Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

ماتمی سیاہ لباس کے بارے میں آنحضرتﷺ ائمہ اہل بیتؓ کی تعلیمات

  حضرت مولانا علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒ

ماتمی سیاہ لباس کے بارے میں آنحضرتﷺ ائمہ اہلِ بیتؓ کی تعلیمات:

شیعہ کتب کی روشنی میں:

شیعہ حضرات کی من جملہ علامات میں سے ایک بڑی علامت سیاہ لباس بھی ہے جسے اہلِ تشیع محبان اہلِ بیتؓ کا لباس سمجھتے ہیں آئیے ان کے اس خیال کو دیکھیں کہ یہ کہاں تک درست ہے؟ سیاہ لباس کے متعلق چند احادیث پیش خدمت ہیں انہیں پڑھئے اور پھر دل پر ہاتھ رکھ کر بتلائیے کہ ایسا لباس کس کی علامت ہے اور اسے کون پہننے والا ہے۔

آنحضرتﷺ کا حکم از کتب شیعہ:

وارد ہے کہ راوی نے نبی پاکﷺ سے پوچھا کالی ٹوپی پہن کر نماز پڑھوں؟ فرمایا نہیں اہلِ جہنم کا لباس ہے۔

دوسری حدیث میں فرمایا سیاہ لباس نہ پہنو کیونکہ یہ لباس فرعون کا ہے۔

سیدنا جعفر صادقؒ کا پہلا ارشاد:

عن ابی عبدالله عليه السلام قال قلت له اصلی فی القلنسوه السواد فقال لا تصل فيها فانها لباس اهل النار۔

(1: فروع کافی جلد سوم صفحہ 403 كتاب الصلوه باب اللباس الذی تكره فيه الصلوه الخ۔ مطبوعه تہران طبع جدید)۔

(2۔ من لا يحضره الفقيه جلد اول صفحہ 163 طبع جدید)۔

(3۔ من لا يحضره الفقيه جلد اول صفحہ 81 فی لباس المصلى طبع قديم)۔

(4۔ علل الشرائع صفحہ 364 باب 56 العله التی من اجلها لا تجوز الصلوه فی سواد)۔

(5۔ تہذیب الاحکام جلد دوم صفحہ 213 مطبوعه تہران طبع جدید باب فی ما يجوز الصلوه فيه من اللباس الخ)۔ ترجمہ: راوی کہتا ہے میں نے سیدنا جعفر صادقؒ سے سیاہ ٹوپی پہن کر نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا اسے پہن کر نماز نہ پڑھنا وہ دوزخیوں کا لباس ہے۔

دوسرا ارشاد:

عن أبی بصير عن أبی عبد الله عليه السلام قال حدثنى ابى عن جدی عن ابيه عن امير المومنين عليه السلام قال فيما علم اصحابه لا تلبسوا السواد فانه لباس فرعون۔

(علل الشرائع باب 56 صفحہ 347 العله التک من اجلها لا تجوز الصلوه فی سواد)۔

ترجمہ: ابو بصیر سیدنا جعفر صادقؒ سے وہ سیدنا باقرؒ سے وہ سیدنا زین العابدینؒ سے اور وہ سیدنا حسینؓ سے اور یہ سیدنا علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علیؓ نے اپنے ساتھیوں شاگردوں اور عقیدت مندوں کو جو باتیں سکھلائیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ سیاہ کپڑے نہ پہننا کیونکہ یہ فرعون کا لباس ہے۔

تیسرا ارشاد:

روی اسماعیل بن مسلم عن الصادق عليه السلام انه قال أوحى الله عزوجل الى نبی من انبيائه قل للمومنين لا يلبسوا الباس اعدائى ولا يطعموا مطاعم اعدائی ولا يسلكو امسالک اعدائی فيكونوا اعدائی کماهم اعدائى فاما لبس السواد للتقيه فلا اثم عليه۔

(1۔ من لا يحضره الفقيه جلد اول صفحہ 163 باب فيما يصلى فيه وما لا يصلى فيه۔ الخ مطبوعه تہران طبع جدید)۔ 

