Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

غزوہ حنین قرآن و صحیح احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

  جعفر صادق

لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیۡ مَوَاطِنَ کَثِیۡرَۃٍ ۙ وَّ یَوۡمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ کَثۡرَتُکُمۡ فَلَمۡ تُغۡنِ عَنۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ ضَاقَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ ثُمَّ وَلَّیۡتُمۡ مُّدۡبِرِیۡنَ ۚ

ترجمہ:

خدا نے بہت سے موقعوں پر تم کو مدد دی ہے اور (جنگ) حنین کے دن۔ جب تم کو اپنی (جماعت کی) کثرت پر غرّہ تھا تو وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی۔ اور زمین باوجود (اتنی بڑی) فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر پھر گئے۔

ثُمَّ اَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ اَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ عَذَّبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ

ترجمہ:

پھر خدا نے اپنے پیغمبر پر اور مومنوں پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی (اور تمہاری مدد کو فرشتوں کے) لشکر جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے (آسمان سے) اُتارے اور کافروں کو عذاب دیا۔ اور کفر کرنے والوں کی یہی سزا ہے۔

(سورت التوبہ 25,26)

تفسیر احسن البیان :

تشریح : فتح مکہ کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ملی کہ ہوازن وثقیف کے کفار مسلمانوں سے جنگ کے لیے حنین کے مقام پر جمع ہوئے ہیں آپ بارہ ہزار کی جمعیت لے کر ان کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے ۔ ان بارہ ہزار میں دس ہزار تو وہ مہاجرین وانصار تھے جو مدینے منورہ سے آپ کے ساتھ آئے تھے اور دو ہزار مکہ کے نومسلم تھے ، ادھر کافروں کی تعداد چار ہزار اور بعض روایتوں کے مطابق ٢٢، ٢٤، یا ٢٨ ہزار تھی ۔

اس وقت بعض مسلمانوں کی زبان سے یہ نکلا کہ آج ہم تعداد کی قلت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوں گے اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی کہ مسلمانوں نے اس کی نصرت واعانت پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنی کثرت پر نظر کی ۔ حالانکہ فتح تو اللہ ہی کی نصرت واعانت سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ جنگی سازوسامان اور فوج کی کثرت سے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متنبہ کرنے کے لیے پہلے تو ان کو شکست سے دوچار کیا تاکہ ان کو احسان ہوجائے کہ فتح کا دارومدار قوت و کثرت پر نہیں بلکہ اللہ کی تائید وحمایت پر ہے پھر جب ان کو اپنی لغزش کا احساس ہوگیا تو اللہ نے تائید غیبی سے شکست کو فتح سے بدل دیا ۔

یہاں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ جس طرح اس نے دوسرے بہت سے مواقع پر ان کی مدد واعانت کی تھی اسی طرح اس نے حنین کے دن بھی مسلمانوں کی غیبی امداد کی جبکہ ان کی عددی کثرت جس پر انہیں فخر وناز تھا ، ان کے ذرا بھی کام نہ آئی ، اور وہ دشمن کے حملے کی تاب نہ لاکر بھاگ کھڑے ہوئے اور فراخی کے باوجود ان پر زمین تنگ ہوگئی ، پھر جب ان کو اپنی لغزش اور خطاء کا احساس ہوگیا اور ان کا غرور زائل ہوگیا ، اور انہوں نے اپنی کثرت کی بجائے اللہ تعالیٰ کی نصرت وعانت پر نظر کی تو اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی خاص رحمت وسکینت نازل فرمائی ۔ جس سے ان کے دلوں کو اطمینان و سکون نصیب ہوا اور ان کے اکھڑے ہوئے قدم جم گئے اور مسلمانوں کی مدد کے لیے آسمان سے ایسے لشکر اتارے جن کی وہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے تھے مگر ان کے آثار کو محسوس کرتے تھے ۔ اس تائید غیبی کی وجہ سے مومنوں کو غلبہ حاصل ہوا اور کافروں کو سزا ملی کہ وہ قتل بھی ہوئے اور گرفتار بھی ، دنیا میں کافروں کی یہی سزا ہے ۔

پھر فرمایا کہ اس سزا کے بعد اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا اپنی رحمت سے اسلام کی توفیق بخش دے گا ، کیونکہ وہ بہت بخشنے والا مہربان ہے ، چنانچہ ہوازن وثقیف کے بہت سے لوگ تائب ہوکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشرف باسلام ہوئے ۔ (ابن کثیر ٣٤٣۔ ٣٤٦۔ ٢) ۔

