاسق و فاجر اور منافق ہوتے جیسا کہ شیعہ لوگ کہتے ہیں تو حضراتِ ائمہ اہلِ بیتؓ کی صاحبزادیاں ان سے کیوں بیاہی جاتیں حضور سرورِ کائناتﷺ کے درج بالا ارشادات کے پیشِ نظر ان دخترانِ نیک اختر کی شادی کرنے والوں کو اہلِ تشیع کیا کہیں گے اور پھر ان خود صاحبزادیوں کے متعلق ان کا کیا فتویٰ ہوگا حقیقت یہ ہے کہ اولادِ سیدنا حسنؓ بھی قابلِ احترام شخصیات تھیں اور مروان بن الحکم اور اس کی اولاد بھی فاسق و فاجر نہ تھی سیدہ نفیسہؓ کے بارے میں ہم اہلِ سنت کا عقیدہ ہے کہ یہ نہایت پاکباز اور نیک سیرت صاحبِ کرامت خاتون ہیں صاحبِ کرامت تھیں ان کا درجہ بہت بلند تھا۔
اگر مروان ملعون تھا تو اس کے بیٹے سے سیدنا زین العابدینؒ عطیات کیوں قبول کرتے رہے؟
شیعہ نے اپنے طعن کی بنیاد اس امر پر رکھی تھی کہ مروان بن الحکم ایک بدکردار آدمی تھا لہٰذا اس کی بدکرداری اور فتنہ و فساد کی آگ نے سیدنا عثمانِ غنیؓ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کتاب سے اقتباس پیش کیا تھا اسی کتاب میں یہ بھی مذکور ہے کہ سیدنا زین العابدینؒ کے مروان کے ساتھ اچھے تعلقات رہے پھر اس کے بیٹے عبد الملک سے بھی کوئی پرخاش نہ تھی ان خصوصی تعلقات کی بنا پر سیدنا زین العابدینؒ نے مروان سے ایک لاکھ درہم بطورِ قرض لیے لیکن مروان وصیت کر گیا کہ اے میرے بیٹے عبد الملک میری وفات کے بعد امام موصوف سے ایک درہم بھی واپس نہ لینا عبارت ملاحظہ ہو:
وقال الاصمعی لم يكن للحسينؓ عقب الا من على بن الحسينؓ ولم يكن لعلى بن الحسينؓ نسل الامن ابن عمه الحسنؓ فقال له مروان بن الحكم لو اتخذت سواری يكثر اولادك فقال ليس لی ما اتسری به فاقرضه ماله الف فاشترى له السواری فولدت له وكثر نسله ثم لما مرض مروان اوصى ان لا يوخذ من على ابن الحسينؓ شئى مما كان اقرضه فجميع الحسنينؓ من نسله رحمه الله۔
(البدایہ والنہایہ جلد 9 صفحہ 104۔105 تذکرہ علی بن الحسین مطبوعہ بیروت طبع جدید)۔
ترجمہ: اصمعی کہتا ہے کہ سیدنا حسینؓ کی اولاد صرف ان کے ایک ہی بیٹے سیدنا علی بن الحسینؓ (زین العابدینؒ) سے تھی اور سیدنا زین العابدینؒ کو مروان بن حکم نے کہا اگر آپ زیادہ اولاد کے خواہش مند ہیں تو کسی لونڈی سے نکاح کریں اس پر سیدنا زین العابدینؒ نے ان سے ایک لاکھ درہم قرض مانگا۔
مروان نے ایک لاکھ درہم سیدنا زین العابدینؒ کے سپرد کر دیا اس کے بعد جب مروان کی وفات کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹے عبد الملک کو وصیت کی کہ سیدنا زین العابدینؒ سے ایک درہم بھی واپس نہیں لینا جو میں نے قرضہ دیا تھا اور پھر اسی لونڈی سے آپ کی ساری اولاد ہوئی۔