(2۔ علل الشرائع باب 56 صفحہ 348/ العله التی من اجلها لا تجوز الصلوه في سواد طبع جدید)۔

ترجمہ: سیدنا جعفر صادقؒ سے اسماعیل بن مسلم نے روایت کی ہے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نبی کو یہ وحی بھیجی مومنوں کو کہہ دیجئے کہ میرے دشمنوں کا لباس نہ پہنیں میرے دشمنوں کے کھانے نہ کھائیں میرے دشمنوں کے طریقے پر نہ چلیں ورنہ وہ بھی ان کی طرح میرے دشمن ہو جائیں گے لیکن تقیہ کرتے ہوئے سیاہ کپڑا پہن لینے میں کوئی حرج و گناہ نہیں۔

چوتھا ارشاد یہ لباس دوزخیوں کا ہے:

فقد روى عن حذيفه بن منصور انه قال كنت عند ابی عبدالله عليه السلام بالحيره فاتاه رسول ابی العباس الخليفه يدعوه فدعا بممطرا حد وجهيه اسود والاخره ابيض فلبسه ثم قال عليه السلام اما انی البسه وانا اعلم انه لباس اهل النار۔

(1۔ من لا یحضره الفقیہ جلد اول صفحہ 163 باب فيما يصلى فيه وما لا يصلى فيه۔ الخ مطبوعه تہران طبع جدید)۔

(2۔ من لا يحضره الفقیه جلد اول صفحہ 82 طبع قدیم)۔

(3۔ علل الشرائع باب 56 صفحہ 347/ العله التی من اجلها لا تجوز الصلوه فی سواد۔ طبع جدید)۔

ترجمہ: حذیفہ بن منصور کہتا ہے کہ میں سیدنا جعفر صادقؒ کے پاس مقام حیرہ میں تھا خلیفہ ابو العباس کا ایک قاصد آیا اور آپ کو پیغامِ دعوت دیا آپ نے برساتی طلب کی جس کا ایک حصہ سیاہ اور دوسرا سفید تھا اسے پہن لیا پھر سیدنا جعفرؒ نے فرمایا میں اسے پہن تو لیتا ہوں بہر حال میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ دوزخیوں کا لباس ہے۔

تنبیہ: سیدنا جعفر صادقؒ کا یہ فرمانا کہ سیاہ لباس کے بارے میں مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ جہنم کا لباس ہے اور پھر آپؒ نے پہن بھی لیا اتنے بڑے امام سے اتنی بڑی غلطی ہونا نہایت ہی قابلِ افسوس امر ہے اور جو کچھ ہوا غیر متوقع تھا۔

تعزیہ کے بارے میں سیدنا علیؓ کا ارشاد گرامی:

قال امير المومنين من حدد قبرا اومثل مثالا فقد خرج من الاسلام۔

(1۔ من لا یحضره الفقیہ جلد اول صفحہ 120 باب النوادر مطبوعه تہران طبع جدید)۔

(2۔ من لا يحضره الفقيه صفحہ 20 فی تجديد القبور مطبوعہ لکھنؤ طبع قديم)۔

ترجمہ: سیدنا علیؓ نے فرمایا جو شخص قبر پھر سے بنائے یا اس کی تشبیہ و شکل بنائے وہ اسلام سے خارج ہے افتی سیدنا علیؓ کے اس فرمان کی شرح شیعہ مجتہد شیخ صدوق نے اس مقام پر یوں کی:

والذي اقول فی قوله عليه السلام من مثل مثالا یعنی به انه من ابدع بدعه ودعا اليها او وضع دينا فقد خرج من الاسلام وقولی فی ذالك قول المنى عليهم السلام۔

(من لا يحضر و الفقیہ جلد اول صفحہ 121 طبع جدید)۔

سیدنا علیؓ کے قول "من مثل مثالا" کے بارے میں میں کہتا ہوں کہ آپ نے اس سے یہ مراد لی ہے "جس نے کسی بدعت کو جنم دیا اور لوگوں کو اس کی طرف بلایا یا کوئی دین گھڑا تو وہ اسلام سے نکل گیا"۔