Sahih Bukhari - 4321

کتاب:کتاب غزوات کے بیان میں

باب:جنگ حنین کابیان

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، ‌‌‌‌‌‏أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، ‌‌‌‌‌‏قَالَ:‌‌‌‏ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَيْنٍ، ‌‌‌‌‌‏فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ، ‌‌‌‌‌‏فَرَأَيْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَدْ عَلَا رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، ‌‌‌‌‌‏فَضَرَبْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ بِالسَّيْفِ، ‌‌‌‌‌‏فَقَطَعْتُ الدِّرْعَ وَأَقْبَلَ عَلَيَّ، ‌‌‌‌‌‏فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ، ‌‌‌‌‌‏ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ، ‌‌‌‌‌‏فَأَرْسَلَنِي فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، ‌‌‌‌‌‏فَقُلْتُ:‌‌‌‏ مَا بَالُ النَّاسِ، ‌‌‌‌‌‏قَالَ:‌‌‌‏ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ‌‌‌‌‌‏ثُمَّ رَجَعُوا وَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ:‌‌‌‏ ""مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ""، ‌‌‌‌‌‏فَقُلْتُ:‌‌‌‏ مَنْ يَشْهَدُ لِي؟ ثُمَّ جَلَسْتُ، ‌‌‌‌‌‏قَالَ:‌‌‌‏ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، ‌‌‌‌‌‏فَقُمْتُ، ‌‌‌‌‌‏فَقُلْتُ:‌‌‌‏ مَنْ يَشْهَدُ لِي؟ ثُمَّ جَلَسْتُ، ‌‌‌‌‌‏قَالَ:‌‌‌‏ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، ‌‌‌‌‌‏فَقُمْتُ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ:‌‌‌‏ ""مَا لَكَ يَا أَبَا قَتَادَةَ؟""فَأَخْبَرْتُهُ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ رَجُلٌ:‌‌‌‏ صَدَقَ، ‌‌‌‌‌‏وَسَلَبُهُ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنِّي، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:‌‌‌‏ لَاهَا اللَّهِ إِذًا لَا يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‌‌‌‌‌‏فَيُعْطِيَكَ سَلَبَهُ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‌‌‌‏ ""صَدَقَ، ‌‌‌‌‌‏فَأَعْطِهِ""، ‌‌‌‌‌‏فَأَعْطَانِيهِ، ‌‌‌‌‌‏فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ"". 

ترجمہ:

غزوہ حنین کے لیے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ جب جنگ ہوئی تو مسلمان ذرا ڈگمگا گئے  ( یعنی آگے پیچھے ہو گئے ) ۔ میں نے دیکھا کہ ایک مشرک ایک مسلمان کے اوپر غالب ہو رہا ہے، میں نے پیچھے سے اس کی گردن پر تلوار ماری اور اس کی زرہ کاٹ ڈالی۔ اب وہ مجھ پر پلٹ پڑا اور مجھے اتنی زور سے بھینچا کہ موت کی تصویر میری آنکھوں میں پھر گئی، آخر وہ مر گیا اور مجھے چھوڑ دیا۔ پھر میری ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ میں نے پوچھا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے فرمایا، یہی اللہ عزوجل کا حکم ہے۔ پھر مسلمان پلٹے اور  ( جنگ ختم ہونے کے بعد )  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ جس نے کسی کو قتل کیا ہو اور اس کے لیے کوئی گواہ بھی رکھتا ہو تو اس کا تمام سامان و ہتھیار اسے ہی ملے گا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میرے لیے کون گواہی دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ بیان کیا کہ پھر آپ نے دوبارہ یہی فرمایا۔ اس مرتبہ پھر میں نے دل میں کہا کہ میرے لیے کون گواہی دے گا؟ اور پھر بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اپنا فرمان دہرایا تو میں اس مرتبہ کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ فرمایا کیا بات ہے، اے ابوقتادہ! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو ایک صاحب  ( اسود بن خزاعی اسلمی )  نے کہا کہ یہ سچ کہتے ہیں اور ان کے مقتول کا سامان میرے پاس ہے۔ آپ میرے حق میں انہیں راضی کر دیں  ( کہ سامان مجھ سے نہ لیں )  اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم! اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لڑتا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حق تمہیں ہرگز نہیں دے سکتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہا، تم سامان ابوقتادہ کو دے دو۔ انہوں نے سامان مجھے دے دیا۔ میں نے اس سامان سے قبیلہ سلمہ کے محلہ میں ایک باغ خریدا اسلام کے بعد یہ میرا پہلا مال تھا، جسے میں نے حاصل کیا تھا۔