میرا اس قول میں یہ کہنا دراصل میرے ائمہ کا قول ہے میرا خیال ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہے سیدنا علی المرتضیؓ کو اپنا امام و پیشوا تسلیم کرتا ہو اس کے لیے تعزیہ وغیرہ شبہات کی حرمت کے لیے اس سے بڑھ کر کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ہوسکتی کیونکہ سیدنا علی المرتضیٰؓ "باب مدینہ العلم" تھے آپ کی بات دراصل رسول اللہﷺ کی بات ہوئی۔

سب جانتے مانتے ہیں کہ سیدنا علیؓ علم ظاہری اور علم باطنی کے سر چشمہ تھے اللہ نے آپ کو "علم لدنی" سے نوازا تھا اسی علم کے ذریعہ آپ کو معلوم تھا کہ ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ اپنے ہاتھوں سے بنائی مورتیوں کو شعائر اللہ سمجھنے لگیں گے جو شرک اور کفر ہے اس لیے آپ نے ایک ایسا عام لفظ ذکر فرمایا جس میں تمام شبہات آجاتی ہیں یعنی "جو قبر دوبارہ بنائے گا یا اس کی تشبیہ اور شکل بنائے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے" یہی وجہ ہے کہ جن چیزوں کو سیدنا علی المرتضیؓ نے حرام قرار دیا تھا وہی چیزیں بعض ابن الوقت شیعہ مولویوں کی تحریروں میں شعائر اللہ کا درجہ رکھتی ہیں جیسا کہ مولوی بشیر کی کتاب "عزائے حسین" میں تحریر ہے:

"قرآن بھی کاغذ اور تعزیہ بھی کاغذ اور ان دونوں کی تعظیم و تکریم یکساں ہے"۔ 

(صفحہ 52)۔

"ذو الجناح و تعزیہ اور علم یہ شعائر اللہ ہیں ان کی تعظیم فرض ہے"۔ 

(صفحہ 26 تا 27)۔

مولوی بشیر شیعہ کی ان تحریرات کو پڑھئے اور اس کے ساتھ سیدنا علیؓ کے قول کی تشریح جو شیخ صدوق نے کی وہ بھی پڑھئے ان دونوں تحریرات کو پڑھ کر ہر انسان کہہ سکتا ہے کہ سیدنا علیؓ کا فرمان اس تعزیہ وغیرہ کے متعلق تھا جس کو مولوی بشیر نے "عزائے حسین" نامی کتاب میں تحریر کیا ہے شیخ صدوق کی تشریح سے معلوم ہوا کہ تعزیہ وغیرہ شبہات دین گھڑنا ہے اور "بدعات شرعیہ" ہیں لیکن انہی چیزوں کو مولوی بشیر شیعہ "شعائر اللہ " کے ہم پلہ کہہ رہا ہے۔

میدانِ کربلا میں گھوڑے کا وجود ہی نہیں تھا:

یہ بات مبنی بر حقیقت ہے کہ گھوڑا عربی لوگ عام طور اس وقت لے کر نکلتے تھے جب ارادہ جنگ ہو ورنہ ان کی مرغوب و من پسند سواری (حالت امن میں اونٹ تھا سیدنا حسینؓ مقام کا یہ سفر بارادۀ جنگ نہ تھا ورنہ آپ اس کی مکمل تیاری کر کے ساز و سامان لے کر اور بمع لشکر روانہ ہوتے اور آپ اس سفر میں عورتوں اور معصوم بچوں اور بیماروں کو ساتھ نہ لیتے ان تمام اشیاء کا آپ کے ساتھ (دورانِ سفر) ہونا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ یہ قافلہ لڑنے کے لیے نہیں جا رہا تھا آپ اس سفر کے دوران گھوڑے کے بجائے اونٹ پر سوار تھے۔

مدینہ سے سیدنا حسینؓ نے سفر کا آغاز بھی اونٹنی پر کیا کربلا میں اونٹنی سے ہی اترے:

ذبح عظیم:

سیدنا حسینؓ نے کربلا کےوقت بھائی سیدنا محمد بن حنیفہؓ کو اپنا قائم مقام اور وصی بنایا تھا اور اپنا وصیت نامہ بھی انہی کے سپرد کیا چنانچہ مقتل ابی مخنف کی عبارت یوں ہے:

ثم ان محمد بن حنيفه سمع ان اخاه الحسينؓ يريد العراق فبكی بكاء شديد اثم قال له ان اہل لکوفہ قد عرفت غدرھم يابيك واخيك فان قبلت قولی اقم بمكته فقال يا اخى انى اخشى ان تقاتلنى جنود بنی اميه فى مكه فاكون كالذى يستباح دمه فى حرم الله ثم قال يا اخى قيسر الى يمن فانك امنع الناس كيف به فقال الحسين عليه السلام يا اخى سانظر فيما قلت فلما كان وقت السحر عزم على۔

المسير الی العراق فاخذ محمد ابن الحنيفه زمام ناقته وقال يا اخى ما سبب ذلك انک عجلت فقال جدی رسول اللہﷺ آتانى بعد ما فارفتك وانا نائم فضمنى الا صدره وقبل بين عينى وقال لى يا حسينؓ باقره عين اخرج الى العراق فان الله عزوجل قد شاء ان براك فتبلا مصبغا بدمائك فبكى محمد بن حنيفه بكاء شديدا فقال يا اخى اذا كان الجال هكذا فلا معنى لحملك هئولاء النسوه فقال قال لى جدى عليه السلام ايضا ان الله عزوجل قد شاء يرھن مسايا۔

(ذبح عظیم صفحہ 165 مينجر کتب خانہ اثنا عشری لاہور)۔

ترجمہ: جب سیدنا محمد بن حنفیہؒ نے سنا کہ ہمارے بھائی سیدنا حسینؓ ملک ایران کی طرف تشریف لے جانے کا قصد رکھتے ہیں تو آپ زار و قطار روئے پس آپ نے عرض کی اے بھائی آپ اہلِ کوفہ کے غدر کو اپنے پدر بزرگوار اور برادرِ عالی مقام کے ساتھ خوب جانتے ہیں پس اگر آپ میری عرض پزیر فرمائيں تو مکہ میں قیام کریں سیدنا حسینؓ نے فرمایا کہ مجھے خوف ہے کہ لشکر بنو امیہ مجھ کو مکہ میں قتل نہ کر ڈالے اور کہيں میں وہ شخص نہ ہوں کہ جس کا خون بہانا حرم محترم میں مباح ہو سیدنا محمد بن حنیفہؒ نے کہا آپ يمن کی طرف تشریف لے جائیں وہاں کے لوگ مخالفوں کو آپ تک نہ آنے دیں گے سیدنا حسینؓ نے جواب فرمایا اے برادر عزیز اگر میں پتھر میں بھی سما جاؤں تاہم یہ بے دین مجھے وہاں سے بھی نکال لیں گے اور مجھے قتل کر ڈالیں گے پھر سیدنا حسینؓ نے فرمایا اے بھائی جو کچھ تم نے کہا ہے میں اس میں غور کروں گا جب صبح ہوئی تو حضرت نے سفرِ عراق کا قصد مصمم فرما لیا یہ خبر پاکر سیدنا محمد بن حنیفہؒ آئے انہوں نے آپ کے ناقہ کی مہار پکڑ لی اورعرض کی کہ اے بھائی اتنی محبت فرمانے کی کیا وجہ ہے سیدنا حسینؓ نے فرمایا کہ تمہارے رخصت ہونےکے بعد میں سو گیا تھا میں نے عالم رویا میں نبیﷺ کو خواب میں دیکھا آپ تشریف لائے ہیں تو آپ نے مجھے سینہ اقدس سے لگایا اور میری دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور ارشاد فرمایا اے سیدنا حسینؓ! میری آنکھوں کی ٹھنڈک عراق کی طرف روانہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ بھی مرضی ہے کہ تو قتل ہو اور اپنے خون میں رنگین ہو اتنا سننا تھا کہ سیدنا محمد بن حنیفہؒ زار و قطار رونے لگے اور کہنے لگے اے بھائی جب آپ کو یہ معلوم ہے تو عورتوں کو ساتھ کیوں لے جاتے ہو تو سیدنا حسینؓ نے فرمایا کہ نبی پاکﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ بھی مرضی ہےکہ ہمارے عورتیں بھی اسیر ہوں۔