Sahih Bukhari - 4322

کتاب:کتاب غزوات کے بیان میں

باب:جنگ حنین کابیان

وَقَالَ اللَّيْثُ:‌‌‌‏ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، ‌‌‌‌‌‏أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ، ‌‌‌‌‌‏قَالَ:‌‌‌‏ لَمَّا كَانَ يَوْمَ حُنَيْنٍ نَظَرْتُ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يُقَاتِلُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَآخَرُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَخْتِلُهُ مِنْ وَرَائِهِ لِيَقْتُلَهُ، ‌‌‌‌‌‏فَأَسْرَعْتُ إِلَى الَّذِي يَخْتِلُهُ، ‌‌‌‌‌‏فَرَفَعَ يَدَهُ لِيَضْرِبَنِي وَأَضْرِبُ يَدَهُ فَقَطَعْتُهَا، ‌‌‌‌‌‏ثُمَّ أَخَذَنِي فَضَمَّنِي ضَمًّا شَدِيدًا حَتَّى تَخَوَّفْتُ، ‌‌‌‌‌‏ثُمَّ تَرَكَ فَتَحَلَّلَ وَدَفَعْتُهُ، ‌‌‌‌‌‏ثُمَّ قَتَلْتُهُ، ‌‌‌‌‌‏وَانْهَزَمَ الْمُسْلِمُونَ وَانْهَزَمْتُ مَعَهُمْ، ‌‌‌‌‌‏فَإِذَا بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي النَّاسِ، ‌‌‌‌‌‏فَقُلْتُ لَهُ:‌‌‌‏ مَا شَأْنُ النَّاسِ؟ قَالَ:‌‌‌‏ أَمْرُ اللَّهِ، ‌‌‌‌‌‏ثُمَّ تَرَاجَعَ النَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‌‌‌‏ ""مَنْ أَقَامَ بَيِّنَةً عَلَى قَتِيلٍ قَتَلَهُ فَلَهُ سَلَبُهُ""، ‌‌‌‌‌‏فَقُمْتُ لِأَلْتَمِسَ بَيِّنَةً عَلَى قَتِيلِي، ‌‌‌‌‌‏فَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَشْهَدُ لِي، ‌‌‌‌‌‏فَجَلَسْتُ، ‌‌‌‌‌‏ثُمَّ بَدَا لِي فَذَكَرْتُ أَمْرَهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ:‌‌‌‏ سِلَاحُ هَذَا الْقَتِيلِ الَّذِي يَذْكُرُ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنْهُ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:‌‌‌‏ كَلَّا لَا يُعْطِهِ أُصَيْبِغَ مِنْ قُرَيْشٍ، ‌‌‌‌‌‏وَيَدَعَ أَسَدًا مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‌‌‌‌‌‏قَالَ:‌‌‌‏ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‌‌‌‌‌‏فَأَدَّاهُ إِلَيَّ، ‌‌‌‌‌‏فَاشْتَرَيْتُ مِنْهُ خِرَافًا، ‌‌‌‌‌‏فَكَانَ أَوَّلَ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ. 

ترجمہ:

غزوہ حنین کے دن میں نے ایک مسلمان کو دیکھا کہ ایک مشرک سے لڑ رہا تھا اور ایک دوسرا مشرک پیچھے سے مسلمان کو قتل کرنے کی گھات میں تھا، پہلے تو میں اسی کی طرف بڑھا، اس نے اپنا ہاتھ مجھے مارنے کے لیے اٹھایا تو میں نے اس کے ہاتھ پر وار کر کے کاٹ دیا۔ اس کے بعد وہ مجھ سے چمٹ گیا اور اتنی زور سے مجھے بھینچا کہ میں ڈر گیا۔ آخر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور ڈھیلا پڑ گیا۔ میں نے اسے دھکا دے کر قتل کر دیا اور مسلمان بھاگ نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ بھاگ پڑا۔ لوگوں میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نظر آئے تو میں نے ان سے پوچھا، کہ لوگ بھاگ کیوں رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے، پھر لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر جمع ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس پر گواہ قائم کر دے گا کہ کسی مقتول کو اسی نے قتل کیا ہے تو اس کا سارا سامان اسے ملے گا۔ میں اپنے مقتول پر گواہ کے لیے اٹھا لیکن مجھے کوئی گواہ دکھائی نہیں دیا۔ آخر میں بیٹھ گیا پھر میرے سامنے ایک صورت آئی۔ میں نے اپنے معاملے کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے ایک صاحب  ( اسود بن خزاعی اسلمی رضی اللہ عنہ )  نے کہا کہ ان کے مقتول کا ہتھیار میرے پاس ہے، آپ میرے حق میں انہیں راضی کر دیں۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑ کر جو اللہ اور اس کے رسول کے لیے جنگ کرتا ہے، اس کا حق قریش کے ایک بزدل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں دے سکتے۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور مجھے وہ سامان عطا فرمایا۔ میں نے اس سے ایک باغ خریدا اور یہ سب سے پہلا مال تھا جسے میں نے اسلام لانے کے بعد حاصل کیا تھا۔