سیدنا حسینؓ کربلا میں اونٹنی سے اترے:

سیدنا حسینؓ نے کربلا کے لیے اونٹوں کا ذکر کیا:

فقال عليه السلام هذه كربلاء موضع كرب وبلا هذا مناخ ركابنا ومحط رحالنا و مقتل رجالنا۔

(1۔ كشف الغمہ فى معرفہ الائمہ جلد دوم صفحہ 47 فى مصرعہ ومقتلہ علیہ السلام مطبوعہ تبریز طبع جدید)۔ (2۔ مناقب ابنِ شہر آشوب جلد چہارم صفحہ97 فی مقتلہ علیہ السلام مطبوعہ قم طبع جدید)۔

ترجمہ: سیدنا حسینؓ نے فرمایا یہی کربلا ہے اور یہی تکلیف و امتحان کا مقام ہے ہمارے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ ہمارے کچاوے اتارنے کا مقام اور ہمارے نوجوانوں کی شہادت گاہ ہے۔

سیدنا علیؓ کی شہادت:

قال الحسينؓ وما اسم هذا المكان؟ قالوا له كربلاء قال ذات كرب و بلاء لقد مرابى بهذا المكان عند مسيره الا سفين وانا معه فوقف فسئال عنه فاخبر باسمه فقال همنا محط ركابهم وهمنا مهراق دمائھم۔

(الاخبار الطوال مصنفہ احمد بن داؤد صفحہ 353 نہایہ الحسین مطبوخہ بیروت، طبع جدید)۔

ترجمہ: سیدنا حسینؓ نے اس جگہ کے بارے میں دریافت فرمایا لوگوں نے عرض کی یہ کربلا ہے فرمايا تکلیف و امتحان والی جگہ ميرے والد گرامی (سیدنا علیؓ)جنگ صفین کی طرف جاتے ہوئے اس جگہ سے جب گزرے میں بھی آپ کے ساتھ تھا تو کچھ دیر ٹھہر گئے اس جگہ کے بارے میں لوگوں سے پوچھا آپ کو اس کا نام بتایا گیا تو فرمایا یہ جگہ ان کے اونٹوں کے بٹھانے کی ہے اور یہ جگہ ان کے خون سے لت پت ہوگی۔

تاریخ کربلا کے سب سے پہلے اور شیعہ حضرات کے مستند و معتبر مؤرخ "ابی مخف" نے سیدنا حسینؓ کی کربلا کی سواری کے متعلق لکھا ہے:

فقال الحسينؓ والله لا اعطى بيدى إعطاء الذليل ولا افر فرار العبيد ثم تلا انى عذت بربى و ربكم من كل متكبر لا يومن بيوم الحساب ثم اناخ راحلته وامر عقبه بن مسمعان ان يعقلها بقاضل زمامها۔

(مقتل ابی مخف صفحہ 55 مضايقه القوم للحسين مطبوعہ حيدريہ نجف اشرف طبع قديم)۔

*ترجمہ:* سیدنا حسینؓ نے فرمایا خدا کی قسم! ميں ذلیل آدمی کی طرح اپنا ہاتھ (کسی کے بیعت میں) نہ دوں گا اور نہ غلاموں کی طرح راہ فرار اختیار کروں گا یہ کہہ کر آپ نے قرآنی آیت پڑھی "ميں ہر متکبر سے تمہارے اور اپنے رب کی پناہ چاہتا ہوں جو متکبر قیامت کا منکر ہے پھر سیدنا حسینؓ نے اپنی سواری بٹھائی (يعنی اونٹنی بٹھائی) اورعقبہ بن سمعان کو حکم دیا کہ اس اونٹنی کے پاؤں باندھ دے اس نے بچی ہوئی نکیل کی رسی سے اسے باندھ دیا۔